گندم کے درآمدی اعداد وشمار اور کسانوں کو ریلیف

حکومت نے گندم خریداری کے مراکز قائم کر دیے اور ریٹ فی من 3900 روپے بھی مقررکردیا



مارچ 2018کی بات ہے جب پاکستان نے ڈھائی لاکھ میٹرک ٹن گندم برآمد کردی تھی۔ اگلے ہی ماہ اپریل 2018 میں تقریباً 5 لاکھ میٹرک ٹن گندم 9کروڑ64 لاکھ ڈالر کی برآمد کی جا چکی تھی۔ ہر سال جنوری، فروری تک گندم کے پیداواری ہدف معلوم کرلیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی درآمد یا برآمد کا فیصلہ کر لیا جاتا ہے۔

مارچ کے مہینے میں ملک کے کئی علاقوں میں گندم کی کٹائی بھی شروع ہوجاتی ہے، اس سال حالات بہت مختلف ہوگئے۔ مارچ کے اوائل میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ کئی سالوں سے ملک گندم کے برآمدی ممالک کی فہرست سے نکل کر درآمدی ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کرتا چلا جا رہا تھا۔

مئی 2022 کے بعد سے ملک میں آٹے کی قیمت میں مسلسل اضافہ بھی ہوئے چلا جا رہا تھا۔ آٹا جوکہ بنیادی جزو خوراک ہے اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، پاکستان کی اہم ترین خوراک آٹا ہی ہے جس کی قیمت 2022 کے اوائل میں 90 روپے فی کلو سے بڑھتی چلی گئی حتیٰ کہ 2022 کے دسمبر تک 150 روپے فی کلو جا پہنچی تھی۔

اسی دوران 2023 کی نئی فصل بھی مارکیٹ میں آگئی لیکن آٹے کی قیمت میں کمی نہیں آ رہی تھی۔ نومبر، دسمبر 2023 میں ملک بھر کے کسانوں نے بڑے پیمانے پر گندم کی کاشت شروع کی۔ اس دوران انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انتہائی مہنگی ترین کھاد کا استعمال ہوا، ادویات جعلی ہوں یا اصلی لیکن ہر صورت میں انتہائی مہنگی ترین، بجلی کے نرخ بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ٹیوب ویلوں کا بل آسمان سے باتیں کرنے لگا۔ مارچ تک معلوم ہو گیا تھا کہ اب گندم کی ریکارڈ فصل حاصل ہونے والی ہے۔

حکومت نے گندم خریداری کے مراکز قائم کر دیے اور ریٹ فی من 3900 روپے بھی مقررکردیا۔ ابھی اپریل شروع ہوا تھا کہ یہ غلغلہ اٹھا کہ 10 لاکھ ٹن زائد گندم درآمد ہو چکی ہے لہٰذا ملک میں گندم کی ریکارڈ فصل اور زائد درآمدات نے مل کر گندم کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ اب اتنی زیادہ گندم کیسے درآمد ہوئی اور کس مہینے میں کتنی درآمد کی گئی۔ اس کا ریکارڈ چیک کرنے کے لیے پی بی ایس کی طرف سے ماہانہ بنیادوں پر شایع کردہ درآمدی اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔

مارچ 2024 میں 6 لاکھ 91 ہزار 136 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ فروری 2024 میں 7لاکھ 78 ہزار 112 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ جنوری 2024 میں 6 لاکھ 13 ہزار 147 میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی گئی تھی۔ دسمبر 2023 میں 3 لاکھ 12 ہزار 399 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ اسی طرح نومبر 2023 میں 4 لاکھ 97 ہزار 734 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔ اکتوبر 2023 میں 3 لاکھ 94 ہزار 602 میٹرک ٹن گندم درآمد کرلی گئی تھی۔

ادھر ملکی پیداوار بھی موجود تھی لیکن دیگر کئی عوامل بھی موجود تھے۔ ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافے کے امکانات موجود تھے لہٰذا حکومت ہر ماہ تسلسل کے ساتھ بقدر ضرورت گندم درآمد کرتی جا رہی تھی۔ اب ہم مئی 2023 اور اس سے قبل پر نظر ڈالتے ہیں۔ مئی 2023 میں 51 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی اور اپریل 2023 میں ایک لاکھ 46 ہزار 873 میٹرک ٹن گندم درآمد کرلی گئی تھی۔

اسی طرح مارچ 2023 میں 3 لاکھ 28 ہزار 453 میٹرک ٹن گندم درآمد کرلی گئی تھی۔ کیونکہ اس وقت حکومت کا اندازہ درست تھا کہ ملک کو گندم کی ضرورت ہے بصورت دیگر آٹے کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ حالانکہ اس وقت بھی آٹا 150 روپے فی کلو مل رہا تھا۔ اگر یہ درآمد نہ ہوتی تو آٹا 190 روپے فی کلو تک جا پہنچتا۔

ستمبر 2023 نگراں حکومت آ چکی تھی، کئی معاشی اصلاحات کرنا شروع کر دی گئیں جن میں ڈالر ریٹ میں کمی نمایاں ہے اس کے ساتھ برآمدات میں اضافے پر توجہ دی گئی اور اس میں اضافہ بھی کر دکھایا۔ لیکن آٹے کی قیمت میں کمی نہ لائی جاسکی اور آٹا بدستور 170 روپے فی کلو دستیاب تھا۔ جون، جولائی، اگست 2023 تک ان 3 ماہ میں گندم کی درآمدات نہیں ہوئی تھیں۔

لہٰذا نگران حکومت نے آیندہ کے لیے طلب کا اندازہ لگایا اور درآمدات کا سلسلہ شروع کیا اور ستمبر 2023 میں ایک لاکھ 62 ہزار 301 میٹرک ٹن گندم درآمد کرکے درآمدات کا سلسلہ شروع کیا جوکہ مارچ2024 تک جاری رہا۔ لیکن مارچ 2024 کی درآمدات کو متنازع قرار دیا جا رہا ہے۔

دراصل ہر سال فروری مارچ اس سلسلے میں نہایت اہم ہوتے ہیں کہ گندم کا پیداواری ہدف کیا ہوگا؟ کتنی ضرورت ہوگی اور درآمدات یا برآمدات کا فیصلہ بھی کیا جاتا ہے، لہٰذا ہم فروری اور مارچ 2022 اور 2021 کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتے ہیں، مارچ 2022 میں ایک لاکھ 12 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔

فروری2022 میں 3 لاکھ 28 ہزار 122 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی اور مارچ 2021 میں 2 لاکھ 29 ہزار 696 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ فروری 2021 میں 4 لاکھ 18 ہزار 699 میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی تھی۔ ان تمام اعداد و شمار کو مدنظر رکھا جائے ہر ماہ درآمدات بقدر ضرورت ہوتی رہی اور اس سال مارچ میں کوئی بہت ہی زیادہ مقدار میں گندم درآمد نہیں کرلی گئی، اگرچہ اس درآمدات کی ضرورت تو نہ تھی لیکن یہ گندم ہمیں مل گئی اس کے ساتھ ریکارڈ پیداوار بھی حاصل ہو گئی اور سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ چکی کا آٹا 170 روپے سے کم ہو کر 130 روپے فی کلو اور دوسرا آٹا 160 روپے فی کلو سے کم ہوا ہے۔

اس سلسلے میں بعض دکانداروں کا کہنا تھا کہ اب آٹا 110 روپے فی کلو تک ہو چکا ہے، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود جلد ہی اضافے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔ حکومت وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ آٹا سستا ہوگیا ہے۔

اب کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ دینے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ حکومتی فضول اخراجات، اشرافیہ اور دیگر کی مراعات کو کم سے کم کرے۔ سرکاری خزانے سے پیسے ریلیز کر کے فوری طور پر کسانوں کو ریلیف پہنچایا جائے۔ ان کی محنت کا معاوضہ دیا جائے۔ مافیا نے اور دیگر نے مل کر ان سے سستے داموں گندم خرید لی ہے حالانکہ تحقیقات تو وقت طلب ہوتی ہیں لیکن ادھر معاملہ ان کو فوری ریلیف دینے کا ہے۔ فوری مالی معاونت کا ہے۔

فوری طور پر گندم خریدنے کا ہے۔ کسان کو خوش کریں اس کو خوشحال کریں، آٹے کی قیمت میں کمی کو برقرار رکھیں تاکہ مہنگائی میں کمی لائی جاسکے۔ بہرحال گندم زیادہ ہوگئی ہے تو اب اسے سنبھالنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس کے علاوہ تحقیقات کے نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے آیندہ کی مناسب منصوبہ بندی کرنا بھی حکومت کا کام ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔