پُرجوش کارکنوں پر برہمی

الہ آباد ہائیکورٹ نے مسز گاندھی کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے سرکاری مشینری کے

KARACHI:
جمہوریت اور شخصی آزادی کو کبھی بھی حتمی نہیں خیال کرنا چاہیے۔ یہ وہ انتباہ ہے جو 39 سال قبل وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور آزادی کی روشنیاں گل کرنے پر سامنے آیا۔ مسز گاندھی نے 25-26 جون کی رات کو اپنی کھال بچانے کے لیے ملک پر ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔

الہ آباد ہائیکورٹ نے مسز گاندھی کی طرف سے انتخابی مہم کے لیے سرکاری مشینری کے استعمال پر چھ سال کے لیے انتخاب لڑنے پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن اس عدالتی حکم پر اپنے منصب سے الگ ہونے کے بجائے موصوفہ نے آئین ہی معطل کر دیا، پریس پر سنسر شپ عائد کر ی اور لوگوں کی شخصی آزادی پر قدغن لگا دی۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو بغیر مقدمہ گرفتار کر لیا اور جے پرکاش نارائن سمیت تمام اپوزیشن اراکین کو، جنہوں نے کہ اندرا کی کرپٹ حکومت کے خلاف تحریک چلائی تھی، جیل میں ٹھونس دیا گیا اور اس سے بھی بڑی زیادتی یہ کی کہ ملک کے اداروں کو تباہ کر دیا جو کہ ابھی تک اپنی اصل حالت میں واپس نہیں آ سکے۔

اس صورت حال سے جو سبق سیکھا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ حکومت کی کارکردگی نہایت شفاف اور آئینی حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ ایک مضبوط حکومت کا مطلب ہے موثر حکومت نہ کہ شخصی حکومت جو کہ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کے مترادف ہوتی ہے جس کو ہم نے صدارتی طرز حکومت پر ترجیح دی تھی۔ اس نظام میں عوام حاکم ہوتے ہیں اور اگر ان کو خاموش کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ہماری جمہوریہ' اجتماعی سوچ اور مساوات کے منافی ہو گی۔ تاہم جنہوں نے ان اصولوں کی خلاف ورزی کی انھیں عوام نے 1977ء کے انتخابات میں شکست دے کر سزا دی۔

مسز گاندھی جیسے تمام افراد انتخابات میں شکست کھا گئے تا کہ ان کو احساس ہو سکے کہ ان کا عمل غلط تھا لہذا آیندہ کوئی ایسا کرنے کی جرات نہ کرے۔ تاہم جب ہم حکومتوں کی کارکردگی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں کچھ ایسے آثار دکھائی دیتے ہیں جن سے اس دور کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ حکومت کے ایک محکمے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے ایک رپورٹ کے بعض اقتباسات کا انکشاف کیا ہے جن میں الزام لگایا گیا ہے کہ این جی اوز کی سرگرمیوں نے ملکی شرح نمو میں دو سے تین فیصد تک کمی پیدا کر دی ہے۔

اس بارے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ متذکرہ رپورٹ ظاہر ہے کہ کانگریس کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کے دوران تیار کی گئی ہو گی۔ تاہم اس قسم کی اطلاعات چوٹی کے بیورو کریٹس گراس روٹس کی سطح پر کام کرنے والوں کی ساکھ خراب کرنے کے لیے ظاہر کرتے ہیں ان میں بعض ایسے لوگوں کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں جن کی یکجہتی پر کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا اور چونکہ میں خود بھی ایک کارکن ہوں اس لیے ان کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ ان کا اپنے بارے میں دفاع یہ ہے کہ حکومت نے ''مرغے اور بیل'' کی کہانی بیان کی ہے۔ اور ان کی بات قابل فہم بھی ہے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی کا زیادہ عرصہ دیہی علاقوں کے عوام کی فلاح و بہبود کا کام کرتے گزارا ہے۔

ان کو تحقیر آمیز انداز سے ''جَھولے والا'' کہہ کر پکارا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے کندھے پر ایک تھیلا (یا جھولا) لٹکایا ہوتا ہے جس میں بھنے ہوئے چنے اور روٹی کے ٹکڑے پڑے ہوتے ہیں کیونکہ انھیں بہت دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ ان پر یہ الزام لگانا کہ ان کے احتجاج کی وجہ سے ملک کی معیشت مفلوج ہو گئی ہے اور شرح نمو گر گئی ہے، قطعاً بے معنی ہے کیونکہ وہ ماحولیات کی حفاظت کے لیے بڑے ڈیموں، ایٹمی بجلی گھروں اور اس قسم کی دیگر تعمیرات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔

آپ مدھیہ پائیکر کی مثال لیں جو نرمدھا ڈیم کی تعمیر کے خلاف ہے۔ اس نے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے ورلڈ بینک نے جو قرضہ دیا تھا اس کو منسوخ کرا دیا ہے کیونکہ اس کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ آپ لوگوں کو متبادل جگہ دیے بغیر ان کو بے گھر نہیں کر سکتے۔ اس ڈیم کی مخالفت اس قدر مضبوط تھی کہ حکومت کو نرمدھا ٹربیونل قائم کرنا پڑا جس نے فیصلہ دیا کہ علاقے کے لوگوں کو وہاں سے ہٹانے سے چھ ماہ پہلے متبادل رہائش اور زرعی اراضی دی جائے۔


اس ڈیم کا سب سے زیادہ فائدہ چونکہ گجرات کو پہنچے گا لہٰذا اس نے بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کی ذمے داری اٹھا لی۔ ابتدا میں تو اراضی کے بدلے میں اراضی دی گئی تھی تاہم بعدازاں نقدی کی صورت میں معاوضہ پیش کیا گیا۔ بہت سے لوگوں نے نقدی قبول بھی کر لی مگر آج مزدوروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ نقد رقم زیادہ لمبے عرصہ تک نہیں چلتی لیکن اب جو نیا اعلان کیا گیا ہے کہ نرمدھا ڈیم اپنی اصل بلندی پر ہی بنایا جائے گا اور اس میں دروازے لگائے جائیں گے۔ یہ اعلان صریح دھوکہ دہی کے مترادف ہے کیونکہ جو معاہدہ کیا گیا تھا اس میں یقین دلایا گیا تھا کہ جب تک بے گھر ہونے والے تمام افراد کی بحالی عمل میں نہیں آ جاتی ڈیم کی بلندی میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

وزیر اعظم مودی جن کا تعلق گجرات سے ہے ممکن ہے نرمدھا حکام کے فیصلے سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو لیکن اگر مودی نے اضافی تعمیر کی اجازت دیدی تو ان پر بھی الزام عاید ہو گا۔ مجھے یاد ہے جب اس ڈیم کے خلاف احتجاجی تحریک اپنے عروج پر تھی تو بہت سے گجراتیوں نے مجھے کہا تھا کہ یہ ڈیم ان کے لیے مسئلہ کشمیر کی طرح ہے۔ اگر بھارتی حکومت نے اس ڈیم کی تعمیر کی اجازت نہ دی تو ہمیں بھی کشمیری علیحدگی پسندوں کی طرح بندوقیں اٹھانا پڑیں گی۔

تامل ناڈو میں کوڈم کلم کے مقام پر ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگ کہتے ہیں کہ انھیں اپنے علاقے میں ایٹمی بجلی گھر کی کوئی ضرورت نہیں نیز وہ جاپان کے فوکوشیما ایٹمی مرکز کی مثال دیتے ہیں جہاں تابکاری فیول کے رسنے اور اخراج کی وجہ سے ارد گرد کے تمام علاقے میں تباہی پھیل گئی لیکن اس کے باوجود بھارت میں وہ پلانٹ تعمیر کر دیا گیا ہے جو کہ اپنی پوری استعداد کے مطابق کام بھی کر رہا ہے حالانکہ علاقے کے باشندوں کو اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔

اس قسم کے منصوبوں کے حوالے سے جو نکتہ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ حکومت عوام پر حتمی طور پر بھروسہ نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان سے ایسا برتائو کیا جا سکتا ہے جس طرح کمیونسٹ ممالک میں ہوتا تھا کیونکہ مہاتما گاندھی کا بھارت مختلف تھا۔ بے شک تعمیر و ترقی بہت اہم ہے لیکن اس میں بھی ایک توازن ہونا چاہیے تا کہ لوگوں پر اس کے مضر اثرات مرتب نہ ہوں۔

ملک کے اولین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ بھارت کے مستقبل کی تعمیر کے لیے دو راستے ہیں۔ ایک کمیونسٹ آمریت اور دوسرا جمہوری شفافیت جس کا باقاعدہ احتساب ہو سکے۔ انھوں نے کہا بھارت نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ افہام و تفہیم کا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے۔میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ تاخیر کے باعث منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن تاخیر کی اصل وجہ سرخ فیتہ اور کرپشن ہوتی ہے جو حکومت کی ہر سطح پر موجود ہے وزیر بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔

اب جو این جی اوز پر الزام عاید کیا جا رہا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ اب میڈیا بہت چوکس ہو چکا ہے اور وہ چوٹی کی سطح پر ہونے والے سکینڈلوں کو بھی بے نقاب کر دیتا ہے۔ منموہن سنگھ کی حکومت اس حوالے سے بہت بدنام تھی۔ اس کی الماری سے ایک کے بعد ایک سکینڈل لڑھک کر باہر آتا رہا لیکن تمام قصور وار کسی سزا کے بغیر بچ گئے کیونکہ ہمارے نظام میں کوئی احتساب ہی نہیں۔

حقیقت میں مجھے خوف یہ ہے کہ جان بوجھ کر ڈر کی ایسی فضا پیدا کی جا رہی ہے تا کہ کچھ غیر جمہوری اقدامات کرنے کا جواز پیدا ہو سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ ایک اور ایمرجنسی نافذ نہیں کریں گے جس میں کہ معمولی سے اختلاف رائے کو بھی ملک دشمنی پر محمول کیا جا سکے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story