انسانی حقوق کی پامالی
گزشتہ سال شہریوں کے اظہارِ رائے اور احتجاج کی آزادی کے حقوق پر کئی دفعہ پابندیاں عائد ہوئیں
انسانی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں سرگرداں غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (HRCP) کی گزشتہ سال میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست گزشتہ سال بھی جبری گمشدگی کے واقعات کا خاتمہ نہیں کرپائی اور لاپتہ ہونے والے 2997 افراد کا پتا نہیں چل سکا۔
ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پرکہا کہ گزشتہ سال بھی انسانی حقوق کی صورتحال انتہائی خراب رہی۔ ملک میں تشویش ناک حد تک سیاسی کشیدگی بڑھ گئی جس کے نتیجے میں شہریوں کے سول و پولیٹکل حقوق پر نئی پابندیاں عائد ہوگئی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایچ آر سی پی معاشی انصاف کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو انتہائی اہم جانتی ہے کیونکہ ان حقوق کے تحفظ سے ریاست میں قانون کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے اور کچھ قوتوں نے ملک میں اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے، جس کی بناء پر سوک اسپیس (Civic Space) سکڑگئی ہے اور تاریخ میں یہ اسپیس کبھی اتنی کم نہیں ہوئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست گزشتہ سال 9 مئی کو ہونے والی بدامنی کو روکنے میں ناکام رہی جس کے نتیجے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع ہوا۔ کئی سیاسی کارکن لاپتہ ہوئے اور بڑے پیمانہ پر لوگوں کو گرفتارکیا گیا۔
گزشتہ سال شہریوں کے اظہارِ رائے اور احتجاج کی آزادی کے حقوق پر کئی دفعہ پابندیاں عائد ہوئیں، مختلف وجوہات کی بناء پر آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 90 دن کی میعاد میں انتخابات منعقد نہیں ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال پھر دہشت گردی کے واقعات بڑھ گئے اور ان واقعات میں 117 کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔ پورے ملک میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کے لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ رپورٹ میں ان بلوچ نوجوان خواتین کی جرات کو سراہا گیا جنھوں نے ماورائے عدالت قتل کے واقعات کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے تربت سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کمزور طبقات اکثریت کے اجتماعی تشدد کا نشانہ بنے۔ جڑانوالہ میں ایک پرتشدد ہجوم نے اقلیتوں کی بستیوں کو حملہ کر کے سخت نقصان پہنچایا۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال افراطِ زرکی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقات خواتین، بچوں، ٹرانس جینڈر اور مذہبی اقلیتوں کی صورتحال گزشتہ سال بھی خراب رہی۔ ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں زندگی کے مختلف شعبوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں خاصی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ۔
کمیشن کی گزشتہ کئی برسوں کی رپورٹوں کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2011سے کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ صرف ایچ آر سی پی ہی نہیں بلکہ دیگر تنظیمیں بھی کمیشن کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی چند ماہ قبل لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت کے دوران کمیشن کی کارکردگی پر تنقید کی تھی۔
اس رپورٹ میں ''مسلمہ پارلیمانی روایات'' کے تناظر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی زیرِ قیادت رخصت ہونے والی حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی کے ایک اجلاس میں تقریباً 28 بل پیش اور منظور کیے گئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارلیمانی طریقہ کار کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ اسی طرح پارلیمنٹ نے تین قوانین عجلت میں منظورکیے۔
ان قوانین میں پارلیمنٹ کی توہین، ملک کی سلامتی یا حساس معلومات کے افشا کرنے کو جرم قرار دیا گیا اور خفیہ ایجنسیوں کو وسیع پیمانہ پر حراستی اختیارات دیے گئے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے آخر تک عدالتوں میں 22 لاکھ 60 ہزار 386 مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ان میں سے 56 ہزار 153 مقدمات سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت تھے جب کہ پانچوں ہائی کورٹس میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد 3 لاکھ 42 ہزار 334 تھی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دس برسوں میں عدالتِ عظمی میں زیرِ التواء مقدمات کی تعداد بظاہر دگنی ہوگئی ہے اور ہر التواء مقدمات میں مسلسل اوسطاً 18 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کم از کم 102 موت کی سزائیں سنائی گئیں جب کہ گزشتہ سے پیوستہ (2022) میں 198 افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ سال مبینہ طور پر کسی بھی شخص کو پھانسی نہیں دی گئی۔
اس رپورٹ میں سندھ میں دریائی پٹی میں امن و امان کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ پولیس کے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے مسلسل اعلانات کے باوجود ڈاکوؤں کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں مبینہ طور پر گزشتہ سال کے دوران تقریباً 11 فیصد اضافہ ہوا۔ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز نے 90 ہزار سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے گئے۔ ڈکیتی کے خلاف مزاحمت پر134 شہری قتل ہوئے۔
رپورٹ میں ملک کی جیلوں کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جیلوں میں قیدیوں سے متعلق اعداد و شمار کے مطابق جیلوں میں قیدیوں کی مجموعی گنجائش 67 ہزار 449 کے قریب ہے جب کہ ملک بھر کی جیلوں میں 97 ہزار 449 افراد کو قید کیا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی جیلوں میں گنجائش سے 45 فیصد زیادہ قیدی بند ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو خاص طور پر جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ سندھ سے لاپتہ ہونے والے افراد میں سے کئی کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ ان افراد کی لاشوں کے معائنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان افراد پر مرنے سے قبل تشدد کیا گیا۔ ایچ آر سی پی کی یہ رپورٹ گزشتہ سال انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا احاطہ کرتی ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوئیں مگر اس رپورٹ کی یہ آبزرویشن انتہائی خطرناک ہے۔ ملک میں سویلین اسپیس Civilian Space کم ہو رہی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس وقت سویلین اسپیس جتنی کم ہے، اتنی ماضی میں کبھی نہ تھی۔ ملک کی تاریخ میں غیر سویلین حکومت 30 سال کے قریب قائم رہی اور اب پھر سویلین اسپیس کم ہونے کا مطلب ریاست پر عوام کی بالادستی کا کمزور ہونا ہے۔
جب ریاست پر عوام کی بالادستی کمزور ہوگی تو جمہوری نظام کمزور ہوجائے گا اور طالع آزما قوتوں کو ریاست پر قبضہ کا موقع ملے گا جس کی بناء پر ترقی کا عمل متاثر ہوگا۔
سویلین اسپیس بنیادی انسانی حقوق سے منسلک ہے۔ جب ریاست بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمے داری پوری نہیں کرے گی تو معاشرے کے مظلوم طبقات غربت کی لکیر کے نیچے دھنس جائیں گے۔ ہمارے ملک میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ حکومت کا فرض ہے کہ انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ مظلوم طبقات کو سماجی تحفظ حاصل ہوسکے۔