ٹیکساس کے شہر ڈیلس میں چار ہفتے
ڈرامے کے دوران پرفارمنس پر شایقین کی بار بار بجتی ہوئی تالیاں ڈرامے کی پسندیدگی کا احساس دلا رہی تھیں
امریکا میں رہتے ہوئے اب ہمیں بائیس سال ہو چکے ہیں، ہر موسم کے عادی ہو گئے ہیں، ہر موسم سے انجوائے بھی خوب کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان کی یاد اکثر و بیشتر آتی رہتی ہے اور پاکستان کی یاد جب زیادہ ستاتی ہے تو چند ہفتوں کے لیے پاکستان جانا ناگزیر ہو جاتا ہے اگر کسی سال پاکستان جانا نہیں ہوتا تو امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلس کا ایک چکر ضرور لگا لیتے ہیں۔
ڈیلس ایک خوبصورت شہر ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا ہے یہاں کافی زمین بے آباد ہے، لوگ دیگر ریاستوں سے ڈیلس کی طرف آ رہے ہیں یہ شہر آہستہ آہستہ ڈیولپ ہو رہا ہے۔
بعض علاقوں میں تیزی سے کنسٹرکشن ہو رہی ہے، ڈیلس میں ہماری بیٹی اور داماد رہتے ہیں۔ ابتدا میں چند برس یہ نیوجرسی ہی میں رہے مگر پھر ڈیلس جا کر وہیں کی رہائش اختیار کر لی، وہ مثل مشہور ہے انسان کا رزق جہاں لکھا ہوتا ہے وہ وہیں جا کر بس جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ہم جب ڈیلس پہنچے تو ہماری بیٹی، داماد کے ساتھ ہمارے دو نواسوں اور ایک نواسی کی خوشی دیدنی تھی، وہ ہمیں ایئرپورٹ لینے آئے تھے، ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، گھر پہنچے تو نصف رات تک بس باتیں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ ڈیلس میں ہماری ایک بھانجی اور ہمارے ہم زلف کے ایک بیٹے بھی رہائش پذیر ہیں جو دو تین سال پہلے نیو جرسی ہی سے ڈیلس شفٹ ہوئے ہیں۔
یہاں پاکستان ٹیلی وژن کی نامور فنکارہ نیلوفر عباسی صاحبہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہیں اور کراچی اسٹیج کے مشہور ہدایت کار فرقان حیدر اور دیرینہ دوست ریڈیو پاکستان کراچی کے رائٹر اور صحافی اویس نصیر بھی ڈیلس شہر کے باسی ہیں، جو فرقان حیدر کے ساتھ مل کر گاہے گاہے شعر و ادب کی محفلیں ڈیلس میں سجاتے رہتے ہیں۔
شاعر یونس اعجاز بھی اسی شہر کا حصہ ہیں اور شعری نشستوں میں بھی گاہے گاہے شرکت کرتے رہتے ہیں جب کہ محترمہ نیلوفر عباسی ہر سال ڈیلس میں عید میلادالنبیؐ کے مہینے میں حمد و نعت کی محفل کا انعقاد کرتی ہیں۔ فرقان حیدر نے ابتدا میں ڈیلس میں بھی اسٹیج ڈراموں کا آغاز کیا تھا مگر پھر وہ یہاں اسٹیج کو زیادہ رسپانس نہ ملنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اسٹیج ڈراموں سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے، یہاں پاکستانی کمیونٹی سے زیادہ ہندوستانی کمیونٹی فن و آرٹس کے معاملے میں زیادہ سرگرم رہتی ہے اور تقریباً سارا سال ہی ہندوستان سے فلمی فنکار اور نامور گلوکار اور گلوکارائیں گروپ کی صورت اور انفرادی طور پر بھی آتے رہتے ہیں اور یہاں بڑے بڑے فنکشن تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر میوزک کنسرٹ تو بہت ہی پسند کیے جاتے ہیں، یہ بڑے مہنگے شوز ہوتے ہیں اور ان شوز کے ٹکٹ بھی آن لائن خوب بکتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں شایقین ان شوز کی زینت بڑھاتے ہیں اور اپنے ملک سے آئے ہوئے فنکاروں کی قدر افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پروموٹرز بھی خوب مال بناتے ہیں اور شوز کو سجانے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جب کہ پاکستانی کمیونٹی اس معاملے میں زیادہ متحرک نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پاکستانی فنکار آتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ان کو کوئی اچھا پروموٹرز بھی میسر نہیں آتا ہے۔ یہاں گلوکار راحت فتح علی خاں اور گلوکار عاطف اسلم کو وہ جب بھی آتے ہیں ان کو پسند کیا جاتا ہے اور خوب خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
ہم جب بھی کچھ دنوں کے لیے ڈیلس گئے تو ہم نے وہاں دو تین شوز ضرور دیکھے ہیں، وہاں آئے دن انڈین آرٹسٹوں کے گروپ آتے رہتے ہیں اور وہاں کے پروموٹرز بڑے کامیاب شو کرتے ہیں۔ پھر وہی شوز امریکا کی دیگر ریاستوں اور کینیڈا میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ میں نے ڈیلس ہی میں انڈین فلموں کی نامور گلوکارہ شیریا گھوشال کا پہلی شو دیکھا تھا۔
شیریا گھوشال کے بارے میں ہندوستان میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ لتا منگیشکر کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ گلوکارہ کی حیثیت میں منظر عام پر آئی ہے اور اس کی آواز میں لتا منگیشکر کی آواز کی جھلک شامل ہے اور یہ شیریا گھوشال کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔
اسی طرح پاکستان کا مشہور گلوکار عاطف اسلم بھی ایک ایسا گلوکار ہے کہ جس کے نام سے ٹکٹ بکتے ہیں جسے پاکستان کے ساتھ ہندوستان میں بھی بڑا پسند کیا جاتا ہے اس کے گائے ہوئے کئی صوفی گیت اتنے مقبول ہیں کہ ہندوستان میں بھی وہاں کے فنکار گاتے ہیں اور انھیں بھی پذیرائی ملتی ہے۔
ڈیلس میں ہماری موجودگی کے دوران ہندوستان سے ایک گروپ آیا ہوا تھا جس نے امراؤ جان ادا کے نام سے ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تھا، اس ڈرامے کو ہم بھی بڑے شوق سے دیکھنے گئے تھے، امراؤ جان کی کہانی فلم کی صورت میں کئی بار انڈیا میں اور پھر پاکستان میں بھی بنائی گئی اور ہر بار فلم ہٹ ہوئی۔ کسی زمانے میں مرزا ہادی رسوا مشہور رائٹر تھے، انھوں نے امراؤ جان ادا کے نام سے ایک ناول لکھا تھا۔ اس ناول کو بڑی شہرت ملی تھی اور اس ناول کو بھی اردو ادب میں شامل کر لیا گیا تھا۔
خیر اب ہم آتے ہیں اسٹیج ڈرامے امراؤ جان ادا کی طرف، جو ڈیلس کے مقامی ہال میں بڑی آب و تاب سے پیش کیا گیا تھا۔ یہ ایک پوری ٹیم تھی جو بیس پچیس افراد پر مشتمل تھی اور ان کا بہت اچھا ٹیم ورک تھا، کچھ دیر بعد ہم بھی ہال میں داخل ہوئے تو حد نظر تک لوگوں کا ہجوم تھا، کچھ دیر انتظار کی زحمت کا بھی مزہ اٹھایا اور پھر اسٹیج سے پردہ ہٹا اور شو شروع ہو گیا۔
شو کے دوران بھی لوگوں کی آمد جاری رہی، اس دوران کئی سیٹ تبدیل ہوتے رہے اور قارئین بڑی یکسوئی کے ساتھ ڈرامہ دیکھنے میں مصروف رہے۔ ڈرامے کی ڈائریکشن بہت اچھی تھی، امراؤ جان ادا کو پہلی بار کسی نے اسٹیج کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
بالاخانہ اور نوابوں کی آمد، پرانے زمانے کی تہذیب، رقص اور موسیقی کا یہ ایک حسین امتزاج تھا۔ اس ڈرامے میں کہانی کو رقص کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ بہترین کاسٹیوم کے ساتھ کورس میں رقص پیش کیے گئے تھے اور کئی بار سولو رقص کو بھی نمایاں انداز سے پیش کیا گیا تھا۔
نوابوں کی تہذیب جو نوابوں کا خاصا ہوا کرتی تھی وہ دکھائی گئی تھی۔ ڈرامے کے دوران پرفارمنس پر شایقین کی بار بار بجتی ہوئی تالیاں ڈرامے کی پسندیدگی کا احساس دلا رہی تھیں، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انٹرویل ہوا اور پھر بیس منٹ کے انٹرویل کے بعد جب دوبارہ ڈرامہ شروع ہوا تو ایسا لگا جیسے ڈرامے کا ٹمپو ٹوٹ سا گیا ہے اور اس دوران شایقین کی دلچسپی میں بھی کچھ کمی کا احساس ہونے لگا تھا، ایک گھنٹے کا ڈرامہ اور تھا مگر یکسانیت کا شکار ہوگیا تھا۔
میرے خیال میں اگر اس ڈرامے کا دورانیہ صرف دو گھنٹے ہی کا رکھتے تو اس کا ٹمپو بھی برقرار رہتا، اس ڈرامے کا حسن متاثر نہ ہوتا۔ ڈرامے کے ختم ہونے تک آدھے سے زیادہ ہال خالی ہو چکا تھا، لیکن مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کوشش تھی اور میرے نزدیک یہ ڈرامہ ایک اور درجے کا تھا۔ امراؤ جان ادا کی کہانی کو امریکا کی کئی ریاستوں میں پیش کیا جا چکا ہے۔
ڈیلس ایک خوبصورت شہر ہے ہر طرف سبزہ ہی سبزہ پھیلا ہوا ہے یہاں کافی زمین بے آباد ہے، لوگ دیگر ریاستوں سے ڈیلس کی طرف آ رہے ہیں یہ شہر آہستہ آہستہ ڈیولپ ہو رہا ہے۔
بعض علاقوں میں تیزی سے کنسٹرکشن ہو رہی ہے، ڈیلس میں ہماری بیٹی اور داماد رہتے ہیں۔ ابتدا میں چند برس یہ نیوجرسی ہی میں رہے مگر پھر ڈیلس جا کر وہیں کی رہائش اختیار کر لی، وہ مثل مشہور ہے انسان کا رزق جہاں لکھا ہوتا ہے وہ وہیں جا کر بس جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں ہم جب ڈیلس پہنچے تو ہماری بیٹی، داماد کے ساتھ ہمارے دو نواسوں اور ایک نواسی کی خوشی دیدنی تھی، وہ ہمیں ایئرپورٹ لینے آئے تھے، ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا، گھر پہنچے تو نصف رات تک بس باتیں ہی باتیں ہوتی رہیں۔ ڈیلس میں ہماری ایک بھانجی اور ہمارے ہم زلف کے ایک بیٹے بھی رہائش پذیر ہیں جو دو تین سال پہلے نیو جرسی ہی سے ڈیلس شفٹ ہوئے ہیں۔
یہاں پاکستان ٹیلی وژن کی نامور فنکارہ نیلوفر عباسی صاحبہ اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہیں اور کراچی اسٹیج کے مشہور ہدایت کار فرقان حیدر اور دیرینہ دوست ریڈیو پاکستان کراچی کے رائٹر اور صحافی اویس نصیر بھی ڈیلس شہر کے باسی ہیں، جو فرقان حیدر کے ساتھ مل کر گاہے گاہے شعر و ادب کی محفلیں ڈیلس میں سجاتے رہتے ہیں۔
شاعر یونس اعجاز بھی اسی شہر کا حصہ ہیں اور شعری نشستوں میں بھی گاہے گاہے شرکت کرتے رہتے ہیں جب کہ محترمہ نیلوفر عباسی ہر سال ڈیلس میں عید میلادالنبیؐ کے مہینے میں حمد و نعت کی محفل کا انعقاد کرتی ہیں۔ فرقان حیدر نے ابتدا میں ڈیلس میں بھی اسٹیج ڈراموں کا آغاز کیا تھا مگر پھر وہ یہاں اسٹیج کو زیادہ رسپانس نہ ملنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ اسٹیج ڈراموں سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے، یہاں پاکستانی کمیونٹی سے زیادہ ہندوستانی کمیونٹی فن و آرٹس کے معاملے میں زیادہ سرگرم رہتی ہے اور تقریباً سارا سال ہی ہندوستان سے فلمی فنکار اور نامور گلوکار اور گلوکارائیں گروپ کی صورت اور انفرادی طور پر بھی آتے رہتے ہیں اور یہاں بڑے بڑے فنکشن تسلسل کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔
خاص طور پر میوزک کنسرٹ تو بہت ہی پسند کیے جاتے ہیں، یہ بڑے مہنگے شوز ہوتے ہیں اور ان شوز کے ٹکٹ بھی آن لائن خوب بکتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں شایقین ان شوز کی زینت بڑھاتے ہیں اور اپنے ملک سے آئے ہوئے فنکاروں کی قدر افزائی میں پیش پیش رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں پروموٹرز بھی خوب مال بناتے ہیں اور شوز کو سجانے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں جب کہ پاکستانی کمیونٹی اس معاملے میں زیادہ متحرک نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں پاکستانی فنکار آتے ہوئے گھبراتے ہیں اور ان کو کوئی اچھا پروموٹرز بھی میسر نہیں آتا ہے۔ یہاں گلوکار راحت فتح علی خاں اور گلوکار عاطف اسلم کو وہ جب بھی آتے ہیں ان کو پسند کیا جاتا ہے اور خوب خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
ہم جب بھی کچھ دنوں کے لیے ڈیلس گئے تو ہم نے وہاں دو تین شوز ضرور دیکھے ہیں، وہاں آئے دن انڈین آرٹسٹوں کے گروپ آتے رہتے ہیں اور وہاں کے پروموٹرز بڑے کامیاب شو کرتے ہیں۔ پھر وہی شوز امریکا کی دیگر ریاستوں اور کینیڈا میں بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ میں نے ڈیلس ہی میں انڈین فلموں کی نامور گلوکارہ شیریا گھوشال کا پہلی شو دیکھا تھا۔
شیریا گھوشال کے بارے میں ہندوستان میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ لتا منگیشکر کے بعد سب سے زیادہ پسندیدہ گلوکارہ کی حیثیت میں منظر عام پر آئی ہے اور اس کی آواز میں لتا منگیشکر کی آواز کی جھلک شامل ہے اور یہ شیریا گھوشال کے لیے بھی ایک اعزاز کی بات ہے۔
اسی طرح پاکستان کا مشہور گلوکار عاطف اسلم بھی ایک ایسا گلوکار ہے کہ جس کے نام سے ٹکٹ بکتے ہیں جسے پاکستان کے ساتھ ہندوستان میں بھی بڑا پسند کیا جاتا ہے اس کے گائے ہوئے کئی صوفی گیت اتنے مقبول ہیں کہ ہندوستان میں بھی وہاں کے فنکار گاتے ہیں اور انھیں بھی پذیرائی ملتی ہے۔
ڈیلس میں ہماری موجودگی کے دوران ہندوستان سے ایک گروپ آیا ہوا تھا جس نے امراؤ جان ادا کے نام سے ایک اسٹیج ڈرامہ پیش کیا تھا، اس ڈرامے کو ہم بھی بڑے شوق سے دیکھنے گئے تھے، امراؤ جان کی کہانی فلم کی صورت میں کئی بار انڈیا میں اور پھر پاکستان میں بھی بنائی گئی اور ہر بار فلم ہٹ ہوئی۔ کسی زمانے میں مرزا ہادی رسوا مشہور رائٹر تھے، انھوں نے امراؤ جان ادا کے نام سے ایک ناول لکھا تھا۔ اس ناول کو بڑی شہرت ملی تھی اور اس ناول کو بھی اردو ادب میں شامل کر لیا گیا تھا۔
خیر اب ہم آتے ہیں اسٹیج ڈرامے امراؤ جان ادا کی طرف، جو ڈیلس کے مقامی ہال میں بڑی آب و تاب سے پیش کیا گیا تھا۔ یہ ایک پوری ٹیم تھی جو بیس پچیس افراد پر مشتمل تھی اور ان کا بہت اچھا ٹیم ورک تھا، کچھ دیر بعد ہم بھی ہال میں داخل ہوئے تو حد نظر تک لوگوں کا ہجوم تھا، کچھ دیر انتظار کی زحمت کا بھی مزہ اٹھایا اور پھر اسٹیج سے پردہ ہٹا اور شو شروع ہو گیا۔
شو کے دوران بھی لوگوں کی آمد جاری رہی، اس دوران کئی سیٹ تبدیل ہوتے رہے اور قارئین بڑی یکسوئی کے ساتھ ڈرامہ دیکھنے میں مصروف رہے۔ ڈرامے کی ڈائریکشن بہت اچھی تھی، امراؤ جان ادا کو پہلی بار کسی نے اسٹیج کرنے کی کامیاب کوشش کی تھی۔
بالاخانہ اور نوابوں کی آمد، پرانے زمانے کی تہذیب، رقص اور موسیقی کا یہ ایک حسین امتزاج تھا۔ اس ڈرامے میں کہانی کو رقص کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ بہترین کاسٹیوم کے ساتھ کورس میں رقص پیش کیے گئے تھے اور کئی بار سولو رقص کو بھی نمایاں انداز سے پیش کیا گیا تھا۔
نوابوں کی تہذیب جو نوابوں کا خاصا ہوا کرتی تھی وہ دکھائی گئی تھی۔ ڈرامے کے دوران پرفارمنس پر شایقین کی بار بار بجتی ہوئی تالیاں ڈرامے کی پسندیدگی کا احساس دلا رہی تھیں، ڈیڑھ گھنٹے کے بعد انٹرویل ہوا اور پھر بیس منٹ کے انٹرویل کے بعد جب دوبارہ ڈرامہ شروع ہوا تو ایسا لگا جیسے ڈرامے کا ٹمپو ٹوٹ سا گیا ہے اور اس دوران شایقین کی دلچسپی میں بھی کچھ کمی کا احساس ہونے لگا تھا، ایک گھنٹے کا ڈرامہ اور تھا مگر یکسانیت کا شکار ہوگیا تھا۔
میرے خیال میں اگر اس ڈرامے کا دورانیہ صرف دو گھنٹے ہی کا رکھتے تو اس کا ٹمپو بھی برقرار رہتا، اس ڈرامے کا حسن متاثر نہ ہوتا۔ ڈرامے کے ختم ہونے تک آدھے سے زیادہ ہال خالی ہو چکا تھا، لیکن مجموعی طور پر یہ ایک اچھی کوشش تھی اور میرے نزدیک یہ ڈرامہ ایک اور درجے کا تھا۔ امراؤ جان ادا کی کہانی کو امریکا کی کئی ریاستوں میں پیش کیا جا چکا ہے۔