اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
یہ خط پڑھ کر ہم دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئے۔ لیکن معلوم ہے قصہ کیا ہوا۔
ایک دوست نے ہمیں ظفر اقبال کے ایک کالم کا تراشہ بھیجا ہے۔ ساتھ میں شرم دلائی ہے کہ دیکھیے ابھی تو آپ کی کتاب اپنی دانست میں تازہ تازہ ہے۔ سرورق تک میلا نہیں ہوا ہے۔ مگر ظفر اقبال نے اس پر لکھ کر جلد ہی حساب بیباق کر دیا۔ ایک آپ ہیں کہ ان کی کلیات غزل کی چوتھی جلد بعنوان 'اب تک، کو کب سے دبائے بیٹھے ہیں۔ اسے ایسے ہی پی گئے کہ پھر سانس ڈکار ہی نہیں لی۔
یہ خط پڑھ کر ہم دل ہی دل میں بہت شرمندہ ہوئے۔ لیکن معلوم ہے قصہ کیا ہوا۔ کلیات غزل ظفر اقبال کی تین جلدیں پہلے ہو چکی تھیں اور ہر جلد کی ضخامت کم و بیش اتنی ہی تھی جتنی اس جلد کی ہے اور اتنی جلدی جلدی ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد یہ چوتھی جلد آئی کہ ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ہم نے فوراً ہی اپنے ایک کالم میں اس واقعہ کا ذکر کیا اور پوچھا کہ 'اب تک' برحق ۔ مگر میرے بھائی' آخر کب تک۔ بلکہ کب تلک۔ یہ کیا کہ؎
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
یہ جو تمہاری غزل کا دریا چڑھا ہوا ہے' آخر کبھی اترے گا بھی۔ اس کا جواب نہیں آیا۔ مگر دریا ہے کہ مستقل چڑھتا چلے جا رہا ہے اور گھوڑا بگٹٹ دوڑتا چلا جا رہا ہے۔ غالب بھی ایک مقام پر آ کر رک گیا تھا اس عذر کے ساتھ کہ؎
تو سن طبع چاہتا تھا لگام
ان کی زیر بحث جلد پر بیشک تبصرہ نہ کیا ہو۔ ہاں اس کی ایک وجہ یہ بھی تو تھی کہ ظفر اقبال کا اشہب قلم نثر کی روش پر بھی فراٹے بھر رہا تھا اور ہم مستقل جتا رہے تھے کہ تمہاری بات کم از کم ہم تک پہنچ گئی ہے۔ اور ایک دفعہ ہم نے اس عزیز پر یہ جتایا بھی تھا کہ تم اتنا کچھ کہہ رہے ہو مگر تمہارے ہمعصر شاعروں میں سے کوئی ہنکارا ہی نہیں بھرتا۔ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم بول کر تمہارا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ بولتے رہو۔ ایک سننے والا موجود ہے۔
لیجیے اس پہ ہمیں ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک مشاعرے میں حفیظ صاحب رواں تھے۔ مگر خاطر خواہ داد نہیں مل رہی تھی۔ سامنے پہلی ہی صف میں مولانا چراغ حسن حسرت بیٹھے تھے۔ حفیظ صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور کہا حسرت صاحب مصرعہ اٹھایئے۔ حسرت صاحب نے اپنے دستور کے مطابق پہلے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور پھر بولے کہ مولانا ہم تو اسی لیے رہ گئے ہیں۔ دوستوں کی میتوں کو کندھا دیتے اور ان کے مصرعوں کو اٹھاتے عمر بیت گئی۔ مطلب یہ نکلا کہ کوئی مصرعہ اٹھانے والا اور فقرے پر فقرہ لگانے والا نہ ہو تو کیا شاعر کیا نثر نگار اس کا دل بجھ جاتا ہے۔
لیکن اگر پچھلے دنوں ہم نے بولنے سے کنارہ کیا تو اس کی وجہ تھی۔ ظفر اقبال تو تھمنے میں نہیں آ رہے تھے۔ ادھر ہم نے سوچا کہ آخر قاری کو اور سامعے کو سانس لینے کی تھوڑی مہلت تو ملنی ہی چاہیے۔ اور پھر یہ چوتھی جلد ہمارے سامنے تھی۔ اسے بھی پڑھنا ضرور تھا۔ پڑھ رہا ہوں اور سر دھن رہا ہوں۔ شاعر کتنا رواں ہے اور اسی روانی میں کیسا کیسا شعر نکالا ہے لو دیکھو کیسی بات کہہ دی ہے ؎
نہیں اسے بھی یہ پیچیدہ راستے معلوم
سفر میں ہم نے جسے راہ بر کیا ہوا ہے
غالب نے تو سارا قصور راہ روکا بتایا تھا۔ راہ بر کو یہ کہہ کر بری کر دیا تھا کہ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور پر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
یہاں کہا جا رہا ہے کہ راہی غریب نے تو راہ بر پر بھروسہ کیا تھا۔ مگر راہ بر اس کی راہنمائی کیا کرے گا۔ وہ تو خود راہ کے ایچ پیچ سے بے خبر ہے ؎
ملے ہیں ہمیں رہنما کیسے کیسے
پتہ نہیں کس کا مصرعہ ہے۔ کب سرزد ہوا۔
لو یہ تو ہم ابھی سے چل نکلے۔ ابھی تو کلیات کی چوتھی جلد ہے پتہ نہیں سفر جاری ہے۔ منزلیں گرد کی مانند اڑی چلی جا رہی ہیں۔ پھر وہی سوال کہ اب تک کی خیر ہے۔ مگر آخر کب تلک۔ یا یوں ہے کہ؎
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
اصل میں ظفر اقبال نے اپنا کام بہت بڑھا لیا ہے۔ شاعر بنے رہنے پر قانع نہیں ہیں۔ نثر میں بھی اسی برق رفتاری سے رواں ہیں۔ نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ اپنے قاری کو چین سے بیٹھنے دیتے ہیں۔ لیجیے ہمیں اس تقریب سے اختر احسن کی یاد آ گئی۔؎
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا
کتنے برس وہ ہمارے آپ کے بیچ ٹی ہاؤس میں بھٹکتا رہا۔ پھر وہ پاکستان سے گزر کر امریکا کی طرف نکل گیا۔ علوم کی وادیوں میں بھٹکتے بھٹکتے اس نے وہاں علمی حلقوں سے داد بھی حاصل کر لی۔ چند سال پہلے اس نے ایک دو پھیرے لاہور کے لگائے تھے۔ جاتے جاتے جو ہمیں ایک اپنی تصنیف پکڑا گیا۔ انگریزی کی لمبی نظم۔ کہہ لیجیے کہ پورا رزمیہ۔ ہم نے کتاب کو کھولا اور دیباچہ پڑھا تو ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔ اس عہد کے ایک عالم بشریات' دیو مالاؤں کے شناور جوزف کیمبل نے دیباچہ لکھا تھا۔ اس نے واقعہ یوں بیان کیا کہ ایک دن اچانک ایک نوجوان نے میرے دروازے پر دستک دی۔
آتے ہی اطلاع دی کہ میں نے ایک نظم لکھی ہے۔ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں اور میں حیران اس کی نظم سنتا چلا گیا۔ اب وہ کتاب ہمارے سامنے نہیں ہے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ جوزف کیمبل نے جس طرح اپنا یہ تجربہ بیان کیا تھا وہ ہم بیان کر سکتے۔ ایسا ماہر سامع جو اپنی جگہ پر بھی علم دریاؤ ہو کسی لکھنے والے کو مشکل ہی سے میسر آتا ہے۔ ادھر ہمارے دوستوں کا حال یہ ہے کہ اختر احسن قسم کی مخلوق کو کتنی دیر تک سنتے ہیں۔ صبر کا دامن جلد ہی ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور پکار اٹھتے ہیں۔ علموں بس کریں او یار۔
ادھر ظفر اقبال نے بقول انیس مضامین نو کے اتنے انبار لگا دیے ہیں کہ ہم ایسوں کی عقل گم ہے۔ پھر بھی انھیں بہت اچھے بہت حوصلہ مند قاری میسر آئے۔؎
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ