نیا سیاسی اتحاد
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا بھر خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں لوٹ مار اور کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین ملک ۔۔۔
LONDON:
مولانا طاہر القادری کی عوامی تحریک اور مسلم لیگ (ق)کے درمیان لندن میں دو روزہ مذاکرات کے بعد دونوں جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے، اس اتحاد نے ایک دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے جس کا بنیادی مقصد موجودہ حکومت کو ہٹا کر ملک میں 66 سال سے جاری Status Quo کو توڑنا ہے۔ طاہر القادری 23 جون کو پاکستان آ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان آتے ہی اس تحریک کی قیادت کریں گے جو ملک میں لوٹ مار اور کرپشن کا خاتمہ کر دے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا بھر خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں لوٹ مار اور کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین ملک بنا ہوا ہے اور طاہر القادری اس لوٹ مار اور کرپشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری ایک باضمیر سیاستدان اور ایک ذہین انسان ہیں وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ لوٹ مار اور کرپشن کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتی۔
اس کے لیے ان طبقات کو بے دست و پا کرنا ہوگا جن کا پیشہ ہی لوٹ مار اور کرپشن ہے اور یہ طبقات کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتے بلکہ انھیں ختم کرنے کے لیے ان کے منہ سے وہ زہر کی تھیلیاں نکالنا پڑیں گی، وہ دانت توڑنے پڑیں گے جن سے وہ عوام کی خوشیوں، عوام کی بنیادی ضرورتوں، عوام کے حقوق کو ڈستے ہیں اور ان لٹیروں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ بلا روک ٹوک، بلا تردد عوام کو لوٹتے رہیں۔ وہ دانت وہ زہر کی تھیلیاں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ آج بھی یہ عوام دشمن طبقات قانون ساز اداروں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔
اس دو جماعتی نئے اتحاد نے جن دس نکات کا اعلان کیا ہے ان میں نہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا کوئی نکتہ ہے، نہ سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی تجویز ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کو کنفیوز کرنے کے لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاگیرداری ختم ہو چکی ہے۔ حیرت ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے ان اعداد و شمار سے بھی لاعلم ہیں جو میڈیا میں آتے ہیں کہ موجودہ قانون ساز اداروں میں جاگیردار طبقہ اکثریت میں ہے، اسی طرح مرکزی اور صوبائی کابیناؤں میں بھی اس طبقے کی اجارہ داری ہے۔ یہ بات عموماً تسلیم کی جاتی ہے کہ ایوب خان اور بھٹو کی نافذ کردہ زرعی اصلاحات کو جاگیردار طبقے نے ناکام بنا دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جاگیرداری نظام موجود ہے۔
ہم نے اس بنیادی مرض کی طرف توجہ اس لیے دلائی ہے کہ قادری، چوہدری اتحاد میں اس اہم ترین مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے ہاتھوں میں 80 فیصد قومی دولت کا ارتکاز ہے اور قادری صاحب اور ان کے ہمنوا اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دولت ناجائز طریقوں یعنی کرپشن کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر لوٹ مار اور کرپشن کو روکنا ہے تو اس کا واحد راستہ نجی ملکیت کو ضروریات زندگی تک محدود کرنا ہے، سوشلسٹ نظام میں کرپشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔
طاہر القادری اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، ہم یہاں چوہدری برادران کا ذکر اس حوالے سے اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کا سیاسی ماضی ہمیشہ حکومت وقت سے وابستہ رہا اور ان کے خاندان کے شہزادے بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں رہے ہیں۔ قادری صاحب اپنے معتقدین کی طاقت کے ذریعے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔
قادری 1968ء اور 1977ء کی تحریکوں سے اچھی طرح واقف ہوں گے، یہ تحریکیں کسی مذہبی رہنما یا مذہبی جماعت کے کارکنوں پر مشتمل نہیں تھیں، بلکہ ان تحریکوں میں ہر طبقہ فکر کے لاکھوں عوام مرد، عورت، بوڑھے، جوان سب شامل تھے، حکومت ان تحریکوں کے سامنے بے دست و پا ہو گئی تھی، فوج کو ان تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن عوام کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ فوج جلوسوں کو روکنے کے بجائے جلوسوں کی قیادت کر رہی تھی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مارشل لا لگ گیا اور فوجی آمروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
قادری صاحب اسلام آباد میں ایک انقلاب کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اپنی غیر منصوبہ بندی کی وجہ سے سخت ناکامی اور بدنامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکیلے قادری صاحب کیا ملک کے 18 کروڑ عوام کو متحرک کر سکتے ہیں؟ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام موجودہ حکومت سے بھی اسی طرح نالاں ہیں جس طرح وہ ماضی کی حکومتوں سے نالاں تھے لیکن کیا عوام 1968ء اور 1977ء کی طرح سڑکوں پر آ جائیں گے؟ اگر آ بھی گئے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ یا تو فوج اقتدار پر لامحدود مدت کے لیے قابض ہو جائے گی یا ایک مقررہ مدت میں الیکشن کروا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دے گی۔ یہ منتخب حکومت کس کی ہوگی؟
کیا اس منتخب حکومت میں مزدور، کسان، ہاری اور دوسرے مڈل اور لوئر مڈل کلاسوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثریت میں ہوں گے؟ یا وہی چور، لٹیرے، ڈاکو اقتدار میں آئیں گے جو 1970ء سے 2013ء تک آتے رہے ہیں؟ اگر قادری صاحب کی ممکنہ تحریک کا انجام 1968ء اور 1977ء جیسا ہی ہونا ہے تو قادری صاحب تحریک کی زحمت کیوں کر رہے ہیں؟عمران خان کے پاس بھی اسٹریٹ پاور ہے۔
خیال تھا کہ عمران خان، قادری کا ساتھ دیں گے لیکن عمران خان کی سیاست کے نشیب و فراز کو سمجھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان کی نظر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر لگی ہوئی ہے، وہ ایسے محفوظ راستوں کی تلاش میں ہیں جو انھیں وزارت عظمیٰ تک پہنچا دیں۔ کیا قادری صاحب سے اتحاد کی شکل میں عمران خان کی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے؟ پھر عمران خان کو علم ہے کہ اگر کوئی بڑا اتحاد عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو نتیجہ 1968ء اور 1977ء سے مختلف نہیں ہو گا۔
سب سے پہلے انقلاب کے معنی و مطلب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کوئی کبڈی یا فٹبال کا میچ نہیں، نہ کرکٹ ہے کہ لوگ ہر گول، ہر رن پر تالیاں بجائیں۔ انقلاب ایک انتہائی بے رحم آپریشن کا نام ہے جس میں قومی جسم کے گلے سڑے حصوں کو کاٹ کر الگ کرنا پڑتا ہے۔ ان طبقات کو جو صدیوں سے معاشرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں کاٹ کر پھینکنا پڑتا ہے اور ان طبقات کے پاس جمہوریت اور مینڈیٹ کی ڈھال کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کی طاقت بھی ہے اس قدر مضبوط سیٹ اپ کو توڑنے کا کام دھرنوں اور محدود جلسوں جلوسوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سڑکوں پر لانا اور ان کی طاقت کو اس ہوشیاری اور منصوبہ بندی سے استعمال کرنا پڑتا ہے کہ غیر متعلقہ طاقتیں اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اس نئے سیاسی اتحاد کو ان بنیادی مطالبات کے لیے پہلے آگے آنا ہو گا جو موجودہ سیٹ اپ کے تحفظ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی انتخابی اصلاحات زرعی اصلاحات بلدیاتی انتخابات نجی ملکیت کے حق کو محدود کرنا وغیرہ۔ ورنہ بڑی سے بڑی تحریک بھی 1968ء اور 1977ء سے مختلف نتائج نہیں دے سکتی۔
مولانا طاہر القادری کی عوامی تحریک اور مسلم لیگ (ق)کے درمیان لندن میں دو روزہ مذاکرات کے بعد دونوں جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد تشکیل دیا گیا ہے، اس اتحاد نے ایک دس نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا ہے جس کا بنیادی مقصد موجودہ حکومت کو ہٹا کر ملک میں 66 سال سے جاری Status Quo کو توڑنا ہے۔ طاہر القادری 23 جون کو پاکستان آ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان آتے ہی اس تحریک کی قیادت کریں گے جو ملک میں لوٹ مار اور کرپشن کا خاتمہ کر دے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دنیا بھر خاص طور پر پسماندہ ملکوں میں لوٹ مار اور کرپشن کے حوالے سے بدنام ترین ملک بنا ہوا ہے اور طاہر القادری اس لوٹ مار اور کرپشن کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ طاہر القادری ایک باضمیر سیاستدان اور ایک ذہین انسان ہیں وہ یقیناً جانتے ہوں گے کہ لوٹ مار اور کرپشن کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتی۔
اس کے لیے ان طبقات کو بے دست و پا کرنا ہوگا جن کا پیشہ ہی لوٹ مار اور کرپشن ہے اور یہ طبقات کسی تحریک سے ختم نہیں ہو سکتے بلکہ انھیں ختم کرنے کے لیے ان کے منہ سے وہ زہر کی تھیلیاں نکالنا پڑیں گی، وہ دانت توڑنے پڑیں گے جن سے وہ عوام کی خوشیوں، عوام کی بنیادی ضرورتوں، عوام کے حقوق کو ڈستے ہیں اور ان لٹیروں کو یہ آزادی دیتے ہیں کہ وہ بلا روک ٹوک، بلا تردد عوام کو لوٹتے رہیں۔ وہ دانت وہ زہر کی تھیلیاں جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ آج بھی یہ عوام دشمن طبقات قانون ساز اداروں پر قبضہ کیے بیٹھے ہیں۔
اس دو جماعتی نئے اتحاد نے جن دس نکات کا اعلان کیا ہے ان میں نہ جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا کوئی نکتہ ہے، نہ سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی تجویز ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کو کنفیوز کرنے کے لیے بعض حلقوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاگیرداری ختم ہو چکی ہے۔ حیرت ہے کہ اس قسم کی باتیں کرنے والے ان اعداد و شمار سے بھی لاعلم ہیں جو میڈیا میں آتے ہیں کہ موجودہ قانون ساز اداروں میں جاگیردار طبقہ اکثریت میں ہے، اسی طرح مرکزی اور صوبائی کابیناؤں میں بھی اس طبقے کی اجارہ داری ہے۔ یہ بات عموماً تسلیم کی جاتی ہے کہ ایوب خان اور بھٹو کی نافذ کردہ زرعی اصلاحات کو جاگیردار طبقے نے ناکام بنا دیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں جاگیرداری نظام موجود ہے۔
ہم نے اس بنیادی مرض کی طرف توجہ اس لیے دلائی ہے کہ قادری، چوہدری اتحاد میں اس اہم ترین مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اصل مسئلہ ایک چھوٹے سے اشرافیائی طبقے کے ہاتھوں میں 80 فیصد قومی دولت کا ارتکاز ہے اور قادری صاحب اور ان کے ہمنوا اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ دولت ناجائز طریقوں یعنی کرپشن کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اگر لوٹ مار اور کرپشن کو روکنا ہے تو اس کا واحد راستہ نجی ملکیت کو ضروریات زندگی تک محدود کرنا ہے، سوشلسٹ نظام میں کرپشن نام کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔
طاہر القادری اس ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، ہم یہاں چوہدری برادران کا ذکر اس حوالے سے اس لیے نہیں کریں گے کہ ان کا سیاسی ماضی ہمیشہ حکومت وقت سے وابستہ رہا اور ان کے خاندان کے شہزادے بھی کرپشن کے الزامات کی زد میں رہے ہیں۔ قادری صاحب اپنے معتقدین کی طاقت کے ذریعے موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔
قادری 1968ء اور 1977ء کی تحریکوں سے اچھی طرح واقف ہوں گے، یہ تحریکیں کسی مذہبی رہنما یا مذہبی جماعت کے کارکنوں پر مشتمل نہیں تھیں، بلکہ ان تحریکوں میں ہر طبقہ فکر کے لاکھوں عوام مرد، عورت، بوڑھے، جوان سب شامل تھے، حکومت ان تحریکوں کے سامنے بے دست و پا ہو گئی تھی، فوج کو ان تحریکوں کو ختم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن عوام کی طاقت کا عالم یہ تھا کہ فوج جلوسوں کو روکنے کے بجائے جلوسوں کی قیادت کر رہی تھی، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ مارشل لا لگ گیا اور فوجی آمروں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
قادری صاحب اسلام آباد میں ایک انقلاب کا مظاہرہ کر چکے ہیں اور اپنی غیر منصوبہ بندی کی وجہ سے سخت ناکامی اور بدنامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اکیلے قادری صاحب کیا ملک کے 18 کروڑ عوام کو متحرک کر سکتے ہیں؟ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوام موجودہ حکومت سے بھی اسی طرح نالاں ہیں جس طرح وہ ماضی کی حکومتوں سے نالاں تھے لیکن کیا عوام 1968ء اور 1977ء کی طرح سڑکوں پر آ جائیں گے؟ اگر آ بھی گئے تو اس کا انجام کیا ہو گا؟ یا تو فوج اقتدار پر لامحدود مدت کے لیے قابض ہو جائے گی یا ایک مقررہ مدت میں الیکشن کروا کر اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کر دے گی۔ یہ منتخب حکومت کس کی ہوگی؟
کیا اس منتخب حکومت میں مزدور، کسان، ہاری اور دوسرے مڈل اور لوئر مڈل کلاسوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اکثریت میں ہوں گے؟ یا وہی چور، لٹیرے، ڈاکو اقتدار میں آئیں گے جو 1970ء سے 2013ء تک آتے رہے ہیں؟ اگر قادری صاحب کی ممکنہ تحریک کا انجام 1968ء اور 1977ء جیسا ہی ہونا ہے تو قادری صاحب تحریک کی زحمت کیوں کر رہے ہیں؟عمران خان کے پاس بھی اسٹریٹ پاور ہے۔
خیال تھا کہ عمران خان، قادری کا ساتھ دیں گے لیکن عمران خان کی سیاست کے نشیب و فراز کو سمجھنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمران خان کی نظر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر لگی ہوئی ہے، وہ ایسے محفوظ راستوں کی تلاش میں ہیں جو انھیں وزارت عظمیٰ تک پہنچا دیں۔ کیا قادری صاحب سے اتحاد کی شکل میں عمران خان کی یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے؟ پھر عمران خان کو علم ہے کہ اگر کوئی بڑا اتحاد عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو نتیجہ 1968ء اور 1977ء سے مختلف نہیں ہو گا۔
سب سے پہلے انقلاب کے معنی و مطلب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انقلاب کوئی کبڈی یا فٹبال کا میچ نہیں، نہ کرکٹ ہے کہ لوگ ہر گول، ہر رن پر تالیاں بجائیں۔ انقلاب ایک انتہائی بے رحم آپریشن کا نام ہے جس میں قومی جسم کے گلے سڑے حصوں کو کاٹ کر الگ کرنا پڑتا ہے۔ ان طبقات کو جو صدیوں سے معاشرے پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں کاٹ کر پھینکنا پڑتا ہے اور ان طبقات کے پاس جمہوریت اور مینڈیٹ کی ڈھال کے علاوہ سیکیورٹی فورسز کی طاقت بھی ہے اس قدر مضبوط سیٹ اپ کو توڑنے کا کام دھرنوں اور محدود جلسوں جلوسوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لیے ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سڑکوں پر لانا اور ان کی طاقت کو اس ہوشیاری اور منصوبہ بندی سے استعمال کرنا پڑتا ہے کہ غیر متعلقہ طاقتیں اس سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
ہمارا خیال ہے کہ اس نئے سیاسی اتحاد کو ان بنیادی مطالبات کے لیے پہلے آگے آنا ہو گا جو موجودہ سیٹ اپ کے تحفظ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ یعنی انتخابی اصلاحات زرعی اصلاحات بلدیاتی انتخابات نجی ملکیت کے حق کو محدود کرنا وغیرہ۔ ورنہ بڑی سے بڑی تحریک بھی 1968ء اور 1977ء سے مختلف نتائج نہیں دے سکتی۔