پیر اور منگل کی درمیانی رات کا کمانڈو آپریشن
میری اس سوچ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب 2003ء میں مجھے پہلے اُردن پھر شام اور بالآخر عراق پہنچ کر۔۔۔
کئی برس تک میں خود بھی اس مغالطے میں مبتلا رہا کہ ابلاغ کے بے تحاشا نئے ذرایع کی دریافت و فروغ کے باعث لوگوں کے ذہنوں میں کشادگی پیدا ہو رہی ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے یا واقعہ کی بے پناہ جہتوں کے بارے میں بہت کچھ جاننے کی وجہ سے حقائق کو اب پرانے وقتوں کے لوگوں سے کہیں زیادہ آسانی سے جان لیتے ہیں۔ انھیں گمراہ کرنا اب ممکن ہی نہیں رہا۔
میری اس سوچ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب 2003ء میں مجھے پہلے اُردن پھر شام اور بالآخر عراق پہنچ کر اس ملک پر امریکا کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے حوالے سے چند حقیقتوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حقائق جو میری آنکھوں نے دیکھے ان کا دُنیا بھر کے میڈیا میں کہیں ذکر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ساری خبروں کا اصل مقصد بنیادی طور پر یہ بیان کرنا تھا کہ جدید ترین اسلحے اور دیگر وسائل کی بنیاد پر حیران کن سرعت کے ساتھ امریکی افواج بغداد پر قابض ہو گئیں۔ تجزیوں کی حد تک دُنیا بھر کے تمام لکھنے والے صرف اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے کہ صدام حسین کے مبینہ طور پر Weapons of Mass Destruction کو تباہ کرنے کے نام پر مسلط کی گئی یہ جنگ کس حد تک ''منصفانہ'' تھی۔
صرف اس حوالے سے ہوئی تحقیق نے مجھے یہ حقیقت دریافت کرنے میں مدد دی کہ ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کو بالآخر طاقتور قوتیں ہی اپنی مرضی کا ''سچ'' گھڑنے کے لیے سفاکانہ مہارت کے ساتھ استعمال کیا کرتی ہیں۔ ٹیلی ویژن اس حوالے سے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ڈرامائی مناظر کی مناسب تدوین و ترویج کے ذریعے ٹیلی وژن اسکرین گھروں میں بیٹھے افراد کو ایک چسکے دار کہانی فراہم کر دیتی ہے اور ناظرین کی اکثریت اس کہانی سے اسی طرح کا لطف اٹھانا شروع کر دیتی ہے جو عام طور پر نشے کے عادی افراد اپنی پسند کی نشہ آور چیز کے استعمال کے فوری بعد کے مرحلوں میں محسوس کرتے ہیں۔ Illusions اور ہیولوں پر مبنی اس خیالی دُنیا کا حقائق اور اس کی تلخیوں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
منگل کو لاہور میں جو کچھ ہوا وہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ ناجائز تجاوزات ہٹانے کے نام پر جو آپریشن ہوا اس کا نشانہ ایک ایسا ادارہ تھا جس کے قائد کے سیاسی عزائم کے بارے میں ذاتی طور پر میرے بے شمار تحفظات ہیں اور میں گاہے بڑے سخت الفاظ میں ان کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں۔ اپنے تحفظات کے اس اعتراف کے باوجود میں لاہور میں بیٹھے اپنے صحافی دوستوں کی وساطت سے یہ ضرور جاننا چاہ رہا تھا کہ ''ناجائز تجاوزات'' کو پیر اور منگل کی درمیانی رات کسی کمانڈو آپریشن کے ذریعے ہٹانے کا فیصلہ کیوں اور کس نے کیا۔
یہ بات درست ہے کہ ماڈل ٹائون کے اس محلے کے کئی رہائشی جہاں اس ادارے کا مرکز ہے ''ناجائز تجاوزات'' کے خلاف عدالتوں میں گئے تھے۔ عدالتوں نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو یہ ''تجاوزات'' ہٹانے کی ہدایات بھی جاری کر رکھی تھیں۔ مگر ان تجاوزات کو ہٹانے کا فیصلہ عین ان ہی دنوں میں کیوں کیا گیا جب اس ادارے کے سربراہ 23 جون کو اسلام آباد پہنچ کر پاکستان میں ایک ''انقلابی تحریک'' شروع کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔
اس بنیادی سوال کی روشنی میں یہ بات جاننا اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے کہ بجائے کسی باقاعدہ پریس کانفرنس کے ذریعے ''ناجائز تجاوزات'' کے بارے میں حقائق بیان کرنے کے بعد متعلقہ ادارے کے لوگوں کو انھیں رضا کارانہ طور پر اٹھانے کی ایک باقاعدہ ڈیڈ لائن کیوں نہ فراہم کی گئی۔ وہ اس ڈیڈ لائن پر عمل نہ کرتے تو دن کی روشنی میں میڈیا کی موجودگی میں کوئی آپریشن کلین اپ بھی کیا جا سکتا تھا۔
پیر اور منگل کی درمیانی رات حکام کا اچانک حرکت میں آنا میرے جیسے شکی مزاج کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ''خفیہ'' کے کسی ادارے نے کوئی ایسی رپورٹ ضرور تیار کی تھی جس میں اس خدشے کا اظہار ہوا کہ ماڈل ٹائون میں واقع تحریک کے مرکز میں چند لوگ بھاری اسلحہ وغیرہ کے ساتھ پہنچ کر ''جتھہ بند'' ہو رہے ہیں ان پر فی الفور قابو نہ پایا گیا تو 23 جون کے بعد مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے لیے معاملات کو قابو میں رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔ پیر اور منگل کی رات کو ہوا آپریشن لہذا مجھے محض اپنے ذاتی خدشات کے حوالے سے ایک "Preventive Operation" دِکھ رہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اپنے نتائج کے حوالے سے یہ وہ منتر ثابت ہوا جو الٹا سفلی عمل کرنے والے کے گلے پڑ جاتا ہے۔
پیر اور منگل کی درمیانی رات لاہور میں ہوئے آپریشن کو ''خفیہ والوں'' کی کارستانی شمار کرنے پر میں اس لیے بھی مجبور ہوں کہ پنجاب کے راج دلاروں کی سیوا کرنے والے ایسے ہی چند خفیہ والوں نے ایک زمانے میں قتل کے ایک ہولناک منصوبے کی طلسم ہوشربا بھی گھڑی تھی۔ پنجاب کے مرحوم گورنر سلمان تاثیر اس سازش کے سرغنہ ٹھہرائے گئے تھے جس کا ہدف چند اُجرتی قاتلوں کی مدد سے لاہور ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس خواجہ شریف کی جان لینا بتایا گیا تھا۔
مجھے ہر گز خبر نہیں کہ طلسم ہوشربا والی یہ داستان گھڑنے والوں کے ساتھ گڈ گورننس کی علامت سمجھے جانے والے پنجاب کے راج دلاروں نے بالآخر کیا سلوک کیا۔ اب لاہور ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کو پیر اور منگل کی درمیانی رات سے شروع ہونے والے آپریشن کے بارے میں تمام حقائق جمع کرنے کا ذمے سونپ دیا گیا ہے۔ خدا سے دُعا ہے اور ان سے فریاد ہے کہ جلد از جلد ہمیں حقائق کی روشنی میں سانحے کے ذمے دار افراد کی اصل صورتیں اور کردار دیکھنے کا موقعہ نصیب ہو۔
حقائق سے قطع نظر دل دہلا دینے والی بات یہ بھی تو ہے کہ اس واقعے میں ایک نہیں آٹھ کے قریب انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ مرنے والوں کا تعلق کسی نہ کسی خاندان سے ہو گا۔ ان کے عزیزوں کے دلوں پر اپنے پیاروں سے جدائی کی وجہ سے جو عذاب اترا ہے اس کے بارے میں کوئی فکر مند نظر نہیں آ رہا۔ ''ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے'' والا ہولناک قصہ ہو گیا ہے۔ مگر اس سارے قصے کی بدولت ٹیلی وژن اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر دھوم ہے تو کسی ''گلوبٹ'' کی۔
کئی بنیادی مگر تلخ سوال اٹھانے کے بجائے ہمارے بے شمار مبینہ طور پر پڑھے لکھے اور تخلیقی اذہان کے مالک افراد صرف اس کردار پر توجہ دے کر چسکا فروشی میں مصروف پائے جا رہے ہیں۔ آٹھ جانوں کے نقصان کے باوجود ''گلوبٹ'' کی چسکا فروشی کے حوالے سے دریافت مجھے تو خوفزدہ کر گئی ہے۔ ہم اتنے بے حس اور چسکے کی لت میں اس شدت کے ساتھ کیوں مبتلا ہو گئے ہیں؟