لاوارث

ایسے خاندان زیادہ تر غریب و متوسط طبقے کی آبادیوں میں ہی ملیں گے بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں۔۔۔

قارئین! آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ مکانوں کی پچھلی گلیوں میں جہاں مکین کچرا پھینکتے ہیں، چھوٹے معصوم بچے کاندھوں پر تھیلہ ڈالے کچرا چنتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح آپ چھوٹے کارخانوں، ورکشاپس اور دکانوں میں بھی کام کرتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ اول الذکر بچوں کو ''اسٹریٹ چائلڈ''کہتے ہیں اور آخرالذکر بچوں کو چائلڈ لیبر کہتے ہیں۔ انھیں ہی دیکھ کر میں نے قلم اٹھایا ہے کہ دوسرے تمام موضوعات پر تو لکھتا رہتا ہوں آج ان بچوں کو اپنے کالم کا موضوع بناؤں کہ یہ پھول جیسے بچے آخر کیوں کام پر لگ گئے ہیں۔

وجہ صاف ظاہر ہے کہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری کی وجہ سے ان کے ماں باپ انھیں کم عمری میں کام پر لگانے پر مجبور ہوگئے۔ قدرت کا کرشمہ دیکھیے کہ غربت میں گھرے گھرانوں میں ہی بچوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔ چونکہ غریب خاندان خود تنگدستی کے دن گزارتا ہے لہٰذا بچوں کی صحیح پرورش نہیں کرپاتا۔ لہٰذا وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور صحت پر توجہ نہیں دے سکتا۔ نتیجتاً وہ بچوں کو کام پر لگانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

ایسے خاندان زیادہ تر غریب و متوسط طبقے کی آبادیوں میں ہی ملیں گے بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں والی آبادیوں والے تو اس پہلو کا تصور بھی نہیں کرسکتے لہٰذا ان معنوں میں ان کا تذکرہ بے معنی سا ہوتا ہے۔ لیکن ایک وجہ ہے جس کی بنا پر اشرافیہ بھی ان بچوں میں گاہے بگاہے دلچسپی رکھتی ہے وہ کیسے؟ وہ ایسے کہ گھر کے ملازموں کے لیے کام آتے ہیں۔ دکانوں اور ورکشاپس میں ''چھوٹے'' کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کہنے کو تو انھیں ''چھوٹے یا چھوٹو'' پکارا جاتا ہے لیکن کام ان سے بڑے بڑے لیے جاتے ہیں۔

ایسی صورت میں ان بچوں کو تعلیم و تربیت کا تصور تو درکنار انھیں اپنے مستقبل کا گمان تک نہیں ہوتا۔ وہ پورا دن کام پر لگے اتنے تھک جاتے ہیں کہ جو گھر والے بچے ہوتے ہیں وہ گھروں میں داخل ہوتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں نہ ماں باپ، بہن بھائیوں سے دعا سلام نہ کھانے کی فکر بس انھیں تھکن دور کرنے کے لیے نیند کی اشد ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ صبح جلدی اٹھ سکیں گے نہ وقت پر کام پر جاسکیں گے۔ جس کے نتیجے میں انھیں اپنے روزگار سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے گا۔

معصوم اور لاوارث بچوں کی (لفظ لاوارث میں نے اسٹریٹ چائلڈز کے لیے استعمال کیا ہے اس لیے کہ میری معلومات کے مطابق یہ بچے زیادہ اغوا کیے گئے ہوتے ہیں اور اغوا کار ان پر اور ان کے کام کی جگہوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں)۔ اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے تو ان بچوں کی جاں بخشی ہوسکتی ہے ورنہ یہ اسی تاریک ماحول میں مگن زندگی گزارتے رہیں گے۔


اس پر تشویشناک صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ اب معصوم بچیاں اور خواتین بھی ان میں شامل کرلی گئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان ظالم اور درندہ صفت بدکاروں نے گھروں کی بربادی کی بنیاد ''اغوا کاری'' کی بنیاد پر رکھ دی۔ سوال یہ ہے کہ آخر اس گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لیے متعلقہ حکومت (صوبائی) کیا اقدامات کر رہی ہے اور کیسے اقدامات اٹھائے جاچکے ہیں۔ بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ فی الحال حکومت نے کوئی قدم اٹھانا تو درکنار شاید اس مسئلے کی طرف توجہ بھی نہیں دی

۔ ہاں ہاں! حکومت کسی مخالفانہ اقدامات اٹھانے سے اس لیے گریز کرتی ہوگی کہ اس نوجوان نسل (جو اب ان درندہ صفت مجرموں کے ہتھے چڑھنے کے بعد جوان ہوئی ہے) کی بربادی کے ذمے دار ان کے والدین ہیں کہ وہ اپنی اولادوں کی صحیح اور کڑی نگرانی کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی شریفانہ ماحول میں پرورش کی فکر کرتے ہیں۔ واہ بھئی واہ! کیسی انوکھی سوچ ہے۔ کون سے ماں باپ ایسے ہوں گے اور چاہتے ہوں گے کہ ان کی اولاد بڑی ہوکر ''جرائم پیشہ'' بنیں یا پھر ''اسٹریٹ چائلڈ'' (عام زبان میں اسے ''آوارہ لڑکے'' بھی کہا جاتا ہے) اور ''لیبر چائلڈ'' کا روپ دھار لیں۔ یہ تو فطری تقاضے کے منافی بات ہوگی۔ جو ناقابل یقین بھی ہوگی۔

اس لیے کہ ہم نے آج تک ''لڑکیوں'' کو آوارگی کرتے نہیں دیکھا۔ سوائے اس کے یہ دیکھا اور سنا ہے کہ فلاں گھر سے، فلاں مدرسے سے، فلاں لڑکی اغوا کرلی گئی ہے اور ماں باپ حیران و پریشان ہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے ہوش و حواس کھو دیے ہیں۔ کیا میری باتیں اور بحث مفروضوں پر مبنی معلوم ہوتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا سوچنے والے نہ اخبارات دیکھتے ہیں نہ پڑھتے ہیں اور تو اور شاید ٹی وی کے پروگرام ''جرم بولتا ہے'' اور "Criminal Most Wanted" جیسے پروگرام بھی نہیں دیکھتے ہیں۔ ورنہ اگر وہ یہ پروگرام دیکھتے ہوتے تو میری باتوں کی حقیقت اور عکاسی کے معترض نہ ہوتے اور یہی تصور قائم کرلیتے ہیں کہ میری یہ باتیں ''مفروضوں'' پر مبنی ہیں۔

ایسا سوچنے اور ردعمل دکھانے پر میری ذات پر تو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن ان ''اسٹریٹ چائلڈز'' اور ''لیبر چائلڈز'' کے مستقبل پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے اور ہوگا بھی۔ اب آئیے! ہمارے قانون نافذ کرنے والوں کی صلاحیتوں اور کردار کی جانب۔ ان کے متعلق تو ہزاروں کی تعداد میں ''متاثرہ خاندانوں'' کی طرف سے شکایات کا انبار لگا ہے۔ مگر پھر بھی ان کی عدم توجہی اور عدم تعاون کی بنا پر ان شکایات کو دریا برد کردیا جاتا ہے یعنی ''داخل رجسٹر'' کردیا جاتا ہے کہ شکایت کنندہ یا متاثرہ خاندان کے کیسز سننے یا ان پر عملدرآمد کرنے سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ اپنی درخواست کے ساتھ رشوت کے پہیے لگا دے تو پھر دیکھیے آپ کی فائل کس تیزی سے دوڑتی نظر آئے گی۔

شاید کہ دل میں اتر جائے میری بات اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اور اہلکاروں کی غیرت جاگ جائے اور یہ لوگ ان ''اسٹریٹ چائلڈز'' اور ''لیبر چائلڈز'' کی اشک شوئی اور رہائی دلانے پر کمر کس کر میدان میں اتر آئیں تاکہ اسی پیغام کا عملی مظاہرہ نظر آئے کہ ''اٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے' پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے'' پھر تو یقینا ان قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو خدا کی طرف سے فتح و نصرت حاصل ہوگی اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔

''نصر من اللہ فتح قریب'' یہی نہیں بلکہ ان ستم رسیدہ ''اسٹریٹ چائلڈز'' اور ''لیبر چائلڈز'' کی دعائیں بھی ان کے دامنوں کو بھردیں گی۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی سوچ ''نیک نامی'' کی طرف خال خال ہوتی ہے۔ ورنہ یہ تو ان جرائم پیشہ درندہ صفت اور شیطان صفتوں کی پشت پناہی کرکے ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کی جیبیں تو جیبیں، پیٹ بھی خالی ہوتے ہیں۔ اس لیے ''اسٹریٹ چائلڈز'' اور ''لیبر چائلڈز'' تا حیات اسٹریٹ چائلڈز اور لیبر چائلڈز ہی رہیں گے۔
Load Next Story