رات دن گردش میں ہیں سات آسمان
ہمارے ملک میں کافی عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔۔۔۔
KUALA LUMPUR:
کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ میرٹ اور صلاحیت کے بجائے سفارش، رشوت اور رشتے ناتے کی بنیاد پر ہر جگہ بھرتی کیے گئے نااہل، غیر تربیت یافتہ افراد محض تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے لیے رکھے گئے لوگ کسی بھی ناگہانی آفت یا حادثے سے نمٹنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے ۔سانحہ تھر کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ حکومت سندھ کی ایک اہم شخصیت کے کم ازکم 16 بھائی بند اہم عہدوں پر براجمان تھے جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اس سانحے کے کچھ نہ کچھ ذمے دار تھے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ عرصے سے دہشت گردی کا شکار کراچی میں کسی بھی ہنگامی صورت حال پر بروقت قابو پانے کی کوئی پیشگی تیاری کہیں نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے شہر کراچی کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں نہ پانی بھرا ہوا ہے نہ ان کے پاس فوم کا انتظام ہے، نہ آگ سے بچنے والے آلات و لباس ہیں حتیٰ کہ انجن میں پٹرول تک کا نہ ہونا کیا ثابت کرتا ہے؟
جب کہ ہر ادارے کے اخراجات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں اور کارکردگی صفر سے بھی کم۔ چند برس قبل بلدیہ کی فیکٹری میں جھلس کر مرنے والوں کی موت کا سبب بھی بروقت آگ پر قابو نہ پانا اور کوئی دوسرا متبادل انتظام نہ ہونا ہی تھا۔ اگر غیر جانبدارانہ اور مبنی بر انصاف تحقیقات کرائی جاتیں (جو شاید کبھی نہ ہوں) تو معلوم ہوجائے گا کہ فائر انجنوں میں ہر روز پٹرول ڈالا جاتا رہا ہے ''مگر وہ کہاں سے کدھر ہے'' یہ کوئی بتانے والا نہ ملے گا۔
ہمارے ملک میں کافی عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے ماضی قریب میں کئی ہولناک حادثے رونما ہوچکے ہیں جن میں سے ہر ایک میں درجنوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں مگر اب تک حفاظتی اداروں کو مناسب حد تک فعال نہیں کیا گیا، پی آئی ڈی سی کراچی کے علاوہ کئی واقعات کے بعد بھی ذمے داران اور صاحبان بست و کشاد کی سردمہری اور بے عملی کا مطلب عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ایک عام شہری، ایک متاثرہ خاندان تو یہی سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ووٹوں سے کرسی اقتدار تک پہنچنے والے حضرات اپنے اپنے عہدوں پر اس لیے براجمان ہیں کہ وہ ملکی دفاع کو ناقابل تلافی حد تک کمزور کردیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حالیہ حملہ تو صاف کہہ رہا ہے کہ سینہ ٹھونک کر کراچی کو پاکستانی معیشت کی شہ رگ، ستر فیصد ریونیو دینے والا شہر لاوارث ہے اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جو اس کے وارث ہیں وہ اس کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے چین سے بیٹھ گئے ہیں۔
اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو خود کرو کوئی بڑے سے بڑا وزیر باتدبیر آپ کے لیے آپ کے بچوں کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ کیونکہ انھوں نے بے حسی کی چادر میں خود کو لپیٹ لیا ہے آپ چیختے رہیے چلاتے رہیے ''وہاں ایک خموشی تیری سب کے جواب میں'' وہ اپنی ذمے داریاں دوسروں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ عوام حیران ہیں کہ آخر کس سے گلہ کریں۔ تھر میں بھوک سے لوگ اور بچے مر گئے تو بیان آگیا کہ وہ تو بھوک سے نہیں بیماری سے مرگئے۔ اچھا تو علاج کی سہولت مہیا کرنا کس کی ذمے داری تھی؟ بچوں کے اسپتال میں بچے آکسیجن اور عملے کے نہ ہونے کے باعث مرگئے تو فرما دیا کہ وہ تو طبعی موت مرے اور صرف چار مرے، گویا سو بچے مریں تو مریں اس سے کم کا مرنا بھی کوئی مرنا ہوا۔ لفظ ہمدردی، تسلی، خیر خواہی تو جیسے ان کی لغت میں ہے ہی نہیں۔
لوگ سوچتے ہیں کہ جب اہلیت نہیں، ہمت نہیں عمل کرنے کی عادت نہیں تو ان بڑے بڑے عہدوں پر کس لیے براجمان ہیں۔ یہ عہدے کسی جوان، باہمت، باعمل، پرجوش اور نیک نیت شخص کے حوالے کردینے میں کیا حرج ہے بطور تجربہ ہی سہی۔ ایسے ایسے المناک حادثات ہوتے رہیں ادھر گردن کی اکڑ ہی میں فرق نہ آئے۔ مہذب ممالک میں اعلیٰ اور ذمے دار شخصیات عوامی مفاد کے خلاف کسی واقعے کے رونما ہونے پر ازخود اپنی ذمے داری قبول کرکے مستعفی ہوجاتی ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کی تو ہر بات ہی نرالی ہے کیونکہ ایسے واقعات مہذب ممالک میں ہوتے ہوں گے مگر ہم تو خود کو مہذب کہلانا ہی پسند نہیں کرتے۔ اس لیے عالم یہ ہے کہ سب کہہ رہے ہیں کہ بھئی! کام نہیں ہوتا تو آرام کیجیے، مگر مقتدر شخصیات ہیں کہ اپنی کرسی سے چپک کر بیٹھی ہیں نام نہاد کراچی آپریشن بھی کسی اور کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔
بھئی! کام نہیں ہوتا نہ کیجیے اوروں کو کرنے دیجیے۔ مگر یہ ہٹ دھرمی بھی کچھ راز فاش کرتی ہے اور لوگوں میں بے یقینی، بداعتمادی کی وجہ بن رہی ہے۔ حکومت سندھ کی ایک اور شخصیت نے وفاق کو برا بھلا کہہ کر اپنی ذمے داری سے چھٹکارا پالیا۔ چلیے غلطی کسی کی بھی ہو مگر یوں کاندھے جھٹکنے کا مطلب متاثرین صرف یہ لیتے ہیں کہ سب کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں، انسانیت ختم ہوچکی ہے اور غیرت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ ورنہ عوام کا اگر احساس ہوتا تو اتنے نازک حالات میں دہشت گردی کو لگام نہ دینا بلکہ کم ازکم اس سے بروقت مناسب طور پر نمٹنے کی تیاریاں تو ہنگامی بنیادوں پر کی جانی چاہیے تھیں۔
نہ کہ صرف آگ پر قابو پانے کے بھی مناسب انتظامات نہ ہوسکیں اگر ایئرپورٹس کا تحفظ وفاق کی ذمے داری ہے تو کیا فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں پانی، فوم، آگ سے بچاؤ کے آلات و لباس مہیا کرنا بلکہ انجن میں پٹرول ڈلوانا بھی کیا وفاق کی ذمے داری ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ ''کیا کراچی ایئرپورٹ بھارت میں ہے جو حکومت سندھ کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی'' بھی اپنی جگہ درست ہے۔ حالات تشویشناک ہوں ہر روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہوں تو بجائے تمام اداروں کو چوکس رکھنے کے کسی بھی صورتحال کا مردانہ وار سامنا کرنے کے بجائے انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود فارغ ہوجانا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے؟
جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور بقول شخصے مٹی پاؤ اب سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا فائدہ۔ مگر قومی اسمبلی کا اسپیکر خود کہہ رہا ہے کہ پارلیمنٹ بالکل غیر محفوظ ہے۔ پچھلے دنوں صرف ایک شخص نے دو ہتھیاروں کے زور پر پورے اسلام آباد کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا۔ گزشتہ ماہ سکھ برادری کا اچانک پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دینا اسپیکر کے بیان کی صداقت کو واضح کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ کو گھیر لیا گیا تو کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اس خدشے کے برملا اظہار کے بعد بھی کچھ حفاظتی انتظام کیا گیا؟ یا کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ عوام ہنوز لاعلم ہیں۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسمان
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
کراچی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں کردی ہے کہ میرٹ اور صلاحیت کے بجائے سفارش، رشوت اور رشتے ناتے کی بنیاد پر ہر جگہ بھرتی کیے گئے نااہل، غیر تربیت یافتہ افراد محض تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے لیے رکھے گئے لوگ کسی بھی ناگہانی آفت یا حادثے سے نمٹنے کے قابل ہو ہی نہیں سکتے ۔سانحہ تھر کے پس منظر میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ حکومت سندھ کی ایک اہم شخصیت کے کم ازکم 16 بھائی بند اہم عہدوں پر براجمان تھے جو بلاواسطہ یا بالواسطہ اس سانحے کے کچھ نہ کچھ ذمے دار تھے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ عرصے سے دہشت گردی کا شکار کراچی میں کسی بھی ہنگامی صورت حال پر بروقت قابو پانے کی کوئی پیشگی تیاری کہیں نظر نہیں آتی۔ لگتا ہے شہر کراچی کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں نہ پانی بھرا ہوا ہے نہ ان کے پاس فوم کا انتظام ہے، نہ آگ سے بچنے والے آلات و لباس ہیں حتیٰ کہ انجن میں پٹرول تک کا نہ ہونا کیا ثابت کرتا ہے؟
جب کہ ہر ادارے کے اخراجات روز بہ روز بڑھتے جا رہے ہیں اور کارکردگی صفر سے بھی کم۔ چند برس قبل بلدیہ کی فیکٹری میں جھلس کر مرنے والوں کی موت کا سبب بھی بروقت آگ پر قابو نہ پانا اور کوئی دوسرا متبادل انتظام نہ ہونا ہی تھا۔ اگر غیر جانبدارانہ اور مبنی بر انصاف تحقیقات کرائی جاتیں (جو شاید کبھی نہ ہوں) تو معلوم ہوجائے گا کہ فائر انجنوں میں ہر روز پٹرول ڈالا جاتا رہا ہے ''مگر وہ کہاں سے کدھر ہے'' یہ کوئی بتانے والا نہ ملے گا۔
ہمارے ملک میں کافی عرصے سے آگ و خون کا کھیل جاری ہے ماضی قریب میں کئی ہولناک حادثے رونما ہوچکے ہیں جن میں سے ہر ایک میں درجنوں جانیں ضایع ہوچکی ہیں مگر اب تک حفاظتی اداروں کو مناسب حد تک فعال نہیں کیا گیا، پی آئی ڈی سی کراچی کے علاوہ کئی واقعات کے بعد بھی ذمے داران اور صاحبان بست و کشاد کی سردمہری اور بے عملی کا مطلب عوام سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ایک عام شہری، ایک متاثرہ خاندان تو یہی سمجھ سکتا ہے کہ ہمارے ووٹوں سے کرسی اقتدار تک پہنچنے والے حضرات اپنے اپنے عہدوں پر اس لیے براجمان ہیں کہ وہ ملکی دفاع کو ناقابل تلافی حد تک کمزور کردیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر حالیہ حملہ تو صاف کہہ رہا ہے کہ سینہ ٹھونک کر کراچی کو پاکستانی معیشت کی شہ رگ، ستر فیصد ریونیو دینے والا شہر لاوارث ہے اس کا کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جو اس کے وارث ہیں وہ اس کو دہشت گردوں کے حوالے کرکے چین سے بیٹھ گئے ہیں۔
اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ اگر کچھ کرنا ہے تو خود کرو کوئی بڑے سے بڑا وزیر باتدبیر آپ کے لیے آپ کے بچوں کے لیے کچھ نہیں کرے گا۔ کیونکہ انھوں نے بے حسی کی چادر میں خود کو لپیٹ لیا ہے آپ چیختے رہیے چلاتے رہیے ''وہاں ایک خموشی تیری سب کے جواب میں'' وہ اپنی ذمے داریاں دوسروں پر ڈال کر سمجھتے ہیں کہ فرض ادا ہوگیا۔ عوام حیران ہیں کہ آخر کس سے گلہ کریں۔ تھر میں بھوک سے لوگ اور بچے مر گئے تو بیان آگیا کہ وہ تو بھوک سے نہیں بیماری سے مرگئے۔ اچھا تو علاج کی سہولت مہیا کرنا کس کی ذمے داری تھی؟ بچوں کے اسپتال میں بچے آکسیجن اور عملے کے نہ ہونے کے باعث مرگئے تو فرما دیا کہ وہ تو طبعی موت مرے اور صرف چار مرے، گویا سو بچے مریں تو مریں اس سے کم کا مرنا بھی کوئی مرنا ہوا۔ لفظ ہمدردی، تسلی، خیر خواہی تو جیسے ان کی لغت میں ہے ہی نہیں۔
لوگ سوچتے ہیں کہ جب اہلیت نہیں، ہمت نہیں عمل کرنے کی عادت نہیں تو ان بڑے بڑے عہدوں پر کس لیے براجمان ہیں۔ یہ عہدے کسی جوان، باہمت، باعمل، پرجوش اور نیک نیت شخص کے حوالے کردینے میں کیا حرج ہے بطور تجربہ ہی سہی۔ ایسے ایسے المناک حادثات ہوتے رہیں ادھر گردن کی اکڑ ہی میں فرق نہ آئے۔ مہذب ممالک میں اعلیٰ اور ذمے دار شخصیات عوامی مفاد کے خلاف کسی واقعے کے رونما ہونے پر ازخود اپنی ذمے داری قبول کرکے مستعفی ہوجاتی ہیں۔ مگر ہمارے یہاں کی تو ہر بات ہی نرالی ہے کیونکہ ایسے واقعات مہذب ممالک میں ہوتے ہوں گے مگر ہم تو خود کو مہذب کہلانا ہی پسند نہیں کرتے۔ اس لیے عالم یہ ہے کہ سب کہہ رہے ہیں کہ بھئی! کام نہیں ہوتا تو آرام کیجیے، مگر مقتدر شخصیات ہیں کہ اپنی کرسی سے چپک کر بیٹھی ہیں نام نہاد کراچی آپریشن بھی کسی اور کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔
بھئی! کام نہیں ہوتا نہ کیجیے اوروں کو کرنے دیجیے۔ مگر یہ ہٹ دھرمی بھی کچھ راز فاش کرتی ہے اور لوگوں میں بے یقینی، بداعتمادی کی وجہ بن رہی ہے۔ حکومت سندھ کی ایک اور شخصیت نے وفاق کو برا بھلا کہہ کر اپنی ذمے داری سے چھٹکارا پالیا۔ چلیے غلطی کسی کی بھی ہو مگر یوں کاندھے جھٹکنے کا مطلب متاثرین صرف یہ لیتے ہیں کہ سب کے ضمیر مردہ ہوچکے ہیں، انسانیت ختم ہوچکی ہے اور غیرت منہ چھپائے پھر رہی ہے۔ ورنہ عوام کا اگر احساس ہوتا تو اتنے نازک حالات میں دہشت گردی کو لگام نہ دینا بلکہ کم ازکم اس سے بروقت مناسب طور پر نمٹنے کی تیاریاں تو ہنگامی بنیادوں پر کی جانی چاہیے تھیں۔
نہ کہ صرف آگ پر قابو پانے کے بھی مناسب انتظامات نہ ہوسکیں اگر ایئرپورٹس کا تحفظ وفاق کی ذمے داری ہے تو کیا فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں پانی، فوم، آگ سے بچاؤ کے آلات و لباس مہیا کرنا بلکہ انجن میں پٹرول ڈلوانا بھی کیا وفاق کی ذمے داری ہے؟ وفاقی وزیر داخلہ کا یہ کہنا کہ ''کیا کراچی ایئرپورٹ بھارت میں ہے جو حکومت سندھ کی کوئی ذمے داری نہیں بنتی'' بھی اپنی جگہ درست ہے۔ حالات تشویشناک ہوں ہر روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہوں تو بجائے تمام اداروں کو چوکس رکھنے کے کسی بھی صورتحال کا مردانہ وار سامنا کرنے کے بجائے انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود فارغ ہوجانا کہاں کا انصاف اور کہاں کی انسانیت ہے؟
جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا اور بقول شخصے مٹی پاؤ اب سانپ نکلنے کے بعد لکیر پیٹنے کا فائدہ۔ مگر قومی اسمبلی کا اسپیکر خود کہہ رہا ہے کہ پارلیمنٹ بالکل غیر محفوظ ہے۔ پچھلے دنوں صرف ایک شخص نے دو ہتھیاروں کے زور پر پورے اسلام آباد کو کئی گھنٹے یرغمال بنائے رکھا۔ گزشتہ ماہ سکھ برادری کا اچانک پارلیمنٹ ہاؤس پر دھاوا بول دینا اسپیکر کے بیان کی صداقت کو واضح کر رہے ہیں اور یہ بھی کہ اگر خدانخواستہ پارلیمنٹ کو گھیر لیا گیا تو کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ اس خدشے کے برملا اظہار کے بعد بھی کچھ حفاظتی انتظام کیا گیا؟ یا کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ عوام ہنوز لاعلم ہیں۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسمان
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا