جوابدہی کا نظام اور معاشی ترقی
ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے آپ کو آئین اور قانون سے ماوراء رکھ کر ریاست اور اس کے نظام کو چلا سکیں
وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت گزشتہ روز اسلام آباد میں ملکی سطح پر صنعتی شعبے کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اجلاس کے دوران وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ صنعتی شعبے کو درپیش مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے۔
وزیراعظم نے درست کہا ہے کیونکہ مقامی صنعت اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اس کی پیداواری لاگت کم ہو۔ پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے سستی توانائی بنیادی کام ہے۔ اگر بجلی، گیس کی مختلف اقسام، کوئلہ، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے نرخ کم ہوں گے تو مینوفیکچررز کی پیداواری لاگت بھی کم ہو گی اور تیار مال کی نقل وحمل پر خرچہ بھی کم آئے گا۔
یوں یہ پراڈکٹ جب ریٹیل اسٹور تک پہنچے گی تو اس کی قیمت مسابقتی اصول کے مطابق کنزیومر کے لیے قابل قبول ہو گی۔ برآمدات بھی اسی طریقے سے بڑھ سکتی ہیں۔ اگر صنعتیں چلیں گی تو لامحالہ ٹیکسز کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔ مقامی صنعت کی ترقی کے لیے انرجی کی قیمت کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس اجلاس میں وزیراعظم نے برآمدی شعبے کی صنعتوں کے لیے ٹیرف ریشنالائیزیشن کے حوالے سے حکمت عملی فی الفور تیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس کے لیے صنعتی شعبے کے اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے۔ میڈیا کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ برآمدی شعبے کی صنعتوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے متوازن ٹیکس رجیم کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
برآمدی اشیاء تیار کرنے والی صنعتوں کے لیے ٹیکسز کی شرح کو مسابقتی اصولوں کے مطابق بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی طرح درآمدات کے شعبے پر بھی ٹیکسز کو مسابقتی اصولوں پر استوار ہونا چاہیے۔ اندھادھند درآمدات مقامی صنعتوں کے لیے ہی مسائل کا باعث نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے طبقے کو امیر سے امیر بنانے کا کاروبار ہے جو ملک سے ڈالر بیرون ملک بھیجتا ہے۔ اس لیے اس شعبے میں تعمیری اصلاحات لانا انتہائی ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز خاصا مصروف دن گزارا ہے۔ انھوں نے صنعتی شعبوں کے مسائل پر اجلاس کی صدارت کی، گزشتہ روز ہی وزیراعظم کے ساتھ پاکستان و افغانستان میں کاروبار کرنے والی عالمی مشروبات ساز کمپنیوں کے اہم حکام نے ملاقات کی۔ وفد نے وزیراعظم پاکستان کو آگاہ کیا کہ بین الاقوامی مشروبات سازکمپنیوں کے پاکستان میں25 کے قریب کارخانے ہیں جن میں1 لاکھ 30 ہزار لوگوں کو براہ راست روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے متعلقہ حکام کو ان عالمی کمپنیوںکی تجاویز پر مشاورت کے بعد ان کے مسائل کا حل جلد پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ ادھر وزیراعظم سے عوامی جمہوریہ چین کی ایک معروف کمپنی کے چیئرمین کی قیادت میں ایک وفد نے بھی ملاقات کی۔ میڈیا کی خبر کے مطابق چینی کمپنی پاکستان میں معدنیات و کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کمپنی کے وفد نے وزیراعظم سے اپنی اس دلچسپی کا اظہارکیا ہے۔
پاکستانی معیشت کے حوالے سے مثبت خبریں آ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو عالمی سطح پر بھی قبولیت مل رہی ہے۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے خاصے مواقع موجود ہیں۔ عالمی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں کاروبار کرنا خاصا منافع بخش ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو بھی ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنا لازم ہیں۔ کاروباری قوانین بناتے ہوئے ریشنلزم کو سامنے رکھنا لازمی ہے۔ کاروبار شروع کرنے اور اسے چلانے کے لیے قوانین بناتے ہوئے، حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
بے جا قسم کی قانونی رکاوٹیں دور کی جانی چاہئیں، کاروبار کو اسٹریم لائن کرنے کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی افسرشاہی کی جوابدہی کا سسٹم بنانا اور قوانین وضع کرنا ضروری ہے۔ اگر سرکاری مشینری کا قبلہ درست ہو، افسروں کی جوابدہی کا نظام وہی ہو جو پاکستان کے آئینی اور قانونی شہری کے لیے ہے، تو کوئی تجاوزات قائم کرے گا، نہ سڑکوں اور شاہراہوں پر ریڑھیاں لگا کر ٹریفک کے مسائل پیدا کرے گا، نہ فٹ پاتھ بند ہوں گے، نہ بازاروں میں تھڑے نظر آئیں گے اور نہ ہی گرین بیلٹس اور گراؤنڈز کا ستیاناس ہو گا۔
جب شہری یا کاروباری طبقہ ناجائز اور جائز تجاوزات قائم کر لیتا ہے، اور اس قبضے کو برسوں گزر جاتے ہیں، تب سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکار نقشے اٹھا کر انھیں گرانے پہنچ جاتے ہیں، تو یہ ناانصافی ہو گی۔ اگر سرکاری محکموں کی افسرشاہی اور ماتحتوں کو پتہ ہو کہ اگر انھوں نے اپنے فرائض میں غفلت کا مظاہرہ کیا، رشوت لی یا سستی دکھائی تو ان کے خلاف کوئی شہری بھی تھانے میں درخواست دے کر ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے تو سرکاری عملہ سارا سال متحرک رہے گا۔ نہ کوئی ناجائز عمارت بن سکے گی، نہ کوئی شاہراہوں کو بند کر سکے گا اور نہ تاجر مقررہ اوقاتِ کار کی خلاف ورزی کر سکے گا۔
پاکستان پر اس وقت قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ افسرشاہی اور اعلیٰ ترین عہدوں کا جوابدہی سے ماوراء ہونا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر طاقتور ادارے نے جوابدہی کے لیے خود ہی اپنا نظام بنا رکھا ہے۔ اب تو ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی خود کو جوابدہی سے ماوراء کر لیا ہے۔ اب ایسی صورت میں دیکھا جائے تو قانون صرف پاکستان کے شہریوں پر لاگو ہوتا ہے۔ جب تک اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار کو بھی تھانے کی سطح تک جوابدہ نہیں بنایا جائے گا، وہ اسی قانونی پراسیجر سے نہیں گزرے گا جو ہر شہری کے لیے لاگو ہے، تو اس وقت تک ملک معاشی ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی علمی ترقی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اگلے سال جون تک روپیہ 18 فیصد تک قدر کھو سکتا ہے لہٰذا پاکستانی حکومت روپے کی اگلے سال کی قدر کی بنیاد پر بجلی ٹیرف مقرر کرے، میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ آئی ایم ایف نے سالانہ پاور ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے لیے بجلی کے استعمال کے غلط مفروضوں پر بھی سوال اٹھایا، جن کی وجہ سے بجلی بلوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم 23 مئی تک اسلام آباد میں موجود رہے گی۔
خبر میں ذرایع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انرجی سیکٹر کا گردشی قرض 2.450 ہزار ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ ہدف 2.310 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے اسٹینڈبائی معاہدہ کے دوران معاشی استحکام کے لیے مضبوط پالیسی اقدامات کیے ہیں، نئے پروگرام کے لیے بات چیت کاسلسلہ جاری ہے۔
واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران آئی ایم ایف کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر جولی کوزیک نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کی 29 تاریخ کوآئی ایم ایف کے ایگزیکٹوبورڈ نے پاکستان کے دوسرے اورحتمی جائزہ کی منظوری دی جس کے بعد پاکستان کو1.1ارب ڈالرکی قسط جاری ہوئی، اسٹینڈ بائی معاہدہ کے تحت پاکستانی حکومت نے معاشی استحکام کے لیے مضبوط پالیسی اقدامات کیے جس سے معیشت کومستحکم بنانے میں مددملی۔
انھوں نے کہاکہ اس وقت نتھن پورٹرکی قیادت میں آئی ایم ایف مشن نئے پروگرام کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کررہاہے، مشن کی واپسی پر پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کاجائزہ اور اسی کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے البتہ ڈائریکٹر کمیونیکیشن جیولی کوزیک نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ممکنہ اسٹاف لیول معاہدے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط اور مشوروں کے مطابق اصلاحات لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ پاکستان کی مالی پوزیشن سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت ملک کو مالی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بگاڑے نہیں جا سکتے لیکن پاکستان کے طاقتور اسٹیک ہولڈرز، کاروباری اسٹیک ہولڈرز اور پاپولر سیاسی قیادت روایتی پالیسیاں برقرار رکھنے پر بضد رہی تو پاکستان کے مالی اور اقتصادی مسائل حل ہونے کے بجائے ناقابل حل کے پوائنٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے آپ کو آئین اور قانون سے ماوراء رکھ کر ریاست اور اس کے نظام کو چلا سکیں۔ آئین اور قانون میں اگر ریاست کے کے تمام قانونی شہریوں کے لیے جزا اور سزا کا نظام وضع کیا گیا ہے تو محض کسی عہدے یا آفس کو اس نظام سے الگ کر کے ان کے لیے دوسرا نظام وضع کرنا یا انھیں استثنیٰ دینا، آئین کے اصل مقصد وغایت کے خلاف ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اجلاس کے دوران وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ صنعتی ترقی اور برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتوں کو کم لاگت پر بجلی و گیس کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ انھوں نے ہدایت کی کہ صنعتی شعبے کو درپیش مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر حل تلاش کیا جائے۔
وزیراعظم نے درست کہا ہے کیونکہ مقامی صنعت اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اس کی پیداواری لاگت کم ہو۔ پیداواری لاگت کم کرنے کے لیے سستی توانائی بنیادی کام ہے۔ اگر بجلی، گیس کی مختلف اقسام، کوئلہ، پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے نرخ کم ہوں گے تو مینوفیکچررز کی پیداواری لاگت بھی کم ہو گی اور تیار مال کی نقل وحمل پر خرچہ بھی کم آئے گا۔
یوں یہ پراڈکٹ جب ریٹیل اسٹور تک پہنچے گی تو اس کی قیمت مسابقتی اصول کے مطابق کنزیومر کے لیے قابل قبول ہو گی۔ برآمدات بھی اسی طریقے سے بڑھ سکتی ہیں۔ اگر صنعتیں چلیں گی تو لامحالہ ٹیکسز کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔ مقامی صنعت کی ترقی کے لیے انرجی کی قیمت کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اس اجلاس میں وزیراعظم نے برآمدی شعبے کی صنعتوں کے لیے ٹیرف ریشنالائیزیشن کے حوالے سے حکمت عملی فی الفور تیار کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ اس کے لیے صنعتی شعبے کے اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے۔ میڈیا کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ برآمدی شعبے کی صنعتوں کو سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے حوالے سے متوازن ٹیکس رجیم کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
برآمدی اشیاء تیار کرنے والی صنعتوں کے لیے ٹیکسز کی شرح کو مسابقتی اصولوں کے مطابق بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اسی طرح درآمدات کے شعبے پر بھی ٹیکسز کو مسابقتی اصولوں پر استوار ہونا چاہیے۔ اندھادھند درآمدات مقامی صنعتوں کے لیے ہی مسائل کا باعث نہیں ہیں بلکہ ایک ایسے طبقے کو امیر سے امیر بنانے کا کاروبار ہے جو ملک سے ڈالر بیرون ملک بھیجتا ہے۔ اس لیے اس شعبے میں تعمیری اصلاحات لانا انتہائی ضروری ہے۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف نے گزشتہ روز خاصا مصروف دن گزارا ہے۔ انھوں نے صنعتی شعبوں کے مسائل پر اجلاس کی صدارت کی، گزشتہ روز ہی وزیراعظم کے ساتھ پاکستان و افغانستان میں کاروبار کرنے والی عالمی مشروبات ساز کمپنیوں کے اہم حکام نے ملاقات کی۔ وفد نے وزیراعظم پاکستان کو آگاہ کیا کہ بین الاقوامی مشروبات سازکمپنیوں کے پاکستان میں25 کے قریب کارخانے ہیں جن میں1 لاکھ 30 ہزار لوگوں کو براہ راست روزگار فراہم کیا جاتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کی کاروبار دوست پالیسیوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے متعلقہ حکام کو ان عالمی کمپنیوںکی تجاویز پر مشاورت کے بعد ان کے مسائل کا حل جلد پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ ادھر وزیراعظم سے عوامی جمہوریہ چین کی ایک معروف کمپنی کے چیئرمین کی قیادت میں ایک وفد نے بھی ملاقات کی۔ میڈیا کی خبر کے مطابق چینی کمپنی پاکستان میں معدنیات و کان کنی کے شعبے میں سرمایہ کاری بڑھانے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے اور اس کمپنی کے وفد نے وزیراعظم سے اپنی اس دلچسپی کا اظہارکیا ہے۔
پاکستانی معیشت کے حوالے سے مثبت خبریں آ رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو عالمی سطح پر بھی قبولیت مل رہی ہے۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے خاصے مواقع موجود ہیں۔ عالمی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں کاروبار کرنا خاصا منافع بخش ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو بھی ایک سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات کرنا لازم ہیں۔ کاروباری قوانین بناتے ہوئے ریشنلزم کو سامنے رکھنا لازمی ہے۔ کاروبار شروع کرنے اور اسے چلانے کے لیے قوانین بناتے ہوئے، حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
بے جا قسم کی قانونی رکاوٹیں دور کی جانی چاہئیں، کاروبار کو اسٹریم لائن کرنے کے لیے وفاقی، صوبائی اور ضلعی حکومتوں کی افسرشاہی کی جوابدہی کا سسٹم بنانا اور قوانین وضع کرنا ضروری ہے۔ اگر سرکاری مشینری کا قبلہ درست ہو، افسروں کی جوابدہی کا نظام وہی ہو جو پاکستان کے آئینی اور قانونی شہری کے لیے ہے، تو کوئی تجاوزات قائم کرے گا، نہ سڑکوں اور شاہراہوں پر ریڑھیاں لگا کر ٹریفک کے مسائل پیدا کرے گا، نہ فٹ پاتھ بند ہوں گے، نہ بازاروں میں تھڑے نظر آئیں گے اور نہ ہی گرین بیلٹس اور گراؤنڈز کا ستیاناس ہو گا۔
جب شہری یا کاروباری طبقہ ناجائز اور جائز تجاوزات قائم کر لیتا ہے، اور اس قبضے کو برسوں گزر جاتے ہیں، تب سرکاری محکموں کے افسران اور اہلکار نقشے اٹھا کر انھیں گرانے پہنچ جاتے ہیں، تو یہ ناانصافی ہو گی۔ اگر سرکاری محکموں کی افسرشاہی اور ماتحتوں کو پتہ ہو کہ اگر انھوں نے اپنے فرائض میں غفلت کا مظاہرہ کیا، رشوت لی یا سستی دکھائی تو ان کے خلاف کوئی شہری بھی تھانے میں درخواست دے کر ایف آئی آر درج کروا سکتا ہے تو سرکاری عملہ سارا سال متحرک رہے گا۔ نہ کوئی ناجائز عمارت بن سکے گی، نہ کوئی شاہراہوں کو بند کر سکے گا اور نہ تاجر مقررہ اوقاتِ کار کی خلاف ورزی کر سکے گا۔
پاکستان پر اس وقت قرضوں کا بوجھ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ افسرشاہی اور اعلیٰ ترین عہدوں کا جوابدہی سے ماوراء ہونا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہر طاقتور ادارے نے جوابدہی کے لیے خود ہی اپنا نظام بنا رکھا ہے۔ اب تو ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی خود کو جوابدہی سے ماوراء کر لیا ہے۔ اب ایسی صورت میں دیکھا جائے تو قانون صرف پاکستان کے شہریوں پر لاگو ہوتا ہے۔ جب تک اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار کو بھی تھانے کی سطح تک جوابدہ نہیں بنایا جائے گا، وہ اسی قانونی پراسیجر سے نہیں گزرے گا جو ہر شہری کے لیے لاگو ہے، تو اس وقت تک ملک معاشی ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی علمی ترقی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ اگلے سال جون تک روپیہ 18 فیصد تک قدر کھو سکتا ہے لہٰذا پاکستانی حکومت روپے کی اگلے سال کی قدر کی بنیاد پر بجلی ٹیرف مقرر کرے، میڈیا نے ذرایع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ آئی ایم ایف نے سالانہ پاور ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے لیے بجلی کے استعمال کے غلط مفروضوں پر بھی سوال اٹھایا، جن کی وجہ سے بجلی بلوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ آئی ایم ایف کی ٹیم 23 مئی تک اسلام آباد میں موجود رہے گی۔
خبر میں ذرایع کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انرجی سیکٹر کا گردشی قرض 2.450 ہزار ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے، جب کہ ہدف 2.310 ہزار ارب روپے مقرر کیا گیا تھا۔ ادھر ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ پاکستان نے اسٹینڈبائی معاہدہ کے دوران معاشی استحکام کے لیے مضبوط پالیسی اقدامات کیے ہیں، نئے پروگرام کے لیے بات چیت کاسلسلہ جاری ہے۔
واشنگٹن میں پریس بریفنگ کے دوران آئی ایم ایف کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر جولی کوزیک نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ کی 29 تاریخ کوآئی ایم ایف کے ایگزیکٹوبورڈ نے پاکستان کے دوسرے اورحتمی جائزہ کی منظوری دی جس کے بعد پاکستان کو1.1ارب ڈالرکی قسط جاری ہوئی، اسٹینڈ بائی معاہدہ کے تحت پاکستانی حکومت نے معاشی استحکام کے لیے مضبوط پالیسی اقدامات کیے جس سے معیشت کومستحکم بنانے میں مددملی۔
انھوں نے کہاکہ اس وقت نتھن پورٹرکی قیادت میں آئی ایم ایف مشن نئے پروگرام کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کررہاہے، مشن کی واپسی پر پاکستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کاجائزہ اور اسی کے مطابق فیصلے کیے جائیں گے البتہ ڈائریکٹر کمیونیکیشن جیولی کوزیک نے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ممکنہ اسٹاف لیول معاہدے سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔
پاکستان کی حکومت آئی ایم ایف کی شرائط اور مشوروں کے مطابق اصلاحات لانے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ پاکستان کی مالی پوزیشن سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس وقت ملک کو مالی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات بگاڑے نہیں جا سکتے لیکن پاکستان کے طاقتور اسٹیک ہولڈرز، کاروباری اسٹیک ہولڈرز اور پاپولر سیاسی قیادت روایتی پالیسیاں برقرار رکھنے پر بضد رہی تو پاکستان کے مالی اور اقتصادی مسائل حل ہونے کے بجائے ناقابل حل کے پوائنٹ تک پہنچ سکتے ہیں۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے آپ کو آئین اور قانون سے ماوراء رکھ کر ریاست اور اس کے نظام کو چلا سکیں۔ آئین اور قانون میں اگر ریاست کے کے تمام قانونی شہریوں کے لیے جزا اور سزا کا نظام وضع کیا گیا ہے تو محض کسی عہدے یا آفس کو اس نظام سے الگ کر کے ان کے لیے دوسرا نظام وضع کرنا یا انھیں استثنیٰ دینا، آئین کے اصل مقصد وغایت کے خلاف ہے۔