قرض کا چسکا
فی زمانہ پاکستانی قوم کی عادت قرضہ مانگنے کی ہوگئی ہے، بڑوں سے لے کر بچے تک اس مرض میں مبتلا ہیں
گڑے مردے اکھاڑنے سے اگر پاکستان کی حالت میں بہتری آ سکتی ہے تو یقیناً ایک مثبت قدم ثابت ہوگا لیکن گڑے مردے اکھاڑنے کے ساتھ عام طور پر افسوس ناک صیغہ ہی دیکھا ہے تو اس کو رہنے ہی دیں کہ اب کیا ہو سکتا ہے جو کرنا تھا جو ہونا تھا ہو چکا اور جو گڑے مردوں کے ساتھ ہو رہا ہوگا وہ بھی ہم سے مخفی ہے کہ اس حساب کتاب کا علم صرف ایک ذات باری کو ہے۔
قوموں کی مختلف عادات ہوتی ہیں، جس کے حوالے سے وہ جانے پہچانے جاتے ہیں، فی زمانہ پاکستانی قوم کی عادت قرضہ مانگنے کی ہوگئی ہے، بڑوں سے لے کر بچے تک اس مرض میں مبتلا ہیں۔
ایک سے قرضہ لے کر کام چلاتے ہیں اور تقاضا کرنے پر دوسرے سے قرضہ لے کر پہلے کو چکاتے ہیں، دوسرے کا قرضہ ذرا زیادہ لیتے ہیں تاکہ قرضے کے اثر کو خود بھی تو انجوائے کریں۔ اسی طرح قرضے کا سرکل چلتا رہتا ہے۔ ہماری ہی قوم کے بچے قرضے لینے اور اتارنے کے فن میں ابھی سے ماہر ہیں آگے جائیں گے کس پر۔
ہم اپنی پرانی عادتوں کو ترک نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اس کے سحر میں گرفتار ہیں، ہمیں اس نشے کا چسکا لگ چکا ہے۔ یہ بیماری رگ و پے میں اتر چکی ہے خون کی بوند بوند میں پیوست ہے اب بھلا کوئی اسے آسانی سے الگ کر سکتا ہے کیا۔
قرضے لینے کی عادت یا چسکے کا ذکر ایک بارہویں جماعت پاس بچے کی بابت سن کر حیرت ہوئی کہ اتنی سی عمر میں وہ اس سرکل کو یعنی قرضے کے سرکل کو وصولتا اور ادا کیسے کرتا ہے کیا وہ کسی قسم کے ذہنی دباؤ یا پریشانی کا شکار تو نہیں ہوتا تو بڑا حیران کن جواب ملا کہ ہرگز نہیں بلکہ ایک تبدیلی اس کے دوستوں میں ضرور آئی ہے کہ جن کو ادائیگی کر چکا ہے وہ پھر بھی اس کی نہایت اچھی اور میٹھی طبیعت کے باعث فون اٹھا لیتے ہیں لیکن وہ جن سے ابھی تک اس نے قرضہ نہیں لیا ذرا احتراز ہی برتتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے کچھ مانگ نہ لے۔
جولائی 1998 کا ایک انگریزی اخبار کا مضمون نظر سے گزرا اس کا موضوع تھا '' قرض سے چھٹکارہ کیسے ہو؟'' اس مضمون میں بہت کچھ لکھا تھا جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں اس بات کا شعور تھا اور ہے کہ ہمیں قرضہ حاصل کرنے سے کیا کچھ ملنا ہے اور کیا کچھ کھو دینا ہے لہٰذا ایسی تراکیب استعمال کی جائیں کہ جن سے ہمارا ملک اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔
یہ دلچسپ مضمون تو طویل تھا لیکن انڈونیشیا اور بیل آؤٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف نے جو شرائط نافذ کیں اس سے کیا دشواریاں سامنے آئیں وہ تنگی ترشی وہ ناداری، بے روزگاری، نشہ خوری، جرائم اور خودکشی کا بڑھتا رجحان، یہ سب برسوں پہلے کی کہانی نہیں رہی بلکہ یوں محسوس ہوا کہ جیسے چھبیس برس پہلے بھی اور اس سے پہلے بھی یا یوں کہہ لیں کہ اس سے بھی پہلے ایسا ہی چل رہا تھا۔ کبھی رفتار تیز تو کبھی ہلکی اور پھر یہ سب کچھ ہمارے اندر سرائیت کرتا گیا۔ انڈونیشیا کے ساتھ کیا ہوا، کیوں ہوا، سب محو ہو گیا تھا۔
قرضہ ہمارے اعصاب پر نشے کی صورت میں سوار ہو چکا ہے ہماری ادائیگیاں آسمان کو چھو رہی ہیں جس میں ہم پور پور ڈوب چکے ہیں اور ان سے چھٹکارہ مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ذرا قابو میں رکھیں ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ منظر بھی محو ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں انگریزیت نوابیت سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں لوٹ کر کھانے والے اب خود بھی مسائل سے بچے نہیں ہیں لیکن ان گڑے مردوں کو اکھڑنے کے بجائے وہ تمام عوامل اختیار کریں جس سے ہم بچت اور درمیانی روش اختیار کرکے نئے بکھیڑوں سے بچ سکتے ہیں۔
ہمارے ادارے نیچے سے لے کر اوپر تک جن ہاتھوں سے قومی خزانوں کو بٹور چکے ہیں، اس میں ہمارے ادارے ہی نہیں بلکہ ہر ذمے دار شخص شامل ہے کیونکہ جسے جو گھر سے باہر مفت میں ملا لوٹ لیا گیا۔ اب ڈکار لیے بغیر کچھ تو اگل ہی دیں اور اگر انھیں بسیار خوری کی وجہ سے امراض لاحق ہو ہی گئے ہیں تو اگلنے کے بجائے پرے ہو کر تماشا ہی دیکھ لینے پر اکتفا کریں۔
ہمارے عوام سے جو برسوں سے چھپانے کی کوشش کی گئی اسے سب نے دیکھ لیا ہے پہچان بھی لیا ہے لہٰذا ذمے داران اب مزید نہ پھیلیں، تنخواہیں مل رہی ہیں تو وصول کریں، شکر رب کا ادا کر کے اضافے کی جانب نہ دیکھیں اور جنھوں نے لمبی چوڑی جائیدادیں بنا رکھی ہیں ملک تو ہمارا اب چھوٹا سا ہی رہ گیا ہے کہ سب کچھ تو نوچ لیا گیا ہے بہرحال پھر بھی اگر ملک سے باہر مدر لینڈ، نیدر لینڈ جو کچھ بھی خریدے گئے ہیں بس اسے ہی بہت سمجھیں کہ اب جان لیں کہ اوپر والا بھی دیکھ رہا ہے جو آپ حضرات کر چکے ہیں اسے ان کی ڈھیل اور اپنے بندوں سے پیار ہی جان لیں کہ ایک ماں اپنے آوارہ، ناعاقبت اندیش اولاد کو بھی کلیجے سے لگا کر رکھتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ اس کا لاڈلا سدھر جائے۔
ہم عوام تھوڑے تھوڑے پیسوں میں گزارہ کرنے والے نہیں جانتے کہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ، اقتصادی پالیسیاں، ٹیکس کے نظام اور کک بیکس کے ذریعے کیا کچھ کر دیا جاتا ہے، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ سڑکوں پر گندم ٹائروں تلے روندھی گئی اور آٹا مہنگائی کے لیبل کے ساتھ اب بھی دکانوں پر سجا ہے، گھروں میں اب بھی تنگ دستی کا دور دورہ ہے، ٹرانسپورٹ کے کرائے اونچے ہیں، بازار میں مہنگائی ہوش ربا ہے، کرایہ دار کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ دودھ بچوں کی فیڈر میں پانی کے جیسا رنگ کیوں نظر آتا ہے، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جیسے غریبوں کو غریب ترین کرنے کی عالمی سازش تیار کی جا چکی ہے دنیا میں بس دو فرقے ہیں ایک امیر اور دوسرا غریب۔
ہمارے پاکستان میں تو دل کے غریبوں کی بہتات ہے کوئی ذمے دار اپنا فرض تو نبھائے، مراعات مکائیں، سادگی اپنائیں۔ اپنی دھرتی ماں سے نوچا گیا زیور جسے فروخت کرکے سارے ذمے داروں نے دنیا بھر میں ویران محل، لینڈ اور ولاز خریدے ان میں کیا کبھی غریب پاکستانیوں کی صورتیں بھوت بن کر آپ کو ڈراتی نہیں؟ آخر کب تک آپ ذمے داران ڈریں گے کیا مرنے کے بعد؟
قوموں کی مختلف عادات ہوتی ہیں، جس کے حوالے سے وہ جانے پہچانے جاتے ہیں، فی زمانہ پاکستانی قوم کی عادت قرضہ مانگنے کی ہوگئی ہے، بڑوں سے لے کر بچے تک اس مرض میں مبتلا ہیں۔
ایک سے قرضہ لے کر کام چلاتے ہیں اور تقاضا کرنے پر دوسرے سے قرضہ لے کر پہلے کو چکاتے ہیں، دوسرے کا قرضہ ذرا زیادہ لیتے ہیں تاکہ قرضے کے اثر کو خود بھی تو انجوائے کریں۔ اسی طرح قرضے کا سرکل چلتا رہتا ہے۔ ہماری ہی قوم کے بچے قرضے لینے اور اتارنے کے فن میں ابھی سے ماہر ہیں آگے جائیں گے کس پر۔
ہم اپنی پرانی عادتوں کو ترک نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اس کے سحر میں گرفتار ہیں، ہمیں اس نشے کا چسکا لگ چکا ہے۔ یہ بیماری رگ و پے میں اتر چکی ہے خون کی بوند بوند میں پیوست ہے اب بھلا کوئی اسے آسانی سے الگ کر سکتا ہے کیا۔
قرضے لینے کی عادت یا چسکے کا ذکر ایک بارہویں جماعت پاس بچے کی بابت سن کر حیرت ہوئی کہ اتنی سی عمر میں وہ اس سرکل کو یعنی قرضے کے سرکل کو وصولتا اور ادا کیسے کرتا ہے کیا وہ کسی قسم کے ذہنی دباؤ یا پریشانی کا شکار تو نہیں ہوتا تو بڑا حیران کن جواب ملا کہ ہرگز نہیں بلکہ ایک تبدیلی اس کے دوستوں میں ضرور آئی ہے کہ جن کو ادائیگی کر چکا ہے وہ پھر بھی اس کی نہایت اچھی اور میٹھی طبیعت کے باعث فون اٹھا لیتے ہیں لیکن وہ جن سے ابھی تک اس نے قرضہ نہیں لیا ذرا احتراز ہی برتتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے کچھ مانگ نہ لے۔
جولائی 1998 کا ایک انگریزی اخبار کا مضمون نظر سے گزرا اس کا موضوع تھا '' قرض سے چھٹکارہ کیسے ہو؟'' اس مضمون میں بہت کچھ لکھا تھا جسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہمارے ہاں اس بات کا شعور تھا اور ہے کہ ہمیں قرضہ حاصل کرنے سے کیا کچھ ملنا ہے اور کیا کچھ کھو دینا ہے لہٰذا ایسی تراکیب استعمال کی جائیں کہ جن سے ہمارا ملک اس مرض سے چھٹکارہ حاصل کر لے۔
یہ دلچسپ مضمون تو طویل تھا لیکن انڈونیشیا اور بیل آؤٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف نے جو شرائط نافذ کیں اس سے کیا دشواریاں سامنے آئیں وہ تنگی ترشی وہ ناداری، بے روزگاری، نشہ خوری، جرائم اور خودکشی کا بڑھتا رجحان، یہ سب برسوں پہلے کی کہانی نہیں رہی بلکہ یوں محسوس ہوا کہ جیسے چھبیس برس پہلے بھی اور اس سے پہلے بھی یا یوں کہہ لیں کہ اس سے بھی پہلے ایسا ہی چل رہا تھا۔ کبھی رفتار تیز تو کبھی ہلکی اور پھر یہ سب کچھ ہمارے اندر سرائیت کرتا گیا۔ انڈونیشیا کے ساتھ کیا ہوا، کیوں ہوا، سب محو ہو گیا تھا۔
قرضہ ہمارے اعصاب پر نشے کی صورت میں سوار ہو چکا ہے ہماری ادائیگیاں آسمان کو چھو رہی ہیں جس میں ہم پور پور ڈوب چکے ہیں اور ان سے چھٹکارہ مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر ہم اپنے نفس کو ذرا قابو میں رکھیں ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ منظر بھی محو ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ہمیں انگریزیت نوابیت سے نکلنا ہوگا۔ ہمیں لوٹ کر کھانے والے اب خود بھی مسائل سے بچے نہیں ہیں لیکن ان گڑے مردوں کو اکھڑنے کے بجائے وہ تمام عوامل اختیار کریں جس سے ہم بچت اور درمیانی روش اختیار کرکے نئے بکھیڑوں سے بچ سکتے ہیں۔
ہمارے ادارے نیچے سے لے کر اوپر تک جن ہاتھوں سے قومی خزانوں کو بٹور چکے ہیں، اس میں ہمارے ادارے ہی نہیں بلکہ ہر ذمے دار شخص شامل ہے کیونکہ جسے جو گھر سے باہر مفت میں ملا لوٹ لیا گیا۔ اب ڈکار لیے بغیر کچھ تو اگل ہی دیں اور اگر انھیں بسیار خوری کی وجہ سے امراض لاحق ہو ہی گئے ہیں تو اگلنے کے بجائے پرے ہو کر تماشا ہی دیکھ لینے پر اکتفا کریں۔
ہمارے عوام سے جو برسوں سے چھپانے کی کوشش کی گئی اسے سب نے دیکھ لیا ہے پہچان بھی لیا ہے لہٰذا ذمے داران اب مزید نہ پھیلیں، تنخواہیں مل رہی ہیں تو وصول کریں، شکر رب کا ادا کر کے اضافے کی جانب نہ دیکھیں اور جنھوں نے لمبی چوڑی جائیدادیں بنا رکھی ہیں ملک تو ہمارا اب چھوٹا سا ہی رہ گیا ہے کہ سب کچھ تو نوچ لیا گیا ہے بہرحال پھر بھی اگر ملک سے باہر مدر لینڈ، نیدر لینڈ جو کچھ بھی خریدے گئے ہیں بس اسے ہی بہت سمجھیں کہ اب جان لیں کہ اوپر والا بھی دیکھ رہا ہے جو آپ حضرات کر چکے ہیں اسے ان کی ڈھیل اور اپنے بندوں سے پیار ہی جان لیں کہ ایک ماں اپنے آوارہ، ناعاقبت اندیش اولاد کو بھی کلیجے سے لگا کر رکھتی ہے اور دعا کرتی ہے کہ اس کا لاڈلا سدھر جائے۔
ہم عوام تھوڑے تھوڑے پیسوں میں گزارہ کرنے والے نہیں جانتے کہ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ، اقتصادی پالیسیاں، ٹیکس کے نظام اور کک بیکس کے ذریعے کیا کچھ کر دیا جاتا ہے، ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ سڑکوں پر گندم ٹائروں تلے روندھی گئی اور آٹا مہنگائی کے لیبل کے ساتھ اب بھی دکانوں پر سجا ہے، گھروں میں اب بھی تنگ دستی کا دور دورہ ہے، ٹرانسپورٹ کے کرائے اونچے ہیں، بازار میں مہنگائی ہوش ربا ہے، کرایہ دار کرایہ ادا کرنے سے قاصر ہے۔ دودھ بچوں کی فیڈر میں پانی کے جیسا رنگ کیوں نظر آتا ہے، ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جیسے غریبوں کو غریب ترین کرنے کی عالمی سازش تیار کی جا چکی ہے دنیا میں بس دو فرقے ہیں ایک امیر اور دوسرا غریب۔
ہمارے پاکستان میں تو دل کے غریبوں کی بہتات ہے کوئی ذمے دار اپنا فرض تو نبھائے، مراعات مکائیں، سادگی اپنائیں۔ اپنی دھرتی ماں سے نوچا گیا زیور جسے فروخت کرکے سارے ذمے داروں نے دنیا بھر میں ویران محل، لینڈ اور ولاز خریدے ان میں کیا کبھی غریب پاکستانیوں کی صورتیں بھوت بن کر آپ کو ڈراتی نہیں؟ آخر کب تک آپ ذمے داران ڈریں گے کیا مرنے کے بعد؟