محکوم و مظلوم طبقات کا ترجمان جام ساقی…
جام ساقی کے محب وطن ہونے کی گواہی دینے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان حیدرآباد آئے
جام ساقی کون تھا، وہ وہ ایک بہادر سپوت تھا، پاکستان کا وہ ایک درد رکھنے والا بے غرض انسان تھا۔ایک بائیں بازو کے سندھ، پاکستان کے سیاست دان تھے۔
ساقی کمیو نسٹ پارٹی آف پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل تھے۔ ساقی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے باعث 15 سال جیل میں رہے۔ جیل میں قید کے دوران میں تشدد کے نتیجے میں ان کی موت واقع ہونے کی افواہ سننے کے بعد ان کی بیوی سکھاں نے خودکشی کرلی۔ 1991ء میں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
جام ساقی 31 اکتوبر 1944ء کو تھرپارکر کی تحصیل چاچھرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں جھنجھی میں پیدا ہوئے۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن یہ بچہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں اپنا نام روشن کرے گا۔ جام ساقی نے اپنی پوری زندگی محکوم و مظلوم طبقات اور قومیتوں کے حقوق کی خاطر ایک ایسی بے مثال جنگ لڑی جو تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی۔
جام ساقی 1962ء میں لوک بورڈ اسکول چھاچھرو سے میٹرک کرنے کے بعد حیدرآباد آگئے جہاں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ایئر آرٹس میں داخلہ لیا۔ اپنے استاد کے ذریعے ان کا کمیونسٹ پارٹی سے رابطہ ہوا اور ساتھی عزیز سلام بخاری سے ملاقات ہوئی۔ جلد ہی ون یونٹ کے خلاف پمفلٹ لکھا جس کی قیمت 10 پیسے تھی۔ چند ماہ بعد اس پر پابندی لگی۔1964ء میں مدیجی ہاری کانفرنس سے واپسی پر حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی۔
10 نومبر 1964ء کو طلبہ کنونشن منعقد ہوا۔ یوسف لغاری کنوینیئر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری چن لیے گئے۔انھیں نوکرمی مل گئی۔ وہ شام کے وقت یونیورسٹی یا ہوسٹل چلے جاتے تاکہ طلبہ سیاست کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ ایوب خان کے خلاف فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں پہنچ جاتے۔انھوں نے دانشور ندیم اختر، ہدایت حسین اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا انڈس ہوٹل میں پہلا کنونشن منعقد کیا۔ جام ساقی صدر، ندیم اختر سینئر نائب صدراور میر تھیپو جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
اس کے ساتھ ہی جام ساقی پر جیل کے دروازے کھل گئے۔ وہ 1966ء سے 1969ء تک ہر سال جیل گئے۔ 1985ء میں جام نے حیدرآباد جیل سے پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کیا۔3 مارچ 1968ء کو جام کی سکھاں سے شادی ہو گئی۔ سکھاں نے جام سے بہت محبت کی۔ جب 1978ء میں جام گرفتار ہوئے اور انھیں مار دیے جانے کی افواہیں پھیلیں تو سکھاں نے کنویں میں چھلانگ لگا کر اپنی جان دیدی، وہ ایک نہیں متعدد بار گرفتار ہوئے۔ ان پر جو بہیمانہ تشدد کیا گیا وہ ناقابل تصور ہے۔
قلعہ لاہور میں انھیں بہیمانہ اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس سے ان کا جسمانی اور اعصابی نظام بری طور پر متاثر ہوا۔ ڈاکٹر ہارون نے ان کا علاج کیا اور زندگی کی آخری سانس تک وہ زیر علاج رہے۔ ڈاکٹر ہارون نے ہمیشہ ان سیاسی قیدیوں کا بلاتفریق علاج کیا جنھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب جام پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔
اس وقت کا پاکستان آج کے پاکستان سے بہت مختلف تھا۔ جام ساقی کے محب وطن ہونے کی گواہی دینے ملک کے بڑے بڑے سیاستدان حیدرآباد آئے۔ ان میں بے نظیربھٹوبھی تھیں جنھوں نے حیدر آباد کورٹ میں کہا تھاکہ ''جام ساقی ایک محب وطن سیاسی رہنما ہے۔''جج کے سامنے بے نظیربیٹھی ہوئی ہیں اور جام اپنی ہتھکڑی کی زنجیر گلے میں ڈالے کھڑے ہیں اور چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ ہے۔ یہ خواب دیکھنے اورخواب دکھانے کے دن تھے۔
10 دسمبر 1978ء کو جام ساقی حیدرآباد میں اپنے دوست اقبال میمن کے گھر سے گرفتار ہوئے۔ جام ساقی رات بھر ٹارچر برداشت کرتے رہے۔ پھر انھیں لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کر دیا گیا۔ 9 دسمبر 1986ء کو جام ساقی رہا ہوئے۔ انھوں نے 1970ء اور 1988ء میں دوبارہ تھرپارکر سے سندھ اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہیں ہوئے۔
جام ساقی کی سیاسی وابستگی اور ہمدردیاں مختلف جماعتوں سے تھیں، جن میں شامل ہیں: جون 1964 سے 1991 تک کمیونسٹ پارٹی؛ پیپلز پارٹی 1968 سے؛ 1970 سے نیشنل پیپلز پارٹی (جب تک اس پارٹی پر پابندی نہیں لگائی گئی) شامل ہے۔ تاہم، سوویت یونین کے انہدام (1994) کے چند سال بعد وہ پیپلز پارٹی کے باقاعدہ رکن بن گئے اور جولائی 1994 سے نومبر 1996 تک جبری مشقت کے مسائل پر سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد اللہ شاہ کے مشیر بھی رہے۔ وہ (اپریل 2010) میں پیپلز پارٹی سندھ کونسل کے رکن اور پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے رکن رہے۔جام نے اس دنیا میں اپنی زندگی کے 73 سال گزارے۔ پانچ مارچ 2018 کو ہمیں ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے اعلیٰ آدرشوں اور مقاصد کی خاطر اپنی زندگی گزاری۔ معمولی علم رکھنے والا سندھ کا شاید ہی کوئی فرد ایسا ہوگا جو جام ساقی کے نام سے واقف نہ ہو۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کے تمام کارکن ان کے نقش قدم پر چلنے کو اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔
ہماری نئی نسل کو، جو بڑی حد تک غیرسیاسی ہوگئی ہے یا کردی گئی ہے، اسے یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں آج جس قدر بھی سیاسی اور جمہوری حقوق حاصل ہیں وہ جام ساقی جیسے بہت سے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کی بے لوث انقلابی جدوجہد کا نتیجہ ہیں۔ نوجوان سیاسی کارکن جام ساقی جیسے سیاسی کارکنوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چند دہائیوںپہلے کا سیاسی کارکن زبردست سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ اس نے ادب، شاعری اور فلسفے کے بنیادی اصول پڑھ رکھے تھے یا اگر وہ ناخواندہ تھا تو اسٹڈی سرکل میں بیٹھ کر بنیادی علم حاصل کرلیتا تھا۔
اس دور کا سیاسی کارکن بحث اور مباحثے کے دوران بدکلامی نہیں کرتا تھا، بدترین نظریاتی مخالفین بھی ایک دوسرے سے تہذیب کے دائرے میں رہ کر گفتگو کرتے تھے۔ آج کے پاکستان میںایک روادار اور مہذب سیاسی کلچر کا شدید فقدان ہے۔ سیاسی عمل میں دلچسپی رکھنے والی ہماری نئی نسل جام ساقی سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔
جام ساقی کی 7 کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں: کہوری کجن(ناول: 1972)، سندھ جی اسٹوڈنٹ موومنٹ(1973، جو دوسری بار 'سندھ جی اسٹوڈنٹ اسٹرگل' کے نام سے بھی شائع ہوئی)، 'مظلوم قوموں کا مستقبل' (انٹرویو)، 'چکھن' جی چیت کرے' (مضمون: 1973-74)، 'ضمیر کی قید' (اردو: 1986-87)، 'ضمیر جا قیدی' (سندھی ادبی بورڈ کی طرف سے شائع) شامل ہیں۔
جام ساقی پیر 5 مارچ 2018 کو نسیم نگر حیدرآباد میں 73 سال کی عمر میں انتقال کر گئے-
جام ساقی ایک نہ تھا بلکہ ایک میں کئی تھا