یوم نکبہ فلسطینیوں کی واپسی قریب ہے
حقیقت میں فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی ہی مسئلہ فلسطین کا ایک منصفانہ حل ہے
فلسطینی عوام ہر سال سر زمین فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ وجود کے قیام کے دن کو یوم نکبہ مناتے ہیں۔
یوم نکبہ 15مئی 1948کا دن ہے، یعنی وہ دن جس دن امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی ممالک نے فلسطین میں غاصب صیہونی آبادکاروں کے لیے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کو وجود بخشا تھا۔ یہی وہ دن ہے کہ جس دن ایک ہی دن میں غاصب صیہونی آبادکاروں نے فلسطین کے پندرہ لاکھ مقامی فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کر فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کیا۔ ان فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر لبنان، شام، اردن اور مصر کے علاقوں میں چلے جائیں۔
یہی دن ہے کہ جس دن غاصب صیہونیوں نے برطانوی اسلحے اور حکومت کی مدد سے پورے فلسطین کے چھ سو سے زیادہ دیہاتوں اور قصبوں میں کھلے عام قتل عام کیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ظلم کی داستان یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی ہی دن صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطین کے علاقوں میں پینے کے پانی کے لیے جانے والی پائپ لائنوں میں زہریلے مواد شامل کیے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ ان تمام تر انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ہی فلسطینی عوام 15مئی کے دن کو یوم نکبہ کہتے ہیں۔ نکبہ دراصل نکبت عربی کے لفظ سے لیا گیا ہے کہ جس کے معنی بہت ہی بھیانک تباہی اور بربادی کے ہیں۔
موجودہ حالات میں فلسطینی عوام ایک مرتبہ پھر نکبہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ 1948ء سے آج تک گزرنے والے برسوں میں روزانہ ہی فلسطینیوں کے لیے کسی نکبہ سے کم نہیں گزرے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں ہونے والی ہولناک نسل کشی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے زخموں کو تازہ کردیا ہے اور48ء کے نکبہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان بہت طویل ہے۔ نکبہ کی حقیقت بھی انتہائی تلخ ہے، لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ فلسطینی عوام نے48ء کے بعد سے آج تک کبھی بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے مظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا ہے، بلکہ قربانی دینے کو ترجیح دی ہے۔ اپنے گھر بارکو لٹایا ہے لیکن ذلت کی زندگی کو تسلیم کرنے سے انکارکیا ہے۔ اسی جدوجہد کا تسلسل فلسطینی مزاحمت کی سات اکتوبر کو طوفان اقصیٰ کی صورت میں آنے والی ایک کوشش ہے۔
فلسطینی عوام بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کررہے ہیں، صبر اور استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بڑے مقصد کی خاطر بہت بڑی قربانی بھی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں یوم نکبہ آیا ہے ، جو ایک مرتبہ پھر جہاں48ء کے نکبہ کی یادوں کو تازہ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق واپسی کی مہم کو بھی تقویت پہنچا رہا ہے، جہاں فلسطینی عوام نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ظلم کا سامنا کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ فلسطین سے جبری نکالے جانے والے فلسطینیوں نے ہمیشہ فلسطین واپس آنے کے حق سے دستبرداری سے انکار کیا ہے۔ یعنی فلسطینی عوام ہمیشہ یوم نکبہ کو اپنے وطن واپس آنے کا دن بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی دن ان کو نکالا گیا تھا تو یہ دن ہی ان کے حق واپسی کے ساتھ ساتھ وطن واپس آنے کی علامت اور امید بھی بن چکا ہے۔
موجودہ صورتحال میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت مزاحمت کے محاذ کے سامنے آئے روز شکست پذیر ہو رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عوامی بیداری فلسطین کے حق میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا میں عوام اور اساتذہ سمیت طلباء کی بڑی تحریکیں کھڑی ہوچکی ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی آباد کار مقبوضہ فلسطین سے فرار ہو رہے ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑلیا ہے جو اندر سے ہی صیہونیوں کی ناجائزحکومت کو نابود کر نے کے لیے ایک قدم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین سے ایک نیا انقلاب شروع ہوچکا ہے جو پوری دنیا کی سرحدوں سے نکلتا ہوا پھیل رہا ہے اور یہی انقلاب ہی فلسطین کی مکمل آزادی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور اسرائیل کی نابودی ہوگی۔
فلسطینی عوام اپنے وطن واپس آنے کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے انقلابی حالات میں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وطن واپسی قریب ہے۔ آج پورے فلسطین میں فلسطینیوں کی واپسی قریب نظر آ رہی ہے۔ فلسطین سے باہر موجود فلسطینی جلا وطنوں کی آواز بھی یہی ہے کہ واپسی قریب ہے۔
حقیقت میں فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی ہی مسئلہ فلسطین کا ایک منصفانہ حل ہے تاہم دنیا بھرکی حکومتوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کو چاہیے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے بھرپورکردار ادا کریں۔
یوم نکبہ 15مئی 1948کا دن ہے، یعنی وہ دن جس دن امریکا، برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی ممالک نے فلسطین میں غاصب صیہونی آبادکاروں کے لیے اسرائیل نام کی ناجائز ریاست کو وجود بخشا تھا۔ یہی وہ دن ہے کہ جس دن ایک ہی دن میں غاصب صیہونی آبادکاروں نے فلسطین کے پندرہ لاکھ مقامی فلسطینیوں کو گھروں سے نکال کر فلسطین سے جبری طور پر جلا وطن کیا۔ ان فلسطینیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے گھر اور وطن کو چھوڑ کر لبنان، شام، اردن اور مصر کے علاقوں میں چلے جائیں۔
یہی دن ہے کہ جس دن غاصب صیہونیوں نے برطانوی اسلحے اور حکومت کی مدد سے پورے فلسطین کے چھ سو سے زیادہ دیہاتوں اور قصبوں میں کھلے عام قتل عام کیا اور ہزاروں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ ظلم کی داستان یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اسی ہی دن صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں نے فلسطین کے علاقوں میں پینے کے پانی کے لیے جانے والی پائپ لائنوں میں زہریلے مواد شامل کیے اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی۔ ان تمام تر انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ہی فلسطینی عوام 15مئی کے دن کو یوم نکبہ کہتے ہیں۔ نکبہ دراصل نکبت عربی کے لفظ سے لیا گیا ہے کہ جس کے معنی بہت ہی بھیانک تباہی اور بربادی کے ہیں۔
موجودہ حالات میں فلسطینی عوام ایک مرتبہ پھر نکبہ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ 1948ء سے آج تک گزرنے والے برسوں میں روزانہ ہی فلسطینیوں کے لیے کسی نکبہ سے کم نہیں گزرے ہیں۔ سات اکتوبر کے بعد سے غزہ میں ہونے والی ہولناک نسل کشی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے زخموں کو تازہ کردیا ہے اور48ء کے نکبہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان بہت طویل ہے۔ نکبہ کی حقیقت بھی انتہائی تلخ ہے، لیکن یہ بات بھی حق ہے کہ فلسطینی عوام نے48ء کے بعد سے آج تک کبھی بھی غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے مظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا ہے، بلکہ قربانی دینے کو ترجیح دی ہے۔ اپنے گھر بارکو لٹایا ہے لیکن ذلت کی زندگی کو تسلیم کرنے سے انکارکیا ہے۔ اسی جدوجہد کا تسلسل فلسطینی مزاحمت کی سات اکتوبر کو طوفان اقصیٰ کی صورت میں آنے والی ایک کوشش ہے۔
فلسطینی عوام بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کررہے ہیں، صبر اور استقامت کا پہاڑ بنے ہوئے ہیں۔ ایک بڑے مقصد کی خاطر بہت بڑی قربانی بھی دے رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں یوم نکبہ آیا ہے ، جو ایک مرتبہ پھر جہاں48ء کے نکبہ کی یادوں کو تازہ کر رہا ہے وہاں ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حق واپسی کی مہم کو بھی تقویت پہنچا رہا ہے، جہاں فلسطینی عوام نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ظلم کا سامنا کیا ہے وہاں ساتھ ساتھ فلسطین سے جبری نکالے جانے والے فلسطینیوں نے ہمیشہ فلسطین واپس آنے کے حق سے دستبرداری سے انکار کیا ہے۔ یعنی فلسطینی عوام ہمیشہ یوم نکبہ کو اپنے وطن واپس آنے کا دن بھی قرار دیتے ہیں کیونکہ اسی دن ان کو نکالا گیا تھا تو یہ دن ہی ان کے حق واپسی کے ساتھ ساتھ وطن واپس آنے کی علامت اور امید بھی بن چکا ہے۔
موجودہ صورتحال میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت مزاحمت کے محاذ کے سامنے آئے روز شکست پذیر ہو رہی ہے وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں عوامی بیداری فلسطین کے حق میں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ مغربی دنیا میں عوام اور اساتذہ سمیت طلباء کی بڑی تحریکیں کھڑی ہوچکی ہیں جو فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھا رہی ہیں۔ غاصب صیہونی آباد کار مقبوضہ فلسطین سے فرار ہو رہے ہیں۔
غاصب صیہونی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں نے زور پکڑلیا ہے جو اندر سے ہی صیہونیوں کی ناجائزحکومت کو نابود کر نے کے لیے ایک قدم ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ فلسطین سے ایک نیا انقلاب شروع ہوچکا ہے جو پوری دنیا کی سرحدوں سے نکلتا ہوا پھیل رہا ہے اور یہی انقلاب ہی فلسطین کی مکمل آزادی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگا اور اسرائیل کی نابودی ہوگی۔
فلسطینی عوام اپنے وطن واپس آنے کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بدلتے ہوئے انقلابی حالات میں فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وطن واپسی قریب ہے۔ آج پورے فلسطین میں فلسطینیوں کی واپسی قریب نظر آ رہی ہے۔ فلسطین سے باہر موجود فلسطینی جلا وطنوں کی آواز بھی یہی ہے کہ واپسی قریب ہے۔
حقیقت میں فلسطینیوں کی اپنے وطن فلسطین واپسی ہی مسئلہ فلسطین کا ایک منصفانہ حل ہے تاہم دنیا بھرکی حکومتوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں کو چاہیے کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے بھرپورکردار ادا کریں۔