وزیراعظم کو آئی ایم ایف کا 18 ہزار ارب کا مجوزہ بجٹ پیش
آئندہ بجٹ کا حجم رواں سال کے بجٹ سے 24 فیصد زیادہ
وزارت خزانہ نے وزیر اعظم شہباز شریف کو آئی ایم ایف کا تجویز کردہ نئے بجٹ کا مسودہ پیش کر دیا ہے جس میں بجٹ کا حجم 18 ہزار ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جو سود ادائیگی کیلیے ریکارڈ 9 ہزار 700 ارب روپے مختص کرنے کی وجہ سے اس سال کے مقابلے میں ایک چوتھائی زیادہ ہے۔
سود ادائیگی کی کل رقم، ایف بی آر ٹیکس وصولی اور بجٹ سرپلس اہداف پر عدم اتفاق کی وجہ سے بجٹ کے اعدادو شمار فی الوقت عبوری نوعیت کے ہیں، اخراجات کو متوازن کرنے کی کوششوں کے طور پر وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت کو 8 سے 10 وفاقی وزارتیں بھی ختم کرنا پڑ سکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق باضابطہ اعلان وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بجٹ تقریر کے دوران متوقع ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ایف بی آر کیلیے مجوزہ 12 ہزار 400 ارب روپے ٹیکس وصولی کے ہدف کو مزید بڑھانے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کیلیے مجوزہ 1 ہزار ارب روپے کی مختص رقم میں مزید اضافے پر بھی زور دیا۔
وزارت خزانہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری بات چیت کی وجہ سے بجٹ کا حجم، بنیادی بجٹ سرپلس کا ہدف اور سود ادائیگیوں کیلیے مختص رقم تاحال غیر حتمی ہے.
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کی بنیاد پر اگلے سال کے بجٹ کا حجم 18 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہو سکتا ہے جو اس سال کے اصل بجٹ کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، بجٹ کے حجم میں بڑے پیمانے پر اضافہ معاشی زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا، سود ادائیگی کیلیے 9 ہزار 700 ارب روپے مختص کرنے کے آئی ایم ایف کے اصرار کی وجہ سے وزارت خزانہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
آئی ایم ایف سود ادائیگی کیلیے 9 ہزار 700 ارب روپے مختص کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ یہ رواں سال کے بجٹ سے 33 فیصد زائد ہے، ذرائع نے مزید بتایا کہ وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال میں سود ادائیگی کا تخمینہ 8 ہزار 800 ارب روپے سے 9 ہزار ارب روپے لگایا ہے، سود ادائیگی کیلئے زیادہ بجٹ مختص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو شرح سود میں کوئی بڑی کمی نظر نہیں آرہی ہے جو تاریخی طور پر 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے جس سے معاشی ترقی کا دم گھٹ رہا ہے۔
وزارت دفاع نے دفاعی اخراجات کیلیے 2.25 ٹریلین روپے مانگے ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ نے 2.1 ٹریلین روپے دینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ رواں مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہوگا۔ وزیر اعظم کے 4 سے 7 جون تک دورہ چین کے باعث قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی تاریخ بھی حتمی طور پر طے نہیں ہو سکی۔
سود ادائیگی کی کل رقم، ایف بی آر ٹیکس وصولی اور بجٹ سرپلس اہداف پر عدم اتفاق کی وجہ سے بجٹ کے اعدادو شمار فی الوقت عبوری نوعیت کے ہیں، اخراجات کو متوازن کرنے کی کوششوں کے طور پر وزیر اعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ حکومت کو 8 سے 10 وفاقی وزارتیں بھی ختم کرنا پڑ سکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق باضابطہ اعلان وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی بجٹ تقریر کے دوران متوقع ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ایف بی آر کیلیے مجوزہ 12 ہزار 400 ارب روپے ٹیکس وصولی کے ہدف کو مزید بڑھانے کا کہا ہے۔ وزیر اعظم نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کیلیے مجوزہ 1 ہزار ارب روپے کی مختص رقم میں مزید اضافے پر بھی زور دیا۔
وزارت خزانہ نے وزیراعظم کو بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری بات چیت کی وجہ سے بجٹ کا حجم، بنیادی بجٹ سرپلس کا ہدف اور سود ادائیگیوں کیلیے مختص رقم تاحال غیر حتمی ہے.
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے بات چیت کی بنیاد پر اگلے سال کے بجٹ کا حجم 18 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ ہو سکتا ہے جو اس سال کے اصل بجٹ کے مقابلے میں 24 فیصد زیادہ ہے، بجٹ کے حجم میں بڑے پیمانے پر اضافہ معاشی زمینی حقائق کی عکاسی نہیں کرتا، سود ادائیگی کیلیے 9 ہزار 700 ارب روپے مختص کرنے کے آئی ایم ایف کے اصرار کی وجہ سے وزارت خزانہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
آئی ایم ایف سود ادائیگی کیلیے 9 ہزار 700 ارب روپے مختص کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ یہ رواں سال کے بجٹ سے 33 فیصد زائد ہے، ذرائع نے مزید بتایا کہ وزارت خزانہ نے آئندہ مالی سال میں سود ادائیگی کا تخمینہ 8 ہزار 800 ارب روپے سے 9 ہزار ارب روپے لگایا ہے، سود ادائیگی کیلئے زیادہ بجٹ مختص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف کو شرح سود میں کوئی بڑی کمی نظر نہیں آرہی ہے جو تاریخی طور پر 22 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے جس سے معاشی ترقی کا دم گھٹ رہا ہے۔
وزارت دفاع نے دفاعی اخراجات کیلیے 2.25 ٹریلین روپے مانگے ہیں لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ نے 2.1 ٹریلین روپے دینے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ رواں مالی سال کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہوگا۔ وزیر اعظم کے 4 سے 7 جون تک دورہ چین کے باعث قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کی تاریخ بھی حتمی طور پر طے نہیں ہو سکی۔