زباں فہمی نمبر207 ’ نُوراللغات کی سیر‘ حصہ سِومآخر
کہاں ہیں وہ لوگ جو اُردوکی تنگ دامنی کا بلاوجہ،جھوٹا پرچار کرتے ہیں
نوراللغات کے ہرصفحے پر معلومات کا ایک ان مول خزانہ قاری کا منتظر نظرآتا ہے۔پُرانے دستورکے مطابق اُنھوں نے حرف الف کے باب میں الف ممدودہ کو اَلگ نہیں کیا۔لفظ 'آ' کے ذیل میں ایسے ایسے منفرد اشعار بھی نقل کیے ہیں جو شاید کہیں اور دیکھنے کو نہ ملیں:
آ کہیں وعدہ فراموش! کہ فرصت کم ہے
دَم کوئی دَم میں قدم بوس ِ قضا ہوتا ہے
اس شعر کا حُسن یہ ہے کہ محاورے کا عمدہ استعمال ہمیں داد پر مجبور کرتا ہے۔' فُرصتِ زندگی کا کم ہونا' کس قدر سہل انداز میں نظم کیا گیا، پھر دَم یعنی سانس کا استعمال دیکھیے۔'کوئی دَم میں' (یعنی آناً فاناً، ذراسی دیر میں، تھوڑی ہی دیرمیں) کا ایسا استعمال شاید ہی کسی اور نے کہیں کیا ہواور پھر یہ "قدم بوسِ قضا" جیسی نرالی ترکیب بھی کہیں اور نہ ملے گی۔
مغفرت چاہ تو رِندانِ قدح نوش میں آ
بے پیے مَست نہ ہو شیخ! ذرا ہوش میں آ
یہاں 'چاہ' بجائے 'چاہو' استعمال ہوا ہے۔'شیخ' یا ناصح کو اَول فَول بکنے یا وعظ کہہ کر (یا وعظ کرکے)مغفرت طلب کرنے کی مذمّت کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ایسے بغیر مے نوشی کے کچھ بھی بکنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا;جو لوگ بَلا نوش ہوتے ہیں،اُن کے منھ سے جو کچھ نکلتا ہے، بالکل سچ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرواور پھر اپنے لیے دعائے مغفرت کرو۔۔اس مضمون کا دوسرا شعر میری نظر سے نہیں گزرا۔افسوس مولوی صاحب نے ان دونوں شعروں کے شاعرکا نام نہیں لکھا۔
یہ پڑھیں : زباں فہمی نمبر205؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ اوّل)
لفظ 'آب' یعنی پانی کے ماخذ کا ہمیں یہی پتا تھا کہ فارسی ہے، مگر صاحبِ نوراللغات نے بتایا کہ اصل ماخذ سَنسکِرِت ہے، گویا سنسکرت سے پہلوی میں گیااور پھر فارسی میں شامل ہوگیا،کیونکہ پہلوی سنسکرت کی بہن تھی۔دونوں ہی زبانیں مُردہ قرارپائیں، مگر فرق یہ ہے کہ بھارت میں سنسکرت کی تعلیم کو خوب ترقی دی گئی اور آج اس زبان میں پی ایچ ڈی بھی کیا جارہا ہے،جبکہ پہلوی جاننے والے پوری دنیا میں خال خال ہی ملتے ہیں۔فقط اس ایک لفظ 'آب' کے لیے صاحبِ لغات نے تقریباً آٹھ صفحات مختص کیے ہیں۔
"آبرو" کے باب میں معانی بیان کرتے ہوئے داغ ؔ دہلوی کا ایک منفرد شعر بھی نقل کیا گیا ہے:
حسرت جس آرزو کی سلیمان (علیہ السلام) کو رہی
یثرِ ب میں ہے وہ مرتبہ مُورِ ضعیف کا
شاعر یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان کو برگزیدہ پیغمبر ہونے کے باوجود، یہ حسرت ہی رہی کہ نبی آخر الزما ں (ﷺ) کی صحبت کا شرف حاصل ہوتا (اُن کی ایک نعت میں کچھ ایسا مضمون بھی ہے جس میں انھوں نے حضور اکرم (ﷺ) کی ہمرہی کے شرف کی خواہش ظاہر کی ہے)، مگر ایک معمولی چیونٹی کویہی شرف ملا جب وہ دربارِ مدینہ میں مقیم ہوگئی۔
نوراللغات میں "آبرو" کا باب تقریباً چھے صفحات پرمشتمل ہے۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اُردوکی تنگ دامنی کا بلاوجہ،جھوٹا پرچار کرتے ہیں۔دنیا میں ایسی زبانیں کتنی ہیں جن کے ایک ایک لفظ کے معانی پر اس قدر موادبہم پہنچایاگیا ہواور وہ بھی بالتحقیق؟ اردوکاخواہ مخواہ اور بے بنیاد موازنہ، انگریزی سے کرنے والے مجھے دنیا کی کسی بڑی سے بڑی انگریز ی لغت میں یہ خوبی دِکھادیں!انتباہ: زباں فہمی روزنامہ ایکسپریس،سنڈےمیگزین میں ہراتوارکوشایع ہوتاہےاورفقط ایک شخص ،سہیل احمد صدیقی کی تنہامحنت شاقہ کانتیجہ ہے۔۔۔نقل کرنےکےشوقین افراداورویب سائٹس مکمل حوالہ ضروردیں۔۔۔۔بصورت دیگران کےخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی.
آبنُوس نامی مشہور درخت کے تعارف میں مولوی نیرؔ نے انکشاف کیا کہ یہ لفظ عبرانی کے آبنی سے بنا ہے اور عربی وفارسی دونوں کی راہ سے اردومیں داخل ہوا۔(جدید تحقیق بتاتی ہے کہ بائبل میں مذکور، یہ لفظ hoben[hoh-BEN]تھا جو جدید تلفظ میں hoh-VENبولاجاتا ہے۔انگریزی میں Ebonyوہی ہے جو بقول مولوی صاحب کے لاطینی میں آبینس ہے ;جبکہ یہ درحقیقت اِبینُوس(ebenus) ہے۔ممکن ہے کہ مولوی نیرؔ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔ویسے لاطینی میں انگریزی ہجے والا لفظ بھی موجودہے جو اُس کی جدید شکل یعنی اِطالوی میں Ebanoکہلاتاہے۔مزید تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ 1590کی دہائی سے انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ پہلے پہل ebonتھا جس کا ماخذ چودھویں صدی کا hebenyfتھا جو شاید لاطینی لفظ hebeninusیعنی"ایبَنی کا"] [of ebony سے ماخوذ تھا۔
یہ بھی پڑھیں : زباں فہمی نمبر206؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ دُوَم)
ماقبل یہی لفظ یونانی زبان میں ébenos اوراِس سے مشتق لفظ ebeninos یعنی"ایبنی کا"تھا اور اِس کا ماخذ قدیم مصر کی زبان یعنی قِبطی [Egyptian]کا لفظ " ہِبنی" [hbny/hbnj]ہے۔ایک لسانی قیاس یہ بھی ہے کہ شاید یہ سامی الاصل لفظ[Semitic] ہو۔فرینچ میں اس کے لیے ébène بولاجاتا ہے، جبکہ جرمن میں Ebenholz اور قدیم اعلیٰ جرمن میں ebenusیعنی وہی لاطینی سے مستعار تھا۔ہِسپانوی اور پُرتگیز میں اسے ébanoکہتے ہیں۔1620کی دہائی سے اس لفظ کا استعمال،انگریزی ادبی زبان میں انتہائی سیاہ رنگت کے لیے اور پھر 1813سے بطور ِ خاص افریقی سیاہ رنگت کے لیے کیا جانے لگا۔آج بھی مختلف ویبسائٹس پر افریقی یا دیگر سیا ہ فام عورتوں کے لیے Ebonyکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
[https://www.etymonline.com/word/ebony, https://www.quotescosmos.com/bible/+various dictionaries])
دنیا کی متعدد زبانوں میں اسے Ebony کہا جاتا ہے اور آبنوس ہماری متعدد مشرقی زبانوں میں مستعمل ہے۔اس درخت کی لکڑی بہت کالی اور مضبوط ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر کسی سیاہ چیز،نیز، (مزاحاً) کسی بہت موٹے اور سیاہ فام شخص کو 'آبنوس' کہاجاتا ہے۔یہ لکڑی پانی میں ڈوب جاتی ہے اور اس سے فرنیچر،آلاتِ موسیقی، کنگھیاں، قلم دان اور سنگھار دان [Makeup box]بنائے جاتے ہیں،نیز کندہ کاری یا نقاشی کا کام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک مچھلی کا نام بھی آبنوس ہے۔
لفظ 'آپ' کے لیے نوراللغات میں دس صفحات مختص کیے گئے ہیں۔مجھے کوئی دکھادے کہ انگریزی کے Youیا thouکے باب میں اتنی تفصیل ہے، مان جاؤں گا۔اس لفظ کے ذیل میں ایک کہاوت یوں درج ہے: "آپ ڈوبے تو جَگ ڈوبا"۔تشریح میں لکھا ہے کہ "مثل: آپ تباہ ہوئے تو گویا کُل عالَم تباہ ہوا ;آپ مرگئے تو گویا تمام عالَم مرگیا۔جب اپنا ہی نقصان ہوا تو دوسرے کے فائدے سے کیا غرض"۔مزید تفہیم کے لیے حاشیے میں دو مختلف حکایات بیان کی گئی ہیں جن میں ایک مجھے قرین ِ قیاس لگتی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
"کہتے ہیں کہ ایک شخص دریا میں ڈوبتا تھا۔آدمیوں کو کِنارے پر دیکھ کر پُکارنے لگا کہ یارو! مجھے نِکالو، نہیں تو جَگ ڈوبا۔لوگو ں نے اُسے دریا سے نکال کر پوچھا کہ تیرے ڈوبنے سے جہاں کیوں کر ڈوبتا، اُس نے جواب میں یہی فقرہ کہا جو مَثَل بن گیا"۔
یہاں ایک دل چسپ انکشاف یہ ہوا کہ ہمارے یہاں مشہور کہاوت ' رَو میں رَوا ہے' کی حکایت پر مبنی ایک اور مَثَل یا کہاوت ہے 'آپ سے آئے تو آنے دے'۔اس کے مفہوم مولوی صاحب نے یوں درج کیا:"جہاں کسی کا مال بغیر کوشش کے ہاتھ لگے اور لینے والا طمع سے لینے کا اِرادہ کرے،وہاں بولی جاتی ہے"۔
حاشیے میں صاحب ِ لغات نے حکایت تھوڑے سے فرق یوں بیان کی ہے: "مشہور ہے کہ کسی قاضی کے گھر میں ہمسائے کی مرغی چلی آئی تھی۔گھر والوں نے ذبح کرکے پکائی۔جب قاضی گھر میں آئے تو یہ ماجرا سُن کر بہت گرمائے، بی بی نے کہا، اب قصور ہوگیا، کہوتو پھینک دوں، مگر میرا گھی مسالا یوں ہی جائے گا۔قاضی صاحب گھر کا نقصان نہ برداشت کرسکے، فرمایا ; ہم تو شوربے سے روٹی کھالیں گے۔بوٹی سے کچھ کام نہیں۔
جب لونڈی نے پیالے میں شوربا انڈیلا تو بوٹیاں بھی آنے لگیں۔اُس نے روکنے کا قصد کیا۔قاضی صاحب نے کہا، اوکم بخت! آپ سے آئے تو آنے دے۔بی بی بولی، صاحب! مرغی بھی تو آپ ہی سے آئی تھی۔انہوں نے کہا، پھر تو مُباح ہے"۔
اس بیان کی بعض تکنیکی وضاحتیں ضروری ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظ 'رَوا' کا ایک مطلب سُوجی بھی ہے جویہاں ہرگز مقصود نہیں، دوسری بات مولوی صاحب نے ہمسایہ (یعنی بغیر امالہ)لکھا جو اُس دورمیں جائز تھا، تیسری بات لفظ مسالا کو فرہنگ ِ آصفیہ میں 'مصالحہ' بھی لکھا گیا ہے، چوتھی بات لفظ شوربا کا ایک مستعمل اِملا شوربہ بھی ہے، پانچویں بات 'آپ سے آنا' سے مراد ہے 'اَز خود چلے آنا' اور آخری بات یہ ہے کہ لفظ مُباح یہاں جائز کے معنیٰ میں استعمال ہوا۔
اب ہم لغات کے وسیع وعریض وعمیق سمندرسے کچھ موتی چُن کر اختتام کی طرف بڑھتے ہیں۔نامور ریاضی داں اقلیدس کے متعلق صاحبِ نوراللغات کا بیان ہے کہ "اُقلےِدُس: ا)۔اُقلی (کنُجی)، دس (ہندسہ)۔مصر کے ایک مشہور ریاضی داں کا نام۔اُس کو علم ِ ہندسہ سے ایسا ذوق تھا کہ اُس کا نام ہی اقلیدس ہوگیا۔ب)۔ علم ہندسہ کی ایک کتاب کا نام جو اقلیدس کی تصنیف ہے"۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ نام ہمارے یہاں بول چال میں زبر (الف اور دال پر) کے ساتھ مدتوں سے رائج ہے یعنی غلط ہے۔اقلیدس(Euclid) علم ریاضی کی شاخ، علم ہندسہ یعنی Geometry کا ماہراور 'منطق داں' تھا۔اُسے 'بابائے علم ہندسہ' کہاجاتا ہے۔اُس کی کتاب Euclid's Elements کہلاتی ہے۔ہمیں تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ یونانی نام ہے اور اُس کے نام کی توجیہ یا وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اصل میں قدیم یونانی زبان میں Eukleídesکا مفہوم تھا معتبر، مشہور،پُروقار۔ظاہر ہے کہ اس کی علمی خدمات کے طفیل یہی نام موزوں ہے۔اسکندریہ (مصر) سے کچھ تعلق کی بناء پر اُسے "اقلیدسِ اسکندریہ" (Euclid of Alexandria)کہاجاتا ہے، جبکہ اُس کا ایک ہم نام سقراط کا شاگر دفلسفی،'اقلیدسِ میگارا' (Euclid of Megara) کہلاتا ہے۔
بھِنڈی کو اِنگریزی میں Okra and lady's fingers کہاجاتا ہے۔اس نام کی تفصیل میں پڑے بغیر عرض کرتاہوں کہ زیرِ نظر لغات میں ایک لفظ ہے، "اَکرا" اور اِس کا مطلب لکھا ہے: "بہت ہی ادنیٰ اور خراب قسم کا ایک غلّہ جو جانوروں ہی کو کھِلایا جاتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر اِن دونوں بظاہر مماثل ناموں میں کوئی تعلق یا ربط نہیں۔ کئی لغات سے الفاظ جمع ویکجا کرنے والی آنلائن لغت 'ریختہ' کی رُو سے "اَکرا" کی تعریف یہ ہے:"اسم، مذکر۔ایک قسم کی گھاس، جو گیہوں اور جَو کے کھیت میں اُگتی اور اس کی بڑھوار(یعنی بڑھوتری یا نشو نما: س ا ص) کو روکتی اور جانوروں کو کھلائی جاتی ہے (اس کی پھلیوں سے چھوٹے چھوٹے کالے دانے نکلتے ہیں، جو گیہوں کے ساتھ پس کر آٹے میں اکلاہٹ پیدا کردیتے ہیں)، خراب قسم کا وہ غلّہ جو جانوروں کو کھلایا جاتا ہے"۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ 'اکلاہٹ' نوراللغات میں موجودنہیں! ایک اور آنلائن لغت اُردو آئی این سی نے مختلف لغات سے یہ معانی اخذکیے ہیں:
"بہت ہی ادنٰے اور خراب قسم کا غلّہ جو جانوروں کو کھلایا جاتا ہے،بیش قیمت،جنگلی سبزہ جو موسمِ بہار میں بکثرت پیدا ہوتا ہے،خراب غلّہ،
مویشیوں کو کھلانے والا سبز کُٹا ہوا چارہ،مکئی کے کھیت میں اُگنے والی خود رَو گھاس"۔
یہاں خاکسار اس اَمر کی وضاحت کردے کہ اُس کے پاس بحمد اللہ کئی زبانوں کی متعدد لغات موجودہیں۔آنلائن لغات کا حوالہ محض حسبِ ضرورت ہی کرتا ہے۔
عام قارئین، ادبی قارئین اور اہل قلم کے لیے بے شمار الفاظ کے تلفظ کی اصلا ح کے لیے اس لغت کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔بہت مشہور لفظ ہے 'اکسیر'۔تقریباً ۹۹ء ۹۹ فیصد لوگ اسے اَکسیر یعنی زبر سے پڑھتے ہیں، مگر نوراللغات بتاتی ہے کہ یہ زیر سے 'اِکسیر' ہے جس کا تعلق علم کیمیا گری (سونا بنانے کے علم) سے ہے۔یہ وہ چیز ہے جو تانبے کو سونا اور رانگے کو چاندی بنادیتی ہے۔دیگر مفاہیم کے لیے لغت کے مطالعے کی زحمت گوارا کرلیں۔
لاتعداد الفاظ ایسے بھی اس لغت میں ملتے ہیں جن کا رِواج اب عام نہیں اور کسی خاص حوالے سے بھی دیکھنے سننے کو نہیں ملتا۔حاملہ کو حمل کے دوران میں ہونے والی متلی کو آج کل تو سیدھا سیدھا انگریزی میں vomit or vomitingکہہ دیتے ہیں، مگر اس کے لیے ایک لفظ نوراللغات سے معلوم ہوا: اَکُونے(ہندی) جیسے 'بیگم صاحبہ کو اَکوُنے ہوتے ہیں"۔
لگے ہاتھوں ایک اور نامانوس لفظ سے آشنائی حاصل کرلیتے ہیں: اُمگایعنی اُوپر، مگن، ڈُوبا ہوا، بھرا ہوا۔بقول مؤلف یہ "امنگنا" سے مشتق ہے، مگر اُردومیں اُمنگنا مستعمل نہیں۔ ؎ رنگ نکھرا، جوبن اُمگا، فتنے برپا ہوچلے +قابل ِ تعظیم ہے اُٹھتی جوانی آپ کی (منیرؔ شکوہ آبادی)۔
"اَنٹ کا سَنٹ" (عوامی بولی ٹھولی: Slang) یعنی اُوٹ پٹانگ، مُہمل، لَغو جیسے "میری بات کا جواب تو دیتے نہیں، انٹ سنٹ بک رہے ہیں"۔ یہاں معلوم ہوا کہ ہم "انٹ شنٹ" بولتے ہیں تو یہ غالباً علاقائی لہجے کا فرق ہے اور شاید اَب اصل مرکب رائج یا کم از کم مشہور نہیں!
یہاں دِلّی کی بولی ٹھولی کا ایک لفظ نظرآیا، ' پَپولنا'۔مولوی نیرصاحب نے مطلب یوں بیان کیا: پُلپُلانا، پوپلوں کی طرح مُنہ سے کسی چیز کو چُوسنا، بڑھاپے میں مسوڑھوں سے دبادبا کر کھانا،جیسے "ماما پوپلی ہے، پپول پپول کر کھاتی ہے"۔
گجراتیوں میں ایک ذات یا برادری پٹیل ہے جس کا ایک اور تلفظ یہاں یکسر مختلف معانی کے ساتھ درج کیا گیا ہے، پٹِیل (بروَزنِ کفےِل)۔یہ اسم مذکر، گاؤ ں کے سرغنہ،مقدّم یا چودھری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔صاحبِ لغات نے اس کا ماخذ ہندی بتایا ہے۔راجہ راجیسور رَاؤ اصغرؔ نے 'ہندی اُردولغت' میں شامل نہیں کیا تھا، پھر قدرت نقوی صاحب نے اس لغت کے ضمیمے میں انہی معانی کے ساتھ درج کیا۔نوراللغات کے اس بیان کی تصدیق دیگر ذرایع سے بھی ہوتی ہے۔پٹیل برادری کے لوگ اکثر زمین دار، بیوپاری، زراعت پیشہ اور گھوم پھِرکر سامان ِ تجارت فروخت کرنے والے ہوا کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ یہ لفظ پہلے " پٹّی دار" تھا۔گجراتی احباب اس بابت مزید تفصیل سے آگاہ کرسکتے ہیں۔
ملتے جُلتے الفاظ میں مثال ملاحظہ فرمائیں: پَرا کہتے ہیں قطار(خصوصاً فوج یا لشکرکی قطار)، گروہ اور غول کو، مگر ایک لفظ اور ہے، پَرّا (رے پر تشدید کے ساتھ)۔اس کا مطلب ہے قینچی کا ایک پلڑا۔
آج مُرغانِ قفس کیا کہیں کترے گا پَر
کررہا مقراض کا صیاد پرّا صاف ہے
(بہادرشاہ ظفرؔ)
دِلّی میں درخت کے تَنے یا ستون کو "تھَم" کہتے تھے،جبکہ یہ لکھنؤ جا کر "کھم" ہوگیا تھا۔مندروں میں چڑھائی جانے والی مٹھائی بھی تھم ہے اور 'تھم ہوجانا' کا مطلب ہے پاؤ ں کا بہت پھُول جانا۔مجھے شک ہوا کہ کہیں انگریزی لفظ Stemکے ڈانڈے تو اِس سے نہیں ملتے، مگر نہیں صاحبو! لغات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔
نوراللغات کے اندراجات پر گفتگو اور حسبِ ضرورت تشریح کے لیے 'زباں فہمی' کی کئی اقساط بھی کافی نہیں۔ابھی راقم اس کی ایک جلد کا بھی احاطہ نہیں کرپایا۔ مقصدِ وحید یہ ہے کہ لوگ اپنے بزرگوں کے علمی ورثے سے استفادے کی طرف راغب ہوں اور بغیر مطالعہ، محض سُنی سُنائی یا "نقل وچسپاں" کے چلن سے حاصل ہونے والی معلومات پر اِکتفا نہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
موشوعہ آنلائن روزنامہ ایکسپریس سنڈےمیگزین 12 مئی 2024
آ کہیں وعدہ فراموش! کہ فرصت کم ہے
دَم کوئی دَم میں قدم بوس ِ قضا ہوتا ہے
اس شعر کا حُسن یہ ہے کہ محاورے کا عمدہ استعمال ہمیں داد پر مجبور کرتا ہے۔' فُرصتِ زندگی کا کم ہونا' کس قدر سہل انداز میں نظم کیا گیا، پھر دَم یعنی سانس کا استعمال دیکھیے۔'کوئی دَم میں' (یعنی آناً فاناً، ذراسی دیر میں، تھوڑی ہی دیرمیں) کا ایسا استعمال شاید ہی کسی اور نے کہیں کیا ہواور پھر یہ "قدم بوسِ قضا" جیسی نرالی ترکیب بھی کہیں اور نہ ملے گی۔
مغفرت چاہ تو رِندانِ قدح نوش میں آ
بے پیے مَست نہ ہو شیخ! ذرا ہوش میں آ
یہاں 'چاہ' بجائے 'چاہو' استعمال ہوا ہے۔'شیخ' یا ناصح کو اَول فَول بکنے یا وعظ کہہ کر (یا وعظ کرکے)مغفرت طلب کرنے کی مذمّت کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ ایسے بغیر مے نوشی کے کچھ بھی بکنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا;جو لوگ بَلا نوش ہوتے ہیں،اُن کے منھ سے جو کچھ نکلتا ہے، بالکل سچ ہوتا ہے، لہٰذا ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرواور پھر اپنے لیے دعائے مغفرت کرو۔۔اس مضمون کا دوسرا شعر میری نظر سے نہیں گزرا۔افسوس مولوی صاحب نے ان دونوں شعروں کے شاعرکا نام نہیں لکھا۔
یہ پڑھیں : زباں فہمی نمبر205؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ اوّل)
لفظ 'آب' یعنی پانی کے ماخذ کا ہمیں یہی پتا تھا کہ فارسی ہے، مگر صاحبِ نوراللغات نے بتایا کہ اصل ماخذ سَنسکِرِت ہے، گویا سنسکرت سے پہلوی میں گیااور پھر فارسی میں شامل ہوگیا،کیونکہ پہلوی سنسکرت کی بہن تھی۔دونوں ہی زبانیں مُردہ قرارپائیں، مگر فرق یہ ہے کہ بھارت میں سنسکرت کی تعلیم کو خوب ترقی دی گئی اور آج اس زبان میں پی ایچ ڈی بھی کیا جارہا ہے،جبکہ پہلوی جاننے والے پوری دنیا میں خال خال ہی ملتے ہیں۔فقط اس ایک لفظ 'آب' کے لیے صاحبِ لغات نے تقریباً آٹھ صفحات مختص کیے ہیں۔
"آبرو" کے باب میں معانی بیان کرتے ہوئے داغ ؔ دہلوی کا ایک منفرد شعر بھی نقل کیا گیا ہے:
حسرت جس آرزو کی سلیمان (علیہ السلام) کو رہی
یثرِ ب میں ہے وہ مرتبہ مُورِ ضعیف کا
شاعر یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان کو برگزیدہ پیغمبر ہونے کے باوجود، یہ حسرت ہی رہی کہ نبی آخر الزما ں (ﷺ) کی صحبت کا شرف حاصل ہوتا (اُن کی ایک نعت میں کچھ ایسا مضمون بھی ہے جس میں انھوں نے حضور اکرم (ﷺ) کی ہمرہی کے شرف کی خواہش ظاہر کی ہے)، مگر ایک معمولی چیونٹی کویہی شرف ملا جب وہ دربارِ مدینہ میں مقیم ہوگئی۔
نوراللغات میں "آبرو" کا باب تقریباً چھے صفحات پرمشتمل ہے۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اُردوکی تنگ دامنی کا بلاوجہ،جھوٹا پرچار کرتے ہیں۔دنیا میں ایسی زبانیں کتنی ہیں جن کے ایک ایک لفظ کے معانی پر اس قدر موادبہم پہنچایاگیا ہواور وہ بھی بالتحقیق؟ اردوکاخواہ مخواہ اور بے بنیاد موازنہ، انگریزی سے کرنے والے مجھے دنیا کی کسی بڑی سے بڑی انگریز ی لغت میں یہ خوبی دِکھادیں!انتباہ: زباں فہمی روزنامہ ایکسپریس،سنڈےمیگزین میں ہراتوارکوشایع ہوتاہےاورفقط ایک شخص ،سہیل احمد صدیقی کی تنہامحنت شاقہ کانتیجہ ہے۔۔۔نقل کرنےکےشوقین افراداورویب سائٹس مکمل حوالہ ضروردیں۔۔۔۔بصورت دیگران کےخلاف قانونی کارروائی کی جائے گی.
آبنُوس نامی مشہور درخت کے تعارف میں مولوی نیرؔ نے انکشاف کیا کہ یہ لفظ عبرانی کے آبنی سے بنا ہے اور عربی وفارسی دونوں کی راہ سے اردومیں داخل ہوا۔(جدید تحقیق بتاتی ہے کہ بائبل میں مذکور، یہ لفظ hoben[hoh-BEN]تھا جو جدید تلفظ میں hoh-VENبولاجاتا ہے۔انگریزی میں Ebonyوہی ہے جو بقول مولوی صاحب کے لاطینی میں آبینس ہے ;جبکہ یہ درحقیقت اِبینُوس(ebenus) ہے۔ممکن ہے کہ مولوی نیرؔ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو۔ویسے لاطینی میں انگریزی ہجے والا لفظ بھی موجودہے جو اُس کی جدید شکل یعنی اِطالوی میں Ebanoکہلاتاہے۔مزید تحقیق کی تومعلوم ہوا کہ 1590کی دہائی سے انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ پہلے پہل ebonتھا جس کا ماخذ چودھویں صدی کا hebenyfتھا جو شاید لاطینی لفظ hebeninusیعنی"ایبَنی کا"] [of ebony سے ماخوذ تھا۔
یہ بھی پڑھیں : زباں فہمی نمبر206؛ ' نُوراللغات کی سیر' (حصہ دُوَم)
ماقبل یہی لفظ یونانی زبان میں ébenos اوراِس سے مشتق لفظ ebeninos یعنی"ایبنی کا"تھا اور اِس کا ماخذ قدیم مصر کی زبان یعنی قِبطی [Egyptian]کا لفظ " ہِبنی" [hbny/hbnj]ہے۔ایک لسانی قیاس یہ بھی ہے کہ شاید یہ سامی الاصل لفظ[Semitic] ہو۔فرینچ میں اس کے لیے ébène بولاجاتا ہے، جبکہ جرمن میں Ebenholz اور قدیم اعلیٰ جرمن میں ebenusیعنی وہی لاطینی سے مستعار تھا۔ہِسپانوی اور پُرتگیز میں اسے ébanoکہتے ہیں۔1620کی دہائی سے اس لفظ کا استعمال،انگریزی ادبی زبان میں انتہائی سیاہ رنگت کے لیے اور پھر 1813سے بطور ِ خاص افریقی سیاہ رنگت کے لیے کیا جانے لگا۔آج بھی مختلف ویبسائٹس پر افریقی یا دیگر سیا ہ فام عورتوں کے لیے Ebonyکی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
[https://www.etymonline.com/word/ebony, https://www.quotescosmos.com/bible/+various dictionaries])
دنیا کی متعدد زبانوں میں اسے Ebony کہا جاتا ہے اور آبنوس ہماری متعدد مشرقی زبانوں میں مستعمل ہے۔اس درخت کی لکڑی بہت کالی اور مضبوط ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر کسی سیاہ چیز،نیز، (مزاحاً) کسی بہت موٹے اور سیاہ فام شخص کو 'آبنوس' کہاجاتا ہے۔یہ لکڑی پانی میں ڈوب جاتی ہے اور اس سے فرنیچر،آلاتِ موسیقی، کنگھیاں، قلم دان اور سنگھار دان [Makeup box]بنائے جاتے ہیں،نیز کندہ کاری یا نقاشی کا کام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ایک مچھلی کا نام بھی آبنوس ہے۔
لفظ 'آپ' کے لیے نوراللغات میں دس صفحات مختص کیے گئے ہیں۔مجھے کوئی دکھادے کہ انگریزی کے Youیا thouکے باب میں اتنی تفصیل ہے، مان جاؤں گا۔اس لفظ کے ذیل میں ایک کہاوت یوں درج ہے: "آپ ڈوبے تو جَگ ڈوبا"۔تشریح میں لکھا ہے کہ "مثل: آپ تباہ ہوئے تو گویا کُل عالَم تباہ ہوا ;آپ مرگئے تو گویا تمام عالَم مرگیا۔جب اپنا ہی نقصان ہوا تو دوسرے کے فائدے سے کیا غرض"۔مزید تفہیم کے لیے حاشیے میں دو مختلف حکایات بیان کی گئی ہیں جن میں ایک مجھے قرین ِ قیاس لگتی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
"کہتے ہیں کہ ایک شخص دریا میں ڈوبتا تھا۔آدمیوں کو کِنارے پر دیکھ کر پُکارنے لگا کہ یارو! مجھے نِکالو، نہیں تو جَگ ڈوبا۔لوگو ں نے اُسے دریا سے نکال کر پوچھا کہ تیرے ڈوبنے سے جہاں کیوں کر ڈوبتا، اُس نے جواب میں یہی فقرہ کہا جو مَثَل بن گیا"۔
یہاں ایک دل چسپ انکشاف یہ ہوا کہ ہمارے یہاں مشہور کہاوت ' رَو میں رَوا ہے' کی حکایت پر مبنی ایک اور مَثَل یا کہاوت ہے 'آپ سے آئے تو آنے دے'۔اس کے مفہوم مولوی صاحب نے یوں درج کیا:"جہاں کسی کا مال بغیر کوشش کے ہاتھ لگے اور لینے والا طمع سے لینے کا اِرادہ کرے،وہاں بولی جاتی ہے"۔
حاشیے میں صاحب ِ لغات نے حکایت تھوڑے سے فرق یوں بیان کی ہے: "مشہور ہے کہ کسی قاضی کے گھر میں ہمسائے کی مرغی چلی آئی تھی۔گھر والوں نے ذبح کرکے پکائی۔جب قاضی گھر میں آئے تو یہ ماجرا سُن کر بہت گرمائے، بی بی نے کہا، اب قصور ہوگیا، کہوتو پھینک دوں، مگر میرا گھی مسالا یوں ہی جائے گا۔قاضی صاحب گھر کا نقصان نہ برداشت کرسکے، فرمایا ; ہم تو شوربے سے روٹی کھالیں گے۔بوٹی سے کچھ کام نہیں۔
جب لونڈی نے پیالے میں شوربا انڈیلا تو بوٹیاں بھی آنے لگیں۔اُس نے روکنے کا قصد کیا۔قاضی صاحب نے کہا، اوکم بخت! آپ سے آئے تو آنے دے۔بی بی بولی، صاحب! مرغی بھی تو آپ ہی سے آئی تھی۔انہوں نے کہا، پھر تو مُباح ہے"۔
اس بیان کی بعض تکنیکی وضاحتیں ضروری ہیں: پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظ 'رَوا' کا ایک مطلب سُوجی بھی ہے جویہاں ہرگز مقصود نہیں، دوسری بات مولوی صاحب نے ہمسایہ (یعنی بغیر امالہ)لکھا جو اُس دورمیں جائز تھا، تیسری بات لفظ مسالا کو فرہنگ ِ آصفیہ میں 'مصالحہ' بھی لکھا گیا ہے، چوتھی بات لفظ شوربا کا ایک مستعمل اِملا شوربہ بھی ہے، پانچویں بات 'آپ سے آنا' سے مراد ہے 'اَز خود چلے آنا' اور آخری بات یہ ہے کہ لفظ مُباح یہاں جائز کے معنیٰ میں استعمال ہوا۔
اب ہم لغات کے وسیع وعریض وعمیق سمندرسے کچھ موتی چُن کر اختتام کی طرف بڑھتے ہیں۔نامور ریاضی داں اقلیدس کے متعلق صاحبِ نوراللغات کا بیان ہے کہ "اُقلےِدُس: ا)۔اُقلی (کنُجی)، دس (ہندسہ)۔مصر کے ایک مشہور ریاضی داں کا نام۔اُس کو علم ِ ہندسہ سے ایسا ذوق تھا کہ اُس کا نام ہی اقلیدس ہوگیا۔ب)۔ علم ہندسہ کی ایک کتاب کا نام جو اقلیدس کی تصنیف ہے"۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ نام ہمارے یہاں بول چال میں زبر (الف اور دال پر) کے ساتھ مدتوں سے رائج ہے یعنی غلط ہے۔اقلیدس(Euclid) علم ریاضی کی شاخ، علم ہندسہ یعنی Geometry کا ماہراور 'منطق داں' تھا۔اُسے 'بابائے علم ہندسہ' کہاجاتا ہے۔اُس کی کتاب Euclid's Elements کہلاتی ہے۔ہمیں تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ یونانی نام ہے اور اُس کے نام کی توجیہ یا وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اصل میں قدیم یونانی زبان میں Eukleídesکا مفہوم تھا معتبر، مشہور،پُروقار۔ظاہر ہے کہ اس کی علمی خدمات کے طفیل یہی نام موزوں ہے۔اسکندریہ (مصر) سے کچھ تعلق کی بناء پر اُسے "اقلیدسِ اسکندریہ" (Euclid of Alexandria)کہاجاتا ہے، جبکہ اُس کا ایک ہم نام سقراط کا شاگر دفلسفی،'اقلیدسِ میگارا' (Euclid of Megara) کہلاتا ہے۔
بھِنڈی کو اِنگریزی میں Okra and lady's fingers کہاجاتا ہے۔اس نام کی تفصیل میں پڑے بغیر عرض کرتاہوں کہ زیرِ نظر لغات میں ایک لفظ ہے، "اَکرا" اور اِس کا مطلب لکھا ہے: "بہت ہی ادنیٰ اور خراب قسم کا ایک غلّہ جو جانوروں ہی کو کھِلایا جاتا ہے۔
حیرت انگیز طور پر اِن دونوں بظاہر مماثل ناموں میں کوئی تعلق یا ربط نہیں۔ کئی لغات سے الفاظ جمع ویکجا کرنے والی آنلائن لغت 'ریختہ' کی رُو سے "اَکرا" کی تعریف یہ ہے:"اسم، مذکر۔ایک قسم کی گھاس، جو گیہوں اور جَو کے کھیت میں اُگتی اور اس کی بڑھوار(یعنی بڑھوتری یا نشو نما: س ا ص) کو روکتی اور جانوروں کو کھلائی جاتی ہے (اس کی پھلیوں سے چھوٹے چھوٹے کالے دانے نکلتے ہیں، جو گیہوں کے ساتھ پس کر آٹے میں اکلاہٹ پیدا کردیتے ہیں)، خراب قسم کا وہ غلّہ جو جانوروں کو کھلایا جاتا ہے"۔لطف کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ 'اکلاہٹ' نوراللغات میں موجودنہیں! ایک اور آنلائن لغت اُردو آئی این سی نے مختلف لغات سے یہ معانی اخذکیے ہیں:
"بہت ہی ادنٰے اور خراب قسم کا غلّہ جو جانوروں کو کھلایا جاتا ہے،بیش قیمت،جنگلی سبزہ جو موسمِ بہار میں بکثرت پیدا ہوتا ہے،خراب غلّہ،
مویشیوں کو کھلانے والا سبز کُٹا ہوا چارہ،مکئی کے کھیت میں اُگنے والی خود رَو گھاس"۔
یہاں خاکسار اس اَمر کی وضاحت کردے کہ اُس کے پاس بحمد اللہ کئی زبانوں کی متعدد لغات موجودہیں۔آنلائن لغات کا حوالہ محض حسبِ ضرورت ہی کرتا ہے۔
عام قارئین، ادبی قارئین اور اہل قلم کے لیے بے شمار الفاظ کے تلفظ کی اصلا ح کے لیے اس لغت کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔بہت مشہور لفظ ہے 'اکسیر'۔تقریباً ۹۹ء ۹۹ فیصد لوگ اسے اَکسیر یعنی زبر سے پڑھتے ہیں، مگر نوراللغات بتاتی ہے کہ یہ زیر سے 'اِکسیر' ہے جس کا تعلق علم کیمیا گری (سونا بنانے کے علم) سے ہے۔یہ وہ چیز ہے جو تانبے کو سونا اور رانگے کو چاندی بنادیتی ہے۔دیگر مفاہیم کے لیے لغت کے مطالعے کی زحمت گوارا کرلیں۔
لاتعداد الفاظ ایسے بھی اس لغت میں ملتے ہیں جن کا رِواج اب عام نہیں اور کسی خاص حوالے سے بھی دیکھنے سننے کو نہیں ملتا۔حاملہ کو حمل کے دوران میں ہونے والی متلی کو آج کل تو سیدھا سیدھا انگریزی میں vomit or vomitingکہہ دیتے ہیں، مگر اس کے لیے ایک لفظ نوراللغات سے معلوم ہوا: اَکُونے(ہندی) جیسے 'بیگم صاحبہ کو اَکوُنے ہوتے ہیں"۔
لگے ہاتھوں ایک اور نامانوس لفظ سے آشنائی حاصل کرلیتے ہیں: اُمگایعنی اُوپر، مگن، ڈُوبا ہوا، بھرا ہوا۔بقول مؤلف یہ "امنگنا" سے مشتق ہے، مگر اُردومیں اُمنگنا مستعمل نہیں۔ ؎ رنگ نکھرا، جوبن اُمگا، فتنے برپا ہوچلے +قابل ِ تعظیم ہے اُٹھتی جوانی آپ کی (منیرؔ شکوہ آبادی)۔
"اَنٹ کا سَنٹ" (عوامی بولی ٹھولی: Slang) یعنی اُوٹ پٹانگ، مُہمل، لَغو جیسے "میری بات کا جواب تو دیتے نہیں، انٹ سنٹ بک رہے ہیں"۔ یہاں معلوم ہوا کہ ہم "انٹ شنٹ" بولتے ہیں تو یہ غالباً علاقائی لہجے کا فرق ہے اور شاید اَب اصل مرکب رائج یا کم از کم مشہور نہیں!
یہاں دِلّی کی بولی ٹھولی کا ایک لفظ نظرآیا، ' پَپولنا'۔مولوی نیرصاحب نے مطلب یوں بیان کیا: پُلپُلانا، پوپلوں کی طرح مُنہ سے کسی چیز کو چُوسنا، بڑھاپے میں مسوڑھوں سے دبادبا کر کھانا،جیسے "ماما پوپلی ہے، پپول پپول کر کھاتی ہے"۔
گجراتیوں میں ایک ذات یا برادری پٹیل ہے جس کا ایک اور تلفظ یہاں یکسر مختلف معانی کے ساتھ درج کیا گیا ہے، پٹِیل (بروَزنِ کفےِل)۔یہ اسم مذکر، گاؤ ں کے سرغنہ،مقدّم یا چودھری کے لیے استعمال ہوتا ہے۔صاحبِ لغات نے اس کا ماخذ ہندی بتایا ہے۔راجہ راجیسور رَاؤ اصغرؔ نے 'ہندی اُردولغت' میں شامل نہیں کیا تھا، پھر قدرت نقوی صاحب نے اس لغت کے ضمیمے میں انہی معانی کے ساتھ درج کیا۔نوراللغات کے اس بیان کی تصدیق دیگر ذرایع سے بھی ہوتی ہے۔پٹیل برادری کے لوگ اکثر زمین دار، بیوپاری، زراعت پیشہ اور گھوم پھِرکر سامان ِ تجارت فروخت کرنے والے ہوا کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ یہ لفظ پہلے " پٹّی دار" تھا۔گجراتی احباب اس بابت مزید تفصیل سے آگاہ کرسکتے ہیں۔
ملتے جُلتے الفاظ میں مثال ملاحظہ فرمائیں: پَرا کہتے ہیں قطار(خصوصاً فوج یا لشکرکی قطار)، گروہ اور غول کو، مگر ایک لفظ اور ہے، پَرّا (رے پر تشدید کے ساتھ)۔اس کا مطلب ہے قینچی کا ایک پلڑا۔
آج مُرغانِ قفس کیا کہیں کترے گا پَر
کررہا مقراض کا صیاد پرّا صاف ہے
(بہادرشاہ ظفرؔ)
دِلّی میں درخت کے تَنے یا ستون کو "تھَم" کہتے تھے،جبکہ یہ لکھنؤ جا کر "کھم" ہوگیا تھا۔مندروں میں چڑھائی جانے والی مٹھائی بھی تھم ہے اور 'تھم ہوجانا' کا مطلب ہے پاؤ ں کا بہت پھُول جانا۔مجھے شک ہوا کہ کہیں انگریزی لفظ Stemکے ڈانڈے تو اِس سے نہیں ملتے، مگر نہیں صاحبو! لغات سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔
نوراللغات کے اندراجات پر گفتگو اور حسبِ ضرورت تشریح کے لیے 'زباں فہمی' کی کئی اقساط بھی کافی نہیں۔ابھی راقم اس کی ایک جلد کا بھی احاطہ نہیں کرپایا۔ مقصدِ وحید یہ ہے کہ لوگ اپنے بزرگوں کے علمی ورثے سے استفادے کی طرف راغب ہوں اور بغیر مطالعہ، محض سُنی سُنائی یا "نقل وچسپاں" کے چلن سے حاصل ہونے والی معلومات پر اِکتفا نہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
موشوعہ آنلائن روزنامہ ایکسپریس سنڈےمیگزین 12 مئی 2024