سائنسدانوں نے انٹارکٹیکا میں بننے والے 40 ہزار مربع کلومیٹر وسیع ’سوراخ‘ کا راز جان لیا

بحر جنوبی کی تہہ میں ’ماؤد رائز پہاڑ‘ کے اطراف پانی کی حرکت سے پیدا ہونے والی لہروں نے ایک معکوس حرکت کو جنم دیا

بحر جنوبی کی تہہ میں ’ماؤد رائز پہاڑ‘ کے اطراف پانی کی حرکت سے پیدا ہونے والی لہروں نے ایک معکوس حرکت کو جنم دیا ۔ فوٹو: ویب

انٹارکٹیکا کرۂ ارض کے انتہائی جنوب میں واقع دنیا کا سب سے کم آبادی والا براعظم ہے، جس کا رقبہ54 لاکھ مربع میل اور اور آبادی محض 5 ہزار نفوس تک ہے۔

برائے نام آبادی کا سبب یہ ہے کہ انٹارکٹیکا بحرمنجمد جنوبی سے گھرا ہوا ہے اور اس کا 99 فی صد حصہ برف سے ڈھکا ہوا ہے اور برف کی تہہ کی اوسط دبازت (موٹائی) ایک میل ہے۔ یہاں اوسط درجۂ حرارت منفی 43 درجے سیلسیئس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہاں زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے، اور یہاں نہ ہونے کے برابر آبادی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

2016 اور 2017 میں بحرمنجمد جنوبی کے ساحل سے سیکڑوں میل دور، انٹارکٹیکا پر جمی برف کی دبیز تہہ میں تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر وسیع و عریض شگاف نمودار ہوگیا تھا۔ امریکی ریاست نیو جرسی سے دگنے رقبے کے برابر حصے کی سطح سے برف غائب ہوگئی تھی اور پانی نظر آنے لگا تھا۔

اسی مقام پر 1974 میں بھی اسی طرح وسیع و عریض رقبے سے برف غائب ہوگئی تھی اور پانی کا ذخیرہ ظاہر ہوگیا تھا، بعدازاں اس حصے کو برف نے ڈھانک لیا تھا، پھر 2016 میں یہ مظہر دوبارہ سامنے آیا۔

انٹارکٹیکا کے برف زار میں 40 ہزار مربع کلومیٹر وسیع و عریض 'شگاف 'کے دوبارہ نمودار ہونے پر سائنس داں حیران تھے اور مسلسل اس کا راز جاننے کے لیے تحقیق کررہے تھے۔

انگلستان کی ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے محققین مسلسل تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ برف کی دبیز تہہ میں اس وسیع و عریض سوراخ یا شگاف (جسے انگریزی زبان میں پولینیا کہا جاتا ہے) کا بننا دراصل تین عوامل کا مجموعہ تھا، یعنی ٹھوس برف کے نیچے بحر منجمد جنوبی کی لہروں کا بہاؤ، ہوا اور تیسرا سمندی پانی میں نمک کی سطح میں اضافہ، جس کی وجہ سے برف پگھلی۔

1970کے عشرے میں سائنس دانوں نے اس پولینیا کو اس کے بالکل نیچے سمندر کی تہہ میں دریافت ہونے والے پہاڑ کی مناسبت سے ' Maud Rise پولینیا ' کا نام دیا تھا۔


منجمد سمندروں میں برف کے پگھلنے سے ظاہر ہونے والے یہ قطعات یا سوراخ، عمومی طور پر انٹارکٹیکا کے ساحلی علاقوں میں ہر سال نمودار ہوتے ہیں، تاہم ان کا ساحل سے سیکڑوں میل کے فاصلے پر کھلے سمندر میں تشکیل پانا غیرمعمولی ہوتا ہے جہاں سمندر کی گہرائی ہزاروں فٹ ہوتی ہے۔

ساؤتھمپٹن یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے طالب علم اور اس تحقیق کے مرکزی محقق آدتیہ نارائن کہتے ہیں کہ 1970 کے بعد سے 2017 میں پہلی بار ایسا پولینیا وجود میں آیا جو اتنے طویل عرصے سے موجود ہے، وگرنہ عمومی طور پر برف زاروں کے درمیان بننے والے یہ سوراخ مختصر مدت تک برقرار رہتے ہیں اور پھر دوبارہ انہیں برف ڈھانک لیتی ہے۔

ساحل سے سیکڑوں میل کی دوری پر تشکیل پانے والے اس غیرمعمولی پولینیا کی تشکیل کا راز پانے کے لیے محققین نے آبی جانوروں پر نصب کردہ آلات سے حاصل شدہ ڈیٹا یا معلومات، برفانی تہہ کے نقشے اور سمندر کے کمپیوٹر کی مدد سے بنائے گئے ماڈل سے مدد لی۔

کمپیوٹر ماڈل نے ظاہر کیا کہ بحر جنوبی کی تہہ میں 'ماؤد رائز پہاڑ' کے اطراف پانی کی حرکت سے پیدا ہونے والی لہروں نے ایک معکوس حرکت کو جنم دیا جس کی وجہ سے سمندری پانی میں موجود نمک سطح آب کی جانب بڑھنے لگا۔

سطح آب پر نمک کے پہنچنے سے پانی 90 درجے کے زاویے پر ہوا کی سمت میں آگیا جس کی وجہ سے نمک کو حرارت پہنچنے لگی اور اس کے نتیجے میں اوپر جمی برف پگھلنا شروع ہوگئی اور منجمد سمندر کے بیچ میں پانی کی یہ 'جھیل' بنتی چلی گئی۔

سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ منجمد سمندروں میں بننے والے یہ 'سوراخ' سمندر کی سطح میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں جس میں 2022 سے 2023 کے درمیان صفر اعشاریہ تین انچ کی بلندی دیکھی گئی ہے۔

( باقی صفحہ نمبر 13 پر )
Load Next Story