ذکر ایک دن کا

جو کشمیری رومی میاں محمد بخش کے سرہانے اور جرنیلی سڑک پر بھیگتے ہوئے گزرا

جو کشمیری رومی میاں محمد بخش کے سرہانے اور جرنیلی سڑک پر بھیگتے ہوئے گزرا۔ فوٹو: ایکسپریس ویب

اگرچہ کہ عید کے تیسرے روز میری طرف سے خود ساختہ فیصلہ سنا دیا گیا تھا کہ ''ایس منڈے نے (یعنی کہ میں بقلم خود) نہیں بچنا مینوں شاہ مقیم دے حجرے لے جاؤ مگر شاہ مقیم نے مجھے بلانے سے فوراً انکار کر دیا اور شرط عائد کردی کہ جب تک میرے سر دا سائیں (یعنی اپنا نفس) سلامت ہے، میں حجرے سے دور ہی رہوں۔''

بھلا ہو میاں محمد بخش صاحب کا جنھوں نے مجھے غم زدہ دیکھ کر اپنے بازو کھول دیے اور کہا ''اے بٹ، مایوس نہ ہو۔ تو بس جلدی سے آ جا پھر دونوں بیٹھ کر ''سیف الملوک'' پڑھیں گے۔ تُو شعر پڑھنا اور میں تشریح کروں گا۔''

تو دوستو! عید کے بعد آنے والے اتوار ہم تھے، میاں محمد بخش تھے اور سیف الملوک تھی۔ مگر یوں مجھے بیٹھے بٹھائے شاہ مقیم کا حجرہ ہی کیوں یاد آ گیا تھا؟ ہوا کچھ یوں کہ حسبِ معمول عید کے تیسرے روز اپنے ایک عزیز دوست سے جو ملاقات مقرر تھی، اس میں نہ جانے کافی کہاں سے کود پڑی۔ اگرچہ کہ میں بہت زیادہ کافی نہیں پیتا یا پھر یوں کہہ لیں کہ ہر جگہ سے کافی نہیں پیتا مگر جب بھی پیتا ہوں یا تو خالص بلیک کافی پیتا ہوں یا پھر plane latte۔ اب اگر کافی کی کڑواہٹ کو مارنے کے لیے آپ نے اس میں اوٹ پٹانگ مختلف ذائقے شامل کرنے ہیں تو بہت بہتر ہے کہ آپ کافی نہ پئیں۔ کڑواہٹ کا بھی اپنا ایک ذائقہ ہے جسے محسوس کرنے کے لیے ذوق کا ہونا ضروری ہے۔ بے ذوق بندے کافی کے اصل ذائقے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔

کافی کا ایک مگ آ چکا تو عمر صاحب نے حافظ برخوردار رانجھا کا ایک شعر داغ دیا۔ میں پہلے ہی کافی کے سرور میں تھا اور اوپر سے شعر نے دماغ خراب کر دیا۔ اشعار طویل ہوتے گئے۔ کڑوی latte کافی کے ساتھ حافظ صاحب کے یہ شعر عجیب سا خمار طاری کر رہے تھے۔ اشعار قصہ مرزا صاحباں کے تھے۔ اشعار کچھ یوں تھے:

حجرے شاہ مقیم دے اک جٹی عرض کرے

میں بکرا دیواں پِیر دا جے سِر دا سائیں مرے

ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دِیوا نت بلے

کُتی مَرے فقیر دی، جیڑی چوں چوں نت کرے

پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں تاپ چڑھے

گلیاں ہو جان سُنجیاں، تے وچ مرزا یار پھرے

چلیں پہلے ذرا ان کا سادہ اردو مطلب دیکھتے ہیں۔

پہلے مصرع میں سِر کے سائیں سے مراد آپ کا نفس ہے جو آپ کے پورے وجود، آپ کی خواہشات، آپ کے جذبات الغرض سب کچھ کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی پہلے مصرع میں حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اگر میرا اپنے نفس پر قابو آ جائے تو میں ایک بکرا ذبح کروں گا۔

کراڑ ہندؤں کی ایک ذات ہے جو حد سے زیادہ کنجوس ہوتے ہیں۔ اتنے کنجوس کہ اپنی ذات پر ایک دمڑی بھی نہیں لگاتے اور پیسے کو ہمیشہ سنبھال کر رکھتے ہیں۔ حافظ صاحب اس مصرع میں کہتے ہیں کہ انسان کو اس قدر کنجوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ میانہ روی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

تیسرے مصرعے میں کتی سے مراد انسانی خواہشات ہیں جو جو ہر وقت انسان کو برائی کی جانب مائل کرتی ہیں۔ صوفیاء کرام کہتے ہیں کہ انسان کی ہر برائی کی جڑ پانچ سات چیزوں میں ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ حسد، بغض، کینہ، لالچ، غرور وغیرہ ہیں۔ حافظ برخوردار نے ان سب بیماریوں کو آپسی گوانڈھن کہا ہے یعنی یہ ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں ہیں۔ ان بیماریوں کے خاتمے کے بعد بھی اگر انسان کے اندر کی کوئی بیماری بچ جائے تو وہ بھی بیمار ہو اور اپنے خاتمے کی طرف جائے۔ احباب اب اس مصرع کو پڑھیں:

پنج ست مرن گوانڈھناں، رہندیاں نوں ٹاپ چڑھے

اور ان سب بیماریوں کے بعد جب انسان کا اندر صاف ہوتا ہے تب جا کر انسان کا عشقِ حقیقی پورا ہوتا ہے اور انسان اپنے محبوب کو پاتا ہے۔

ان اشعار کو پڑھنے کے بعد میں تو پورا پاگل ہوچکا تھا اور اس پاگل پن کا بس ایک ہی علاج تھا کہ میں شاہ مقیم کے حجرے کی جانب سفر کروں مگر یہ سفر ابھی شاید قسمت میں نہ تھا۔ فی الوقت ایک دوسرے سفر کی تکمیل کا وقت ہوا چاہتا تھا جس کا خواب میں نے ایک عرصہ پہلے سوچا تھا۔

پہلے میں سوچتا تھا کہ کیسا خوب صورت دن ہو گا جس کی شروعات انسان روات قلعہ سے کرے۔ پھر سوہاہ سے پہلے شہاب الدین غوری کے مزار کی طرف بائیک موڑ دے۔ دوبارہ جرنیلی سڑک پر آئے تو ذرا دائیں جانب مڑ کر ڈومیلی کا ریلوے اسٹیشن اور اس کے ڈیم پر کچھ وقت گزارے۔ دوبارہ جی ٹی روڈ پر اپنا سفر شروع کریں تو منگلہ کی جانب رخ کریں اور منگلا ہیڈ ورکس کی خوب صورت تعمیرات سے لطف اندوز ہوں۔ پھر سرائے عالمگیر کا رخ کریں اور سڑک سے ذرا ہٹ کر اس کا پرانا ریلوے اسٹیشن دیکھیں۔ سنا ہے بس اب وہ مکمل ختم ہونے والا ہے۔

وہاں سے آگے چلتے جائیں تو وزیر آباد کی ایک دو پرانی حویلی دیکھ لیں اور پھر چپ چاپ شریف بچوں کی طرح گھر کا رخ کریں اور با جب کہ میں عید کی چھٹیوں میں فراغت کے لمحات پا چکا تھا تو سوچا اس دن کو ترتیب دے ہی دیا جائے۔ نہ جانے کیوں کر ماجد میرے ساتھ چلنے کے واسطے تیار ہو گیا او صبح سات بجے کے قریب تیار شیار ہو کر ہم نے اپنا رخ کھڑی شریف کی جانب کر دیا جہاں ہمیں ایک ہزار اشعار پر مشتمل کتب ''سیف الملوک'' کے شاعر میاں محمد بخش کے سرہانے کھڑا ہونا تھا۔ ایک خاص تعظیم کے ساتھ کہ سیف الملوک جیسی کتاب کوئی اور نہیں لکھ سکتا تھا۔ ایسے اشعار کسی اور ہر نازل ہی نہیں ہو سکتے تھے۔

کشمیری رومی کے نام سے جانے جانے والے میاں محمد بخش 1830 عیسوی میں کشمیر کے علاقے کھڑی شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباء و اجداد کا تعلق گجرات سے تھا جو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی کھڑی شریف منتقل ہو گئے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم یہیں کھڑی شریف سے حاصل کی اور یہیں آپ کا انتقال ہوا۔ میاں محمد بخش نے تصوف اور بزرگی میں اپنا نام پیدا کیا مگر ان کی بنیادی وجہ شہرت ان کا شاعری سے شغف تھا۔ آپ نے متعدد کتب لکھیں مگر وجہ شہرت ''سیف الملوک'' بنی۔ سیف الملوک جسے سفر العشق یا مثنوی عشق بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد چوں کہ پنجابی تھے، اس لئے گھر کی زبان پنجابی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا زیادہ تر کلام پنجابی زبان میں ہی ہے مگر آپ کے کلام میں پنجابی کے علاوہ ہندکو، پہاڑی اور پوٹھوہاری زبان کے اشعار بھی ملتے ہیں۔

تو سیف الملوک ہے کیا؟ سیف الملوک شاعری کی ایک خوب صورت کتاب ہے جس میں تقریباً دس ہزار اشعار کو ایک لڑی میں پرویا گیا ہے۔ جیسے وارث شاہ کے مزار پر لوگ ہیر پڑھتے ہیں بالکل ایسے ہی میاں محمد بخش کے چاہنے والے ان کے دربار پر بیٹھ کر سیف الملوک پڑھتے ہیں۔ مزار کی نئی عمارت کو بنے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ میاں محمد بخش صاحب جس غار میں عبادت کی غرض سے اپنا زیادہ وقت گزارتے تھے، وہ غار کو (چلہ گاہ) جوں کا توں محفوظ کیا گیا ہے۔ اسے شیشہ لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ عوام کو اب اس غار میں جانے کی اجازت نہیں۔

قریب ہی ایک بہت ہی چھوٹی سی مسجد بھی تھی، جسے محفوظ تو نہیں کیا گیا مگر اس کی چار دیواری اسٹیل گرل سے کر دی گئی ہے۔ قریب ہی میاں محمد بخش صاحب کا آبائی گھر بھی ہے۔ جسے محفوظ بنایا گیا ہے البتہ چھت کو محفوظ بنانے کی خاطر اس میں کچھ جدت لائی گئی ہے۔ فرش اور دیواریں وہی پرانی ہیں اور انھیں آج بھی مٹی سے لیپ کیا جاتا ہے۔ اسی گھر میں میاں محمد بخش صاحب کے استعمال کی چیزوں مثلاً چارپائی، کوزہ، گھڑا اور جائے نماز تک کو محفوظ بنایا گیا ہے۔ قریب ہی ان کے پیر، پیر شاہ غازی کا مزار ہے جو دمڑی والی سرکار کے نام سے مشہور ہیں۔

میاں محمد بخش کے مزار کے باہر ایک طویل اور خوب صورت سا بازار لگتا ہے جہاں دنیا کی ہر چھوٹی سے چھوٹی شے میسر ہے۔ خواہ وہ روایتی ہو یا علاقائی سوغات۔ کھانے پینے کی چیزیں ہوں یا پھر بچوں کے کھلونوں الغرض یہاں سب کچھ ہی موجود ہے۔ بازار سے سب سے منفرد شے اس کا اچھا خاصا طویل ہونا بھی ہے۔ ایسا طویل اور بڑا بازار کم از کم میں نے کسی مزار کے باہر نہیں دیکھا۔

اس دن موسم انتہائی خوب صورت تھا بلکہ یوں سمجھ لیں کہ وقفے وقفے سے بوندا باندی جاری تھی۔ ہم ابھی جہلم کے پل پر ہی تھے کہ بارش نے آن لیا۔ پھر بارش نہ رکی نہ مسلسل جاری رہی۔ یہ بھی اچھا رہا کہ بارش زیادہ تیز نہ ہوئی۔ ورنہ بائیک چلانا نا ممکن ہوتا۔ ہماری منزل اب منگلا ڈیم کے قریب بنے ایک خوب صورت پل کی طرف تھی جس کی خوبصورتی دنیا جہان سے چھپی ہوئی تھی۔ اس کا منفرد طرزِتعمیر بالکل نیچے کی جانب دنیا جہان سے مخفی ہے شاید اسی لیے ابھی تک صاف ستھرا ہے۔

پل کو بنے سو سال سے زائد ہو چکے ہیں۔ پل اوپر سے تو ایک عام پل سا لگتا ہے مگر نیچے اتریں تو ایک خاص محرابوں کا ڈیزائن آپ کو حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ پھر اس کے ساتھ گول آرچ قطار اندر قطار ایسے بنے ہیں کہ آخری آرچ شروع سے بالکل ہی چھوٹی دکھائی دیتی ہے۔ ڈیم کی وجہ سے اس نہر میں اب پانی نہیں مگر پھر بھی بہت ٹھنڈک ہے۔ جب ڈیم کا پانی زیادہ ہونے پر اس نہر سے پانی گزرتا ہو گا تو تب اس کی خوب صورتی یقیناً ایک منفرد منظر ہی پیش کرتی ہو گی۔ سخت گرمی میں بھی یہاں اچھی خاصی ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔

اس پل کے بارے کچھ لکھنے بیٹھا تو سید شبیر احمد کی ایک خوب صورت معلوماتی تحریر نظر سے گزری۔ تحریر اس قدر خوب صورت تھی کہ اس سے استفادہ حاصل کرنے سے بہتر لگا کہ ان کے نام کے ساتھ پوری کی پوری تحریر کو ہی اپنے مضمون کا حصہ بنا لوں۔

بینٹن بیراج

کتنا حسین منظر تھا۔ یہ 9 دسمبر سن 1915ء کی ایک سرد دوپہر تھی۔ منگلا کا وہ تاریخی مقام جہاں سے یونانی بادشاہ الیگزینڈر نے راجا پورس کی فوجوں پر حملہ کرنے کے لیے دریا پار کیا تھا، دو ہزار سال بعد آج اسی مقام پر ایک میلے کا سا سماں تھا۔ یہ میلہ نہر اپر جہلم کی تکمیل پر اس کے افتتاح کے لیے سجایا گیا تھا۔ وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ ثانی نو تعمیر شدہ نہر اپر جہلم کا افتتاح کرنے کے لیے خصوصی طور پر یہاں موجود تھا۔ مہاراجہ پرتاب سنگھ والیِ ریاست جموں وکشمیر بھی اس موقع پر مدعو تھا کیوں کہ یہ افتتاح اس کی ریاست کی حدود میں ہو رہا تھا۔ منگلا کے قریبی دیہات کے بہت سے لوگ، جنہوں نے اس نہر کی کھدائی میں حصہ لیا تھا، وہ بھی جمع تھے۔

لوگ حیرانی سے پتھروں سے بنے محراب دار پُل اور اس پر نصب لوہے سے بنی مشینری کو دیکھ رہے تھے، جس کی مدد سے پل کے دَروں کے درمیان ایستادہ لوہے کے بڑے بڑے دروازے لوہے کی تاروں سے بنے ہوئے رسوں کی مدد سے چرخیوں سے آہستہ آہستہ کھلنے کا منظر دیکھنا چاہتے تھے۔ حکومت پنجاب کے آب پاشی کے انسپکٹر جنرل سر جون بینٹن فخر سے پھولے نہیں سما رہے تھے کیوں کہ ان کے تیار کردہ منصوبہ کی یہ آخری نہر تھی جو پایہ تکمیل تک پہنچی تھی۔ اس نہر سے ضلع گجرات سیراب ہونے جا رہا تھا۔ وہ منڈی بہاؤالدین سمیت پورے ضلع گجرات کو سرسبز و شاداب ہوتا دیکھ رہے تھے۔

نہر اپر جہلم آب پاشی کے لیے انسانی ہاتھوں سے کھودی گئی ایک نہر ہے، جو پنجاب کے ضلع گجرات کے ایک بڑے رقبے کو سیراب کرتی ہے۔145میل سے زیادہ لمبی یہ نہر ریاست جموں و کشمیر میں منگلا کے مقام پر دریا جہلم سے نکالی گئی تھی۔ ریاست جموں و کشمیر کے کچھ علاقہ سے گزر کر پنجاب کے ضلع گجرات اور منڈی بہاؤالدین کو سیراب کرتی ہوئی یہ نہر ہیڈ خانکی کے بیراج سے دریا چناب میں گرتی ہے۔ اس نہر کا بنیادی نقشہ اور تعمیر برطانوی راج میں پنجاب حکومت کے آب پاشی کے برطانوی انجینئر سر جون بینٹن کی زیر نگرانی ہوئی۔ سر جون بینٹن 1914ء میں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب کے آب پاشی کے انسپکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

برطانوی راج کی پنجاب گورنمنٹ نے انیسویں صدی کے آخر میں دریا جہلم کے پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے دریا چناب تک پہنچانے اور پنجاب کو دریا جہلم، چناب اور راوی کے پانیوں سے سیراب کرنے کے لئے تین نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ آب پاشی کے اس منصوبے کو (TCS-Tripple Canal System) کا نام دیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت تین نہریں، نہر اپر جہلم، نہر باری دوابہ اور نہر اپر چناب نکالنے کا فیصلہ ہوا۔ اس نہری نظام کے تحت نکلنے والی تین نہروں کی لمبائی 433 میل سے زیادہ تھی، جن سے پنجاب کا 1,750,000 ایکڑ سے زیادہ رقبہ سیراب ہونا تھا۔

نہر اپر جہلم کے ابتدائی سروے کے مطابق منگلا سے تھوڑی دور علاقہ کھڑی میں چنگڑھ کے مقام سے نہر نکالنے کا منصوبہ تیار ہوا جس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کا تھا۔ اس مقام پر دریا میں ایک موڑ تھا جہاں پر پانی کا بہاؤ تیز اور کافی گہرا تھا لیکن یہاں سے نہر نکالنے میں کافی مشکلات تھیں۔ دوسری متبادل جگہ منگلا کا مقام تھا جہاں سے یونانی بادشاہ الیگزینڈر نے دریا عبور کر کے راجہ پورس کی فوجوں پر حملہ کیا تھا۔ اس مقام پر دریا انگریزی حرف S کی طرح بل کھا رہا تھا۔ وہاں گہرے پانی کا ایک تالاب بھی تھا، پانی کا بہاؤ تیز تھا اس لئے یہاں سے نہر نکالنے میں زیادہ آسانی تھی۔ اس مقام سے نہر نکالنے پر خرچے کا تخمینہ 3.240 ملین روپے کا تھا۔

دونوں جگہوں سے نہر نکالنے کی صورت میں نہر کے ابتدائی حصے کا گزر ریاست جموں و کشمیر سے ہوتا تھا۔ برطانوی راج اور اس کی پنجاب گورنمنٹ ریاست کے والی مہاراجہ پرتاب سنگھ پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ انھیں نہر کی کھدائی اور اس سے منسلک دوسری تعمیرات میں ریاست کی انتظامیہ اور پنجاب گورنمنٹ کی مشینری کے درمیان فساد کا خدشہ تھا۔ پنجاب حکومت نے مہاراجا پرتاب سے منگلا کے مقام سے نہر نکالنے کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے اس کے دربار سے مذاکرات کئے۔

دونوں اطراف سے بہت سی تجاویز پیش کی گئی، جن پر غور و خوض کے بعد باہمی مشاورت سے پنجاب گورنمنٹ اور مہاراجہ کے دربار کے درمیان15 ستمبر 1904ء کو ایک معاہدہ طے پا گیا، جس میں مہاراجہ نے ریاست کی حدود میں دریائے جہلم سے نہر نکالنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ مہاراجہ کے دربار نے ریاست اور اپنی عوام کے مفاد کے تحفظ کے لیے کافی کڑی شرائط رکھیں۔ اس معاہدہ کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔

٭ نہر کی زمین ریاست کی ملکیت رہے گی البتہ نہر نکالنے پر پنجاب حکومت سے رائلٹی کی مد میں کوئی رقم وصول نہیں کی جائے گی۔ پنجاب حکومت ہر سال مہاراجہ کو نہر کی کھدائی میں استعمال ہونے والی زمین کے کاشت شدہ حصے پر عائد محصول کی رقم کے برابر رقم ادا کرے گی۔

٭ پنجاب حکومت کو اس کے منظورشدہ منصوبوں کے مطابق ریاستی علاقہ میں ریاست کو آب پاشی کے لیے ضروری چھوٹی نہریں تعمیر کر کے دے گی۔ ریاست کو نہر کے ساتھ مختلف مقامات پر پن بجلی سے چلنے والی ملیں لگانے کے حقوق حاصل ہوں گے۔ ریاست اپنے علاقہ میں نہر سے نکلنے والی آب پاشی کی چھوٹی نہروں کی دیکھ بھال کا خود انتظام کرے گی۔ ان نہروں کے پانی کی تقسیم، آب پاشی پر محصولات کا تعین اور ان کی وصولی کا کام خود سرانجام دے گی۔


٭ پنجاب حکومت کی طرف سے نہر کی تعمیر شروع کرنے سے پہلے نہر کی حدود پر نشان لگائے جائیں گے اور ایسا کرتے ہوئے کسی مذہبی ادارے یا لوگوں کے مقدس مقام پر کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ پنجاب حکومت انسانی ضروریات کے مطابق مناسب مقامات پر نہر پار کرنے کے لئے گاڑیوں اور پیدل آمدورفت کے لئے مفت پل تعمیر کرے گی۔ پُلوں کا درمیانی فاصلے ایک میل سے زیادہ نہیں ہوگا۔ جاتلاں اور چیچیاں کے مقام پر گھٹیالی اور سکھ چین پور پتن تک رسائی کے لئے بڑے پل تعمیر ہوں گے۔ ریاست نہر کی تعمیر کے لیے درکار پتھر، چونے کا پتھر اور چٹانوں کے استعمال کی اجازت دے گی، البتہ ریاست کی حدود سے باہر ان پتھروں کو استعمال کرنے کی صورت میں پنجاب حکومت ریاست کو رائلٹی ادا کرے گی۔ پنجاب حکومت ریاست کی حدود میں ہیڈ ورکس اور سائفن کی تعمیر میں استعمال ہونے والی اینٹیں بنانے کے لئے بھٹے لگائے گی۔

٭ پنجاب حکومت کے ریاست کی حدود میں نہر کے حکام کے لیے تعمیر شدہ ڈاک بنگلے اور ریسٹ ہاؤس ریاستی انتظامیہ تحصیل دار اور اس سے بڑے عہدے کے افسر استعمال کرنے کے مجاز ہوں گے۔

1909ء میں سر جون بینٹن نے منگلا کا دورہ کیا اور اس مقام پر اخراجات کم ہونے کی وجہ سے یہاں سے نہر نکالنے کی حتمی منظوری دے دی۔ جس پر نہر کی کھدائی کا کام شروع ہو گیا۔ 1913ء تک کھدائی اور تعمیر کا کام زور و شور سے جاری رہا۔1914میں جگو ہیڈ کی تعمیر کے دوران اس نالے میں اچانک پانی کا ایک بڑا ریلا آ جانے کی وجہ سے اس کے پشتوں کو شدید نقصان پہنچا، جس کے نتیجے میں اس کی تعمیر میں کافی تاخیر ہوئی۔ دسمبر 1915میں اس کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا تھا اور نہر کا باقاعدہ افتتاح بھی وائسرائے ہند لارڈ ہارڈنگ کے ہاتھوں ہو چکا تھا۔ 1916ء کے موسم بہار میں پہلی دفعہ نہر میں پانی چھوڑا گیا۔ جس سے ضلع گجرات کا چہرہ بدل گیا اور 1920 ء کی دہائی کے وسط میں یہ اناج اگانے والا ایک خوش حال خطہ بن گیا۔

ریاست جموں وکشمیر کی حدود میں چھوٹی بڑی بہت سی ندیاں اور بڑے بڑے نالے نہر کے راستے سے گزرتے تھے۔ یہ ندیاں اور نالے دریا جہلم میں جا کر گرتے تھے۔ ان ندیوں اور نالوں کے بارشی پانی کو کنٹرول کرنے کے لیے نہر پر بہت سے ہیڈ ورکس اور سائفن تعمیر کیے گئے۔ چھوٹے ندیوں کا پانی نہر کے نیچے سے نکالنے کے لیے پکی اینٹوں اور چونے کے پتھر اور لوہے کے گارڈر سے سائفن تعمیر کیے گئے۔ ان چھوٹی ندیوں میں پانی کے بہاؤ اور بارش کے پانی کے اخراج کو مدنظر رکھ کر سائفن کے تین سے پانچ دَر رکھے گئے۔ریاست کی حدود میں ایسے سائفن سنکیاہ، ڈب، پنڈی سبھروال، پل منڈا اور ساہنگ کے مقامات پر تعمیر کئے گئے۔

ریاست کی حدود میں بنگ، جاتلاں اور کیرتن گڑھ (موجودہ علی بیگ) کے مقام پر بہت بڑے بڑے پہاڑی نالے گزرتے تھے۔ موسم برسات میں ان نالوں میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ اور تیز ہوتا تھا۔ نہر کے نیچے سے اس پانی کا اخراج ممکن نہیں تھا کیوں کہ اس سے نہر کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اس لیے ان مقامات پر بارش کے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے بڑے ہیڈ ورکس تعمیر کیے گئے۔ یہ ہیڈ ورکس ریاست جموں و کشمیر کی حدود میں بنگ، جاتلاں اور علی بیگ کے مقامات پر تعمیر کیے گئے۔ ان کی تعمیر میں اینٹیں، پتھر اور چونے کے علاوہ لوہے کی بھاری مشینری کا استعمال کیا گیا۔ اینٹوں کی ترسیل کے لیے نہر کے نزدیک اینٹیں بنانے کے بھٹے لگائے گئے۔

نزدیکی چٹانوں سے پتھر کاٹ کر ان کو تراش کر چونے اور سیمنٹ کے ساتھ استعمال کر کے دیواریں بنائی گئیں۔ پھر لوہے کے بڑے بڑے دروازے لگا کر ان دروں کو بند کر دیا گیا۔ بارش کا پانی زیادہ آ جانے کی صورت میں لوہے کے ان دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے۔ جس سے نہر میں آنے والا بارش کا فالتو پانی دریا میں چلا جاتا ہے۔ نہر سے پانی کے اخراج کے لئے نہر کے ساتھ سکیتر بنائے گئے تھے۔ ان سکیتروں سے ہو کر بارش کا پانی دریا جہلم میں جا کر گرتا تھا۔ ہیڈ ورکس میں نصب لوہے کے بھاری دروازے کھولنے میں استعمال ہونے والی ساری مشینری برمنگھم برطانیہ کی فیکٹریوں میں بنائی گئی۔

مشینری بحری جہازوں کے ذریعے پہلے کراچی بندرگاہ پر لائی گئی پھر وہاں سے بذریعہ ریل گاڑی یہ مشینری سرائے عالمگیر ریلوے سٹیشن تک لائی گئی۔ منگلا اور دوسرے ہیڈورکس پر بھاری مشینری کی ترسیل کے لیے سرائے عالمگیر سے منگلا تک نہر کے دائیں کنارے پر ریل کی پٹڑی بچھائی گئی اور ریل گاڑیوں کے ذریعے یہ مشینری ان ہیڈ ورکس تک پہنچائی گئی۔

منگلا سے دو میل کے فاصلے پر پہلا ہیڈ ورکس بنگ کے مقام پر تعمیر کیا گیا۔ اس سے دس میل کے فاصلے پر دوسرا ہیڈ ورکس جاتلاں کے مقام پر کسگمہ سے بہہ کر آنے والے نالے پر بنایا گیا جو اُس وقت تک پنجاب کا سب سے بڑا ہیڈورکس تھا۔ اس سے ایک میل کے فاصلے پر علی بیگ کے مقام ریاست کی حدود میں تیسرا ہیڈورکس بنایا گیا۔ علی بیگ ہیڈورکس برطانوی راج اور ریاست جموں و کشمیر کی سرحد پر واقع تھا۔

اب یہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرحد پر واقع ہے۔ اسی دور میں علی بیگ کے مقام پر اس علاقے کے سکھوں کے سب سے بڑے گورودوارے کیرتن گڑھ کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔ جو اُس وقت اس علاقے کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ ریاست کی حدود میں منگلا سے علی بیگ تک نہر کے بائیں کنارے پر سڑک بنائی گئی۔ یہ سڑک عرصہ تک میرپور کو پنجاب سے ملانے کا واحد ذریعہ تھی۔

علاقہ کھڑی میں نہر بننے کی وجہ سے لوگوں کی زمینیں نہر کے دونوں اطراف میں بٹ گئی تھیں اس لیے منگلا سے علی بیگ تک تین ہیڈ ورکس کے علاوہ نہر پار کرنے کے لیے ڈب، پنڈی سبھروال، افضل پور،منڈہ اور بنی کے مقامات پر چھوٹے پل تعمیر کیے گئے۔ اس کے علاوہ دریا جہلم پر گھٹیالی اور سکھ چین پور پتن پر مہاراجہ کے خاندان کی رسائی اور سامان کی ترسیل کے لیے چیچیاں اور جاتلاں کے مقامات پر بڑے پل تعمیر کیے گئے۔ جاتلاں اور بنگ کے مقامات پر نہر کے حکام کے ٹھہرنے کے لیے ڈاک بنگلے تعمیر کیے گئے جو ابھی تک قائم ہیں۔ ان ڈاک بنگلوں میں ریاست کے تحصیلدار اور اس سے بڑے عہدے کے افسران ٹھہر سکتے تھے۔

ریاست کی حدود میں نہر کے بائیں کنارے پر بننے والی سڑک پر برطانیہ سے خصوصی طور پر لائے گئے درخت لگائے گئے تھے۔ وہ 1980ء تک قائم و دائم رہے اور پھر نامناسب دیکھ بھال کی وجہ سے ان کی تعداد کم ہونے لگی۔ بعد میں 2001ء میں سڑک کی توسیع کے نام پر ان سب درختوں پر آری پھیر دی گئی۔ اب ان درختوں کی جگہ خالی ہے جس سے نہر انتہائی بے رونق دکھائی دیتی ہے۔ بچپن میں ہمارے گاؤں کے نزدیک ہونے کی وجہ سے والدین کے منع کرنے کے باوجود ہم اس نہر میں نہایا کرتے تھے۔ اسی نہر کے کنارے افضل پور کے مقام پر بڑے بڑے درختوں میں گھری ہماری مادر علمی گورنمنٹ ہائی اسکول افضل پور کی عمارت ہے۔

ریاست کی حدود میں ڈب، افضل پور، منڈا اور بنی کے مقام سے چھوٹی نہریں نکالی گئی تھیں جو نہر کے دائیں طرف والے کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔ ان چھوٹی نہروں کی آب پاشی کی وجہ سے کھڑی میں چاول کی بڑی اچھی خوشبودار فصل ہوتی تھی، جو اب معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ اس نہر کی وجہ سے علاقہ کھڑی کی رونق ابھی تک قائم ہے۔

نہر کے دائیں کنارے پر ریل کی پٹڑی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی۔ لکڑی کے تختے نزدیکی دیہات کے لوگ اکھاڑ کر لے گئے تھے۔ بعد میں نوازشریف حکومت کے دور میں اس ریل کی پٹڑی اکھاڑ کر کوڑیوں کے مول بیچ دیا گیا۔ اگر اس کی صحیح طور پر دیکھ بھال کی گئی ہوتی تو یہ پٹڑی اب تک موجود ہوتی جس سے نہر کی مضبوطی قائم رہتی۔

2019ء میں ضلع میرپور میں آنے والے قیامت خیز زلزلے کی وجہ سے علاقہ کھڑی میں بہت زیادہ تباہی ہوئی تھی۔ نہر کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ افضل پور اور بنی کے پل مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ منڈہ کے سائفن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ دو تین مقامات پر نہر کے کناروں کو شدید نقصان پہنچا جس وجہ سے نہر کو بند کر دیا گیا۔ نہر کے کنارے سڑک بنگ ہیڈ سے لے کر جاتلاں تا مختلف مقامات پر بیٹھ گئی اور بہت سے دوسری جگہوں پر مکمل تباہ ہو گئی۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کے نہر کے کناروں کو صحیح طریقہ سے دوبارہ تعمیر کرنے کی بجائے محض روایتی لیپاپوتی سے کام لیا گیا اور نہر کو چند ماہ کی بندش کے بعد دوبارہ کھول دیا گیا۔

زلزلے میں تباہ ہونے والے افضل پور پل کو گیارہ کروڑ کی خطیر لاگت سے دوبارہ بنا دیا گیا ہے جب کہ ہمارے گاؤں بنی والے پل کا کوئی پرسان حال نہیں ہے اور نہ ہی اس کی دوبارہ تعمیر کے کوئی آثار نظر آتے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت نے زلزلے سے تباہ ہونے والی سڑک بنگ سے علی بیگ ہیڈ تک نئی بنا دی ہے۔ سوائے پل منڈا کے مقام پر نیا پل تعمیر کرنے کے گذشتہ ستر سالوں میں نہر کی نامناسب دیکھ بھال اور حفاظت کی وجہ سے نہر اب کئی مقامات پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے کاش انگریز جیسا حسن انتظام ہم دیسی اپنے قومی اثاثوں کی دیکھ بھال کے لئے کر سکتے۔

اب آگے بڑھنے سے پہلے مختارمسعود کی کتاب حرفِ شوق کا ایک اقتباس پڑھتے ہیں جو ہمیشہ میری نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ کیوں رہتا ہے، اس اقتباس میں ایسی کیا خاص بات ہے، وہ آپ کو اقتباس پڑھ کر بہ آسانی سمجھ آ جائے گا۔

''آصف جاہی دور کے آخری دنوں میں پاکستان میں حیدرآباد کے ایجنٹ جنرل نے نظام سے ایک خفیہ ملاقات میں یہ معروضہ پیش کیا کہ حیدرآباد کی دولت (بالخصوص زر و جواہر اور سونے کے انبار) جو سات آٹھ سو برسوں سے مسلمانوں کے خون اور پسینہ کا ثمرہ ہے اسے جلد از جلد کسی محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ نظام نے ان سے دریافت کیا کہ تمھیں آخر کس قسم کے خدشات ہیں اور تم نے کراچی میں بیٹھ کر ان خدشات کا کیسے اندازہ کر لیا۔ ایجنٹ جنرل کے جواب دینے سے پہلے شاہی چوب دار کورنش بجا لایا اور عرض کیا کہ سرکار نے آم کا ٹوکرا بمبئی بھیجنے کے لیے فرمایا تھا وہ حیدرآباد کا اسٹیشن ماسٹر لینے سے انکاری ہے کیونکہ بھارتی ناکابندی شروع ہوچکی ہے۔

اس اطلاع کے بعد خدشات والے سوال کے جواب کی ضرورت باقی نہ رہی۔ اس وقت ناشناس حکم راں کی بصیرت کو کیا کہیے جس کا بس آموں کے ایک ٹوکرے کی نقل و حرکت پر نہ چلتا ہو اور وہ یہ دریافت کرے کہ آخر اس کے زر و جواہرات کو ایسا کون سا خطرہ لاحق ہے جس کا ذکر سفیر کے عہدہ کا ایک شخص رو رو کر کر رہا ہے۔ نظام نے فرمایا کہ انھیں اس معاملہ پر غور کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

قائد اعظم نے اس ملاقات کا حال سنا اور ایجنٹ سے کہا: ''وہ تم کو بھی اسی طرح ٹال رہے ہیں جیسے اب تک دوسروں کو ٹالتے رہے ہیں۔ تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ تاریخ میں ایسے لوگوں کا کیا حشر ہوتا ہے جو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے فرار کی کوشش کرتے ہیں۔ ''

متروک شدہ ہسٹیڈ ریلوے اسٹیشن

بخدا انگریز سے زیادہ اس دنیا میں خوب صورت اور نفیس کوئی دوسری قوم نہیں۔ حکومت اگر کسی کو کرنا آئی ہے تو وہ صرف اور صرف انگریزوں کو ہی آئی ہے۔ اگرچہ برصغیر کی ترقی میں اصل فائدہ ان کا اپنا ہی تھا۔ چمن قندھار ریلوے لائن ہو یا پھر کابل طور خم لائن، یہ سب انھوں نے اپنے واسطے ہی بنایا تھا جسے آج ہم کسی نہ کسی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ کم بخت دوسری جنگِ عظیم نہ ہوتی تو آج بھی انگریز ہی ہم پر حاکم ہوتے اور ہم ریل پر کیلاش، خنجراب، گوادر اور نہ جانے کہاں کہاں جا رہے ہوتے۔

ہائے افسوس امریکہ کم بخت نے اپنی چودھراہٹ کے چکر میں دوسری جنگِ عظیم کو چھیڑ دیا۔ برطانیہ تو تھا ہی امریکہ کا سگا بھائی۔ اس جنگ میں برطانیہ کا کودنا لازم تھا۔ اتحادی جنگ تو جیت گئے مگر جاپان نے بھی ان کے ناکوں چنے چبوائے۔ نتیجتاً برطانیہ نے برصغیر میں اپنا بستر گول کرنا شروع کر دیا۔ جس کا فائدہ نہرو اور جناح نے اٹھایا، جس کے نتیجے میں ایک آزاد اور ایک مفلوج ریاست وجود میں آئی۔

بات میں نے صرف دینہ کے قریب منگلا روڈ پر متروک شدہ ریلوے اسٹیشن ہسٹیڈ کی کرنی تھی اور بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ دینہ بائی پاس سے منگلا کی جانب مڑیں تو تقریباً دو کلو میٹر کے بعد دائیں جانب آپ کو ایک متروک شدہ ریلوے اسٹیشن کے اثرات ملیں گے۔ اس ریلوے اسٹیشن کے بارے دو مفروضے ہیں۔ اول تو یہ کہ اس ریلوے اسٹیشن کی پٹریوں پر 1861 اور 1895 کی تاریخیں درج ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ریلوے اسٹیشن تقسیم سے پہلے موجود تھا اور ایک ذیلی ٹریک بچھا کر اسے مین لائن سے جوڑا گیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ ٹریک دینہ سے منگلا تک منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے بچھایا گیا تھا۔ اسی طرح کا ٹریک ضلع اٹک میں لارنسپور سے ہری پور کی تحصیل غازی تک بھی بچھایا گیا تھا تربیلا ڈیم کی تعمیر کے لیے بھی بچھایا گیا تھا۔ دونوں ٹریک ڈیم بننے کے کچھ عرصہ بعد اکھاڑ دیے گئے تھے اب صرف اس طرح کے کچھ آثار باقی ہیں۔

ہسٹیڈ ریلوے اسٹیشن سے جی ٹی روڈ کی سفر شروع کیا تو سامنے ریلوے پھاٹک بند ملا۔ میں خوشی خوشی ریل کا انتظار کرنے لگا۔ ریل آئی، میں نے ویڈیو بنائی مگر جب ایک بوگی پر ریل کا نام دیکھا تو مسکراہٹ پہلے مدھم ہوئی اور پھر غائب سی ہو گئی۔ جعفر ایکسپریس تھی جو کوئٹہ سے پشاور کا رہی تھی۔ میرا پورا پلان تھا عید کے دوسرے دن ہی بذریعہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ جاؤں اور پھر وہاں سے چمن پسنجر ٹرین سے چمن بارڈر تک جایا جائے۔

میرا اور میرے دوست عباس کا اس عید کے اگلے ہی روز بذریعہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ جانے کا پلان تھا۔ سب کچھ فائنل ہو گیا تھا۔ جب ٹور ترتیب پا چکا تو کچھ دوستوں سے مشورے کا سوچا۔ عباس نے بھی جس جس سے مشورہ مانگا سب نے نہ جانے کا مشورہ دیا۔ میرا خود ایک دوست ندیم اسرار صاحب سے لمبا چھوڑا مکالمہ ہوا جو کچھ عرصہ پہلے چمن بارڈر کی سیاحت کر کے آئے تھے اور آخر پر میں بھی متفق ہو گیا کہ ہمیں نہیں جانا چاہیے۔ مگر عباس کو اتنا میں نے کہہ دیا کہ جون میں ایک بار پھر کوشش کریں گے۔ مگر نوشکی میں پیش آئے واقعے کے بعد سوچتا ہوں کہ احباب نے درست مشورے دئیے تھے۔

مجھے شاید جون والے ٹور پر بھی نظرِثانی کرنی چاہیے۔ مانا کہ بلوچستان محرومیوں کا شکار ہے مگر ان محرومیوں کے ذمہ دار ان کے بڑے سیاست داں خود بھی تو ہیں۔ کوئی ان سے جواب طلب کیوں نہیں کرتا؟ 2008 تا 2013 پوری کی پوری بلوچستان صوبائی اسمبلی حکومت میں تھی۔ سب ہی مزے لے رہے تھے۔ بلوچ اپنی بندوق کا رخ اپنے ہی سرداروں کی جانب کب کرے گا؟ یقیناً اس واقعے کے پیچھے بیرونی سازش ہو گی، مگر یہ بیرونی سازش کب سامنے آئے گی؟ اگر سارے بلوچ برے نہیں تو سب پنجابی بھی اچھے نہیں۔ بلوچ کل بھی ہمارے دوست بھائی سب کچھ تھے اور آج بھی ہیں۔

ضرورت صرف اور صرف اس امر کی ہے کہ دونوں اطراف کی کالی بھیڑوں کو صفایا کیا جائے مگر اس میں خطرہ شاید یہ ہے کہ بہت ساروں کی روزی روٹی شاید اسی سے منسوب ہے کہ پنجابی بلوچ نفرت بڑھے اور یہ خوف کی فضا برقرار رہے۔ہمیں قومی سطع پر کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔ ہم خود ہی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کے لیے بہت ہیں۔

جی ٹی روڈ سے گزرتے ہوئے سرائے عالمگیر ریلوے اسٹیشن پر رک گیا۔ اگرچہ کہ رکنے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر پھر بھی میں ریلوے اسٹیشن کی عمارت میں چلا گیا۔ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس ریلوے اسٹیشن کو بھی بند کردیا جائے گا۔ یہ ریلوے اسٹیشن بھی متروک ہوجائے گا۔ شاید کچھ سالوں بعد کوئی اس اجڑے ہوئے ریلوے اسٹیشن کی متروک شدہ عمارت کے پاس بیٹھ کر کوئی تحریر لکھے کہ کیوں کر اس ریلوے اسٹیشن کو بھی دیگر ریلوے اسٹیشنز کی طرح بند کردیا گیا۔

کھاریاں باؤلی

ہمارا رخ اب کھاریاں کی باؤلی کی طرف تھا۔ ایک ایسی باؤلی جسے بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے، جو کھاریاں شہر کے بیچوں بیچ واقع ہے مگر کھاریاں کے باسی اس باؤلی سے لاعلم ہیں۔ باؤلی کیا ہے، ایسا کنواں جس کے پانی تک پہنچنے کے لیے کوئی راستہ یا سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں، باؤلی کہلاتا تھا۔ کھاریاں راولپنڈی والے بس اسٹاپ کے بالکل سامنے گلیانہ روڈ ہے، اس پر پیدل پانچ منٹ چل کر لیفٹ سائیڈ پر انارکلی ہے، انارکلی بازار میں داخل ہوتے ہی چند قدم پر جو چوڑی گلی رائٹ سائیڈ پر مڑتی ہے اس میں چند قدم پر سامنے باؤلی نظر آ جائے گی۔ گیٹ پر شاید سرکاری ملازم ہے جس کا نمبر اندر کی طرف دیوار پر لکھا ہے۔ اگر آپ کو گیٹ بند ملے تو فوراً اسے کال کریں، آپ کے لیے باؤلی کا دروازہ کھل جائے گا۔

یہ محکمہ آثارِ قدیمہ کی نالائقی ہے کہ ان احمقوں نے مقامی طور پر کسی سے معلومات حاصل کئے بغیر بورڈ پر اس کا غلط نام ''بہار والی بولی'' پرنٹ کروا دیا، یہ دراصل ''باہر والی باولی'' ہے۔ کھاریاں میں دو باؤلیاں تھیں۔ دوسری باؤلی اس سے بڑی تھی اس میں دیوان عام اور دیوان خاص الگ الگ بنے ہوئے تھے اس باؤلی کا تعلق ہمایوں سے بتایا جاتا تھا اور یہ باؤلی ہمایوں کے بیٹے اکبر نے بنوائی، اس باؤلی کو باہر والی باؤلی کہتے تھے، اس پر شاید پاکستان بننے سے پہلے مسجد تعمیر ہوچکی جسے جامع مسجد عالمگیری کہتے ہیں۔

لالہ موسیٰ جنکشن

بات بہت پرانی ہے۔ کتنی پرانی یہ اب مجھے بھی ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ اگر کچھ یاد ہے تو صرف اور صرف لالہ موسیٰ جنکشن اور دھماکاایکسپریس (جسے اب چناب ایکسپریس کا نام دے دیا گیا ہے) بچپن میں جب ذرا ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو سفر میں پایا۔ سفر ہمیشہ سرگودھا کی جانب رہا اور زیادہ تر ٹویوٹا ہائی ایس میں ہی رہا۔ سرگودھا کی جانب سفر کی وجہ صف اور صرف یہ تھی کہ میرے ننہال شہر سرگودھا میں تھے۔ ایسے میں ہم سب گرمیوں کی چھٹیوں میں کم از کم ایک ماہ کے لیے سرگودھا چلے جاتے۔ اکثر یہ سفر بذریعہ ریل بھی ہوتا۔

سیالکوٹ سے سرگودھا کوئی ریل براہ راست نہ جاتی تھی۔ ایسے میں ہم صبح سویرے سیالکوٹ سے راولپنڈی جانے والی ریل کار میں سوار ہو کر لالہ موسیٰ تک سفر کرتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ تقریباً دو گھنٹے کے مزے دار سفر کے بعد ہم تقریباً سات بجے لالہ موسیٰ جنکشن پر اتر جاتے اور ریل کار آگے راولپنڈی کو چلی جاتی۔ لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن میرے لیے ایک بہترین اور جی خوش کرنے والی جگہ تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہم وہاں چائے پیتے، ساتھ کیک رس یا سادہ خشک کیک ضرور ہوتا۔ وہی جو ہمارے ریلوے اسٹیشن پر ملتا ہے۔ میں آتی جاتی ٹرینوں کو دیکھتا اور ان سے خوب محفوظ ہوتا۔

لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن پر ہمیں تقریباً تین گھنٹے گزرانا ہوتے تھے۔ ایسا تھا کہ سرگودھا سے دھماکہ ایکسپریس صبح چار بجے چلتی تھی اور ٹھیک نو بجے لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن پر آجاتی۔ ایک گھنٹہ وہی رکتی، اس کی صاف صفائی ہوتی اور پھر انجن کو تبدیل کر دیا جاتا۔ ٹھیک دس بجے ریل کار پھر سرگودھا کی جانب چل پڑتی اور تقریباً دو بجے سرگودھا پہنچ جاتی۔ ہم چوں کہ صبح سات بجے لالہ موسیٰ پہنچ جاتے تھے۔ تین گھنٹے شاید میرے بڑے انتظار کی سولی پر گزارتے ہوں مگر میرے لیے تو یہ بڑے مزے کے اور یادگار لمحات تھے۔ عمر بھی تو اس وقت بس میری دس بارہ سال تھی۔

تو میں ایک بار پھر لالہ موسیٰ جنکشن پر تھا، نہ جانے کتنے سالوں کے بعد میں پھر اسی بنیچ پر بیٹھا تھا جہاں بہت بچپن میں بیٹھا کرتا تھا۔ میں انہی پلیٹ فارم پر اٹکیلیاں کر رہا تھا، جہان بہت وقت پہلے کیا کرتا تھا۔ لالہ موسیٰ جنکشن میرے لئے بالکل بھی اجنبی نہیں تھا، یہاں کا پتا پتا بوٹا بوٹا مجھے جانتا تھا پہچانتا تھا۔ راولپنڈی سے آنے والی کچھ گاڑیاں یہیں سے سیدھی لاہور کی طرف چل پڑتی ہیں اور کچھ ملکوال، سرگودھا کی جانب چلی جاتی ہیں۔ ہمارے کھڑے کھڑے وہاں رحمان بابا ایکسپریس آ گئی جو کراچی جا رہی تھی۔ لالہ موسیٰ جنکشن پر بوندا باندی جاری تھی اور میں اسی بوندا باندی میں بھیگتا ہوا اپنے بچپن میں کھویا رہا۔
Load Next Story