بلیک ہول میں گرتے ہوئے شخص کو کیا دکھائی دے گا
ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ وہ انسان انتہائی دردناک موت سے دوچار ہوجائے گا
بلیک ہول خلائے بسیط میں موجود وہ پراسرار علاقے ہیں جہاں کشش ثقل اس قدر طاقت ور ہے کہ یہ ٹھوس اجسام تو درکار روشنی اور برقی مقناطیسی لہروں تک کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔
ذرا تصور کیجیے اگر کوئی انسان بلیک ہول میں گر جائے یا ان کی بے مثل کشش ثقل اسے اپنی جانب کھینچ لے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ وہ انسان انتہائی دردناک موت سے دوچار ہوجائے گا، کیونکہ بلیک ہول میں گرتی ہوئی کسی بھی دوسری شے کے مانند اس پر تجاذبی قوت اثرانداز ہوگی اور اس کے جسم کو کھینچ کر ایک نوڈل کی طرح پتلا اور لمبا کردے گی۔ اس عمل کو فلکیاتی طبیعیات کے ماہرین spaghettification کہتے ہیں۔
سسکس یونیورسٹی میں طبیعیات کے پروفیسر ژیویئر کامٹ کہتے ہیں کہ بلیک ہول کی کشش ثقل اتنی طاقت ور ہے کہ آپ کا جسم ایک لمبی تیلی میں تبدیل ہوکر پھٹ جائے گا۔
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ماہرین نے ایک حیرت انگیز اینی میشن تیار کی جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ اگر کوئی انسان بلیک ہول میں جاگرے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا اور اپنے آخری لمحات میں اسے کیا دکھائی دے گا۔
ناسا کے 'ڈسکور' نامی سپرکمپیوٹر پر بنائی گئی اینی میشن میں ایک انتہائی جسیم اور طاقت ور بلیک ہول میں گرتے ہوئے ایک شخص کو نظر آنے والے ممکنہ مناظر دکھائے گئے ہیں۔
ناسا کی ویڈیو کے آغاز میں کیمرا بتدریج اس مقام (ایونٹ ہورائزن) تک پہنچتا ہے جہاں سے آگے بلیک ہول میں کوئی بھی شے مشاہدہ کرنا ناممکن ہے، پھر بلیک ہول کے مدار میں محو گردش ایک نارنجی رنگ کی گول ڈسک دکھائی دیتی ہے جو اسے روشنی پہنچانے کا مرکزی ذریعہ ہے۔
روشنی کی یہ ڈسک دراصل بلیک ہول میں گرتے مادوں چاہے وہ گیس ہو، گرد ہو یا پھر کوئی ٹھوس، سے خارج ہوتی توانائی سے وجود میں آتی ہے۔
اینی میشن میں ایونٹ ہورائزن کے قریب روشنی کا ایک باریک ہالہ بھی دکھائی دیتا ہے، سمولیشن میں بتایا جاتا ہے کی ایونٹ ہورائزن کی لمبائی ڈھائی کروڑ کلومیٹر ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس اینی میشن میں وہ مناظر دکھائے گئے ہیں جو بلیک ہول کے مشاہدے کے آخری مقام (ایونٹ ہورائزن) تک پہنچتے ہوئے کسی شخص کو دکھائی دیں گے۔
ذرا تصور کیجیے اگر کوئی انسان بلیک ہول میں گر جائے یا ان کی بے مثل کشش ثقل اسے اپنی جانب کھینچ لے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ وہ انسان انتہائی دردناک موت سے دوچار ہوجائے گا، کیونکہ بلیک ہول میں گرتی ہوئی کسی بھی دوسری شے کے مانند اس پر تجاذبی قوت اثرانداز ہوگی اور اس کے جسم کو کھینچ کر ایک نوڈل کی طرح پتلا اور لمبا کردے گی۔ اس عمل کو فلکیاتی طبیعیات کے ماہرین spaghettification کہتے ہیں۔
سسکس یونیورسٹی میں طبیعیات کے پروفیسر ژیویئر کامٹ کہتے ہیں کہ بلیک ہول کی کشش ثقل اتنی طاقت ور ہے کہ آپ کا جسم ایک لمبی تیلی میں تبدیل ہوکر پھٹ جائے گا۔
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے ماہرین نے ایک حیرت انگیز اینی میشن تیار کی جس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ اگر کوئی انسان بلیک ہول میں جاگرے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا اور اپنے آخری لمحات میں اسے کیا دکھائی دے گا۔
ناسا کے 'ڈسکور' نامی سپرکمپیوٹر پر بنائی گئی اینی میشن میں ایک انتہائی جسیم اور طاقت ور بلیک ہول میں گرتے ہوئے ایک شخص کو نظر آنے والے ممکنہ مناظر دکھائے گئے ہیں۔
ناسا کی ویڈیو کے آغاز میں کیمرا بتدریج اس مقام (ایونٹ ہورائزن) تک پہنچتا ہے جہاں سے آگے بلیک ہول میں کوئی بھی شے مشاہدہ کرنا ناممکن ہے، پھر بلیک ہول کے مدار میں محو گردش ایک نارنجی رنگ کی گول ڈسک دکھائی دیتی ہے جو اسے روشنی پہنچانے کا مرکزی ذریعہ ہے۔
روشنی کی یہ ڈسک دراصل بلیک ہول میں گرتے مادوں چاہے وہ گیس ہو، گرد ہو یا پھر کوئی ٹھوس، سے خارج ہوتی توانائی سے وجود میں آتی ہے۔
اینی میشن میں ایونٹ ہورائزن کے قریب روشنی کا ایک باریک ہالہ بھی دکھائی دیتا ہے، سمولیشن میں بتایا جاتا ہے کی ایونٹ ہورائزن کی لمبائی ڈھائی کروڑ کلومیٹر ہے۔
ناسا کا کہنا ہے کہ اس اینی میشن میں وہ مناظر دکھائے گئے ہیں جو بلیک ہول کے مشاہدے کے آخری مقام (ایونٹ ہورائزن) تک پہنچتے ہوئے کسی شخص کو دکھائی دیں گے۔