سزاؤں میں تاخیر
حقیقت یہ ہے کہ ایک سال میں تین حکومتیں اقتدار میں رہیں اور کسی نے 9 مئی پر سنجیدگی نہیں دکھائی
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے سوال کیا ہے کہ عدلیہ بتائے کہ 9 مئی کے مقدمات منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچے؟
اس سلسلے میں روزنامہ ایکسپریس کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ایک سال ہو گیا لیکن ثبوتوں کے باوجود اس کے ذمے داروں کو سزا نہ ہو سکی۔ ریلیوں کی قیادت کرنے والے کون تھے، وڈیو کلپ، تصاویر، ٹیلی فونز کال کے باوجود اس کا تعین نہ ہو سکا جو اس دن المیہ بن گیا۔
اس واقعے کو اپنے خلاف سازش قرار دینے والے اب دوسروں کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ تنقید کرنے والے اسے ثابت شدہ جرم قرار دے کر ذمے داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عام شہری بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گیا ہے کہ آخر اہم فوجی تنصیبات، عسکری رہائش گاہوں، فوجی دفاتر، یادگاروں، حفاظتی چوکیوں کو جلانے، توڑ پھوڑ کرنے اور اس پر فخریہ انداز اپنانے والے آخر کون لوگ تھے کہ ایک سال گزر گیا اور صرف مختلف بیانیے ہی بنتے ہیں۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 9 مئی پھر کبھی نہیں ہوگا ذمے داران کو جوابدہ ٹھہرایا جائے، بنیادی حقوق کا غلط استعمال کرکے تشدد پر اکسانے کی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔
سانحہ 9 مئی کے ایک سال گزر جانے پر حکومتی حلقے کہہ رہے ہیں کہ قوم اپنے مجرموں کو بھولی ہے نہ بھولے گی۔ 9 مئی کو گزرے ایک سال ہو جانے پر سرکاری طور پر ملک بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔
پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 9 مئی کو منعقدہ اجلاسوں میں سانحہ 9 مئی کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کرکے پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا اور پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت کی حامل کے پی کے کی اسمبلی نے اس موقع پر فوج سے یکجہتی کا اظہار جان بوجھ کر نہیں کیا اور نہ ہی سانحہ 9مئی کی مذمت کی گئی۔
پنجاب اسمبلی جہاں پی ٹی آئی مضبوط اپوزیشن ہے وہاں قرارداد کی منظوری پر پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا۔ اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اور یکجہتی کے اظہار کی قراردادوں کی کاپیاں پھاڑ کر ثبوت دے دیا کہ وہ سانحہ 9 مئی کے ذمے داروں کی حمایت کرتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم 9مئی واقعات کی چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کے موقف پر اب بھی قائم ہیں اور تحریک تحفظ آئین بھی مطالبہ کر رہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔
بلاول بھٹو کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان 9 مئی کے واقعات پر مٹی پاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کے 22 مقدمات میں ملوث کے پی کے وزیر اعلیٰ جو ضمانتوں پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے ملزموں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے کیونکہ آپ بڑے ہیں۔
سانحہ9 مئی کا ایک سال مکمل ہونے پر دوبارہ وزیر اعظم بننے والے مسلم لیگی میاں شہباز شریف کا بیان آ گیا کہ سیاہ باب کے کرداروں کو حساب دینا پڑے گا ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے اور نہ ہمارے صبر کو آزمایا جائے۔ 9 مئی پر کوئی سمجھوتہ یا ڈیل نہیں ہوگی بلکہ 9 مئی جیسا سانحہ دوبارہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔
گزشتہ سال سانحہ 9 مئی کے بعد تین ماہ تک شہباز شریف وزیر اعظم تھے اور پی ڈی ایم حکومت 9 مئی پر سیاست کرتی رہی اور 9 مئی کے خلاف صرف بیانات اور مذمت کرتی رہی مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جس کے بعد 6 ماہ نگراں حکومت تھی مگر اس نے بھی 6 ماہ 9 مئی کی مذمت میں گزارے۔
اب حکومت کہہ رہی ہے کہ بتایا جائے کہ 9 مئی کے ملزموں کو سزا نہیں دی جاسکی ۔ سانحہ 9 مئی کے ملزموں کو ملنے والی عدالتی مراعات کی مزاحمت کیوں نہیں کی گئی۔ 9 مئی کے ملزموں کے غیر ضروری عدالتی ریلیف، ملزموں کو الیکشن لڑنے کی عدالت عالیہ سے ملنے والی ضمانتوں اور اجازتوں پر سب خاموش رہے کہ عدالتیں 9 مئی کے ملزمان پر عنایات جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت بے بس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سال میں تین حکومتیں اقتدار میں رہیں اور کسی نے 9 مئی پر سنجیدگی نہیں دکھائی صرف سیاست کی جاتی رہی اور پھر (ن) لیگ اور پی پی کی حکومتوں کو ہوش آیا کہ ایک سال گزر گیا اور 9 مئی کے کسی بڑے ملزم کو سزا ہی نہیں ہوئی۔ اب سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹی جا رہی ہے کہ ہم دوبارہ 9 مئی نہیں ہونے دیں گے۔ سیاسی حکومت اور رہنماؤں نے کیوں بیانات نہیں دیے کہ 9 مئی کے ملزمان اسمبلیوں اور اقتدار میں پہنچ گئے اور اب بھی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور عدالتیں انھیں سزا نہیں دے رہیں جب کہ ملزمان کے خلاف واضح ثبوت بھی موجود تھے۔
9 مئی کے ملزموں کو سہولیات و مراعات عدلیہ سے ہی نہیں تینوں حکومتوں سے ملیں۔ بانی پی ٹی آئی کو سزا کے بعد جو جیل میں سہولتیں ملیں کیا وہ ماضی میں کسی بھی حکمران کو ملی تھیں؟ مراعات کے فیصلے حکومت نے چیلنج نہیں کیے وہ صرف بانی کے قید رہنے پر مطمئن رہیں اور 9 مئی کا سانحہ بھول گئی تھیں جو انھیں اب یاد آیا جب پلوں کے نیچے سے سارا پانی ہی گزر چکا ہے۔
اس سلسلے میں روزنامہ ایکسپریس کی رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ایک سال ہو گیا لیکن ثبوتوں کے باوجود اس کے ذمے داروں کو سزا نہ ہو سکی۔ ریلیوں کی قیادت کرنے والے کون تھے، وڈیو کلپ، تصاویر، ٹیلی فونز کال کے باوجود اس کا تعین نہ ہو سکا جو اس دن المیہ بن گیا۔
اس واقعے کو اپنے خلاف سازش قرار دینے والے اب دوسروں کو ذمے دار قرار دے رہے ہیں جب کہ تنقید کرنے والے اسے ثابت شدہ جرم قرار دے کر ذمے داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور عام شہری بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر رہ گیا ہے کہ آخر اہم فوجی تنصیبات، عسکری رہائش گاہوں، فوجی دفاتر، یادگاروں، حفاظتی چوکیوں کو جلانے، توڑ پھوڑ کرنے اور اس پر فخریہ انداز اپنانے والے آخر کون لوگ تھے کہ ایک سال گزر گیا اور صرف مختلف بیانیے ہی بنتے ہیں۔
وزیر اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 9 مئی پھر کبھی نہیں ہوگا ذمے داران کو جوابدہ ٹھہرایا جائے، بنیادی حقوق کا غلط استعمال کرکے تشدد پر اکسانے کی کوشش برداشت نہیں کریں گے۔
سانحہ 9 مئی کے ایک سال گزر جانے پر حکومتی حلقے کہہ رہے ہیں کہ قوم اپنے مجرموں کو بھولی ہے نہ بھولے گی۔ 9 مئی کو گزرے ایک سال ہو جانے پر سرکاری طور پر ملک بھر میں یوم سیاہ منایا گیا۔
پنجاب، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے 9 مئی کو منعقدہ اجلاسوں میں سانحہ 9 مئی کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کرکے پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا اور پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت کی حامل کے پی کے کی اسمبلی نے اس موقع پر فوج سے یکجہتی کا اظہار جان بوجھ کر نہیں کیا اور نہ ہی سانحہ 9مئی کی مذمت کی گئی۔
پنجاب اسمبلی جہاں پی ٹی آئی مضبوط اپوزیشن ہے وہاں قرارداد کی منظوری پر پی ٹی آئی ارکان نے احتجاج کیا۔ اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا اور یکجہتی کے اظہار کی قراردادوں کی کاپیاں پھاڑ کر ثبوت دے دیا کہ وہ سانحہ 9 مئی کے ذمے داروں کی حمایت کرتی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم 9مئی واقعات کی چیف جسٹس کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کے موقف پر اب بھی قائم ہیں اور تحریک تحفظ آئین بھی مطالبہ کر رہی ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔
بلاول بھٹو کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان 9 مئی کے واقعات پر مٹی پاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پی ٹی آئی کے 22 مقدمات میں ملوث کے پی کے وزیر اعلیٰ جو ضمانتوں پر ہیں ان کا کہنا ہے کہ 9 مئی کے ملزموں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جائے کیونکہ آپ بڑے ہیں۔
سانحہ9 مئی کا ایک سال مکمل ہونے پر دوبارہ وزیر اعظم بننے والے مسلم لیگی میاں شہباز شریف کا بیان آ گیا کہ سیاہ باب کے کرداروں کو حساب دینا پڑے گا ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے اور نہ ہمارے صبر کو آزمایا جائے۔ 9 مئی پر کوئی سمجھوتہ یا ڈیل نہیں ہوگی بلکہ 9 مئی جیسا سانحہ دوبارہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔
گزشتہ سال سانحہ 9 مئی کے بعد تین ماہ تک شہباز شریف وزیر اعظم تھے اور پی ڈی ایم حکومت 9 مئی پر سیاست کرتی رہی اور 9 مئی کے خلاف صرف بیانات اور مذمت کرتی رہی مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جس کے بعد 6 ماہ نگراں حکومت تھی مگر اس نے بھی 6 ماہ 9 مئی کی مذمت میں گزارے۔
اب حکومت کہہ رہی ہے کہ بتایا جائے کہ 9 مئی کے ملزموں کو سزا نہیں دی جاسکی ۔ سانحہ 9 مئی کے ملزموں کو ملنے والی عدالتی مراعات کی مزاحمت کیوں نہیں کی گئی۔ 9 مئی کے ملزموں کے غیر ضروری عدالتی ریلیف، ملزموں کو الیکشن لڑنے کی عدالت عالیہ سے ملنے والی ضمانتوں اور اجازتوں پر سب خاموش رہے کہ عدالتیں 9 مئی کے ملزمان پر عنایات جاری رکھے ہوئے ہیں اور حکومت بے بس ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک سال میں تین حکومتیں اقتدار میں رہیں اور کسی نے 9 مئی پر سنجیدگی نہیں دکھائی صرف سیاست کی جاتی رہی اور پھر (ن) لیگ اور پی پی کی حکومتوں کو ہوش آیا کہ ایک سال گزر گیا اور 9 مئی کے کسی بڑے ملزم کو سزا ہی نہیں ہوئی۔ اب سانپ گزرنے کے بعد لکیر پیٹی جا رہی ہے کہ ہم دوبارہ 9 مئی نہیں ہونے دیں گے۔ سیاسی حکومت اور رہنماؤں نے کیوں بیانات نہیں دیے کہ 9 مئی کے ملزمان اسمبلیوں اور اقتدار میں پہنچ گئے اور اب بھی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور عدالتیں انھیں سزا نہیں دے رہیں جب کہ ملزمان کے خلاف واضح ثبوت بھی موجود تھے۔
9 مئی کے ملزموں کو سہولیات و مراعات عدلیہ سے ہی نہیں تینوں حکومتوں سے ملیں۔ بانی پی ٹی آئی کو سزا کے بعد جو جیل میں سہولتیں ملیں کیا وہ ماضی میں کسی بھی حکمران کو ملی تھیں؟ مراعات کے فیصلے حکومت نے چیلنج نہیں کیے وہ صرف بانی کے قید رہنے پر مطمئن رہیں اور 9 مئی کا سانحہ بھول گئی تھیں جو انھیں اب یاد آیا جب پلوں کے نیچے سے سارا پانی ہی گزر چکا ہے۔