تعلیمی نظام میں اخلاقی تعلیم کا فقدان
آج اگر ہم اپنے اردگرد کے معاشرے پر نظر ڈالیں تو ہمیں اخلاقیات کے شدید فقدان کا احساس ہوتا ہے۔ پڑھے لکھے اور اَن پڑھ برابر ہوچکے ہیں، کسی کو دوسرے کا احساس نہیں۔ سبھی اپنے اپنے داوؤ لگانے کے چکر میں ہیں، خواہ اس میں دوسرے کا کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ ہوجائے۔
ایک ریڑھی والے کو دیکھیں تو وہ اپنے طریقوں سے دوسروں کو دھوکا دینے میں مصروف ہے اور ایک اعلیٰ افسر کو دیکھیں تو اس کے پاس دوسروں کو الو بنانے کے اپنے طریقے ہیں۔ ہر محکمہ اور ہر دفتر کرپشن اور لوٹ مار کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ کسی میں احساس ذمے داری نہیں ہے۔ ایک چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر جنرل تک سبھی دوسروں کی جیبوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہاں کس طرح کچھ بٹورا جائے۔ اس کےلیے وہ اپنے مرتبے اور طاقت کے مطابق دوسروں کو تنگ کرتے اور ان سے رشوت وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کے پاس تو ملکی خزانہ ہوتا ہے، ان کے پاس لوٹ مار کے کئی حربے ہوتے ہیں جن سے وہ پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اور ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
ہماری نجی اور گھریلو زندگیاں بھی انتہائی غیر اخلاقی ہوچکی ہیں۔ میاں بیوی کی آپس میں نہیں بنتی، والدین کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے۔ گھر میں اگر ملازم رکھے ہوں تو انہیں غلام سمجھا جاتا ہے اور انہیں ڈانٹ ڈپٹ حتیٰ کہ مار پیٹ بھی کی جاتی ہے۔ محلے کے امراء غریبوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اسلام نے ہمیں نہایت اعلیٰ اخلاق سکھائے ہیں، ہمیں معاشرے میں رہنے سہنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ بات بات پر لڑنا جھگڑنا اور گالم گلوچ کو سخت ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ جو کہ ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ اچھے اچھے پڑھے لکھے افراد غصے میں اتنی مغلظات بکتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے کہ دیکھنے میں تو اتنے پڑھے لکھے اور مہذب معلوم ہوتے ہیں لیکن زبان کسی جاہل اور گنوار سے بھی زیادہ کالی رکھی ہوئی ہے۔
نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ کوئی مفکر بنے سیاستدانوں کو گالیاں دے رہے ہیں تو کوئی مناظر بنے مخالف دینی مسالک کو برا بھلا کہہ رہے ہیں اور کافر قرار دے رہے ہیں۔ کچھ نے تو بے حیائی اور فحاشی کا علم تھام رکھا ہے اور اس میں مغرب کو بھی مات دینے کی جستجو میں ہیں، اس میں ہماری خواتین بھی پیش پیش ہیں۔
نوجوان اپنا انتہائی قیمتی وقت سوشل میڈیا پر برباد کررہے ہیں اور انہیں کچھ پرواہ ہی نہیں کہ ان کے ذمے کچھ اور کام بھی ہیں۔ ہمارے معاشرے کی ایک یہ بھی بہت بڑی بیماری ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کے اذہان میں یہ ڈال دیا ہے کہ تم نے پڑھ لکھ کر کہیں اچھی سی ملازمت کرنی ہے۔ اب ملازمت کے لیے کچھ زیادہ محنت یا کسی اضافی فکر اور سوچ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صرف رٹے لگا کر ڈگریاں حاصل کرلیں تو ملازمت مل ہی جاتی ہے۔ اس لیے قوم میں زیادہ تر ملازم ہی ہیں مگر رہنماؤں کا انتہائی فقدان ہے اور تعلیم کا مقصد فقط حصول دولت بن چکا ہے اور بچوں کو یہی سکھایا جاتا ہے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں اخلاقیات کا کچھ عمل دخل نہیں ہے۔ اس میں صرف پڑھایا بلکہ رٹایا جاتا ہے، جس کے بعد نوجوان ڈگریاں لے کر خود کو پڑھا لکھا تو سمجھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان میں تعلیم یافتہ افراد والی کوئی صفت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ حقیقت میں پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ وہ فقط تعلیمی اداروں میں جاتے رہے، وہاں رٹے لگا کر امتحان دیے اور ڈگریاں حاصل کرلیں۔ دو چار لفظ انگریزی کے سیکھ لیے۔ بس ہمارے ہاں تعلیم یافتہ ہونے کا یہی معیار ہے۔ یہاں پڑھایا تو بہت کچھ جاتا ہے، اتنے زیادہ مضامین اور کتب پڑھائی جاتی ہیں، بچوں کی کمر پر بستوں کو دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اتنی کتابیں پڑھنے کے بعد دنیا کے تمام علوم و فنون میں ماہر بن جائیں گے لیکن وہ کسی ایک میں بھی ماہر نہیں بن پاتے۔
ہمارے تعلیمی نظام میں یہ شامل ہی نہیں ہے کہ بچوں کو کچھ سکھانا بھی ہے۔ انہیں معاشرے میں اٹھنے بیٹھنے کے طریقے نہیں سکھائے جاتے، انہیں گھر میں رہنے کے سلیقے سے آگاہ نہیں کیا جاتا، ان کے دلوں میں برائیوں سے نفرت اور اچھائیوں کی محبت نہیں پیدا کی جاتی، انہیں اپنے کام خود کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔
کچھ عرصہ قبل ایک خبر پر میڈیا میں ہنگامہ برپا ہوا تھا کہ پنجاب کے کسی سرکاری سکول کے اساتذہ نے طلبا سے کہیں اسکول میں تھوڑی سی اینٹیں اٹھوائی ہیں۔ اب یہ کون سی بری بات تھی؟ اگر اسکول کا تھوڑا سا کام بچوں نے کرلیا ہے تو یہ اچھی بات ہے، بلکہ بچوں سے اسکول کی صفائی ستھرائی بھی کرانی چاہیے، دیگر چھوٹے موٹے کام بچوں سے لینے چاہئیں تاکہ انہیں اپنے کام خود کرنے کی عادت ہو۔ ہمارے تعلیمی اداروں اور تعلیمی نظام کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ بچوں کی اخلاقیات پر خصوصی طور پر توجہ دیں، تبھی ملک کا نظام درست سمت گامزن ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔