پینشن کی مد میں خطیر اخراجات جامعات میں نیا سروس اسٹرکچر لانے کی تیاریاں
لیکچرار کی ریگولر اسامی ختم کرنے، اساتذہ کی تنخواہوں میں پینشن فنڈ کے نام پر کٹوتی سمیت مختلف تجاویز تیار
سرکاری جامعات کی سالانہ غیر ترقیاتی گرانٹ کا ایک بڑا حصہ ملازمین کی پینشن پر خرچ ہوجانے کی وجہ سے اب وفاقی سطح پر اساتذہ کے سروس اسٹرکچر میں تبدیلی پر کام شروع کردیا گیا ہے۔
امکان ہے کہ وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے نیا سروس اسٹرکچر جلد اور بڑی تبدیلیوں کے ساتھ سرکاری جامعات کے حوالے کردیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی اعلی تعلیمی کمیشن کی جانب سے اپنے افسران اور کچھ سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز پر مشتمل کمیٹی نئی تجاویز پر مشتمل سروس اسٹرکچر کو حتمی شکل دے رہی ہے۔
اس کمیٹی کی تجاویز کے مطابق ابتدائی طور پر ملک بھر کی سرکاری جامعات میں لیکچرر کی ریگولر اسامی ختم کی جارہی ہے جبکہ نئے سروس اسٹرکچر میں اساتذہ اس بات کے پابند ہوں گے کہ پروویڈنٹ فنڈ کی طرز پر اب پینشن فنڈ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔
کمیٹی کی مذکورہ تجاویز کو وفاقی محکمہ خزانہ کی مشاورت سے ایچ ای سی کمیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جارہا ہے جس کے بعد اسے جامعات کے حوالے کیا جاسکے گا۔
ذرائع کے مطابق ایچ ای سی آئندہ بجٹ کے لیے جامعات کو اس اس امر کا پابند کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہے کہ متعلقہ سرکاری جامعات غیر ترقیاتی گرانٹ کو پینشن فنڈ کے طور پر مزید خرچ کرنے سے گریز کریں۔
ادھر '' ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر وفاقی اعلی تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں حتمی مشاورت کے لیے اس طرح کے تمام proposals کو فنانس ڈویژن میں لے کر جارہے ہیں جس کے بعد اسے کمیشن میں پیش کیا جائے گا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ محتاط اندازے کے مطابق جامعات کو دی جانے والی ایچ ای سی کی سالانہ 65 ارب روپے کی غیر ترقیاتی گرانٹ کا تقریباً 40 فیصد جامعات اپنے ملازمین کی پینشن میں خرچ کررہی ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ سرکاری جامعات اپنا پینشن فنڈ قائم نہیں کرسکی ہیں جس سے پینشن ادا کی جاسکے اور recurring گرانٹ پینشن میں جارہی ہے۔
چیئرمین ایچ ای سی نے واضح کیا کہ وفاق کی جانب سے صوبائی جامعات کو گرانٹ کی فراہمی بند نہیں کی جارہی، ہم نے 2024/25 کے سالانہ بجٹ کے لیے فنانس ڈویژن سے 125 ارب روپے مانگے ہیں تاہم بجٹ میں کتنی گرانٹ منظور کی جائے گی اس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
چیئرمین ایچ ای سی کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ 6 سال سے سرکاری جامعات کے سالانہ بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ اس دوران صرف تنخواہوں میں 135 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ سمیت ملکی جامعات میں سے بیشتر میں پینشن فنڈ قائم نہیں ہے اور یہ جامعات مجموعی طور پر ہزاروں ملازمین کو پینشن کی ادائیگیاں ایچ ای سی سے ملنے والی غیر ترقیاتی گرانٹ ہی سے کرتی ہیں تاہم سندھ میں قائم این ای ڈی یونیورسٹی ایک ایسی جامعہ ہے جہاں پینشن فنڈ 3 ہزار ملین کے قریب ہوچکا ہے اور یونیورسٹی پر پینشن کی ادائیگی کی مد میں مالی بوجھ کی صورتحال دیگر یونیورسٹیز کے برعکس ہے۔
اس کے برعکس جامعہ کراچی کا ماہانہ پے رول 400 ملین روپے ہے جس میں سے پینشن کی ادائیگی 135 ملین روپے ماہانہ ہے، اسی طرح جامعہ اردو میں ماہانہ پے رول 200 ملین روپے ہے جس میں پینشن کی ادائیگی کی مد میں 34 ملین روپے غیر ترقیاتی گرانٹ سے دیے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہری پور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ایچ ای سی اسلام آباد کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی اپنی تجاویز میں اب تک اس نتیجے تک پہنچ چکی ہے کہ آئندہ اساتذہ بھی تنخواہوں سے پینشن فنڈ کے نام پر کٹوتی کرائیں گے اور اس کٹوتی کو contributory pension fund کا نام دیا گیا ہے۔
مزید براں اس کمیٹی کی تجاویز کے مطابق مالی بوجھ کو کم کرنے کی غرض سے جامعات میں ریگولر ٹیچنگ کیڈر اب لیکچرر کے بجائے اسسٹنٹ پروفیسر سے شروع ہوگا اور لیکچرر جیسی جونیئر پوزیشن کنٹریکٹ بنیادوں پر ہوگی جنھیں مارکیٹ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے fixed pay دی جائے گی۔
مزید یہ کہ تدریس یونیورسٹی فیکلٹی کی بنیادی ذمےداری ہے لہذا ٹیچنگ ایکسیلنس کو ریسرچ آؤٹ پٹ، ٹیچنگ لوڈ ،ریسرچ گرانٹ اور گریجویٹ طلبا کی سپرویژن پر پرکھا جاسکے گا اور اب سینیئر فیکلٹی کو بھی ٹیچنگ لوڈ کے سلسلے میں اپنا contribution بڑھانا ہوگا۔
واضح رہے کہ ایچ ای سی گزشتہ کافی عرصے سے یہ موقف اختیار کیے ہوئی ہے کہ ملک کی موجودہ مالی صورتحال کے ضمن اور گرانٹ میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود سالانہ گرانٹ سے ایک خطیر رقم پینشن کی مد میں جاری ہوتی ہے، لہذا جامعات کو اس حوالے سے نہ صرف اپنا فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تنخواہ کے ساتھ دیے جانے والے دیگر الائونسز پر بھی از سر نو غور کرنا ہوگا۔
امکان ہے کہ وفاقی ایچ ای سی کی جانب سے نیا سروس اسٹرکچر جلد اور بڑی تبدیلیوں کے ساتھ سرکاری جامعات کے حوالے کردیا جائے گا۔ اس سلسلے میں وفاقی اعلی تعلیمی کمیشن کی جانب سے اپنے افسران اور کچھ سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز پر مشتمل کمیٹی نئی تجاویز پر مشتمل سروس اسٹرکچر کو حتمی شکل دے رہی ہے۔
اس کمیٹی کی تجاویز کے مطابق ابتدائی طور پر ملک بھر کی سرکاری جامعات میں لیکچرر کی ریگولر اسامی ختم کی جارہی ہے جبکہ نئے سروس اسٹرکچر میں اساتذہ اس بات کے پابند ہوں گے کہ پروویڈنٹ فنڈ کی طرز پر اب پینشن فنڈ بھی ان کی ماہانہ تنخواہ سے منہا کیا جائے گا۔
کمیٹی کی مذکورہ تجاویز کو وفاقی محکمہ خزانہ کی مشاورت سے ایچ ای سی کمیشن میں منظوری کے لیے پیش کیا جارہا ہے جس کے بعد اسے جامعات کے حوالے کیا جاسکے گا۔
ذرائع کے مطابق ایچ ای سی آئندہ بجٹ کے لیے جامعات کو اس اس امر کا پابند کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہے کہ متعلقہ سرکاری جامعات غیر ترقیاتی گرانٹ کو پینشن فنڈ کے طور پر مزید خرچ کرنے سے گریز کریں۔
ادھر '' ایکسپریس'' کے رابطہ کرنے پر وفاقی اعلی تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں حتمی مشاورت کے لیے اس طرح کے تمام proposals کو فنانس ڈویژن میں لے کر جارہے ہیں جس کے بعد اسے کمیشن میں پیش کیا جائے گا۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ محتاط اندازے کے مطابق جامعات کو دی جانے والی ایچ ای سی کی سالانہ 65 ارب روپے کی غیر ترقیاتی گرانٹ کا تقریباً 40 فیصد جامعات اپنے ملازمین کی پینشن میں خرچ کررہی ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ سرکاری جامعات اپنا پینشن فنڈ قائم نہیں کرسکی ہیں جس سے پینشن ادا کی جاسکے اور recurring گرانٹ پینشن میں جارہی ہے۔
چیئرمین ایچ ای سی نے واضح کیا کہ وفاق کی جانب سے صوبائی جامعات کو گرانٹ کی فراہمی بند نہیں کی جارہی، ہم نے 2024/25 کے سالانہ بجٹ کے لیے فنانس ڈویژن سے 125 ارب روپے مانگے ہیں تاہم بجٹ میں کتنی گرانٹ منظور کی جائے گی اس بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
چیئرمین ایچ ای سی کا یہ بھی کہنا تھا کہ گزشتہ 6 سال سے سرکاری جامعات کے سالانہ بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا جبکہ اس دوران صرف تنخواہوں میں 135 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔
واضح رہے کہ سندھ سمیت ملکی جامعات میں سے بیشتر میں پینشن فنڈ قائم نہیں ہے اور یہ جامعات مجموعی طور پر ہزاروں ملازمین کو پینشن کی ادائیگیاں ایچ ای سی سے ملنے والی غیر ترقیاتی گرانٹ ہی سے کرتی ہیں تاہم سندھ میں قائم این ای ڈی یونیورسٹی ایک ایسی جامعہ ہے جہاں پینشن فنڈ 3 ہزار ملین کے قریب ہوچکا ہے اور یونیورسٹی پر پینشن کی ادائیگی کی مد میں مالی بوجھ کی صورتحال دیگر یونیورسٹیز کے برعکس ہے۔
اس کے برعکس جامعہ کراچی کا ماہانہ پے رول 400 ملین روپے ہے جس میں سے پینشن کی ادائیگی 135 ملین روپے ماہانہ ہے، اسی طرح جامعہ اردو میں ماہانہ پے رول 200 ملین روپے ہے جس میں پینشن کی ادائیگی کی مد میں 34 ملین روپے غیر ترقیاتی گرانٹ سے دیے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ہری پور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ایچ ای سی اسلام آباد کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کی سربراہی میں کام کرنے والی کمیٹی اپنی تجاویز میں اب تک اس نتیجے تک پہنچ چکی ہے کہ آئندہ اساتذہ بھی تنخواہوں سے پینشن فنڈ کے نام پر کٹوتی کرائیں گے اور اس کٹوتی کو contributory pension fund کا نام دیا گیا ہے۔
مزید براں اس کمیٹی کی تجاویز کے مطابق مالی بوجھ کو کم کرنے کی غرض سے جامعات میں ریگولر ٹیچنگ کیڈر اب لیکچرر کے بجائے اسسٹنٹ پروفیسر سے شروع ہوگا اور لیکچرر جیسی جونیئر پوزیشن کنٹریکٹ بنیادوں پر ہوگی جنھیں مارکیٹ کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے fixed pay دی جائے گی۔
مزید یہ کہ تدریس یونیورسٹی فیکلٹی کی بنیادی ذمےداری ہے لہذا ٹیچنگ ایکسیلنس کو ریسرچ آؤٹ پٹ، ٹیچنگ لوڈ ،ریسرچ گرانٹ اور گریجویٹ طلبا کی سپرویژن پر پرکھا جاسکے گا اور اب سینیئر فیکلٹی کو بھی ٹیچنگ لوڈ کے سلسلے میں اپنا contribution بڑھانا ہوگا۔
واضح رہے کہ ایچ ای سی گزشتہ کافی عرصے سے یہ موقف اختیار کیے ہوئی ہے کہ ملک کی موجودہ مالی صورتحال کے ضمن اور گرانٹ میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود سالانہ گرانٹ سے ایک خطیر رقم پینشن کی مد میں جاری ہوتی ہے، لہذا جامعات کو اس حوالے سے نہ صرف اپنا فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ تنخواہ کے ساتھ دیے جانے والے دیگر الائونسز پر بھی از سر نو غور کرنا ہوگا۔