موسمیاتی تبدیلی اور اداروں کی روایتی کارکردگی

زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے

زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

اس وقت پاکستان بھر میں گرمیوں کا موسم ہے اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا (کے پی) میں بھی سخت گرمی محسوس کی جا رہی ہے۔

21 سے 27مئی تک سنگین ہیٹ ویو اور اس کے خطرات کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ گرمی کی لہر سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کو متاثر کرے گی، کئی شہروں میں درجہ حرارت 45 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان پہنچ گیا ہے۔ ایک طرف بڑھتی ہوئی ہیٹ ویو کی لہر کی وجہ سے شہری پریشان ہیں تو دوسری جانب لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھنے سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ادھر سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کی ضرورت بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی ہے کیا اور ہمارے ماحول پر یہ کیسے اثر انداز ہو رہی ہے؟ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے جس سے عالمی درجہ حرارت خطرناک حد تکبڑھتا جا رہا ہے جس کے سبب زمین اب بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزر رہی ہے ۔

آب و ہوا کی تبدیلی ہمارے طرز زندگی کو بدل دے گی، جس سے پانی کی قلت پیدا ہوگی اور خوراک پیدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کچھ خطے خطرناک حد تک گرم ہو سکتے ہیں اور دیگر سمندر کی سطح میں اضافے کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں رہیں گے۔گرمی کی شدت میں اضافے اور ہواؤں کے بند ہونے کی وجہ سے متعدد علاقوں میں ہیٹ ویو کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے، جس سے لوگوں کو 'ہیٹ اسٹروک' ہونے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔

لاہور میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کرتا جارہا ہے۔ لاہور میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتے ہی بیماریاں بھی بڑھ گئی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کی شکایات رپورٹ ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ 2015میں ہیٹ ویوز نے صرف کراچی شہر میں 1ہزار سے زیادہ افراد کی جان لے لی تھی۔ عام طور پر مسلسل سورج کی تپش میں کام کرنے یا گھومنے سے گرمیوں کے موسم میں انسانی جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور ایسے میں ہیٹ اسٹروک سے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

دوسری جانب محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال مون سون کے سیزن میں ملک بھر میں معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں۔ ہفتہ دس دن بعد پری مون سون سیزن کا آغاز ہونے جا رہا ہے، ملک بھر میں معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں۔ بارش برسانے والا سسٹم '' لانینا'' کی واپسی ساؤتھ ایشیا میں ریکارڈ توڑ بارشوں کا سبب ہوگی۔

جس کے باعث سندھ میں 2020 اور 2021 جیسی بارشیں ہوسکتی ہیں۔ اس حوالے سے ساؤتھ ایشیا فورم نے اپنی پیشگوئی جاری کردی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جون سے ستمبر کے دوران جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں معمول سے زائد بارشوں کا امکان ہے۔ خطے کے مشرقی اور شمال مشرقی حصوں میں معمول سے کم بارش کا امکان ہے۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مون سون کے دوران معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں۔

بہت جلد پری مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوجائے گا، اس موسم میں شدید بارشیں ہونے کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی اور سیلاب آ جاتے ہیں، اب چونکہ دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل تیز ہو چکا ہے جس کی وجہ سے بارشوں کی شدت میں اضافہ ہوا اور بغیر سیزن کے بھی مسلسل بارشیں ہورہی ہیں۔

اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بارشوں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہی اور نقصانات کا دورانیہ بڑھ گیا ہے جس کے منفی اثرات ملکی معیشت پر مرتب ہو رہے ہیں جو حکومتوں اور انتظامیہ کے لیے پریشانی کا باعث بن گیا ہے کیونکہ حکومتی بجٹ کا ایک بڑا حصہ سیلاب سے پیدا ہونے والے نقصانات کے ازالے پر صرف کرنا پڑ رہا ہے۔

ادھر ہمارے بلدیاتی، ضلعی اور صوبائی حکومتی اداروں کی کارکردگی کا معیار بہتر ہونے کے بجائے زوال پذیر ہے۔مس مینجمنٹ، ادارہ جاتی اختیارات و فرائض میں عدم توازن کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔


ہمارے پاس سرکاری اداروں کی بھرمار ہے، میونسپل اور صوبائی اداروں کے افسران اور ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ سرکاری خزانے سے انھیں تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ہر ماہ کئی ارب روپے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن ان کی کارکردگی کا معیار اور مستعدی انتہائی پست ہے۔

لاہور میں شہری مسائل کا انبار ہے، یہاں کبھی میونسپل کارپوریشن طاقتور ہوا کرتی تھی لیکن پھر اس کے ماتحت اداروں کو الگ الگ کرکے مختلف کمپنیاں بنا دی گئی ہیں، یوں میونسپل کارپوریشن اپاہج ہوچکی ہے۔

لاہور شہر کے گراؤنڈز اور پارکس اس کے ماتحت نہیں رہے، سیوریج سسٹم اس کے اختیار میں نہیں ہے، پارکنگ ایریاز اس کے پاس نہیں ہیں، شہر کا ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں ہے، یوں لاہور میونسپل کارپوریشن محض نام کا ادارہ رہ گیا ہے۔ جس کے باعث لاہور بدترین آلودگی کا شکار رہتا ہے۔

ہر برس مون سون بارشوں سے پہلے بڑے بڑے حکومتی اور انتظامی دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں تو ان تمام دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے اور تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی مسلسل تیسری بار صوبائی حکومت قائم ہوئی ہے، جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی مسلسل چوتھی صوبائی حکومت ہے، موجودہ حالات ان صوبائی حکومتوں کی کارکردگی کا پوسٹمارٹم کرتے نظر آتے ہیں۔

سندھ میں ابھی پچھلے سیلاب کا پانی نہیں اترتا کہ ایک اور سیلاب آجاتا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں کو این ایف سی ایوارڈ کے علاوہ وفاقی حکومت کئی دوسری مدات میں اربوں روپے کی ادائیگی کرتی ہے لیکن ستر برس گزرنے کے باوجود یہ صوبے پسماندہ ہیں، انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے برابر ہے، صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی تعداد ہزاروں میں ہے، لیکن ٹیکس کولیکشن نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ اربوں روپے کہاں خرچ ہوتے ہیں، کچھ پتہ نہیں ہے۔ بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کی وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟ اب آبادی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے زمین پانی جذب نہیں کر پاتی کیوں کہ ہر طرف بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں۔

حتیٰ کہ گندے پانی کے نالے کھلے پڑے ہیں جو برسات میں بھر جاتے ہیں اور ان کا آلودہ پانی سڑکوں، گلیوں میں بہتا ہوا نظر آتا ہے جس کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں۔ جو کئی مضر صحت بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ گندا پانی لوگوں کے گھروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے اب یہ بتائیں کہ ایسے میں ایک عام آدمی کیسے موسموں سے یا بارش جیسی رحمت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔

ہر سال کی طرح محکمہ موسمیات تنبیہ کرتا ہے کہ بارشیں تباہی لا سکتی ہیں لیکن محکمے اور ادارے جن کو اپنے مفاد کے آگے کچھ نظر نہیں آتا یا فرق نہیں پڑتا اور وہ ان آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی مناسب اقدامات نہیں کرتے۔ پانی ذخیرہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی نکاسی کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔جہاں دنیا نے ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کر لی ہے وہاں ہم آج بھی اپنے بنیادی مسائل میں ہی گھرے ہوئے ہیں، اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو بارشیں وہاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ممالک اپنے بہترین اور جدید انفرا اسٹرکچر کی وجہ سے اس موسم سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ہمارے متعلقہ حکام کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل کام کریں تاکہ مسائل کو حل کرنے کی طرف جایا جا سکے۔ تعمیرات کے وقت نکاسی آب کا خاص خیال رکھا جائے، تعمیراتی منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے یا طوالت کا شکار نہ کیا جائے تاکہ کھدائی کی گئی جگہ دیگر مسائل کو جنم نہ دے۔ بارش کے پانی کو زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ندی نالوں، تفریح گاہوں، گلی کوچوں اور محلوں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال کیا جائے تاکہ برسات میں پانی کے بہاؤ میں مشکل پیش نہ آئے۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ اضافی پانی سمندر میں پھینک کر ضایع ہونے سے بچایا جا سکے۔

برسات کے دنوں میں تمام علاقوں میں اسپرے کیا جائے تاکہ کھڑے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں سے نجات حاصل ہو سکے۔ بارش اللہ تعالٰی کی رحمت ہے اس کو زحمت میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ صرف مناسب حکمت عملی اختیار کرنے اور ہمت کر کے اپنی ذمے داریاں نبھا کر ہم ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
Load Next Story