کراچی کی تباہ حال سڑکیں اور جان لیوا گٹر
کراچی کے اہم مسائل میں کے الیکٹرک بھی شامل ہے جس نے دو عشروں سے کراچی والوں کا جینا عذاب رکھا
ملک کا سب سے بڑا شہر معاشی حب ، عشروں سے وفاقی اور سندھ حکومت کی عدم توجہی اور سیاست کا شکار چلا آ رہا ہے جس کے لیے وعدے تو ہر حکومت نے کیے مگر کیا کچھ نہیں، جس کی وجہ سے کراچی بے شمار مصائب اور بنیادی مسائل کا شکار ہے کیونکہ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کے مطابق کراچی کو کوئی اون نہیں کرتا اور اس پر صرف سیاست کی جاتی ہے۔
کراچی کے عوام کو لاوارث چھوڑ دیا گیا ہے اور سب سے بڑے شہر کے مسائل بھی سب سے زیادہ ہیں جن کے حل پر سنجیدگی سے توجہ دی ہی نہیں جا رہی جس کی وجہ سے کراچی کے لوگ سخت پریشان ہیں اور کراچی میں روزانہ ہی مسائل پر سڑکوں پر احتجاج معمول بن چکا ہے روزانہ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی و گیس کی عدم فراہمی، بدامنی، پینے کا پانی نہ ملنے یا نکاسی آب نہ ہونے پر سڑکوں پر ٹائر جلا کر احتجاج کیا جاتا ہے مگر کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔
امیر جماعت اسلامی پاکستان جن کا تعلق کراچی سے ہے کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے حق دو کراچی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں وہ کراچی کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی جس نے قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لیے مگر دیگر سیاسی جماعتوں نے مل کر عوام کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔انھوں نے کہا کہ کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی پورے ملک میں تحریک چلائے گی اور حکومت کو مجبور کرے گی کہ کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرے۔
کراچی کے اہم مسائل میں کے الیکٹرک بھی شامل ہے جس نے دو عشروں سے کراچی والوں کا جینا عذاب رکھا اور حکومت نے پھر کے الیکٹرک کے لائسنس کی میعاد بڑھا دی ہے جس کے نتیجے میں کراچی میں سخت گرمی میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور بجلی کی عدم فراہمی پر کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے اور کے الیکٹرک کے خلاف صرف جماعت اسلامی ہی سالوں سے احتجاج کر رہی ہے مگر کسی اور جماعت نے بجلی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے کے الیکٹرک کی سرپرستی ہی کی اور اپنے لوگ کے الیکٹرک میں بھرتی کرائے اور عوام کا ساتھ نہیں دیا۔
ایم کیو ایم اور اے این پی بھی اپنے لوگ کے الیکٹرک میں بھرتی کرا کر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور صرف جماعت اسلامی احتجاج کرتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی دیرینہ خواہش کراچی میں اپنا پہلا میئر لا کر پوری کرچکی مگر ایک سال ہو گیا میئر کارکردگی نہ دکھا سکے اور اپنی بے اختیاری پر یہ کہہ رہے ہیں کہ کراچی کے بلدیاتی ایشوز پر میئر کو شامل کیا جائے اور میئر کو بااختیار بنایا جائے۔
کراچی میں صفائی کے لیے سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا کر بلدیہ عظمیٰ، ڈی ایم سیز، یوسیز اور پھر ٹاؤنز کو فارغ کر دیا تھا جس کی ذمے داری بلدیاتی اداروں سے لی جا چکی ہے مگر کراچی کی سڑکوں کی تعمیر و مرمت بلدیہ عظمیٰ اور بے اختیار ٹاؤن میونسپل کارپوریشنوں کی ہے مگر اس سلسلے میں بااختیار اور فنڈز کی حامل بلدیہ عظمیٰ ہے۔
کراچی میں سڑکوں کی تباہی کا سلسلہ سالوں سے جاری ہے۔ سرکاری ایڈمنسٹریٹروں نے سڑکوں پر توجہ دی نہ چار سال ایم کیو ایم کے بے اختیار میئر کچھ کر سکے تھے مگر ایک سال سے زیادہ ہو گیا پیپلز پارٹی کے میئر پہلے بھی کراچی کی تباہ حال سڑکوں کی حالت بہتر نہ بنا سکے اور حالت یہ ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کی اہم سڑکیں بھی بہتر حالت میں نہیں ہیں اور کچھ ہی فاصلے کے بعد ٹوٹی پھوٹی سڑک آ جاتی ہے جس کی فوری مرمت کرا کر سڑکوں کو ہموار نہیں کیا جاسکتا اور سڑکوں کی مزید ٹوٹ پھوٹ کا انتظار کیا جاتا ہے اور یہ نہیں ہوتا کہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی عارضی مرمت کرا دی جائے تاکہ گاڑی والوں کو جگہ جگہ رکنا نہ پڑے جس سے ٹریفک جام بھی معمول بنا ہوا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی لاپرواہی کی ایک مثال گرومندر کا علاقہ ہے جہاں سالوں سے تین ہٹی، لسبیلہ، بندر روڈ سے صدر اور ٹاور جانے والی لاکھوں چھوٹی بڑی گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں و رکشے گزرتے ہیں وہاں کے ایم سی گوشت مارکیٹ کے سامنے ایک فٹ اونچا گٹر سڑک کے درمیان بنا ہوا ہے اور سڑک بھی خراب ہے۔
میئر کراچی اور صوبائی حکام اور وزرا بھی یہاں سے گزرتے ہیں مگر سڑک سے ایک فٹ اونچے گٹر کو سڑک کے لیول پر نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے حادثات معمول بنے ہوئے ہیں اور یہ چھوٹا مسئلہ بھی حل نہیں کرایا جاتا جو بلدیہ عظمیٰ کی ذمے داری ہے۔کراچی بھر میں بڑی سڑکیں بھی تباہی کا شکار ہیں جو بلدیہ عظمیٰ کی ہیں۔ یونیورسٹی روڈ پر دو برس سے بسوں کے لیے تعمیری کام چل رہا ہے جو مکمل ہونے میں نہیں آ رہا اور لوگوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
سرجانی، نارتھ کراچی و نارتھ ناظم آباد سے مزار قائد تک سڑکوں کی حالت بہتر ہے اور وہاں اورنج بس بھی چل رہی ہے باقی شہر میں صرف شارع فیصل اور باقی چند سڑکیں ہی سفر کے قابل رہ گئی ہیں اور تباہ حال سڑکوں کی مرمت بھی نہیں کرائی جاتی۔ شہر کی اہم سڑکوں، مارکیٹوں، بازاروں اور شہر کے اندرونی علاقوں میں نکاسی آب کا نظام تباہ ہونے سے سڑکوں کا زیر آب رہنا اور گٹروں کا ابلنا معمول بنا ہوا ہے جس سے نہ صرف سڑکیں مزید تباہ ہو رہی ہیں بلکہ وہاں سے گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
ناقص تعمیر کے گٹروں کے ڈھکن اکثر ٹوٹ جاتے ہیں جن پر علاقہ مکین ہی کچھ رکھ دیتے ہیں اور مصروف سڑکوں پر بھی کھلے گٹر بھی جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔ شہر کے اندرونی علاقوں میں درجنوں بچے گٹروں میں گر کر ہلاک ہو چکے ہیں اور بلدیہ کی طرف سے صرف اظہار افسوس کر لیا جاتا ہے بارشوں میں نالے ابل کر سڑکوں کو نالوں میں تبدیل کر دیتے ہیں جس میں گاڑیاں پھنس جاتی ہیں اور ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ شہر کی اندرونی سڑکوں کی مرمت کے لیے ٹاؤنز کے پاس رقم نہیں یوسیز مکمل بے اختیار اور بااختیار سندھ حکومت بھی تماشا دیکھنے میں مصروف ہے۔
کراچی شہر کے اندرونی علاقوں کی حالت زیادہ خراب ہے جہاں زیادہ تر پختہ سڑکیں نظر نہیں آتیں اور وہ علاقے دیہاتوں کا منظر پیش کر رہے ہیں جیسے گاؤں کے کچے راستے ہوتے ہیں جہاں گٹر ابلتے رہتے ہیں اور گٹروں پر ڈھکن نہیں ہوتے۔ اندرونی علاقوں میں سڑکوں، گلیوں کی تعمیر و مرمت بے اختیار ٹاؤنز کی ہے جن کے پاس فنڈز نہیں ان کا بجٹ تنخواہوں میں پورا ہو جاتا ہے کیونکہ ماضی میں غیر ضروری فاضل عملہ بھرتی کیا گیا جو اب بوجھ بنا ہوا ہے۔
سندھ حکومت کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو اس بار پہلے سے زیادہ نشستیں کراچی سے ملی ہیں تو سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ سڑکوں کی تعمیر اور فراہمی و نکاسی آب پر فوری توجہ دے۔