’’میرے حصہ میں برداشت کیوں آئی

کیا آپ اپنی زندگی کے جبر کا بدلہ ایک ایسی لڑکی سے لیں گی، جس میں اس کا کوئی قصور ہی نہیں؟

فوٹو : فائل

اس کا جنازہ اٹھا تو ملنے جلنے والی اور دیگر پُرسے کو آئی ہوئی عورتوں نے یہی کہا ''بہت ہمت والی تھی، برداشت کی اعلیٰ مثال قائم کی، ساس تو خیر جیسی بھی تھی، مگر شوہر، اف ایسا بد مزاج انسان، اللہ بچائے، بہت صابر تھی، مجال ہے جو کبھی شکوہ کیا ہو، یا کچھ کہا ہو، بس بے چاری دنیا سے بچوں کی خوشیاں دیکھے بغیر رخصت ہوگئی۔۔۔!''

''ارے! ایسا کون سا کمال کیا۔۔۔؟ جو جنازے پر تعریفیں ہیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہیں، ہمارا بھائی ہیرا ہے ہیرا۔۔۔ لاکھوں میں ایک دیکھنا اب بھی کنواری کا رشتہ مل جائے گا فٹ سے، گھر بس جائے گا، ہم نے یہی سنا ہے مرد ایسے ہی ہوتے ہیں، عورتیں برداشت کرتی ہیں کوئی انوکھا کام کر کے نہیں مری یہ بی بی۔۔۔''

یہ منظر ایک جنازہ کا ہے، جسے دیکھ یاسن کر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے چند لمحوں کا کھیل ہو، مگر یہ چند لمحوں کا کھیل نہیں، بلکہ سالوں کا اورزندگیوں کا تماشا ہے۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لیتے ہیں، جہاں ایک عورت کے لیے یہ ضابطۂ طے کر دیا گیا ہے، جس کا عنوان ہے''برداشت!'' کچھ بھی ہو، کہا جاتا ہے گھر تو عورت کی برداشت سے بنتے ہیں، گھر مرد نہیں بناتے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شادی جیسے خوب صورت رشتہ کو اگر خوشی سے جوڑا جاتا ہے، تو پھر اس میں برداشت اور سہنا کہاں سے آگیا؟ برداشت لفظ کا تعلق دکھ، درد، تکلیف، کرب سے ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟ کہ عورت کے لیے شادی کو شوہر اور سسرال والے مل کر برداشت کا نام دلواتے ہیں اور جو عورت ہر زخم سہہ جائے، بے عزتی کے احساس سے عاری ہو، اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائے تو پھر یہ معاشرہ اس عورت کے بارے میںیہ رائے قائم کرتا کہ وہ گھر بسانا چاہتی ہے، تبھی یہ سب برداشت کررہی ہے۔


کبھی سوچا ہے کہ آخر کیوں کرے وہ یہ سب برداشت۔۔۔؟ کیا وہ انسان نہیں؟ اس کے کوئی احساسات اور جذبات نہیں ہیں؟ وہ محسوسات سے عاری ہے؟ اسے ناروا سلوک اور درد نہیں ہوتا؟ جو لوگ دل آزارانہ سلوک کرتے ہیں، کٹھور رویہ رکھتے ہیں ان کی زبانوں اور ہاتھوں کو یہ معاشرہ کیوں نہیں روکتا؟ کیوں ان کو ان نظروں سے نہیں دیکھتا کہ وہ زمین میں گڑ جائے؟ کیوں ان سے وہ رویہ نہیں رکھتا کہ وہ اس وقت کو کوسے جس وقت انھوں نے کسی کی بیٹی کے ساتھ ناانصافی کی تھی۔

میری درخواست صرف اتنی ہے کہ ہم بیٹیوں کو برداشت کا سبق نہیں پڑھائے، بلکہ اپنے رویوں اور انداز سے ان لوگوں کو ہی سدھاریں، جو دن رات بیٹیوں کو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کی صرف یہ غلطی ہے کہ وہ بیٹی ہیں۔

یہ برداشت صرف مرد ہی کی نہیں پورے سسرال کی بھی ہوتی ہے، اور ایک عورت کو صرف اپنے مجازی خدا ہی نہیں، بلکہ اس سے جڑے مختلف رشتوں کے رویوں کو بھی سہنا ہوتا ہے، جس میں خواتین بھی شامل ہوتی ہیں، گویا ایک عورت جو چیزیں خود سہتی ہے، وہی وہ اپنی بہو اور بھاوج کے لیے بھی لاگر کردیتی ہے۔ اس میں ایک ردعمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سسرال یا اپنی زندگی کی بھڑاس اس لڑکی پر نکالتی ہیں، کہ جس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔

جواب یہ ہوتا ہے کہ یہ تو دنیا میں ہوتا آیا ہے۔ بہو کو ایسے رہنا ہوتا ہے، بھاوج کو ایسا کرنا ہوتا ہے، تاکہ گھر بسے، ہم نے بھی یہ سب سہا تھا۔کیا ضروری ہے کہ ایک خرابی کا دائرہ جو سب خواتین کو دباتا آرہا ہے، آپ بھی اسی چکر کو آگے بڑھائیں؟ کیا یہ انصاف اور عقل کی بات ہے۔

کیا آپ اپنی زندگی کے جبر کا بدلہ ایک ایسی لڑکی سے لیں گی، جس میں اس کا کوئی قصور ہی نہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ پہل کریں اور اپنے سسرال یا اپنی ساس سے جو بھگت رہی ہیں، یا بھگتا ہے، اسے نئی اور اچھی شروعات میں ڈھالنے کی کوشش کریں کہ اپنے گھر آنے والی نئی رکنِ خاندان کو اچھا ماحول دیں اور اسے بتائیں کہ ہم خواتین کو جہاں مردوں کے رویے سدھارنے ہیں، وہاں باہمی رویے بھی بہتر کرنے ہیں، تاکہ صنف نازک پر جبر کا یہ مہیب دائرہ اور چکر ٹوٹے۔ سب کی زندگی آسان ہو، تلخیاں دور ہوں اور خاندان میں کوئی مثبت عنصر نمو پانا شروع کرے۔
Load Next Story