آئینہ دیکھنا بھی تو ضروری ہے
اپنے عکس کے سوالات کے جواب دینا نہ دینا آپ کی صوابدید ہے!
آئینہ بظاہر ایک عکس ہی دکھاتا ہے، لیکن اس کے پیچھے بہت کچھ پوشیدہ ہوتا ہے، جسے صرف دیکھنے والی آنکھ ہی دیکھ سکتی ہے اور ایسی آنکھ جسے اپنے پیچھے ضمیر کی دھمک سنائی دیتی ہو اور وہ اس دھمک کو سن کر ان جان بننے کے بہ جائے خود کو کٹھرے میں کھڑا کرنا پسند کرے۔
آئینہ دیکھنا آسان ضرور ہے، لیکن اس سے سبق سیکھنا اور ضمیر آج ہم کچھ وقت نکالیں گے اور خود کو آئینے کے سامنے کھڑا کریں گے اور ہر زاویے سے خود کو جانچنے کی کوشش کریں گے کہ ہم کہاں غلط ہیں؟ اور کہاں ٹھیک ہیں؟ اور کس جگہ گنجائش کی امید ہے۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتا اور نہ سب کچھ غلط ہوتا ہے، بس ہم خود کو آئینہ ہی نہیں دکھاتے اور نہ ہی اپنے ضمیر پر کوئی اضافی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آئینے میں ہمیں کیا دیکھنا ہے۔
وہ سب کچھ جو آپ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، اسے یوں ہی بنا دیکھے گزرنا ہے یا رکنا ہے اور چہرے پر سے دھول مٹی کو صاف کرکے اپنے عکس پر غور وفکر کرنی ہے۔ کچھ باتوں کے دو رخ ہوتے ہیں کہ جب آپ غلط بھی ہوتے ہیں اور ٹھیک بھی۔ اس لیے کوشش کریں کہ آئینہ دیکھتے ہوئے درست سمت کا استعمال کریں۔
ہر جگہ آپ ٹھیک نہیں ہو سکتے اور نہ ہر جگہ آپ غلط ہوتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ جہاں آپ غلط ہیں اسے اچھی طرح پرکھیں اور یہی سوچیں کہ اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے اور کس طرح خود کو اس پاتال سے نکالنا ہے۔ کچھ لوگ آئینہ بھی دیکھتے ہیں، لیکن پھر بھی خود کو نہیں بدلتے اور کچھ آئینے کی ایک جھلک سے خود کو بدل لیتے ہیں۔
آج کے دور میں ضمیر کی آنکھ سے دیکھنا ہی دراصل آئینے سے آشنائی ہے۔ جب آئینے کے سامنے کھڑے ہوں تو یہ سوچیں، جو کل آپ کے ساتھ تھے آج کیوں نہیں ہیں؟ سوالیہ نشان پر پہنچتے ہی آپ کو اپنی اور ان لوگوں کی زیادتیاں ضرور یاد آئیں گی پھر ضمیر پر دستک ہوگی ایک عجیب سی بے چینی ہوگی اس صورت میں جب آپ نے کسی سے زیادتی کی ہوگی اس سے بلا وجہ تعلق توڑا ہوگا یا اس سے جان بوجھ کر پیچھا چھڑایا ہوگا۔
جب آپ حق پر ہوں گے تو ایک سکون ملے گا کہ ایسے لوگوں سے رابطہ یا تعلق ختم ہو جانا ہی بہتر تھا۔کسی کو دکھ تکلیف دیتے ہوئے ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو ایک عجیب سی تھکن ہم اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں اور وہی ضمیر کی دستک اور خوف کی لہر ہوتی ہے جو آپ کو آئینے کے سامنے جانے سے روکتی ہے۔ کچھ نہ سوچیں، نہ ڈریں، بس اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا اعتراف کر لیں اپنے ضمیر پر پڑے بوجھ کو کم کر لیں۔
معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے آپ کو سکون مل جائے اور کسی کے ساتھ کی گئی زیادتی سے آپ کو رہائی مل جائے اور آپ خود کو پُرسکون محسوس کریں۔ معافی مانگنے اور جھکنے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہو جاتا، لیکن بس اس کے لیے تھوڑی ہمت چاہیے۔
اپنی انا کو کہیں پیچھے چھوڑنا ہوگا اور بس دل کے فیصلے کو اولین ترجیح دینا ہوگی اور تہیہ کرنا ہوگا کہ چاہے کچھ ہو جائے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی اس کی ہمت اور حوصلے کو نہیں آزمانا اور نہ ہی اس کی عزت نفس کو مجروح کرنا ہے، بلکہ بولنے سے پہلے سوچنا ہے اور خوب اچھی طرح سوچنا ہے الفاظ کو پرکھنا ہے نہ کہ طنز کے نشتر دلوں پر اتارنے ہیں۔ ہمت اور بہادری کے ساتھ آئینہ دیکھیں، لیکن اس میں سچائی کو ضرور ساتھ رکھیں، کیوں کہ سچائی ہی آئینے کی دھول مٹی کو صاف کرتی ہے ورنہ آئینہ تو سبھی روزانہ ہی دیکھتے ہیں۔
خود کو سنوارتے اور چلے جاتے ہیں اور زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اس مشینی دور میں ہمارے پاس آئینہ دیکھنے کا بھی وقت نہیں ہے اور ہم کچھ وقت بھی نہیں نکال سکتے کہ جس میں آئینے کی پکار پر پلٹیں اور کچھ دیر رک کر اپنے خد و خال کے علاوہ اپنے دل کی تال کو آئینے کے سامنے رکھیں اور اس کے سامنے اپنے ضمیر کی ملامت کا اظہار کریں، اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے معافی تلافی کا سلسلہ آگے بڑھائیں، لیکن آج ہم سب کو کچھ وقت نکالنا ہے اور آئینے کے سامنے خود کو پیش کرنا ہے اور اسی کے ذریعے خود کو پرکھنا ہے جو تھوڑا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔
آئینہ دیکھنا آسان ضرور ہے، لیکن اس سے سبق سیکھنا اور ضمیر آج ہم کچھ وقت نکالیں گے اور خود کو آئینے کے سامنے کھڑا کریں گے اور ہر زاویے سے خود کو جانچنے کی کوشش کریں گے کہ ہم کہاں غلط ہیں؟ اور کہاں ٹھیک ہیں؟ اور کس جگہ گنجائش کی امید ہے۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہوتا اور نہ سب کچھ غلط ہوتا ہے، بس ہم خود کو آئینہ ہی نہیں دکھاتے اور نہ ہی اپنے ضمیر پر کوئی اضافی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اب سوچنا یہ ہے کہ آئینے میں ہمیں کیا دیکھنا ہے۔
وہ سب کچھ جو آپ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں، اسے یوں ہی بنا دیکھے گزرنا ہے یا رکنا ہے اور چہرے پر سے دھول مٹی کو صاف کرکے اپنے عکس پر غور وفکر کرنی ہے۔ کچھ باتوں کے دو رخ ہوتے ہیں کہ جب آپ غلط بھی ہوتے ہیں اور ٹھیک بھی۔ اس لیے کوشش کریں کہ آئینہ دیکھتے ہوئے درست سمت کا استعمال کریں۔
ہر جگہ آپ ٹھیک نہیں ہو سکتے اور نہ ہر جگہ آپ غلط ہوتے ہیں اس لیے کوشش کریں کہ جہاں آپ غلط ہیں اسے اچھی طرح پرکھیں اور یہی سوچیں کہ اسے کیسے ٹھیک کرنا ہے اور کس طرح خود کو اس پاتال سے نکالنا ہے۔ کچھ لوگ آئینہ بھی دیکھتے ہیں، لیکن پھر بھی خود کو نہیں بدلتے اور کچھ آئینے کی ایک جھلک سے خود کو بدل لیتے ہیں۔
آج کے دور میں ضمیر کی آنکھ سے دیکھنا ہی دراصل آئینے سے آشنائی ہے۔ جب آئینے کے سامنے کھڑے ہوں تو یہ سوچیں، جو کل آپ کے ساتھ تھے آج کیوں نہیں ہیں؟ سوالیہ نشان پر پہنچتے ہی آپ کو اپنی اور ان لوگوں کی زیادتیاں ضرور یاد آئیں گی پھر ضمیر پر دستک ہوگی ایک عجیب سی بے چینی ہوگی اس صورت میں جب آپ نے کسی سے زیادتی کی ہوگی اس سے بلا وجہ تعلق توڑا ہوگا یا اس سے جان بوجھ کر پیچھا چھڑایا ہوگا۔
جب آپ حق پر ہوں گے تو ایک سکون ملے گا کہ ایسے لوگوں سے رابطہ یا تعلق ختم ہو جانا ہی بہتر تھا۔کسی کو دکھ تکلیف دیتے ہوئے ہمیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ ہم کیا کر رہے ہیں لیکن جب وقت گزر جاتا ہے تو ایک عجیب سی تھکن ہم اپنے کندھوں پر محسوس کرتے ہیں اور وہی ضمیر کی دستک اور خوف کی لہر ہوتی ہے جو آپ کو آئینے کے سامنے جانے سے روکتی ہے۔ کچھ نہ سوچیں، نہ ڈریں، بس اپنی غلطیوں، کوتاہیوں کا اعتراف کر لیں اپنے ضمیر پر پڑے بوجھ کو کم کر لیں۔
معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے آپ کو سکون مل جائے اور کسی کے ساتھ کی گئی زیادتی سے آپ کو رہائی مل جائے اور آپ خود کو پُرسکون محسوس کریں۔ معافی مانگنے اور جھکنے سے کوئی بڑا چھوٹا نہیں ہو جاتا، لیکن بس اس کے لیے تھوڑی ہمت چاہیے۔
اپنی انا کو کہیں پیچھے چھوڑنا ہوگا اور بس دل کے فیصلے کو اولین ترجیح دینا ہوگی اور تہیہ کرنا ہوگا کہ چاہے کچھ ہو جائے کسی کی دل آزاری نہیں کرنی اس کی ہمت اور حوصلے کو نہیں آزمانا اور نہ ہی اس کی عزت نفس کو مجروح کرنا ہے، بلکہ بولنے سے پہلے سوچنا ہے اور خوب اچھی طرح سوچنا ہے الفاظ کو پرکھنا ہے نہ کہ طنز کے نشتر دلوں پر اتارنے ہیں۔ ہمت اور بہادری کے ساتھ آئینہ دیکھیں، لیکن اس میں سچائی کو ضرور ساتھ رکھیں، کیوں کہ سچائی ہی آئینے کی دھول مٹی کو صاف کرتی ہے ورنہ آئینہ تو سبھی روزانہ ہی دیکھتے ہیں۔
خود کو سنوارتے اور چلے جاتے ہیں اور زندگی کے جھمیلوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ اس مشینی دور میں ہمارے پاس آئینہ دیکھنے کا بھی وقت نہیں ہے اور ہم کچھ وقت بھی نہیں نکال سکتے کہ جس میں آئینے کی پکار پر پلٹیں اور کچھ دیر رک کر اپنے خد و خال کے علاوہ اپنے دل کی تال کو آئینے کے سامنے رکھیں اور اس کے سامنے اپنے ضمیر کی ملامت کا اظہار کریں، اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے معافی تلافی کا سلسلہ آگے بڑھائیں، لیکن آج ہم سب کو کچھ وقت نکالنا ہے اور آئینے کے سامنے خود کو پیش کرنا ہے اور اسی کے ذریعے خود کو پرکھنا ہے جو تھوڑا مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں ہے۔