بچے کے ہر قصور کی ذمہ دار ماں۔۔۔

ہمارے بے سوچے سمجھے کہے جانے والے الفاظ ماں کی دل آزاری کا سبب بن جاتے ہیں


Munira Adil May 21, 2024
فوٹو : فائل

اپنی اولاد کے معاملے میں ماؤں کے دل نازک آبگینے کی مانند ہوتے ہیں۔ ذرا سی کسی کے سخت الفاظ یا رویے کی ٹھیس لگے، تو فوراً ٹوٹ جاتے ہیں، جب کہ کہنے والوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ ان کے لفظوں سے یا رویے سے ایک ماں کی آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہنے والے کی نیت کسی ماں کا دل دکھانے کی نہ ہو وہ عام فہم انداز میں کوئی بات کررہے ہوں، مگر عورت مزاج میں کیسی بھی ہو، لیکن بطور ماں اس کا دل بہت نازک اور حساس ہوا جاتا ہے۔

اسی طرح بعض اوقات اولاد میں اگر خدانخواستہ پیدائشی کچھ کمی یا کمزوری ہو جس کو دور کرنا والدین کے اختیار میں نہ ہو تو یہ باتیں یہ رویے بے حد گراں اور تکلیف دہ ہو جاتے ہیں۔ بہ ظاہر وہ دوسروں کے سامنے اپنے آنسو ضبط بھی کرلیں، لیکن تنہائی میں یہ مائیں اپنی بے بسی پر بہت روتی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ہم سب لوگ اپنے طرز عمل سے کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں بکھیر سکتے، تو کسی کی آنکھوں میں آنسو بھی لانے کا سبب نہ بنیں۔ وہ بھی ایک ماں کے۔

یہاں ہم چند چھوٹی چھوٹی سی باتیں پیش کر رہے ہیں، جن سے گفتگو میں اجتناب کرنا چاہیے، تاکہ کسی بھی ماں کا دل نہ دکھے۔

''تمھارا بچہ کتنا کمزور ہے!''

بچہ چھوٹا ہو یا بڑا، یا چاہے نومولود ہی ہو، لیکن اگر بچے کا وزن کم ہو تو اس حوالے سے سب سے پہلے اس کی ماں ہی کو مورد الزام ٹھیرایا جاتا ہے۔ چوں کہ بچے کی پیدائش کے بعد اکثر ماؤں کا وزن بڑھ جاتا ہے، تو یہی وجہ سمجھی جاتی ہے کہ ماں اپنے کھانے پینے کا تو پورا خیال رکھتی ہے، لیکن بچے کی غذائی صورت حال کا ذرا خیال نہیں رکھتی۔ حالاں کہ بھلا کبھی یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ ماں خود کھالے اور بچے کو بھوکا رکھے۔ یہ تو آفاقی حقیقت ہے کہ والدین اور بالخصوص ماں خود پیٹ پر پتھر باندھ سکتے ہیں، لیکن اولاد کی بنیادی ضرورتوں کو لازمی پورا کرتے ہیں۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ مائیں تو بچے کی ولادت سے پہلے اور پیدائش کے بعد تک اس بچے کی نشوونما کے واسطے سارا خیال رکھتی ہیں، حتیٰ کہ بڑے بچوں کو ان کی پسند کے کھانے بنا کر کھلانا پوری ذمہ داری سے کرتی ہے اور ہر ماں بچوں کو کھانا کھلانے کے لیے کتنے ہی جتن کرتی ہے۔ کبھی کھانا کھلانے کے ساتھ کہانی سناتی ہے تو کبھی کھانا کھلانے کے دوران چڑیا کبوتر کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔

بچہ کتنی مشکل سے کھانا کھاتا ہے۔ یہ وہی ماں جانتی ہے لیکن کبھی کسی طبی وجوہ کی بنا پر بھی بچہ کمزور ہوسکتا ہے۔ ایک ماں کے لیے اس کا بچہ دنیا میں سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے،آپ چاہے بچے سے کوئی بھی تعلق اور ناتا رکھتے ہوں، لیکن وہ ایک ماں سے زیادہ طاقت ور تعلق نہیں ہو سکتا۔ اس لیے پہلے تولیے اور پھر بولیے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کس سے کہہ رہے ہیں!

''یہ بچہ ایسا کیوں ہے ؟''

خدانخواستہ اگر بچے میں کوئی پیدائشی نقص یا بعد میں کوئی معذوری بھی پیدا ہو تو عموماً ماؤں کو اس سوال کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ''تم نے شاید سورج گرہن یا چاند گرہن میں خیال نہیں رکھا ہوگا!'' یا یہ کہ ''یہ آج کل کی لڑکیاں سمجھتی کہاں ہیں!''، ''کیا سمندر پر اور باغ میں سیر کے لیے گئی تھیں؟'' وغیرہ یا اس جیسی بہت سی باتیں اور توہمات کا تذکرے بھی ضرور کیے جاتے ہیں۔ جب کہ حقیقت میں وہ ماں جو اپنے بچے کی وجہ سے اندر ہی اندر نہ جانے کس کرب سے گزر رہی ہوگی۔ ایسی باتوں کا کیا جواب دے۔ اور ستم بالائے ستم، جب کوئی یہ کہہ دے کہ ''یہ تو تمھارے ہی کیے کی سزا ہے!'' ایسی باتیں سن کر ماؤں کا دل درد سے شق ہونے لگتا ہے۔

یہ تو قدرت کی طرف سے عطا کردہ اولاد ہے۔ اگر اس میں۔کوئی کمزوری یا کمی یا خدانخواستہ کوئی معذوری ہے، تو اس میں ماں کا کیا اور کتنا دوش۔ بظاہر چہرے پر مسکان سجائے آپ سے ملنے والی یہ مائیں اپنے دل میں درد کا کیا طوفان چھپائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ یہ صرف وہی جانتی ہیں۔ اس لیے آپ گھڑی دو گھڑی کے لیے ملنے آتے ہیں، اس دوران اچھی باتیں کیجیے، نہ کہ ان کے زخموں پر نمک چھڑکیں۔ سوچیے یہ ماں جب دوسرے بچوں کو معمول کے مطابق ہنستے، کھیلتے، بھاگتے، دوڑتے باتیں کرتے ہوئے دیکھتی ہوں گی، تو ان کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی کہ ان کا بچہ یہ سب نہیں کرسکتا، یہ کیفیات صرف وہی جانتی ہیں۔

یہی نہیں ہر جگہ مثلاً کسی پارک، تفریح گاہ کسی تقریب میں غرض ہر جگہ بن مانگے مشورے دینے والے بھی ان کو زچ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ''اس کو فلاں عامل کو دکھا دو۔ فلاں مزار پر چلی جاو وغیرہ وغیرہ'' اکثر انھی باتوں کی وجہ سے مائیں ایسے بچوں کو کسی پارک یا تقر یب میں بھی ساتھ لے جانے سے گریز کرتی ہیں۔ یوں وہ خود بھی گھر سے نکلنا چھوڑ دیتی ہیں اور تنہائی اور یاسیت کا شکار ہونے لگتی ہیں ۔

''اتنے کم نمبر کیوں آئے؟''

پڑھائی میں بچہ کمزور ہو یا امتحان کے نتیجے میں اس کے نمبر کم آئیں تو ماں کو ہی اس کا مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

''کیا بچوں کی پڑھائی پر توجہ نہیں دیتیں؟ آج کل کی ماؤں کو موبائل سے فرصت ہی نہیں ملتی!''

اور اگر ماں ملازمت پیشہ ہو یا کوئی 'آن لائن' کام کرتی ہو تو نمبر کم آنے کی وجہ اسی کو ٹھیرایا جاتا ہے اور فوری طور پر ایسی تمام سرگرمیاں ختم کرنے کا مطالبہ یا فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے، گو کہ کچھ مائیں واقعی اولاد کی پڑھائی کو اتنی توجہ نہیں دے پاتیں، کیوں کہ وہ اپنی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے لئے یہ بات کہنا درست ہوسکتا ہے مگر ماؤں کی اکثریت اولاد کو کام یاب دیکھنے کی خواہاں ہوتی ہے۔

درحقیقت ہر ماں چاہتی ہے اس کی اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے اور وہ زندگی کے ہر مرحلے میں کام یاب رہے، مگر ہر بچے کی ذہنی استعداد مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی جماعت میں ایک ہی استاد سے پڑھنے والے دسیوں طلبہ میں سے اکثر صرف ایک ہی اول پوزیش حاصل کرتا ہے، لہٰذا ماؤں کو اس کا قصوروار گرداننا کسی صورت مناسب طرز عمل نہیں۔ عموماً ایسی باتوں کا ردعمل یہ ہوتا ہے کہ مائیں پڑھائی کے معاملے میں سختی کرتی ہیں اور اکثر جسمانی سزا سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ امتحانات کے دنوں میں طلبہ سے زیادہ ان کی مائیں ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں، جس کی وجہ سے اکثر بلند فشار خون کا شکار ہو جاتی ہیں۔

مائیں دن رات پڑھائی کے لیے زور دے کر ڈرا دھمکا کر بچوں کو بھی ذہنی تناؤ کا شکار کر دیتی ہیں۔ انھیں بس ایک ہی فکر رہتی ہے کہ اگر بچے کے نمبر کم آئے تو لوگ کیا کہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات کے دنوں میں اکثر بچے بیمار پڑ جاتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ بچوں کے امتحانات میں بہترین نتیجے یعنی اچھے نمبروں کے حصول کے لیے اکثر بچوں کو ٹیوشن یا کوچنگ سینٹر بھی بھیجا جاتا ہے۔ ٹیوشن یا کوچنگ سینٹرز میں پڑھائی کا طریقہ کار اگر سمجھا کر پڑھانے کے بہ جائے رٹا لگانے پر زور دیتا ہو تو یہ طریقہ کار بھی اکثر بچوں کے لیے ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے۔

''بچوں کی کیسی تربیت کی ہے؟''

بچے کوئی بھی حرکت کریں، کوئی نقصان کر دیں، مثلا کوئی گلاس توڑ دیا، پانی گرادیا، یا کھیل کے دوران آپس میں لڑ پڑیں، تو یہ جملے اکثر ماؤں کو سننے پڑتے ہیں۔

چھوٹے بچے بے حد شرارتی ہوتے ہیں۔ سارا دن اچھل کود اور شرارتوں میں مگن رہتے ہیں۔ لہٰذا بچوں سے عموماً ایسے چھوٹے موٹے نقصان ہو جاتے ہیں۔ مائیں بچوںکو کھیل کی جانب راغب کرتی ہیں، لیکن بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے فطری طور پر شرارتیں کرنے لگتے ہیں، ان کا فطری تجسس ان کو نئی نئی حرکتیں کرنے پر اکساتا ہے اس دوران کسی چیز کا نقصان ہو جانا ارادتاً نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ بات خود بھی ذہن میں رکھیں اور دوسرون کو بھی باور کرائیں کہ بچوں کی فطرت میں شرارت کرنا ہے، لہٰذا ماؤں کی تربیت پر سوال اٹھانا کسی طور مناسب طرز عمل نہیں۔

ایسی بہت سی باتیں ہیں، جو سماعتوں کے ذریعے دل تک پہنچ کر دکھ کا وہ احساس پیدا کرتی ہیں کہ بے بسی آنکھوں کو نم کر دیتی ہے۔ اگرہم بہ ذات فرد واحد ان باتوں کو اپنی گفتگو کے ذخیرۂ الفاظ سے منہا کر دیں، تو یقیناً بہت سی ماؤں کے دل دکھی ہونے سے بچ جائیں گے اور یہ عمل سچی خوشی کا وہ احساس جاگزیں کرے گا جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں