برطانوی میڈیا کی اسرائیلی اسپتالوں میں فلسطینیوں سے انسانیت سوز سلوک کی تصدیق
فلسطینیوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر آنکھوں پر پٹیاں باندھی جاتی ہیں، برہنہ کیا جاتا ہے، بی بی سی رپورٹ
اسرائیل کے اسپتال میں زیر علاج غزہ کے زخمیوں کو آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر بیڑیوں میں جکڑنے کی تصدیق ہوگئی۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں طبی کارکنوں نے بتایا کہ غزہ سے گرفتار کیے جانے والے فلسطینیوں کو اسپتال کے بستروں پر بیڑیوں میں جکڑا جاتا ہے، آنکھوں پر پٹیاں باندھی جاتی ہیں، برہنہ کیا جاتا ہے اور ڈائپر پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بی بی سی کو ذرائع نے بتایا کہ اسپتالوں میں دردکش ادویات کے بغیر فلسطینی مریضوں کے آپریشن کیے جاتے ہیں، جس سے قیدی "ناقابل برداشت تکلیف و اذیت سے گزرتے ہیں۔
سرکاری ہسپتال فلسطینی قیدیوں کو داخل کرنے اور ان کا علاج کرنے سے انکار کررہے ہیں جس کی وجہ سے انتہائی نازک حالت والے مریضوں کو بھی عارضی فوجی مراکز میں رکھا جارہا ہے جہاں وہ مناسب علاج سے محروم ہیں۔
ایک قیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے پوچھ گچھ کے لیے انہیں غزہ سے گرفتار کیا۔ خان یونس سے تعلق رکھنے والے 43 سالہ ٹیکسی ڈرائیور سفیان ابو صلاح کو ایک فوجی اڈے پر لے جایا گیا۔ اس دوران فوجیوں نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا۔ ان کے پاؤں پر ایک معمولی زخم ہوگیا جس کا فوجیوں نے علاج کرانے سے انکار کردیا۔ اس زخم میں پھر انفیکشن ہوگیا۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا، ''میری ٹانگ میں انفیکشن ہو گیا اور وہ نیلی ہو گئی اور کسی فوم کی طرح نرم ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد گارڈز مجھے اسپتال لے گئے اور راستے میں میری زخمی ٹانگ پر بھی مارا گیا، جہاں ڈاکٹر نے میری ٹانگ کاٹ کر مجھے واپس فوجی اڈے پر بھیج دیا جہاں سے بعد میں غزہ میں واپس رہا کر دیا گیا۔
اسرائیل فوجی اسپتال میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تشدد کا اقرار کرتے ہوئے قیدیوں کو بیڑیوں میں جکڑنے اور دیگر پابندیوں کو "غیر انسانی" قرار دیا۔
اسرائیل میں 'فزیشنز فار ہیومن رائٹس' کی فروری میں شائع رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی شہری اور فوجی جیلیں انتقام لینے کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں جہاں قیدیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر ان کی صحت تباہ و برباد کی جارہی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں طبی کارکنوں نے بتایا کہ غزہ سے گرفتار کیے جانے والے فلسطینیوں کو اسپتال کے بستروں پر بیڑیوں میں جکڑا جاتا ہے، آنکھوں پر پٹیاں باندھی جاتی ہیں، برہنہ کیا جاتا ہے اور ڈائپر پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
بی بی سی کو ذرائع نے بتایا کہ اسپتالوں میں دردکش ادویات کے بغیر فلسطینی مریضوں کے آپریشن کیے جاتے ہیں، جس سے قیدی "ناقابل برداشت تکلیف و اذیت سے گزرتے ہیں۔
سرکاری ہسپتال فلسطینی قیدیوں کو داخل کرنے اور ان کا علاج کرنے سے انکار کررہے ہیں جس کی وجہ سے انتہائی نازک حالت والے مریضوں کو بھی عارضی فوجی مراکز میں رکھا جارہا ہے جہاں وہ مناسب علاج سے محروم ہیں۔
ایک قیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی فوج نے پوچھ گچھ کے لیے انہیں غزہ سے گرفتار کیا۔ خان یونس سے تعلق رکھنے والے 43 سالہ ٹیکسی ڈرائیور سفیان ابو صلاح کو ایک فوجی اڈے پر لے جایا گیا۔ اس دوران فوجیوں نے ان پر بہیمانہ تشدد کیا۔ ان کے پاؤں پر ایک معمولی زخم ہوگیا جس کا فوجیوں نے علاج کرانے سے انکار کردیا۔ اس زخم میں پھر انفیکشن ہوگیا۔
انہوں نے بی بی سی کو بتایا، ''میری ٹانگ میں انفیکشن ہو گیا اور وہ نیلی ہو گئی اور کسی فوم کی طرح نرم ہو گئی۔ ایک ہفتے بعد گارڈز مجھے اسپتال لے گئے اور راستے میں میری زخمی ٹانگ پر بھی مارا گیا، جہاں ڈاکٹر نے میری ٹانگ کاٹ کر مجھے واپس فوجی اڈے پر بھیج دیا جہاں سے بعد میں غزہ میں واپس رہا کر دیا گیا۔
اسرائیل فوجی اسپتال میں کام کرنے والے سینئر ڈاکٹر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تشدد کا اقرار کرتے ہوئے قیدیوں کو بیڑیوں میں جکڑنے اور دیگر پابندیوں کو "غیر انسانی" قرار دیا۔
اسرائیل میں 'فزیشنز فار ہیومن رائٹس' کی فروری میں شائع رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی شہری اور فوجی جیلیں انتقام لینے کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں جہاں قیدیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ خاص طور پر ان کی صحت تباہ و برباد کی جارہی ہے۔