پاک ترکیہ تعلقات کی نئی جہت
بلاشبہ دونوں ممالک مضبوط بنیاد پر مثالی تجارتی روابط کے ذریعے برادرانہ تعلقات کی ایک عالیشان عمارت تعمیر کرسکتے ہیں
وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان ترکیہ کے ساتھ تجارتی حجم بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک لے جانا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جلد ان تجارتی تعلقات پر باقاعدہ اکنامک فریم ورک کی تیاری پر مذاکرات ہوں گے، وہ ترکیہ کے وزیرخارجہ ہاکان فیدان کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری، رابطوں اور دفاع سمیت دوطرفہ تعاون کا جائزہ لیا گیا۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب ، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں۔
بلاشبہ دونوں ممالک مضبوط بنیاد پر مثالی تجارتی روابط کے ذریعے برادرانہ تعلقات کی ایک عالیشان عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ تاریخی اور خوشگوار تعلقات کو مضبوط اسٹرٹیجک شراکت داری میں بدلا جائے، دفاعی پیداوار کی صنعتوں میں دونوں ممالک کا گہرا تعاون ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، لہٰذا دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ترقی وخوشحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
اس وقت پاکستان اور ترکیہ کے سامنے دو مرکزی چیلنجز ہیں، ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری 100 سے زیادہ ایسی ترک کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں پہلے ہی بہت سی ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں، اس لیے تجارت کی نسبت سرمایہ کاری پر مبنی تعاون زیادہ ہے۔
پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری نہ صرف ترکیہ بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی کاروباری تعاون کو فروغ دے گی۔ تجارتی لحاظ سے ترکیہ نے گزشتہ چند دہائیوں میں بہت ترقی کی ہے جب کہ پاکستان بدقسمتی سے تجارتی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نجی کاروباری طبقے کی بھی ذمے داری ہے کہ تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ موجودہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس نے اس سلسلے میں کچھ شعبہ جات کو ترجیحی بنیادوں پر فوکس کیا ہے۔
کراچی سے گوادر تک پاکستان کے ساحلی مقامات دنیا کے خوبصورت ترین ساحلی مقامات میں سے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم ترکیہ کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے، پاکستان کو گراس روٹ لیول پر کام کرنا چاہیے جس طرح ترکیہ نے پچھلے تیس سال میں اپنی سیاحت کی صنعت کو استوارکیا۔ تجارت کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ کافی عرصہ سے زیر غور ہے۔
اپنی مثالی ترقی کے باوجود، ترکیہ کی ابھی تک ٹیکسٹائل کے شعبے میں صرف 10 سے 15 ملین ڈالر کی برآمدات ہیں، اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے کمزور شعبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے ساتھ مشترکہ تجارتی پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک دہشت گردی اور جنگ سے متاثر مہاجرین کے چیلنج کا شکار رہے ہیں۔ تعاون اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں ممالک کے پاس وسیع پیمانے پر مواقعے موجود ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پاکستان اور ترکیہ کے لیے چیلنجز دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کام کریں۔دونوں ملک اسلامو فوبیا کے ایشو پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ترکیہ بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
ترکیہ دنیا کی تیرہویں بڑی معیشت ہے۔ ترکیہ کی آٹو موبائل انڈسٹری کو دنیا بھر میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے جو سالانہ لاکھوں گاڑیاں تیار کرتی ہے اور دنیا کی 15ویں بڑی آٹو موبائل انڈسٹری ہے۔ ترکیہ کے برانڈز کا شمار یورپ کے بڑے برانڈز میں ہوتا ہے جو نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ترکیہ کی معیشت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ترکیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے جس کی صنعتیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔
ترکیہ کا دنیا کی زرعی پیداوار میں نمایاں مقام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ٹیکسٹائل الیکٹرونک اورگھریلو اشیا کی تیاری کی صنعتیں بھی نہایت اہم ہیں ترکیہ فندق، انجیر، چیری، انار اور آڑو پیدا کرنے میں دنیا بھر میں اولیت حاصل ہے۔ ترکیہ تربوز پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پودینہ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک، ٹماٹر پیدا کرنے والا چوتھا، چائے، چقندر اور شکر قندی پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
ترکیہ یورپ کا سب سے بڑا ٹیلی ویژن بنانے والا، اور دنیا کے کل ٹی وی کی پیداوار کا نصف پیدا کرتا ہے۔ ترکیہ میں وینز، بسز اور ٹرک بھی تیار ہوتے ہیں۔ ترکیہ میں 90 ایئر پورٹس ہیں جو 22 بین الاقوامی سہولتوں سے آراستہ ہیں، استنبول دنیا کا گیارہواں مصروف ترین ایئرپورٹ ہے جہاں سالانہ 3 کروڑ 18 لاکھ تین ہزار سے زائد مسافروں کی آمدو رفت رہتی ہے۔
ترکیہ کے پاس دنیا کا 22 واں ریلوے نیٹ ورک ہے جو 991 کلومیٹر پر مشتمل ہے 133 کلو میٹر الیکٹرک ٹریک بھی شامل ہیں۔سیاحت ترکیہ کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ ترکیہ حسین مقامات کے علاوہ تاریخی اور سماجی اہمیت کے متعدد قابل دید مقامات کا حامل ملک ہے۔ ٹریول ایجسیز ٹی یو آئی اے جی اور تھامس کک کے مطابق دنیا کے 100 بڑے ہوٹلوں میں 11 ترکیہ میں ہیں۔
ہر سال 3 کروڑ سے زائد سیاح ترکیہ کا رخ کرتے ہیں جو ترکیہ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔دوسری جانب پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کے دوران اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ کو پاکستانی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر8 فیصد اور درآمدات میں 4.35 فیصد کی نمو ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک اور پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے اس حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ کو برآمدات سے ملک کو259.59 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ترکیہ کو برآمدات سے ملک کو240.41 ملین ڈالرکا زر مبادلہ حاصل ہوا تھا، مارچ میں ترکیہ کو برآمدات کا حجم 26.70 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا، جو فروری میں 28.19 ملین ڈالر اور گزشتہ سال مارچ میں 33.16 ملین ڈالر تھا، مالی سال 2023 میں ترکیہ کو323.39 ملین ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ سے درآمدات پر381.58 ملین ڈالر زر مبادلہ خرچ ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 4.35 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ترکیہ سے درآمدات پر365.65 ملین ڈالرکا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا، مارچ میں ترکیہ سے درآمدات کا حجم 47.92 ملین ڈالرریکارڈ کیا گیا جو فروری میں 45.35 ملین ڈالر اور گزشتہ سال مارچ میں 31.46 ملین ڈالر تھا، مالی سال 2023 میں ترکیہ سے درآمدات کا حجم 477.59 ملین ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا۔
ترکیہ جائیں تو ترک بطور پاکستانی ہمیں نہایت محبت اور گرم جوشی سے ملتے ہیں۔پاکستانی طالب علموں، مزدوروں، کاروباریوں، پروفیسروں وغیرہ کے لیے ترکیہ نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ترکوں کی محبت واقعتا لاجواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ جانا، گھومنا پھرنا اور ترکوں سے ملنا پاکستانیوں کو ہمیشہ اچھا لگتا ہے، تاہم سیاحتی اور ثقافتی حوالوں کی علاوہ، نہایت ضروری ہے کہ بطور قوم ہم ترکیہ کی تیز رفتار ترقی سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان میں میٹروز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر میں ترکیہ کا اہم کردار ہے۔
ترکیہ کے پروفیشنلز ، ڈاکٹرزاور انجیئنیرز نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ ترکیہ کے افسران اور سیاستدان باتوں کے بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی توجہ تصویر اور تشہیر کے بجائے نتائج پر توجہ مرکوز رہتی ہے جب کہ پاکستان میں تو پروٹوکول کے بہت سے مسائل ہیں۔ ایک فائل کسی افسر کے دفتر میں جاتی ہے تو مہینوں اور سالوں بیت جاتے ہیں۔
ترک انتظامیہ کے کام کا طریقہ کار مختلف ہے۔ جس طرح ترک پاکستانیوں کے لیے محبت کے جذبات رکھتے ہیں، ہم پاکستانی بھی ترکیہ کے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ تاہم اس امر کی تفہیم نہایت ضروری ہے کہ ترکیہ سے ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ترکیہ نے جس طرح ٹھوس منصوبہ بندی اور سخت محنت سے ترقی کی ہے، معیار تعلیم بلند کیا ہے۔ اقوام عالم میں اپنا مقام بنایا ہے۔ لازم ہے کہ ہم ترکوں سے یہ سب سیکھیں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھیں۔
ملاقات میں تجارت، سرمایہ کاری، رابطوں اور دفاع سمیت دوطرفہ تعاون کا جائزہ لیا گیا۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب ، وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقاتیں کیں۔
بلاشبہ دونوں ممالک مضبوط بنیاد پر مثالی تجارتی روابط کے ذریعے برادرانہ تعلقات کی ایک عالیشان عمارت تعمیر کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک کی خواہش ہے کہ تاریخی اور خوشگوار تعلقات کو مضبوط اسٹرٹیجک شراکت داری میں بدلا جائے، دفاعی پیداوار کی صنعتوں میں دونوں ممالک کا گہرا تعاون ایک بہت بڑا سرمایہ ہے، لہٰذا دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ترقی وخوشحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔
اس وقت پاکستان اور ترکیہ کے سامنے دو مرکزی چیلنجز ہیں، ایک تجارت اور دوسرا اقتصادی سرمایہ کاری 100 سے زیادہ ایسی ترک کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ پاکستان کے پاس اس ضمن میں سیکھنے اور تعاون کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہائیڈرو پاور پروجیکٹس میں پہلے ہی بہت سی ترک کمپنیاں پاکستان میں کام کر رہی ہیں، اس لیے تجارت کی نسبت سرمایہ کاری پر مبنی تعاون زیادہ ہے۔
پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری نہ صرف ترکیہ بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی کاروباری تعاون کو فروغ دے گی۔ تجارتی لحاظ سے ترکیہ نے گزشتہ چند دہائیوں میں بہت ترقی کی ہے جب کہ پاکستان بدقسمتی سے تجارتی لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ نجی کاروباری طبقے کی بھی ذمے داری ہے کہ تجارت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔ موجودہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ نظر آتی ہے اور اس نے اس سلسلے میں کچھ شعبہ جات کو ترجیحی بنیادوں پر فوکس کیا ہے۔
کراچی سے گوادر تک پاکستان کے ساحلی مقامات دنیا کے خوبصورت ترین ساحلی مقامات میں سے ہیں۔ اس ضمن میں اگر ہم ترکیہ کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے، پاکستان کو گراس روٹ لیول پر کام کرنا چاہیے جس طرح ترکیہ نے پچھلے تیس سال میں اپنی سیاحت کی صنعت کو استوارکیا۔ تجارت کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ کافی عرصہ سے زیر غور ہے۔
اپنی مثالی ترقی کے باوجود، ترکیہ کی ابھی تک ٹیکسٹائل کے شعبے میں صرف 10 سے 15 ملین ڈالر کی برآمدات ہیں، اسی طرح پاکستان کو بھی اپنے کمزور شعبوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے ساتھ مشترکہ تجارتی پروجیکٹس پر کام کرنا چاہیے۔ دونوں ممالک دہشت گردی اور جنگ سے متاثر مہاجرین کے چیلنج کا شکار رہے ہیں۔ تعاون اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے دونوں ممالک کے پاس وسیع پیمانے پر مواقعے موجود ہیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں پاکستان اور ترکیہ کے لیے چیلنجز دن بدن بڑھ رہے ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے کام کریں۔دونوں ملک اسلامو فوبیا کے ایشو پر مل کر کام کر رہے ہیں۔ترکیہ بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مسائل کا شکار ہے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے وہ پاکستان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، دونوں ممالک کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو وسیع کرنا چاہیے۔ پاکستان ترکیہ سے جدید ٹیکنالوجی خصوصاً زراعت اور تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔
ترکیہ دنیا کی تیرہویں بڑی معیشت ہے۔ ترکیہ کی آٹو موبائل انڈسٹری کو دنیا بھر میں ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے جو سالانہ لاکھوں گاڑیاں تیار کرتی ہے اور دنیا کی 15ویں بڑی آٹو موبائل انڈسٹری ہے۔ ترکیہ کے برانڈز کا شمار یورپ کے بڑے برانڈز میں ہوتا ہے جو نئی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے خطیر رقم خرچ کر رہے ہیں۔ ترکیہ کی معیشت دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ ترکیہ ایک ترقی یافتہ ملک ہے جس کی صنعتیں تیزی سے ترقی کر رہی ہیں۔
ترکیہ کا دنیا کی زرعی پیداوار میں نمایاں مقام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ٹیکسٹائل الیکٹرونک اورگھریلو اشیا کی تیاری کی صنعتیں بھی نہایت اہم ہیں ترکیہ فندق، انجیر، چیری، انار اور آڑو پیدا کرنے میں دنیا بھر میں اولیت حاصل ہے۔ ترکیہ تربوز پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ پودینہ پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک، ٹماٹر پیدا کرنے والا چوتھا، چائے، چقندر اور شکر قندی پیدا کرنے والا دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
ترکیہ یورپ کا سب سے بڑا ٹیلی ویژن بنانے والا، اور دنیا کے کل ٹی وی کی پیداوار کا نصف پیدا کرتا ہے۔ ترکیہ میں وینز، بسز اور ٹرک بھی تیار ہوتے ہیں۔ ترکیہ میں 90 ایئر پورٹس ہیں جو 22 بین الاقوامی سہولتوں سے آراستہ ہیں، استنبول دنیا کا گیارہواں مصروف ترین ایئرپورٹ ہے جہاں سالانہ 3 کروڑ 18 لاکھ تین ہزار سے زائد مسافروں کی آمدو رفت رہتی ہے۔
ترکیہ کے پاس دنیا کا 22 واں ریلوے نیٹ ورک ہے جو 991 کلومیٹر پر مشتمل ہے 133 کلو میٹر الیکٹرک ٹریک بھی شامل ہیں۔سیاحت ترکیہ کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے کیونکہ ترکیہ حسین مقامات کے علاوہ تاریخی اور سماجی اہمیت کے متعدد قابل دید مقامات کا حامل ملک ہے۔ ٹریول ایجسیز ٹی یو آئی اے جی اور تھامس کک کے مطابق دنیا کے 100 بڑے ہوٹلوں میں 11 ترکیہ میں ہیں۔
ہر سال 3 کروڑ سے زائد سیاح ترکیہ کا رخ کرتے ہیں جو ترکیہ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔دوسری جانب پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کے حجم میں جاری مالی سال کے دوران اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ کو پاکستانی برآمدات میں سالانہ بنیادوں پر8 فیصد اور درآمدات میں 4.35 فیصد کی نمو ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک اور پاکستان بیورو برائے شماریات کی جانب سے اس حوالے سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ کو برآمدات سے ملک کو259.59 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 8 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ترکیہ کو برآمدات سے ملک کو240.41 ملین ڈالرکا زر مبادلہ حاصل ہوا تھا، مارچ میں ترکیہ کو برآمدات کا حجم 26.70 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا، جو فروری میں 28.19 ملین ڈالر اور گزشتہ سال مارچ میں 33.16 ملین ڈالر تھا، مالی سال 2023 میں ترکیہ کو323.39 ملین ڈالر کی برآمدات ریکارڈ کی گئی تھیں۔
اعداد و شمار کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں ترکیہ سے درآمدات پر381.58 ملین ڈالر زر مبادلہ خرچ ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 4.35 فیصد زیادہ ہے، گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ترکیہ سے درآمدات پر365.65 ملین ڈالرکا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا، مارچ میں ترکیہ سے درآمدات کا حجم 47.92 ملین ڈالرریکارڈ کیا گیا جو فروری میں 45.35 ملین ڈالر اور گزشتہ سال مارچ میں 31.46 ملین ڈالر تھا، مالی سال 2023 میں ترکیہ سے درآمدات کا حجم 477.59 ملین ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوا تھا۔
ترکیہ جائیں تو ترک بطور پاکستانی ہمیں نہایت محبت اور گرم جوشی سے ملتے ہیں۔پاکستانی طالب علموں، مزدوروں، کاروباریوں، پروفیسروں وغیرہ کے لیے ترکیہ نے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ترکوں کی محبت واقعتا لاجواب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیہ جانا، گھومنا پھرنا اور ترکوں سے ملنا پاکستانیوں کو ہمیشہ اچھا لگتا ہے، تاہم سیاحتی اور ثقافتی حوالوں کی علاوہ، نہایت ضروری ہے کہ بطور قوم ہم ترکیہ کی تیز رفتار ترقی سے سبق حاصل کریں۔ پاکستان میں میٹروز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی تعمیر میں ترکیہ کا اہم کردار ہے۔
ترکیہ کے پروفیشنلز ، ڈاکٹرزاور انجیئنیرز نے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوایا ہے ۔ ترکیہ کے افسران اور سیاستدان باتوں کے بجائے عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی توجہ تصویر اور تشہیر کے بجائے نتائج پر توجہ مرکوز رہتی ہے جب کہ پاکستان میں تو پروٹوکول کے بہت سے مسائل ہیں۔ ایک فائل کسی افسر کے دفتر میں جاتی ہے تو مہینوں اور سالوں بیت جاتے ہیں۔
ترک انتظامیہ کے کام کا طریقہ کار مختلف ہے۔ جس طرح ترک پاکستانیوں کے لیے محبت کے جذبات رکھتے ہیں، ہم پاکستانی بھی ترکیہ کے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔ تاہم اس امر کی تفہیم نہایت ضروری ہے کہ ترکیہ سے ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ترکیہ نے جس طرح ٹھوس منصوبہ بندی اور سخت محنت سے ترقی کی ہے، معیار تعلیم بلند کیا ہے۔ اقوام عالم میں اپنا مقام بنایا ہے۔ لازم ہے کہ ہم ترکوں سے یہ سب سیکھیں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھیں۔