بات کچھ اِدھر اُدھر کی کمائی کا مہینہ معاف کیجیےگا رمضان آرہا ہے
جب میں خوداور پھرپورے معاشرے کودیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نذدیک رمضان محض مالی فوائد کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے
KARACHI:
تو جناب آنے والا ہے برکتوں کا مہینہ جس کی آمد کے ساتھ ہی کچھ لوگوں کے تجوریاں بھرنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور شاید کچھ کا تو ہو بھی گیا ہے بھلا رمضان جو آرہا ہے اور آپ کو تو معلوم ہی ہے یہ سال میں صرف ایک ہی بار آتا ہے۔ اب اگر کوئی سال بھر کی کسر ایک ہی ماہ میں نکالنے کی سر توڑ کوششیں کرتا ہے تو کیا ہوا؟ یہاں تو ہر وہ فرد یہ کام کرتا ہے جس کو موقع ملتا ہے ۔۔۔۔ اور وہ مثال تو یاد ہے نہ کہ یہاں سیدھا اور شریف وہ ہے جس کو موقع نہ ملے باقی سب ایک ہی حمام کے ساتھی ہیں۔
کل بس اسٹاپ پر ایک صاحب کی آواز کان میں آئی جو اپنے دوست سے فرما رہے تھے کہ کاش رمضان سال میں دو بار آیا کرے،یقین جانئے دلی مسرت ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اس بابرکت مہینے کی فضیلت سے پوری طرح واقف ہے۔ استسفار کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف درزی ہیں اور بقول ان کے، ان کی عید تو پہلے روزے سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور جب چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاحی میں ہو تو ہر دن عید کا دن اور ہر رات چاند رات۔۔۔
بات صرف اس درزی تک ہی محدود نہیں بلکہ شاید ہی کوئی ہو جو اس ماہ کی "برکتیں" پوری طرح سمیٹنے میں ذرا سی بھی کوتاہی برتے،نائی سے لے کر حلوائی اور پھل فروش سے لے کر ہر عادمی سے زبان پر ایک ہی تو جملہ ہوتا ہے کہ بس "یہی تو مہینہ ہے کمانے کا "۔ اب بھلا کوئی ہے جو انہیں یہ بتلائے کہ یہ مہینہ کمانے کا ضرور ہے لیکن لوگوں کی جیبیوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ان کی مجبوریوں سے کھیل کر چند ٹکے کمانے کا نہیں بلکہ اپنی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گناہ بخشوانے اور نیکیاں کمانے کا ہے۔
اور ہاں دوسروں پر لعن طعد کرتے ہوئے ذرا ایک نظر خود پر بھی،گیارہ ماہ گناہوں کی دلدل میں ڈوبے رہنے کے بعد اپنے گناہوں کو بخشوانے کا ایک مہینہ ملتا ہے اور ہم صبح سے لے کر شام تک خالی پیٹ رہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے سارے فرائض انجام دے ڈالے۔ وہی جھوت کے انبار ،غیبت کے بازار ، بات بات پر تکرار ،عبادتوں میں دکھاوا لیکن پھر بھی دوسروں پر انگلیاں اٹھانا کہ لعنت ہو فلاں تو روزے ہی نہیں رکھتا، ارے جناب آپ نے بھوک ہڑتال کر کے کیا تیر مار لیا جب نیت میں ہی کھوٹ ہے تو ایسا روزہ بھلا کس کام کا۔
ہر رمضان میں ایک رات شب قدر بھی آتی ہے۔۔۔
بے شک ہم نے قرآن پاک شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے!اترتے ہیں اس میں فرشتے اور روح، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر،یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے۔(بیان القرآن،۱۲؍۱۱۱)
ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل اس رات کو جب قدسیوں کے سردار حضرت جبرائل رحمت بن کر ہمارے شہروں میں نزول فرماتے ہوں گے تو مولوی صاحبان جس انداز سے لاؤڈ سپیکروں پر شوروغوغا مچا رہے ہوتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے فرشتے ہماری دعاوں پر آمین کہتے ہوں گے ؟؟ شاید نہیں،کیونکہ عبادت تو چھپکے چھپکے انسو بہا کر اپنے رب کو منانے کا نام ہے نہ کہ دکھاوے کالاوڈ اسپیکر پر اپنے شور مچاکر لوگوں کی عباتوں میں مخل ہو کر فرشتوں کی دعاؤں کا حق داربننا ممکن ہے یا حصے میں ان کی بے زاری آتی ہو گی ؟؟
باقی رہی جہاں تک ہماری بات، تو زندگی کی عیدیں عیدی مانگتے مانگتے گزر گئیں اور آدھی عیدی دینے اور نہ دینے کی بہانے سوچنے میں۔۔ جب میں خود اور پھر پورے معاشرے کو دیکھتا ہوں تو گویا ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نذدیک رمضان محض مالی فوائد کا ذریعہ ہی بن کر رہ گیا ہے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تو جناب آنے والا ہے برکتوں کا مہینہ جس کی آمد کے ساتھ ہی کچھ لوگوں کے تجوریاں بھرنے کا عمل شروع ہو جائے گا اور شاید کچھ کا تو ہو بھی گیا ہے بھلا رمضان جو آرہا ہے اور آپ کو تو معلوم ہی ہے یہ سال میں صرف ایک ہی بار آتا ہے۔ اب اگر کوئی سال بھر کی کسر ایک ہی ماہ میں نکالنے کی سر توڑ کوششیں کرتا ہے تو کیا ہوا؟ یہاں تو ہر وہ فرد یہ کام کرتا ہے جس کو موقع ملتا ہے ۔۔۔۔ اور وہ مثال تو یاد ہے نہ کہ یہاں سیدھا اور شریف وہ ہے جس کو موقع نہ ملے باقی سب ایک ہی حمام کے ساتھی ہیں۔
کل بس اسٹاپ پر ایک صاحب کی آواز کان میں آئی جو اپنے دوست سے فرما رہے تھے کہ کاش رمضان سال میں دو بار آیا کرے،یقین جانئے دلی مسرت ہوئی کہ کوئی تو ہے جو اس بابرکت مہینے کی فضیلت سے پوری طرح واقف ہے۔ استسفار کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوف درزی ہیں اور بقول ان کے، ان کی عید تو پہلے روزے سے ہی شروع ہوجاتی ہے اور جب چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاحی میں ہو تو ہر دن عید کا دن اور ہر رات چاند رات۔۔۔
بات صرف اس درزی تک ہی محدود نہیں بلکہ شاید ہی کوئی ہو جو اس ماہ کی "برکتیں" پوری طرح سمیٹنے میں ذرا سی بھی کوتاہی برتے،نائی سے لے کر حلوائی اور پھل فروش سے لے کر ہر عادمی سے زبان پر ایک ہی تو جملہ ہوتا ہے کہ بس "یہی تو مہینہ ہے کمانے کا "۔ اب بھلا کوئی ہے جو انہیں یہ بتلائے کہ یہ مہینہ کمانے کا ضرور ہے لیکن لوگوں کی جیبیوں پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے ان کی مجبوریوں سے کھیل کر چند ٹکے کمانے کا نہیں بلکہ اپنی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے گناہ بخشوانے اور نیکیاں کمانے کا ہے۔
اور ہاں دوسروں پر لعن طعد کرتے ہوئے ذرا ایک نظر خود پر بھی،گیارہ ماہ گناہوں کی دلدل میں ڈوبے رہنے کے بعد اپنے گناہوں کو بخشوانے کا ایک مہینہ ملتا ہے اور ہم صبح سے لے کر شام تک خالی پیٹ رہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے سارے فرائض انجام دے ڈالے۔ وہی جھوت کے انبار ،غیبت کے بازار ، بات بات پر تکرار ،عبادتوں میں دکھاوا لیکن پھر بھی دوسروں پر انگلیاں اٹھانا کہ لعنت ہو فلاں تو روزے ہی نہیں رکھتا، ارے جناب آپ نے بھوک ہڑتال کر کے کیا تیر مار لیا جب نیت میں ہی کھوٹ ہے تو ایسا روزہ بھلا کس کام کا۔
ہر رمضان میں ایک رات شب قدر بھی آتی ہے۔۔۔
بے شک ہم نے قرآن پاک شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ شب قدر کیسی ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے!اترتے ہیں اس میں فرشتے اور روح، اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر،یہ رات سراسر سلامتی کی ہو تی ہے اور طلوع فجر تک رہتی ہے۔(بیان القرآن،۱۲؍۱۱۱)
ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل اس رات کو جب قدسیوں کے سردار حضرت جبرائل رحمت بن کر ہمارے شہروں میں نزول فرماتے ہوں گے تو مولوی صاحبان جس انداز سے لاؤڈ سپیکروں پر شوروغوغا مچا رہے ہوتے ہیں آپ کا کیا خیال ہے فرشتے ہماری دعاوں پر آمین کہتے ہوں گے ؟؟ شاید نہیں،کیونکہ عبادت تو چھپکے چھپکے انسو بہا کر اپنے رب کو منانے کا نام ہے نہ کہ دکھاوے کالاوڈ اسپیکر پر اپنے شور مچاکر لوگوں کی عباتوں میں مخل ہو کر فرشتوں کی دعاؤں کا حق داربننا ممکن ہے یا حصے میں ان کی بے زاری آتی ہو گی ؟؟
باقی رہی جہاں تک ہماری بات، تو زندگی کی عیدیں عیدی مانگتے مانگتے گزر گئیں اور آدھی عیدی دینے اور نہ دینے کی بہانے سوچنے میں۔۔ جب میں خود اور پھر پورے معاشرے کو دیکھتا ہوں تو گویا ایسا لگتا ہے کہ ہمارے نذدیک رمضان محض مالی فوائد کا ذریعہ ہی بن کر رہ گیا ہے!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔