پنجاب اور مولانا

وقتاً فوقتاً مولانا کو ملک کی تمام بڑی پارٹیاں اپنا قائد مان چکی ہیں۔

ashfaqkhan@express.com.pk

آج کل جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن موجودہ سیاسی منظر نامے پر پوری طرح چھائے ہوئے ہیں، اور عوامی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ تبدیلی سرکار کو ایوان اقتدار سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مولانا آج بھی حقیقی معنیٰ میں عوامی جذبات کے ترجمان اور موجودہ حکومت کا بستر گول کرنے کے لیے متحرک ہیں۔

قومی سیاست میں بطور پی ڈی ایم سربراہ ان کی سیاسی بصیرت، معاملہ فہمی کے ساتھ ان کی اسٹریٹ پاور اور کارکنان کے نظم و ضبط کو صرف سیاسی قوتیں ہی نہیں غیر سیاسی طاقتیں بھی مان چکی ہیں۔ وہ احتجاجی سیاست کا ذوق رکھتے ہیں بلکہ اس کا فن بخوبی جانتے ہیں۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ پاکستان بننے کے چند سال بعد قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت خان کی رحلت سے قیادت کے خلا کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ پاکستانی سیاست میں درآئی اور اِسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا آغاز ہوا۔ اور جیسے جیسے اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل سیاست میں بڑھتا گیا اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ بھی مقبول ہوتا گیا مگر نابالغ سیاسی قیادت کے نامعقول رویوں کی وجہ سے یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے رستے پر چل پڑی۔ پھر تبدیلی سرکار کی آمد سے ایک پیج، ایک پیج کا وِرد سن کر قوم کے کان پک گئے تو نواز شریف کے ''ووٹ کو عزت دو'' والے نعرے کو پذیرائی ملی اور لگ رہا تھا کہ مسلم لیگ مقبولیت کے بام عروج پر پہنچ گئی، مگر پی ڈی ایم حکومت کے دوران اور 8 فروری کے انتخابات کے بعد حکومت میں موجود دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم بنی ہوئی ہیں۔

دوسری طرف پی ٹی آئی نعرہ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا لگا رہی ہے مگر ڈیل بھی انھیں سے کرنا چاہتی ہے۔ مولانا نے 2024کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جو موقف اپنایا اور پارلیمان کے بجائے میدان کا انتخاب کیا، اْن کی احتجاجی سیاست نے اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کو ایک باوقار اور سنجیدہ روپ دیا، وہ قومی اداروں کو احترام دینے کے قائل ہیں مگر واشگاف الفاظ میں مطالبہ کرتے ہیں کہ ''سب کو اپنے اپنے دائرے میں واپس جانا ہوگا''یہ وہ نسخہ اکسیر ہے کہ اگر اس پر عمل کیا گیا تو سب کچھ ٹھیک اور یہ ملک ایک بار پھر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا۔

گزشتہ کالم میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ پی ڈی ایم میں شریک دو بڑی جماعتوں کے غیر جمہوری رویوں کی وجہ سے مولانا اس بار مرض کے علاج پر اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں جسے عوامی پذیرائی مل رہی ہے، اور تمام جماعتوں کے سنجیدہ سیاسی ورکرز مولانا پر اپنی نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ مولانا آگے چل کر کیا کرتے ہیں۔

وقتاً فوقتاً مولانا کو ملک کی تمام بڑی پارٹیاں اپنا قائد مان چکی ہیں۔ آج اْن کے بد ترین سیاسی دشمن عمران خان نیازی بھی اپنی ٹیم کو مولانا سے بار بار رابطہ کرنے کی ہدایت کر رہا ہے، مگر تحریک انصاف کے کچھ لیڈران اور سوشل میڈیا کے لونڈوں لپاڑوں کو بغض مولانا کے سوا کچھ آتا ہی نہیں، اس لیے تحریک انصاف کے ساتھ کسی قسم کا اتحاد کرنے سے پہلے مولانا کو سو بار سوچنا پڑے گا کیوں کہ یہ غیر فطری اتحاد دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس بار مولانا کے زوربازو پر ان کا بد ترین دشمن ایوان اقتدار میں داخل ہوجائے۔ اور پھر ایک پیج کی کہانی شروع ہوجائے۔

تمام سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ نون وہ واحد جماعت ہے جن کے ساتھ ان کا اتحاد فطری ہوگا اور دونوں پارٹیوں کے کارکنان کے لیے اسے قبول کرنا آسان ہوگا۔ مگر جب سے نون سے شین نکالا گیا ہے نواز شریف کا بیانیہ دفن ہوگیا ہے۔ مگر عوام کی اکثریت آج بھی اس بیانیہ کے ساتھ کھڑی اپنی قیادت کی طرف دیکھ رہی ہے۔ دوسری طرف دیوار سے لگی پی ٹی آئی اس وقت آگے بڑھنے کے لیے سہارے ڈھونڈ رہی ہے، جے یو آئی کے ساتھ بار بار رابطوں کا مقصد بھی شاید یہی ہو کہ وہ مولانا اور ان کی جماعت کے کندھوں پر بیٹھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں.


اس سے پہلے یہی کام مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی والے جے یو آئی کے ساتھ کر چکے ہیں۔ اس لیے میری نظر میں مولانا کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر چلنے سے بہتر ہے کہ وہ سولو فلائٹ پکڑیں اور اپنی سرگرمیوں کا مرکز پنجاب بنائیں۔ کیونکہ مسلم لیگ نون کے کارکنان ''شین''کے بیانیہ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں، نواز شریف کے پیروں میں مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کی بیڑیاں پڑی ہیں اور مسلم لیگ نون کے کارکنان کے دلوں میں مولانا کے لیے احترام و عقیدت کے جذبات موجود ہیں وہ مولانا کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

اگر مولانا پاکستان مسلم نون کے کارکنان کو اپنی طرف مائل کر سکے تو پھر مولانا کو کسی کی ضرورت نہیں رہیگی مگر یہ تب ہو سکتا ہے کہ مولانا تحریک انصاف کے اتحاد سے دامن بچا کر چلیں کیونکہ اگر اسٹیج پر مولانا کے ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت کھڑی ہوگی تو نون لیگ کے کارکن ان کے قریب بھی نہیں آئیں گے۔

کسی بھی سیاسی جماعت کو ملکی سیاست میں جاندار کردار ادا کرنے کے لیے جماعت کو پنجاب میں متحرک کرنا ناگزیر ہے اس لیے مولانا کو یہ موقع ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ پنجاب میں مولانا کے پاس پہلی بار ایک متحرک صوبائی کابینہ اور قیادت موجود ہیں جنھوں نے گزشتہ ایک سال سے پنجاب میں ہل چل پیدا کی ہوئی ہے مگر جب تک پنجاب میں یونین کونسل کی سطح پر جمعیت کی تنظیم سازی نہیں ہوگی بات نہیں بنے گی۔ یونین کونسل سطح پر تنظیم سازی کے بعد اگر مولانا کا فوکس پنجاب ہوا تو پاکستانی سیاست میں وہ غیر متوقع اپ سیٹ کر سکتے ہیں۔ جب تک پنجاب نہیں جاگتا کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی۔

مولانا کو اس بار پنجاب کو جگانے کا علم لے کر آگے بڑھنا ہوگا جس کی ابتدا انھوں نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پنجاب کے عوام کو جھنجھوڑ کر کی، ان کا کہنا تھا کہ ''پنجاب کے عوام وسائل میں سب سے آگے لیکن سیاسی لحاظ سے سب سے زیادہ پسماندہ ہیں، بار بار ان ہی لوگوں کو ووٹ دیتے ہیں جو انھیں ہر بار خوار کرتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کو اس لیے ووٹ نہیں دیتے کیونکہ ہمارے پاس پنجاب کے عوام کا خون چوسنے والے الیکٹیبلزنہیں ہیں، ہمارے امیدوار اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ نہیں ہیں، ہمارے نمایندے عوام کے درمیان سے عوام کے ہی نمایندے ہوتے ہیں۔

پنجاب کے عوام کو سمجھنا پڑے گا کہ انتخابات میں اپنے حقیقی نمایندوں کو اسمبلیوں میں پہنچانے کے علاوہ بات نہیں بنے گی۔ پنجاب کے عوام کو اس فرسودہ نظام کو بدلنا ہوگااس کے لیے قربانیاں دینا پڑیںگی، چاہے جیلوں میں جانا پڑے یا قبروں میں مگر اپنی نسلوں کو آزاد کرنا ہوگا۔''

مولانا بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرچکے ہیں اب پنجاب کی باری ہے۔ مگر مولانا کی احتجاجی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے کاؤنٹر پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے، آنے والے دنوں میں ممکن ہے مولانا یا ان کے قریبی رفقا کے متعلق کردار کشی کی مہم بھی شروع ہوجائے، ان کے دامن پر کیچڑاچھالا جائے، ان کے بیانات کو توڑمروڑ کر عوام کو گمراہ کیا جائے جس کی ابتدا ہوچکی ہے۔

ملتان پریس کانفرنس میں صحافی کے سوال کے جواب میں مولانا نے جو بات کہی اسے ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنی مرضی کا رنگ دے کر چلایا اور یہ تاثر دیا کہ ''عمران خان سے متعلق یہودی ایجنٹ ہونے کے اپنے دعوے کو مولانا نے سیاسی نعرہ کہا۔'' حالانکہ مولانا آج بھی اسی موقف پرڈٹ کر کھڑے ہیں۔ میری نظر میں یہ مولانا کی احتجاجی تحریک پر میڈیا کا پہلا حملہ تھا تاکہ مولانا کو متنازع بیانات میں الجھا کر ان کے موقف کو کمزور کیا جائے۔

یہ پہلا وار تھا مگر آخری نہیں مولانا کو اس قسم کے مزید حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ جسکا ادراک مولانا کو ہے، اگلے دن انھوں نے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ''صحافتی اور اخلاقی اقدار کا تقاضا ہے کہ جو میں کہوں آپ وہ ہی الفاظ قوم تک پہنچائیں۔ اپنی یا کسی اور کی خواہش کو مجھ سے منسوب کرنا بددیانتی ہوگی۔'' آخر میں اس ملک کی مقتدرہ اور سیاست دانوں سے گزارش کروں گا کہ خدارا ملک پر رحم کریں، سب اپنی اپنی غلطیاں مان کر اپنی اپنی آئینی حدود میں واپس جاکر نئی سحر کا آغاز کریں۔
Load Next Story