دو افسوس ناک واقعات
پاکستان میں طلبا میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔
دو افسوس ناک خبروں سے کالم کا آغاز کرنا پڑ رہا ہے۔ اول کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں مقامی شرپسند عناصر کے ہاتھوں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبا کا زخمی ہونا، پاکستانی عوام بالخصوص متاثرہ طلبا کے والدین کے لیے انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس سانحے کے بعد پاکستانی طلبا کی ایک تعلیم ادھوری چھوڑ کر وطن واپس آنے پر مجبور ہوگئی۔
خبروں کے مطابق کرغزی اور مصری باشندوں کے درمیان شروع ہونے والے تنازع نے جب شدت اختیارکی تو کرغز بلوائیوں نے پاکستانی طلبا کو ان کے ہوسٹلوں میں داخل ہو کر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں طلبا زخمی ہوگئے۔ حکومت پاکستان نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسلام آباد میں کرغز ناظم الامور کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ ان کے حوالے کیا۔
ساتھ ہی ہنگامی طور پر کرغزستان سے طلبا کی واپسی کے انتظامات کیے اور نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو بشکیک پہنچنے کی ہدایت کی۔ کرغزستان کے نائب وزیر اعظم نے غیر ملکی طلبا پر شرپسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے روکنے میں اپنی حکومت کی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ آوروں کی شناخت کر لی گئی ہے۔ کرغز حکام کی درخواست پر اسحاق ڈار نے اپنا دورہ ملتوی کر دیا ہے کہ حالات معمول پر آگئے ہیں۔
پاکستان میں طلبا میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جاتے ہیں۔ سرکاری میڈیکل کالجز میں نشستوں کی کمیابی، حددرجہ میرٹ، پرائیویٹ کالجز میں بھاری فیسوں کے باعث عام طالب علموں کو قابلیت کے باوجود داخلے کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مالی طور پر مستحکم خاندانوں کے سربراہ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے انھیں میڈیکل اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے طلبا وطن واپس لوٹیں، اکثریت بیرون ملک ہی حصول روزگارکو ترجیح دیتی ہے۔
یوں ہنرمند اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادی سرمایہ جو وطن کے لیے صرف ہونا چاہیے تھا وہ بیرون ملک خرچ ہو رہا ہے۔ شومئی قسمت دیکھیے کہ حکومت کو اس بات کی قطعاً کوئی فکر نہیں ہے۔ وطن عزیز میں تعلیم یافتہ بے روزگاروں کی تعداد میں نہ صرف یہ کہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے بلکہ باعزت روزگار نہ ملنے کے باعث نوجوانوں کی بڑی تعداد بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ ارباب اختیارکو اس جانب فوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے اور تعلیم یافتہ، ہنرمند افراد کی تیزی سے بیرون ملک روانگی کو روکنے اور انھیں باعزت روزگار فراہم کرنے کے ہنگامی اقدامات کرنے چاہئیں۔
دوسری افسوس ناک خبر اور اسلامی ملک ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان و دیگر افراد کی ہیلی کاپٹر حادثے میں شہادت ہے، جس نے پوری پاکستانی قوم کو سوگوار کردیا ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر پڑوس ملک آذربائیجان کی سرحد پر اپنے ہم منصب الہام الیوف کے ہمراہ ڈیم کے منصوبے کا افتتاح کرنے گئے اور واپسی پر خراب موسم کے باعث ان کے ہیلی کاپٹر کو پہاڑی علاقے میں ہنگامی لینڈنگ کے دوران خوف ناک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ امیر عبداللہیان سمیت دیگر افراد جاں بحق ہوگئے۔
ایرانی صدر کی حادثاتی موت کو عالم اسلام میں افسوس کے ساتھ سنا گیا۔ صدر پاکستان آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، بلاول بھٹو، پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم سمیت دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے ایرانی صدر کی اچانک کاپٹر حادثے میں شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے عالم کا بڑا نقصان قرار دیا اور ایرانی عوام سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ایران اور عالم اسلام کے اتحاد کے لیے صدر ابراہیم رئیسی کی خدمات کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا اور قومی پرچم سرنگوں رہا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ پاکستان کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا اور پاک ایران مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے۔ پاکستان بالخصوص ایرانی عوام کے لیے ان کی خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ صدر زرداری کا کہنا تھا کہ ایرانی صدر عالم اسلام کے اتحاد کے بڑے داعی تھے۔ وہ فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کے ساتھ گہری ہمدردی رکھتے تھے، ان کی اچانک وفات امت مسلمہ کا بڑا نقصان ہے۔ پاکستان ایک سچے اور مخلص دوست سے محروم ہو گیا۔
ایرانی صدر رئیسی نے شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے خلاف بغاوتی تحریک میں آگے بڑھ کر حصہ لیا، وہ انقلاب ایران کے صف اول کے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے، وہ سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ قانون دان بھی تھے۔ محض28 سال کی عمر میں وہ ایران کے عدالتی نظام کا حصہ بن گئے اور ترقی کر کے منصف اعلیٰ کے منصب تک پہنچ گئے۔ 2021 میں 62.9 فی صد ووٹ لے کر ایران کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے۔
ان کی صدارت کے دوران ایران کو بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چوں کہ وہ 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ صدر حسن روحانی کی صدارت کے دوران ہونے والے جوہری معاہدے کے شدید مخالف تھے، اسی باعث امریکا کی جانب سے پابندیوں کا سامنا رہا نتیجتاً ایران معاشی دباؤ کا شکار رہا۔ انھی کے دور میں گزشتہ ماہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست 300 میزائل اور ڈرونز فائر کیے، مذکورہ دونوں افسوس ناک واقعات نے پوری قوم کو افسردہ کردیا ہے۔ پاکستانی عوام کی ہمدردیاں بشکیک کے متاثرہ طلبا اور ایرانی عوام کے ساتھ ہیں۔