بھارتی انتخابات کون جیتے گا

عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مودی جی کے بغیر ہندوستان کچھ نہیں۔ان کی پبلک ریلیشننگ کے اوپر بہت خرچ کیا جا رہا ہے

gfhlb169@gmail.com

ہندوستان میں مرحلہ وار انتخابات کے پانچ مرحلے طے ہو چکے ہیں۔اس وقت ہندوستان بھر کے ٹی وی چینلوں،سوشل میڈیا اور اخبارات میں ایک ہی بحث چل رہی ہے کہ کون سی پارٹی انتخابات جیت کر اگلی مرکزی حکومت بنائے گی۔

کہتے ہیں کہ Nothing succeeds like success۔چونکہ پچھلے دو انتخابات میں نریندر مودی جی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی) بی جے پی (نے کامیابی سمیٹی اس لیے ایک تاثر یہ ہے کہ اگلی حکومت بھی بی جے پی ہی بنائے گی۔

اس تاثر کا بی جے پی کو بہت فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ ایسے بہت سے ووٹرز جو کسی خاص سیاسی پارٹی سے جذباتی لگاؤ نہیں رکھتے وہ یہ سمجھ کر کہ کوئی تبدیلی تو آنی نہیں ،حکومت تو بی جے پی نے ہی بنانی ہے اس لیے حکومتی پارٹی کو ہی ووٹ دے دیتے ہیں۔بی جے پی کو ویسے بھی بہت سے ایڈوانٹیجز ہیں۔

ہندوستان میں کارپوریٹ سیکٹر بہت بڑا، ایکٹو اور مضبوط ہے۔یہ کارپوریٹ سیکٹر مکمل طور پر مودی جی اور بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ہندوستان میں فلمی صنعت اور فلمی ستاروں کا اپنا ایک مقام اور اثر و رسوخ ہے۔ لوگ اپنے ستاروں کو بہت چاہتے ہیں۔

بہت سے بڑے بڑے فلمی ستارے جن میں اداکار اور اداکارائیں شامل ہیں،بی جے پی کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ بہت سرگرم ہیں۔وہ ہر آن بی جے پی اور خاص کر جناب نریندر مودی کو پروموٹ کر رہے ہیں۔میڈیا کا کردار تو ہمارے ہاں اور ہر کہیں بہت کلیدی ہوتا ہے۔بہت سے میڈیا چینلز کارپوریٹ سیکٹر کی ملکیت ہیں۔

این ڈی ٹی وی ایک آخری آزاد ٹی وی چینل تھا۔وہ بھی اب آزاد نہیں رہا۔بی جے پی نے میڈیا کو اپنا ہم نوا بنانے پر بہت توجہ دی اور اب ہندوستانی میڈیا کی اکثریت بی جے پی کی حامی ہے۔ میڈیا دن رات یہ تاثر دینے میں لگا ہوا ہے کہ جناب نریندر مودی وزیرِ اعظم ہیں تو انڈیا چمک رہا ہے۔

2014 اور 2019کے انتخابات میں بی جے پی نے بالترتیب 282اور 303 لوک سبھا نشستیں حاصل کیں جب کہ انھی دو انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس کو44اور52 نشستیں ملیں۔ان ناکامیوں کی وجہ سے کانگریس جس نے چالیس سال تک ہندوستان پر بلا شرکتِ غیرے حکومت کی تھی۔وہ پارٹی ان ناکامیوں کے بعد ابھی تک مکمل طور پر سنبھل نہیں پائی۔ لوک سبھا کی کل 543نشستیں ہیں لیکن انڈین نیشنل کانگریس نے صرف 328پر اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

آزادی کے بعد ہندوستان کی تاریخ میں کانگریس کے یہ سب سے کم امیدوار میدان میں اترے ہیں جب کہ بی جے پی نے 430امیدوار میدان میں اتارے ہیں۔ چونکہ میڈیا مالکان جناب نریندر مودی جی کی مٹھی میں ہیں اس لیے چینلز جناب نریندر مودی کے گُن گانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جوتشیوں کو بلوا کر پیشین گوئیاں کروائی جا رہی ہیں۔ہندو اپنے جوتشیوں کے ہاتھوں بہت بے وقوف بنتے ہیں۔ایسے ہی ایک پروگرام میں ایک جوتشی نے کہا کہ اس مرتبہ بی جے پی400 سے زائد نشستوں کا ہدف بآسانی حاصل کر لے گی۔زیادہ تر تجزیہ کار یہ سامنے لا رہے ہیں کہ جناب نریندر مودی کی مقبولیت بہت بڑھ چکی ہے اور اس مقبولیت کا بی جے پی کو بہت فائدہ ہونے جا رہا ہے۔

عوامی سرویز میں کئی لوگ جناب نریندر مودی کو رام چندر جی کا ایک نیا جنم قرار دے رہے ہیں اور یہ کہ بھارت کو مودی جی کے علاوہ اور کوئی وزیرِ اعظم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں رکھ سکتا،البتہ کچھ تجزیہ کار تھوڑے سے محتاط ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ حکومتی پارٹی 320سے 350کے درمیان نشستیں لے گی۔


ہندوستان کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے تیسرے مرحلے کے اختتام پر ایک بیان میں کہا کہ ان کی پارٹی نے تیسرے مرحلے میں ہی272 نشستوں کا ہدف حاصل کر لیا ہے۔یہ بیان بھی انتخابی مہم کا ایک حصہ لگتا ہے۔لوک سبھا انتخابات میںجو پارٹی بھی 272 نشستیں حاصل کر لیتی ہے وہ حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کی حامل ہو جاتی ہے۔اگر امیت شاہ کی بات درست ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ موجودہ انتخابات میں بی جے پی کلین سویپ کرنے جا رہی ہے۔

عمومی دعوے یہی ہیں کہ جناب نریندر مودی ایک بہت مقبول، نہایت ہی ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔ ان کی وجہ سے ان کی پارٹی یہ انتخابات بہت آسانی سے جیت جائے گی۔ان کو اپوزیشن کی طرف سے کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے لیکن چند آوازیں ایسی بھی اُٹھ رہی ہیں جو یہ کہہ رہی ہیں کہ اس بار بی جے پی کو کڑے امتحان کا سامنا ہے۔

ان میں سے دہلی کے وزیرِ اعلیٰ جناب اروند کیجروال کی آواز سب سے توانا ہے۔وہ عادات و اطوار میں ہرگز بڑ بولے نہیں کہ خواہ مخواہ ایک بیان داغ دیں۔جناب اروند کیجروال کا کہنا ہے کہ اس دفعہ بی جے پی کو 200سے220 کے درمیان نشستیں حاصل ہوں گی۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دفعہ بی جے پی مرکزی حکومت نہیں بنا پائے گی اور بی جے پی کے بغیر جو بھی مرکزی حکومت بنے گی،ان کی پارٹی اس کا ایک حصہ ہو گی۔کرناٹک کے وزیرِ اعلیٰ کا بھی یہی اندازہ ہے کہ اس دفعہ بی جے پی کو مشکلات درپیش ہیں اور سادہ اکثریت بھی ملتی نظر نہیں آتی۔

مشہور سیاست دان جناب ششی تھرور بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کی سیٹیں دوسو کے ارد گرد ہوں گی۔بھارت کے ایک بہت عزت کیے جانے والے سیاسیات کے پروفیسر، جن کے تجزیے کی بہت مانگ ہے ان کا بھی خیال ہے کہ بی جے پی زیادہ سے زیادہ 220 نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں شامل ایں ڈی اے کی جماعتوں کو تیس سے پینتیس سیٹیں مل سکتی ہیں۔اس طرح کل ملا کر260سے زیادہ نشستیں نہیں ہوں گی۔

ہندوستانی کارپوریٹ سیکٹر،فلم انڈسٹری اور اس کے بڑے بڑے ستارے،سبھی بی جے پی کے ساتھ ہیں اور سب سے بڑھ کر ہندوستانی میڈیا بی جے پی کی پشت پر ہے۔ہندوستان میں کوئی 400نیوز چینل اور لگ بھگ ایک لاکھ سے زیادہ اخبارات چھپتے ہیں۔ میڈیا جس کے بھی ساتھ ہو اس کے لیے بہت آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جناب نریندر مودی کی لینڈ سلائیڈ کامیابی کا ہر طرف غلغلہ ہے۔ عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ مودی جی کے بغیر ہندوستان کچھ نہیں۔ان کی پبلک ریلیشننگ کے اوپر بہت خرچ کیا جا رہا ہے۔ملک کے طول و عرض میں دیواریں ان کی تصویروں سے اٹی پڑی ہیں۔

جن لوگوںکا یہ خیال ہے کہ بی جے پی اتنی بڑی کامیابی نہیں حاصل کر پائے گی کہ حکومت بنا سکے ان کے مطابق ہندوستان کی مضبوط معیشت کا مودی جی سے کوئی لینا دینا نہیں۔یہ کامیابی من موہن سنگھ جیسے رہنماؤں کی بہترین پالیسیوں اور انتہائی بے لوث قیادت کے سر ہے۔

مودی جی کے دس سالوں میں معیشت لڑکھڑائی ہے۔غریب اور امیر کی آمدنی کے درمیان تفاوت صدی کا سب سے زیادہ تفاوت ہے۔اس تفاوت کی وجہ سے غریب مر رہا ہے۔مودی جی کو امید تھی کہ رام مندر مکمل ہونے سے پہلے افتتاح کرنے کا انھیں فائدہ ہو گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ادھر ہندوستان میں بے روزگاری عروج پر ہے اور مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔

یہ سارے فیکٹرز بی جے پی کے خلاف جا رہے ہیں۔انھی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2014کے انتخابات سے پہلے مودی جی نے بڑھتی کرپشن اور بے روزگاری کو ختم کرنے کا نعرہ لگایا تھا جس کی وجہ سے انھیں بہت پذیرائی ملی۔ 2019 کے انتخابات سے کچھ پہلے پلوامہ کا ڈرامہ رچایا گیا اور کہا کہ ہم نے بالاکوٹ حملہ پاکستان کے اندر گھس کر کیا۔اس پر بھی مودی جی کی بہت واہ واہ ہوئی۔ مودی جی نے اپنے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ہم نے حملہ کیا تو ہمارے جہاز کو مار گرایا گیا اور پائلٹ پاکستان میں گرفتار ہو گیا۔

2024کے انتخابات میں نہ تو ملک میں بڑھتی کرپشن اور بے روزگاری کا تذکرہ ہے اور نہ ہی ہمت ہوئی کہ پاکستان پر حملے کا ڈرامہ رچایا جائے۔ لے دے کے ہندوستان کے اندر غریب مسلمان نشانہ بن رہے ہیں اور ہندوآتا کا پرچار کر کے مذہبی جذبات سے کھیلا جا رہا ہے،ایسے لگتا ہے کہ بی جے پی کی 2024الیکشن مہم بہت کارگر نہیں ہے۔لوگ کرپشن،مہنگائی اور بڑھتی بے روزگاری سے بہت تنگ ہیں،اس لیے شاید مودی جی کو وہ کامیابی نہ ملے جس کی وہ توقع رکھتے تھے۔
Load Next Story