ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
زندگی کی کہانی کا سب سے مشکل کردار ’’ باپ‘‘ ہے اور اس کردار کو ’’باپ‘‘ کے علاوہ کوئی نہیں نبھا سکتا
ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھرمیں درخت ہوتے ہیں
کسی نے خوب کہا تھا کہ '' زندگی کی کہانی کا سب سے مشکل کردار '' باپ'' ہے اور اس کردار کو ''باپ'' کے علاوہ کوئی نہیں نبھا سکتا۔ کیونکہ والد کا سایہ ایک ایسی چھاؤں یا درخت ہے جو اولاد کی پرورش اس اندازسے کرتا ہے کہ کبھی بیٹا یا بیٹی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ جب بھی ہم بطور اولاد مشکل میں ہوتے ہیں تو سب سے آگے بڑھ کر ان مشکلات کے سامنے ڈھال بھی باپ ہی بنتا ہے ۔
باپ کا دکھ وہی جان سکتا ہے جس نے باپ کو کسی بھی عمر میں کھویا ہو۔کیونکہ باپ ہم سے جدا تو ہوجاتا ہے مگر اس کی جدائی خود ہمارے آخری سانسوں تک پیچھا کرتی ہے اور بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ ایک بڑی ہستی کا سایہ ہمارے ساتھ نہیں ۔جب ہم خود کو بہت تنہا یا اداس یا کسی مشکل میں محسوس کرتے ہیں تو یا والد یا والدہ ہی کا ایک احساس ہوتا ہے جو ایک مضبوط دیوار کے طور پر ہمیں حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔باپ کے بغیر عملی زندگی کا دکھ بہت تکلیف دہ ہے مگر موت بھی برحق ہے اور سب نے جانا ہے ۔
23مئی 2005کو میں نے اور میرے بہن بھائیوں نے والد گرامی عبدالکریم عابد کو کھویا تھا۔ 18برس بیت گئے مگر ان کی جدائی کا دکھ آج بھی زندہ ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ان کی جدائی نے سب کچھ بکھیر کر رکھ دیا ۔ ایک علمی ، فکری ،نظریاتی ، اخلاقی و صحافتی شخصیت کے طور پر ہمارے گھر والوں کے علاوہ وہ اپنی شخصیت کا ایک الگ ہی رنگ اور پہچان رکھتے تھے ۔60برس سے زیادہ پاکستان اور ہندوستان میں صحافت کی اور ہمیشہ وہی لکھا ، بولا جو خود سے محسوس کیا۔
درویش جیسی صفت تھی اور بہت ہی سادہ ، کم گو، دھیمے مزاج اور ہمیشہ ہم نے ان کو پڑھتے ہوئے یا لکھتے ہوئے ہی دیکھا ۔زندگی کا آخری سانس بھی اسی وقت لیا جب وہ کچھ تحریر کررہے تھے ۔دنیا میں باپ کے ہونے کے احساس سے زیادہ قیمتی شے اور کوئی نہیں ۔ یقیناً وہ ہمارا باپ ہی ہوتا ہے جن کی موجودگی ایک مضبوط پناہ گاہ،ایک مضبوط فصیل اور سائبان کا احساس دلاتی ہے یا ہم میں طاقت کا احساس یا آگے بڑھنے کی امنگ ، حوصلہ ، شوق پیدا کرتی ہے ۔
مجھ کو چھاؤںمیںرکھااورخودجلتارہا دھوپ میں
میںنے دیکھاہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
میرے والد نے ایک مشکل زندگی گزاری اور ان مشکل حالات میں 35برس کینسر جیسے مرض کا خوب مقابلہ کیا اور کبھی اپنی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ صحافت بھی بڑی خود داری سے کی اور جہاں محسوس کیا کہ گٹھن یا پابندی یا حالات کا جبرہے لحموں میں ہی خود کو آزاد کیا اور نئے روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔ دائیں بازو سے جڑے رہے مگر کبھی بھی دوسروں کے نظریات، سوچ، عقائد، فکر ، مذہب سے نفرت یا کسی تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دوستوں کے ایک وسیع حلقہ میں ان کے بائیں بازو کے دوست بھی نمایاں تھے ۔ مختلف فکر کے لوگوں سے ان کی نہ صرف خوب بنتی تھی بلکہ شاندار دوستیاں بھی تھیں۔اسی طرح بغض، حسد، لالچ، تعصب اور تنگ نظری کا کبھی بھی شکار نہیں رہے ایک کھلی اور شفاف زندگی جس پر مجھ سمیت ان کے دوستوں اور پڑھنے والوں کو بھی بڑا ناز تھا ۔
اخباری کارکن سے کئی قومی اخبار و رسائل کے مدیر ہونے تک کا سفر مسلسل جدوجہد ، لگن ، محنت سے جڑا رہا اور کئی لوگ انھیں مدیروں کے استاد کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں ۔وہ پرانے زمانے کے صحافی تھے جب صحافت بھی تھی اور نظریاتی میدان کا بھی عروج رہا اور پرتشدد رجحانات کے مقابلے میں مکالمہ اور فکری طور پر بحث ومباحث اور مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان احترام کا نظام بھی تھا۔اب وہ نہ صحافت رہی اور نہ وہ صحافی بلکہ ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔
کسی نے خوب کہا کہ ''بازار سے سب کچھ مل جاتا ہے مگر ماں جیسی جنت اور باپ جیسا سایہ کبھی نہیں ملتا ۔اسی طرح ایک اور جگہ کسی نے خوب لکھا کہ '' باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہوتی ہے ، سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے مگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھا جاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ '' ایک ہزار محبتیں ملا کر ایک باپ کے قدموں کی دھول پہ قربان کردی جائیں توبھی اس دھول کی قیمت ادا نہیں ہوتی ۔شاعر نے خوب کہا کہ :
مجھے زمین کے طول وعرض سے کیا لینا
میری دنیا توفقط باپ کے سائے جتنی
آج جب بھی خود کو عملی طور پر تنہا محسوس کرتا ہوں تو بس باپ یا ماں کو یاد کرکے اپنا غم ہلکا کرتا ہوں اور ان کا ایک جملہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ زندگی جدوجہد، محنت یا انعام یا کامیابی وناکامی کے درمیان کھیلتی ہے۔
کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے پاس مقصد یا اہداف بڑے ہوتے ہیں اور ایسے اہداف جس کا مقصد محض اپنی حالت کو بدلنا نہیں بلکہ اپنے اجتماعی شعور کے ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی بدلنا ہوتا ہے۔اسی طرح مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے کبھی اپنے بچوں کو ڈانٹا یا ان پر اپنی مرضی ، خواہشات یا ایجنڈے کو مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ معاونت ضرور کرتے تھے مگر جبر کے خلاف تھے ۔
باپ گھرمیں درخت ہوتے ہیں
کسی نے خوب کہا تھا کہ '' زندگی کی کہانی کا سب سے مشکل کردار '' باپ'' ہے اور اس کردار کو ''باپ'' کے علاوہ کوئی نہیں نبھا سکتا۔ کیونکہ والد کا سایہ ایک ایسی چھاؤں یا درخت ہے جو اولاد کی پرورش اس اندازسے کرتا ہے کہ کبھی بیٹا یا بیٹی خود کو تنہا محسوس نہیں کرتے ۔بلکہ جب بھی ہم بطور اولاد مشکل میں ہوتے ہیں تو سب سے آگے بڑھ کر ان مشکلات کے سامنے ڈھال بھی باپ ہی بنتا ہے ۔
باپ کا دکھ وہی جان سکتا ہے جس نے باپ کو کسی بھی عمر میں کھویا ہو۔کیونکہ باپ ہم سے جدا تو ہوجاتا ہے مگر اس کی جدائی خود ہمارے آخری سانسوں تک پیچھا کرتی ہے اور بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ ایک بڑی ہستی کا سایہ ہمارے ساتھ نہیں ۔جب ہم خود کو بہت تنہا یا اداس یا کسی مشکل میں محسوس کرتے ہیں تو یا والد یا والدہ ہی کا ایک احساس ہوتا ہے جو ایک مضبوط دیوار کے طور پر ہمیں حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ دیتا ہے ۔باپ کے بغیر عملی زندگی کا دکھ بہت تکلیف دہ ہے مگر موت بھی برحق ہے اور سب نے جانا ہے ۔
23مئی 2005کو میں نے اور میرے بہن بھائیوں نے والد گرامی عبدالکریم عابد کو کھویا تھا۔ 18برس بیت گئے مگر ان کی جدائی کا دکھ آج بھی زندہ ہے ۔ایسے لگتا ہے کہ ان کی جدائی نے سب کچھ بکھیر کر رکھ دیا ۔ ایک علمی ، فکری ،نظریاتی ، اخلاقی و صحافتی شخصیت کے طور پر ہمارے گھر والوں کے علاوہ وہ اپنی شخصیت کا ایک الگ ہی رنگ اور پہچان رکھتے تھے ۔60برس سے زیادہ پاکستان اور ہندوستان میں صحافت کی اور ہمیشہ وہی لکھا ، بولا جو خود سے محسوس کیا۔
درویش جیسی صفت تھی اور بہت ہی سادہ ، کم گو، دھیمے مزاج اور ہمیشہ ہم نے ان کو پڑھتے ہوئے یا لکھتے ہوئے ہی دیکھا ۔زندگی کا آخری سانس بھی اسی وقت لیا جب وہ کچھ تحریر کررہے تھے ۔دنیا میں باپ کے ہونے کے احساس سے زیادہ قیمتی شے اور کوئی نہیں ۔ یقیناً وہ ہمارا باپ ہی ہوتا ہے جن کی موجودگی ایک مضبوط پناہ گاہ،ایک مضبوط فصیل اور سائبان کا احساس دلاتی ہے یا ہم میں طاقت کا احساس یا آگے بڑھنے کی امنگ ، حوصلہ ، شوق پیدا کرتی ہے ۔
مجھ کو چھاؤںمیںرکھااورخودجلتارہا دھوپ میں
میںنے دیکھاہے ایک فرشتہ باپ کے روپ میں
میرے والد نے ایک مشکل زندگی گزاری اور ان مشکل حالات میں 35برس کینسر جیسے مرض کا خوب مقابلہ کیا اور کبھی اپنی بیماری کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ صحافت بھی بڑی خود داری سے کی اور جہاں محسوس کیا کہ گٹھن یا پابندی یا حالات کا جبرہے لحموں میں ہی خود کو آزاد کیا اور نئے روزگار کی تلاش میں نکل پڑے۔ دائیں بازو سے جڑے رہے مگر کبھی بھی دوسروں کے نظریات، سوچ، عقائد، فکر ، مذہب سے نفرت یا کسی تعصب کا شکار نہیں ہوئے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ دوستوں کے ایک وسیع حلقہ میں ان کے بائیں بازو کے دوست بھی نمایاں تھے ۔ مختلف فکر کے لوگوں سے ان کی نہ صرف خوب بنتی تھی بلکہ شاندار دوستیاں بھی تھیں۔اسی طرح بغض، حسد، لالچ، تعصب اور تنگ نظری کا کبھی بھی شکار نہیں رہے ایک کھلی اور شفاف زندگی جس پر مجھ سمیت ان کے دوستوں اور پڑھنے والوں کو بھی بڑا ناز تھا ۔
اخباری کارکن سے کئی قومی اخبار و رسائل کے مدیر ہونے تک کا سفر مسلسل جدوجہد ، لگن ، محنت سے جڑا رہا اور کئی لوگ انھیں مدیروں کے استاد کے طور پر بھی یاد رکھتے ہیں ۔وہ پرانے زمانے کے صحافی تھے جب صحافت بھی تھی اور نظریاتی میدان کا بھی عروج رہا اور پرتشدد رجحانات کے مقابلے میں مکالمہ اور فکری طور پر بحث ومباحث اور مختلف سوچ رکھنے والے لوگوں کے درمیان احترام کا نظام بھی تھا۔اب وہ نہ صحافت رہی اور نہ وہ صحافی بلکہ ایڈیٹر کا ادارہ ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔
کسی نے خوب کہا کہ ''بازار سے سب کچھ مل جاتا ہے مگر ماں جیسی جنت اور باپ جیسا سایہ کبھی نہیں ملتا ۔اسی طرح ایک اور جگہ کسی نے خوب لکھا کہ '' باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہوتی ہے ، سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے مگر سورج نہ ہو تو اندھیرا چھا جاتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ '' ایک ہزار محبتیں ملا کر ایک باپ کے قدموں کی دھول پہ قربان کردی جائیں توبھی اس دھول کی قیمت ادا نہیں ہوتی ۔شاعر نے خوب کہا کہ :
مجھے زمین کے طول وعرض سے کیا لینا
میری دنیا توفقط باپ کے سائے جتنی
آج جب بھی خود کو عملی طور پر تنہا محسوس کرتا ہوں تو بس باپ یا ماں کو یاد کرکے اپنا غم ہلکا کرتا ہوں اور ان کا ایک جملہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ زندگی جدوجہد، محنت یا انعام یا کامیابی وناکامی کے درمیان کھیلتی ہے۔
کامیاب وہی ہوتا ہے جس کے پاس مقصد یا اہداف بڑے ہوتے ہیں اور ایسے اہداف جس کا مقصد محض اپنی حالت کو بدلنا نہیں بلکہ اپنے اجتماعی شعور کے ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی بدلنا ہوتا ہے۔اسی طرح مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے کبھی اپنے بچوں کو ڈانٹا یا ان پر اپنی مرضی ، خواہشات یا ایجنڈے کو مسلط کرنے کی کوشش کی ۔ معاونت ضرور کرتے تھے مگر جبر کے خلاف تھے ۔