عراق کے بعد
طاقت کے زور پر قبضہ خواہ وہ ماضی کے بادشاہوں کا دستور ہو یا سامراجی ملکوں کا اسے مہذب انسان جنگل کا قانون ہی کہے گا۔
دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے عموماً پاکستان اور افغانستان کو سرفہرست رکھا جاتا ہے یہ درست ہے کہ ان دونوں ملکوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں اور جانی نقصان بھی کافی ہوتا ہے اور ہو رہا ہے لیکن ان دونوں ملکوں میں ابھی تک ملکی سالمیت کو خطرات لاحق نہیں ہیں۔ ملکی سالمیت کو جب خطرات لاحق ہو جاتے ہیں تو دہشت گردی صرف دہشت گردی نہیں رہتی بلکہ وہ سامراجی شکل اختیار کر لیتی ہے کیونکہ سامراج کی شناخت ماضی کے فاتح بادشاہوں کے حوالے سے کی جاتی ہے۔
طاقت کے زور پر قبضہ خواہ وہ ماضی کے بادشاہوں کا دستور ہو یا سامراجی ملکوں کا اسے مہذب انسان جنگل کا قانون ہی کہے گا۔ عراق پر امریکا نے طاقت کے بل پر قبضہ کیا۔ یہ ایک سامراجی جارحیت تھی امریکا نے عراق پر جن الزامات کے تحت قبضہ کیا وہ سب غلط ثابت ہوئے۔ لیکن امریکی حکمرانوں کو اپنے اس جھوٹ پر کوئی پشیمانی نہیں ہوئی وہ دس سال تک عراق پر قابض رہا اور اس عرصے میں کوئی پانچ لاکھ عراقی اس جارحانہ جنگ کی نذر ہو گئے۔
صدام حسین نے اپنی آمریت کے دور میں جن لوگوں کی جانیں لیں ان کی تعداد چند سو یا ہزار میں بتائی جاتی ہے اس ظلم کے پس منظر میں امریکا سمیت مغربی ممالک صدام حسین کو اتنا بڑا ظالم قرار دیتے ہیں کہ ایسے ظالم کی حکومت کا تختہ الٹنا جمہوریت بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کے عین مطابق تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر چند سو انسانوں کا آمریت کی بھینٹ چڑھنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس آمر کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے تو پانچ لاکھ عراقیوں کا قتل کتنا بڑا جرم ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔
امریکا نے جب عراق پر حملہ کیا تو عراق ایک پر امن ملک تھا اگرچہ عراق فقہی حوالے سے تقسیم تھا لیکن خون میں نہایا ہوا نہیں تھا۔ عراق سے امریکا کی واپسی کے بعد عراق گلے گلے تک خون میں ڈوبا ہوا ہے یہ خون فقہی اختلافات کے نام پر بہایا جا رہا ہے۔ میڈیا عراق میں ہر روز ہونے والی خونریزی سے بھرا رہتا ہے لیکن اب جو صورت حال پیدا ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند عراق کی بڑے شہروں پر جن میں موصل بھی شامل ہے اور صدام حسین کی آبائی بستی تکریت بھی شامل ہے سب کو روندتے ہوئے عراق کے دارالحکومت بغداد کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں اور امریکا کا صدر کہہ رہا تھا کہ ''ہم عراق میں مداخلت نہیں کریں گے۔''
عراق میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور امریکا اور اس کے حواری حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہیں کہ ہم دنیا میں جمہوریت پر آنچ آنے نہیں دیں گے۔ مصر میں اور تھائی لینڈ میں فوجی جنرلوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کریمیا کے عوام نے اپنی آزاد مرضی سے روس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار امریکا نے ان ملکوں کے خلاف طرح طرح کے اقدامات کیے جن کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ''ہم جمہوریت کی خلاف ورزی نہیں چاہتے۔''
ان ملکوں میں جمہوری حکومتوں کو ہٹا کر جو فوجی حکمران برسر اقتدار آئے ہیں وہ نہ مذہبی انتہا پسند ہیں نہ دہشت گرد بلکہ یہ حکمران مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے سخت خلاف ہیں۔ عراق میں عراقی شہروں کو روندتے ہوئے جو لوگ عراقی دارالحکومت بغداد کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں وہ مذہبی انتہا پسند بھی ہیں اور دہشت گرد بھی۔ عراقی حکومت جس بے چارگی کا شکار نظر آ رہی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہت جلد دہشت گرد بغداد پر قبضہ کر لیں گے بغداد پر قبضے کا مطلب پورے عراق پر قبضہ ہے۔
عراق ایک بڑا ملک ہے جس کے پاس پوری جنگی مشینری اور تیل کی بہت بڑی دولت ہے اگر دہشت گرد عراق پر قبضہ کر لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی بار دہشت گرد ایک بڑے اور آزاد ملک پر اس کے بے بہا وسائل کے ساتھ قابض ہو جائیں گے۔ مجھے حیرت ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور جمہوریت کی سب سے بڑی علمبردار ریاست کے تھنک ٹینکس کو اندازہ ہے کہ ایک بڑا اور وسائل سے مالا مال ملک جب دہشت گردوں کے قبضے میں چلا جائے گا تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟ اگر امریکا کے تھنک ٹینکوں کو عراق پر دہشت گردوں کے قبضے کے مضمرات کا ادراک نہیں ہے تو میں ان تھنک ٹینکوں کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
دہشت گرد اگرچہ دنیا کے کئی ملکوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان بھی پہنچا رہے ہیں وہ اب تک عراق جیسے بڑے ملک پر قبضہ نہیں کر سکے البتہ افریقہ کے بعض ملکوں کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن ان مقبوضہ علاقوں کے عوام ان دہشت گردوں کے سخت خلاف ہیں ان کی حکمرانی میں رہنے کے بجائے ترک وطن کو ترجیح دے رہے ہیں۔ امریکا نے 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اندھوں کی طرح کود پڑا۔
امریکا نے جب عراق اور افغانستان پر قبضہ کیا تو مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی بعض مخصوص علاقوں تک محدود تھی لیکن ان دو ملکوں پر قبضے کے بعد دہشت گردی کے عفریت نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ عراق اور افغانستان پر قبضہ دہشت گردی کے فروغ کے لیے کیا گیا۔ آج چین، روس سمیت کوئی مغربی ملک ایسا نہیں جہاں مذہبی انتہا پسند موجود نہ ہوں عراق اور افغانستان کی جنگوں کے تلخ تجربات اور جانی اور مالی نقصانات نے امریکی صدر کو اس قدر خوفزدہ کر دیا ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی مفقود نظر آتی ہے۔
عراق پر دہشت گردوں کے قبضے کا مطلب دہشت گردوں کی طاقت میں اس قدر اضافہ ہے کہ وہ عراق کے بیس کیمپ سے کسی بھی پڑوسی ملک پر چڑھ دوڑ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند کسی جمہوریت کسی جمہوری ادارے کو سرے سے مانتے ہی نہیں وہ علی الاعلان یہ کہہ رہے ہیں کہ ''ہم ساری دنیا میں اپنا نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔'' اس نظام کی ایک جھلک روس کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں دیکھی جا چکی ہے۔ امریکا اور مغربی ملکوں کا شمار مہذب ملکوں میں ہوتا ہے روس، چین، بھارت سمیت ایشیا کے ممالک پسماندگی کے باوجود تہذیب اور اخلاقی قدروں کے حامل ہیں یہ ملک پتھر کے دور میں نہیں رہ رہے ہیں حقیقت یہی ہے تو پھر کیا دنیا کو پتھر کے دور کو قبول کر لینا چاہیے؟
ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت اور طبقاتی نظام کے سخت خلاف ہیں کیونکہ اس نظام نے انسانوں کو ان کی بنیادی ضرورتوں سے محروم کر دیا ہے۔ دنیا اس استحصالی نظام کے خلاف آہستہ آہستہ صف آرا ہو رہی ہے لیکن یہ نظام اپنے معاشی جبر اور طبقاتی استحصال کے باوجود پتھر کے دور میں نہیں جو طاقتیں آج خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں، ٹائم بموں، بارودی سرنگوں کے ساتھ مہذب دنیا کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہیں یہ جنگ کسی علاقے کسی ملک تک محدود ہے نہ اس کا نقصان کسی علاقے کسی ملک تک محدود ہے یہ اندھی بہری اور گونگی طاقتیں ساری دنیا پر اپنا اندھا بہرا اور گونگا نظام مسلط کرنا چاہتی ہیں جس کا مقابلہ ساری دنیا کو مل کر اور متحد ہوکر کرنا پڑے گا۔
پاکستان کا حکمران طبقہ کل تک ڈرون حملوں کے سخت خلاف تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ غالباً اسے دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے مضمرات کا اندازہ نہیں تھا یا وہ سیاسی مصلحتوں کا شکار تھا اب وہی طبقہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا نہ صرف قائل ہو گیا ہے بلکہ جنگ شروع کر چکا ہے۔ امریکا پاکستان کی اس جنگ کی حمایت کر رہا ہے جب کہ پاکستان کی ملکی سالمیت ابھی تک خطرے میں نہیں ہے عراق کی ملکی سالمیت سخت ترین خطرات سے دوچار ہے اور اگر عراق دہشت گردوں کے ہاتھوں میں چلا گیا تو اس کے مضمرات کس قدر خطرناک ہوں گے اس کا اندازہ امریکی صدر اور دنیا کے مہذب ملکوں کو کرنا چاہیے اور مل جل کر ایک ایسی پالیسی اختیار کرنا چاہیے کہ عراق کو دہشت گردوں کے قبضے میں جانے سے بچایا جا سکے۔