چرچل گلوبٹ اور مارتھا
ہر ذی شعور شخص رنجیدہ ہے۔ دل بجھ سا گیا ہے۔ ہم کس دور میں زندہ ہیں؟ کن لوگوں کی رعایا ہیں؟
ہر ذی شعور شخص رنجیدہ ہے۔ دل بجھ سا گیا ہے۔ ہم کس دور میں زندہ ہیں؟ کن لوگوں کی رعایا ہیں؟ آپ دنیا کا کوئی ملک دیکھ لیجیے وہ شخصی اور معاشی ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے بھر پور جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ ملک جو ہم سے ہر لحاظ سے پیچھے تھے، دس سالہ کی دہائی میں حیرت انگیز ترقی کر چکے ہیں۔ اس رویہ کے بالکل برعکس ہم ایک ایسی کھائی میں گر چکے ہیں جہاں سے ہمارے سیاستدان ہمیں نکلنے نہیں دے رہے! جھوٹ اور صرف جھوٹ کا کاروبار پنپ رہا ہے۔
ونسٹن چرچل برطانیہ کا نمایاں ترین وزیر اعظم رہا ہے۔ اس نے ایک طویل عرصہ پشاور، لاہور، دہلی اور برصغیر کے دیگر علاقوں میں کام کیا تھا۔ اس کی ایک تقریر جو ہائوس آف کامنز میں پینسٹھ سال قبل کی گئی تھی، آج میرے سامنے لفظوں کے وجود سے باہر نکل کر واقعات کے روپ میں کھڑی ہو گئی ہے۔ مجھے چرچل کے کہے ہوئے لفظ لکھتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے۔ اس نے چھ دہائیاں قبل ہمارے رہنمائوں کے متعلق کہا تھا،"ان کے تمام حکومتی اختیارات اور طاقت غنڈوں، انتہا پسندوں اور ڈاکوئوں کو منتقل ہو جائیں گے۔ ان کے رہنما پست سوچ کے مالک ہونگے۔
ان کی اصل حیثیت تنکے سے بھی کم ہو گی۔ ان کے رہنمائوں کے بیان بہت شیریں مگر ان کے دل مکمل منفی ہونگے۔ یہ سیاسی رہنما طاقت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑیں گے اور اپنے ملک کو برباد کر دینگے۔ ایک دن آئیگا جب یہ لوگ ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس عائد کر دینگے"۔ میں اس تقریر کے متن کی سچائی یا جھوٹ کا فیصلہ آپکی عقل سلیم پر چھوڑتا ہوں۔ مگر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے، کہ کیا چرچل غلط کہہ رہا تھا!
جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ میری دلیل اور فہم کہتی ہے کہ اس سے زیادہ زوال اور کیا ہو گا؟ مگر وجدان بتاتا ہے کہ اس سے اگلا واقعہ مزید سنگین ہو گا۔ قیامت یہ ہے کہ تنزلی کا یہ سفر کسی بھی جگہ تھم نہیں رہا۔ ساکت نہیں ہو پا رہا۔ آپ گلو بٹ کو غور سے پرکھیے۔ یہ ایک شخص نہیں ہے۔ یہ ایک نظام اور سوچ کا نام ہے۔ میں کسی بھی سیاست دان کے دستر خوان کا خوشہ چیں نہیں ہوں۔ مگر یقین فرمائیے گلوبٹ ہر سیاسی جماعت، گلی، محلہ، کچہری، اسپتال، کالج، تھانہ اور دفتر میں موجود ہے۔ بلکہ اگر تنقیدی جائزہ لیں تو آپکو پاکستان میں گلوبٹ کی سوچ مکمل کامیاب نظر آئیگی۔ آپ گریہ کر لیجیے۔ اس کے خلاف وعظ فرما لیجیے، مگر گلوبٹ پاکستان میں دہائیوں سے حکومت کر رہا ہے۔
ہمارا سفید پوش طبقہ اب تقریباً روپوش ہو چکا ہے۔ ایک نائب قاصد کی تنخواہ بارہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ محنت کش کیسے گزارا کرتے ہیں، میری سمجھ سے باہر ہے۔ میں ایک سچا مگر تلخ واقعہ آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اسٹاف کالج میں ایک سو کے قریب افراد ہونگے جنکی ماہانہ سرکاری تنخواہ اوپر بیان کی گئی رقم کے برابر ہے یعنی بارہ ہزار روپے یا شائد اس سے کچھ زیادہ۔ یہ لوگ انتہائی محنت کرتے ہیں۔ نائب قاصد یا دفتری سارا دن فائلیں ادھر سے اُدھر لیجاتے ہیں۔ چائے بناتے ہیں۔ جہاں جہاں ان کی تعیناتی ہو، وہ مکمل لگن سے وہاں کام کرتے ہیں۔
منظور جاپانی اسٹاف کالج میں بیس پچیس سال سے کام کر رہا ہے۔ یہ ایڈمن آفیسر ہے۔ جاپانی اس لیے اس نام سے مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ابتدائی چند سال جاپان میں کام کرتا رہا ہے۔ کچھ دن پہلے میرے پاس کسی کام سے آیا۔ بتانے لگا کہ اس کے ساتھ ایک نائب قاصد کام کرتا ہے اور وہ سخت بیمار ہو چکا ہے۔ ایک ماہ کے قریب سروسز اسپتال گزار کر آیا ہے اور اب اس کے حالات بہت مخدوش ہیں۔ اگلے دن میں نے اس اہلکار کو دفتر میں بلا کر اس کے حالات پوچھے تو دل بیٹھ سا گیا۔ وہ تقریباً پانچ چھ ماہ سے اسٹاف کالج میں کام کر رہا ہے۔ اس کے چھ بچے ہیں۔
وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ جلو پارک کے نزدیک کہیں رہتا ہے۔ جب بیمار ہوا تو دراصل وہ شدید ذہنی دبائو کا شکار تھا۔ اس کی بیماری پر اس کا خاندان کوئی پیسہ نہ خرچ کر سکا۔ خیر جیسے ہی وہ صحت یاب ہو کر گھر گیا تو پتہ چلا کہ ماہانہ تنخواہ کا خزانہ تو تصرف میں آ چکا ہے۔ شروع شروع میں شائد ادھار سے گھر کا چولہا چلتا رہا۔ مگر کچھ دن میں یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ جب وہ نوجوان اہلکار میرے پاس آیا تو اس نے دو دن سے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا۔
میں نے جب بچوں کے متعلق پوچھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ معصوم بھی دو دن سے فاقہ سے تھے۔ خیر اسٹاف کالج کے چند دوستوں نے اس کے لیے کھانے پینے کا سامان خریدا۔ اس کی ایک مہینے کی ضرورت پوری ہو گئی۔ میں اس نوجوان کا نام نہیں لکھنا چاہتا۔ اس کی آنکھوں میں اتنی خاموشی اور بے بسی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ میں کافی دیر اکیلا بیٹھ کر سوچتا رہا کہ اگلے مہینے اس پر پھر کوئی نئی قیامت ٹوٹ پڑی تو وہ دوبارہ کیا کریگا؟
صاحبان زیست! یہ تلخ واقعہ لاہور شہر کا ہے۔ ہمارے غریب لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتے۔ جب ملک کی بیس سے تیس فیصد آبادی ایک وقت کی باعزت روٹی کے لیے ترستی ہوں، تو پھر آگے کیا ہونے والا ہے، اس کی پیشین گوئی کرنے کے لیے کسی نجومی کی ضرورت نہیں! ملک میں اس وقت بے روزگاری، مفلسی اور غربت ہر گوشہ میں رقص کر رہی ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران اس صورت حال سے مکمل آگاہی رکھتے ہیں۔ مگر وہ صرف ان لوگوں کی مجبوری کو اپنے ووٹ میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خیر بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ مارتھا کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے۔ ان کی عمر اس وقت اسی برس کے قریب ہو گی۔ ان کے شوہر چند سال قبل انتقال کر گئے تھے۔ مارتھا آنٹی کی اپنے شوہر سے رفاقت پچاس برس سے اوپر ہے۔ اس کا گھر لاہور ڈیفنس میں ہے اور یہ گھر بہت محنت سے بنایا گیا ہے۔ ان کے شوہر اور میرے والد قریبی دوست تھے۔ اس وجہ سے مارتھا میرے لیے والدہ کی طرح ہیں۔ مارتھا ایک مکمل انگریز خاتون ہیں۔ آپ ان کا گھر دیکھیے۔ انھوں نے اسکو بالکل آبائی ملک میں دیہاتی گھروں کی طرح بنوایا ہے۔ اس گھر کے درمیان میں ایک چھوٹا سا باغیچہ ہے جو تمام کمروں سے نظر آتا ہے۔
مارتھا اب پاکستانی کپڑے پہنتی ہیں اور ایک خاص انداز سے اردو بولنے پر قادر ہو چکی ہیں۔ جب مارتھا کی شادی ہوئی تو اسے پاکستان کا کچھ اندازہ نہیں تھا۔ ان کے شوہر لندن میں قانون کی ڈگری لینے گئے تھے۔ خیر، جب مارتھا پاکستان آئیں تو اسے اپنے شوہر کے آبائی گائوں رہنا پڑا۔ یہ سرگودھا سے چند میل پر واقع ہے۔ اس گائوں میں بجلی نہیں تھی۔ وہ چھ سات سال اپنے شوہر کے آبائی گھر میں آباد رہیں۔ انھیں کبھی یہ بھول کر بھی خیال نہیں آیا کہ وہ جس ملک میں شادی کے بعد منتقل ہوئیں ہیں اس میں اکثر دیہاتوں میں بجلی نہیں ہے۔ مگر مارتھا نے پلٹ کر کبھی بھی اس چیز کو اہمیت نہیں دی۔
وہ گرمی کے سات سال اپنے شوہر کے گائوں میں بجلی کے بغیر رہی اور بہت خوش رہی۔ اس نے پنجابی بولنا سیکھ لیا۔ پاکستانی کھانے بنانے سیکھے حتیٰ کہ توے پر روٹی بنانے پر بھی عبور حاصل کر لیا۔ اس سے بات کریں تو وہ ماضی کے ان سات آٹھ سالوں کو اپنی زندگی کا بہترین پیریڈ قرار دیتی ہیں۔ یہ بات تقریباً چالیس پنتالیس سال پرانی ہے۔ مارتھا نے اپنے گائوں میں بہت سی سہیلیاں بنا لیں۔ وہ ان سے ہر وقت اس خطے کے متعلق پوچھتی رہتی تھی۔ ان کی سہیلیاں جن میں اکثر اَن پڑھ خواتین شامل تھیں، مارتھا سے لندن کے قصے سنتی رہتیں تھیں۔ مارتھا کو پاکستان سے عشق ہو چکا تھا۔ یہاں کے موسم، پھل، اناج اور لوگوں کی محنت نے اسے زندگی کا ایک نیا زاویہ دیا تھا۔
مارتھا نے محسوس کیا کہ اس کے علاقے میں تپ دق کی بیماری بہت عام ہے۔ اس میں بچے اور غریب خواتین خاص طور پر اس مہلک بیماری کا شکار ہیں۔ اس کا بھائی لندن کے نزدیک ایک شہر میں ڈاکٹر تھا۔ مارتھا نے اپنے بھائی کو قائل کیا کہ وہ سال میں ایک مہینے کی چھٹیاں اس کے گائوں میں آ کر گزارے اور تپ دق کے مریضوں کا علاج کرے۔ اس کا بھائی دس سال تک اس گائوں میں متواتر آتا رہا۔ وہ اپنے ساتھ دوائیاں، انجیکشن اور گولیاں سب لے کر آتا تھا۔ ایک ماہ میں تقریباً ایک ہزار مریضوں کی تشخیص کرتا تھا۔ ان میں سے اکثر صحت یاب ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ بغیر کسی فیس کے ایک دہائی کے قریب جاری رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مارتھا کے گائوں اور اس کے ارد گرد کے علاقے میں تپ دق کی بیماری بالکل ختم ہو گئی۔
مارتھا اور ان کا شوہر لاہور منتقل ہو گئے۔ یہاں وہ ایک اسکول میں انگریزی کی تعلیم دیتی رہیں۔ وہ ہر سال اپنے گھر میں ایک ڈنر کا اہتمام کرتیں تھیں۔ ان کے شوہر کے دوست اور دوستوں کے بچے تمام اس کھانے میں مدعو ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ ان کے شوہر کے انتقال کے بعد ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود مارتھا آنٹی ہم سب سے رابطے میں رہتی ہیں۔ سال میں دو تین بار ملاقات بھی ضرور ہو جاتی ہے۔ مجھے مارتھا آنٹی نے پرسوں شام کو فون کیا۔ انھوں نے مجھ سے کوئی مشورہ کرنا تھا۔ میں شام کو جب ان کے گھر حاضر ہوا۔ تو انھوں نے میرا نام لے کر کہا کہ وہ اپنا گھر بیچ رہی ہیں اور وہ پاکستان سے واپس جا رہی ہیں۔ ان کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات میرے لیے حیرت انگیز تھی۔ خیر میں خاموشی سے سنتا رہا۔
کہنے لگیں کہ وہ پاکستان کے حالات سے کبھی نہیں گھبرائیں۔ جیسے بھی حالات ہوں وہ اس ملک سے باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ اس شہر میں ان کے شوہر کی قبر ہے۔ ان کے رشتہ دار عزیز ہیں۔ مگر جب سے انھوں نے ماڈل ٹائون کا واقعہ دیکھا ہے وہ ایک نئے خوف کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس کے بقول جب ریاستی ادارے اپنے شہریوں کو سرعام قتل کرنا شروع کر دیں تو ضرورت پڑنے پر ان جیسی ضعیف عورت کی حفاظت کون کریگا! ان کی تو آواز بھی کسی کے کانوں تک نہیں پہنچ پائیگی! مارتھا آنٹی اس مہینے کے آخر میں پاکستان کو خیر آباد کہہ کر واپس لندن جا رہی ہیں! جو کام ان سے چرچل کی تقریر پچاس سالوں میں نہ کروا سکی، وہی کام گُلو بٹ نے صرف چند گھنٹوں میں انتہائی محنت اور ذمے داری سے کروا لیا!