بلوچستان پر توجہ دیں

بلوچستان بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے

بلوچستان میں جو گروہ یا تنظیمیں سرگرم ہیں وہ عام آدمی کی نظر سے تو اوجھل ہو سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ارباب اختیار لا علم ہوں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بدھ کو روز بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی تو اس دوران یو این ورکنگ گروپ کے دورہ کا معاملہ بھی عدالتی نوٹس میں آیا ہے۔

عدالت کے استفسار پر وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ اس وفد کو حکومت پاکستان نے دفتر خارجہ کے ذریعے بلوایا ہے' اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو انھیں کیسے بلوایا' اس پر سیکریٹری خارجہ کو نوٹس دیں گے۔

عدالت عظمیٰ اقوام متحدہ کے مشن کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس معاملے پر کوئی رائے نہیں دی جا سکتی۔ بہر حال ساری صورتحال سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ بلوچستان کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کو نوٹس لینا پڑا اور وہ بلوچستان میں بدامنی کے حوالے سے کیس کی سماعت کر رہی ہے۔

کچھ دن قبل بلوچستان کے ایشو پرکوئٹہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام قومی کانفرنس ''بلوچستان کا مسئلہ' اس کا حل اور پیشرفت'' کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس کے اختتام پر جو اعلامیہ جاری ہوا تھا، اس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے' مسئلے کے حل کے لیے خود مختار کمیشن بنایا جائے، آیندہ انتخابات کو شفاف بنائے بغیر مرکز اور صوبے کے مابین خلیج کو کم نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت نے سپریم کورٹ بار کے مطالبات کو کیا اہمیت دی، یہ سب کے سامنے ہے، بلوچستان کے حالات جوں کے توں چلے آ رہے ہیں۔ بلوچستان کے حالات کا کوئی ایک رخ نہیں ہے۔ فرقہ واریت، نسلی اور لسانی نفرت ایک دوسرے میں مدغم ہو چکے ہیں۔ بعض حلقے شور مچا رہے ہیں کہ نوجوانوں کو گھروں سے اٹھا کر غائب کیا جا رہا ہے۔ مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔

گھروں سے غائب یا لاپتہ افراد کا معاملہ اس قدر سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے کی سپریم کورٹ اس کا نوٹس لے رہی ہے۔ بیگناہ شہریوں کو بلاوجہ قتل کیا جا رہا ہے۔ پانچ چھ روز قبل مستونگ کے علاقہ دشت میں دس مزدوروں کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ خضدار میں ایک قبائلی سردار میر سعید احمد قلندرانی اور ان کے پانچ ساتھیوں کو قتل کر دیا گیا۔

بلوچستان کے بارے میں یہ کہنا کہ اس صوبے کے حالات خراب ہیں' ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ بلوچستان کے ناراض حلقے اپنی جگہ سچے لگتے ہیں، کیونکہ ان کے گلے شکوے دور کرنے پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے پلے بھی کچھ نہیں پڑرہا۔ کچھ عرصہ قبل وفاقی کابینہ کی خصوصی کمیٹی نے بھی صوبے کی مختلف سیاسی، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

وفاقی وزیر دفاع نوید قمر نے کہا تھا کہ یہ کمیٹی اپنی سفارشات وفاقی کابینہ کے آیندہ اجلاس میں پیش کرے گی۔ اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی۔ قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے' سینیٹ میں بھی تقریریں ہوتی ہیں اور بلوچستان کی اسمبلی بھی قائم ہے۔ حیرانی اس بات پر ہے، اس کے باوجود کوئی پالیسی تشکیل پا رہی ہے نہ اس مسئلے کا کوئی حل سامنے آتا ہے۔


ایسی صورت میں یہی لگتا ہے کہ جان بوجھ کر کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں جو گروہ یا تنظیمیں سرگرم ہیں' وہ عام آدمی کی نظر سے تو اوجھل ہو سکتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ ارباب اختیار لا علم ہوں۔ کون کس کا آلہ کار ہے' اس کے بارے میں بھی سرکاری رپورٹیں موجود ہوں گی لیکن کوئی ایکشن نہیں ہو رہا ہے۔ اس کا خمیازہ عام بلوچستانی بھگت رہا ہے۔

بلوچستان بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور فرقہ واریت کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر اٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان کی صورتحال نے محب وطن اور سنجیدہ طبقوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ ارباب اختیار کو پتہ ہے کہ پاکستان کا مستقبل اس صوبے سے ہی وابستہ ہے۔

یہاں کے وسائل کو استعمال میں لا کر نہ صرف صوبہ بلکہ پورا ملک خوشحالی کی جانب گامزن ہو سکتا ہے اور بلوچوں کی غربت اور افلاس ماضی کا قصہ بن سکتی ہے۔ ان حقائق کے باوجود بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا۔

اب عام انتخابات کی باتیں شروع ہو گئی ہیں، ظاہر ہے کہ بلوچستان میں بھی انتخابات ہوں گے، سپریم کورٹ بار کے اعلامیہ میں ایک نکتہ یہ بھی سامنے آیا تھا کہ مرکز اور صوبے میں اختلافات کی خلیج کو کم کرنے کے لیے آیندہ شفاف انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے اور انتخابات میں ریاستی اداروں کی مداخلت کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔

اس معاملے پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ عام انتخابات میں ریاستی ادارے کسی گروپ کی پشت پناہی نہ ہی کریں تو بہتر ہو گا۔ اگر نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی اس حوالے سے اپنا واضح موقف پیش کریں اور حکومت بھی۔ سیاست اپنی جگہ لیکن بلوچستان سب کا مسئلہ ہونا چاہیے۔

فروری 2008ء کے عام انتخابات کا قوم پرستوں نے بائیکاٹ کیا۔ قوم پرستوں کو بھی اس کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب ضروری ہے کہ قوم پرستوں کو عام انتخابات میں حصہ لینے پر تیار کیا جائے، قوم پرست بھی اپنے موقف پر نظر ثانی کریں۔ معاملات بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوتے ہیں، جمہوریت اس کا بہترین فورم ہے۔

ارباب اختیار کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انتخابات شفاف نہ ہوئے اور ریاستی اداروں کی مداخلت جاری رہی تو صوبے میں تشدد بڑھے گا جو ملکی سالمیت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ ایشو ہے، حکومت کو اس جانب سنجیدگی سے توجہ دینا ہو گی۔

نواب بگٹی کا قتل بھی بلوچوں کے سینے پر ایک زخم ہے جس پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ علیحدگی پسندوں کو موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں، ان کے مطالبات کو ہمدردی کے جذبے کے تحت سنا جائے اور جہاں تک ممکن ہو سکے، ان کے خدشات کو دور کیا جائے۔ دہشت گردی کے واقعات' بارودی سرنگوں کے دھماکوں' چیک پوسٹوں پر حملوں اور لیویز اہلکاروں کی ہلاکتوں سے بلوچستان لہو لہو ہے۔

اس بہتے لہو کو روکنے کے لیے اب وہ وقت آ چکا ہے کہ حکومت، تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے متحد ہو جائیں اور وہاں امن کے لیے حقیقی معنوں میں اپنا کردار ادا کریں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان جس کیس کی سماعت کر رہی ہے، یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حکومت کو اس معاملے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس طریقے سے ہی بلوچستان کے مسئلے کا حل ممکن ہے۔
Load Next Story