مقابلے کی جرأت پیدا کرو

چند ہزار امیر گدھ 18 کروڑ عوام کو دن رات نوچ رہے ہیں ان کاگو شت کھا رہے ہیں ان کا خون پی رہے ہیں

دنیا میں تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں ایک وہ جو سوچتے ہی رہتے ہیں اور کرتے کچھ نہیں دوسرے وہ جو بلا سوچے سمجھے ہر طرف ہاتھ مارتے ہیں اور ہر طرف سے منہ کی کھاتے ہیں تیسرے وہ جو سوچتے بھی ہیں اور کرتے بھی جاتے ہیں یہ ہی آخر مٹی کو سونا بنا لیتے ہیں ۔ایمر سن نے 15 جولائی 1838 کو ہارورڈ یونیورسٹی اسکول کی سینئر کلاس کے سامنے ایک خطبہ دیا اس خطبے میں اس نے اعلیٰ ترین قانون ، نسل انسانی کی وحدت کی سادگی اورتوانائی کی طرف اشارہ کیا اس نے انفرادی آزادی اور عالمگیر رواداری کے نظریے کی وضاحت کی۔

یہ نظریہ پرانی دنیا کے افراد اور اقوام کے مابین بد اعتمادی کے فارمولے کے بر خلاف نئی دنیا کے افراد کے درمیان باہمی اشتراک کے اصول پر مبنی تھا۔ اس نے انسانیت کے ضابطہ اخلاق کو عملی امریکی بنیاد کے اوپر رکھا جیو اور جینے میں مدد دو ۔ ایمر سن کے اس خطبے نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کے اخلاقی اعلان آزادی کی داغ بیل ڈالی ''آج کے بعد ''سامعین میں سے ایک نے کہا '' ہمارے نوجوانوں کے عہد ناموں میں پانچویں گاسپل کا اضافہ ہوگیا ہے ۔یہ امریکا گاسپل ہے '' ایمرسن ایسے خیالات کی تبلیغ کرتا تھا جو رجعت پسند ذہن کے لیے گوارا نہ تھے۔

وہ کہتا تھا '' میرے نزدیک عیسائیت کا مقصد بس یہ ہے کہ انسانوں کو نیک اور دانا بنایا جائے ۔ اس نے اپنی روح سے ایک قدیم اور اس کے نزدیک بوسیدہ روایت کے بت نکال باہر کیے۔ اولیوروینڈل ہولمز کاکہنا تھا وہ ایک ایسا بت شکن تھا جس کے پاس کوئی ہتھوڑا نہ تھا۔ ایمر سن کا کہنا تھا کہ ہم ہروقت اس شے کے کنارے پر ہوتے ہیں جو عظیم الشان ہے اپنے آپ پر اعتماد کرو۔ زندگی کی عظمت سے اپنا حصہ لو خدا کے ساتھ اپنے رشتے کا اثبات کرو اپنی اندرکی قوت کے آگے جھک جائو غلام بنانے کی قوت کے آگے نہیں بلکہ آزاد کرنے اور مدد کر نے والی قوت کے آگے ۔ اپنے مقدر کا مالک بننے کی جرأت کرو اور دوسروں کو بھی اسی امر کا درس دو۔

یوں ایمرسن دنیا بھرکے انسانوں کا استاد بن گیا یورپ کے لوگ اس وقت ان سیاسی اعتقادات اور اخلاقی عقائد میں الجھے ہوئے تھے جن سے خود ایمرسن بہت پہلے آگے نکل آیاتھا اس نے ایک جگہ لکھا کہ ''یورپ کے یہ بے چارے جنت کے اندر کا حسن دیکھنے کی خاطر اس کے دروازوں پر ہزاروں برس سے بیٹھے ہیں اور اب جب کہ جنت کے دروازے کھل گئے ہیں تو نیند نے ان کو آلیا ہے ''۔ وہ پیغام دیتا ہے کہ آپ جو بھی ہیں بس یہ جان لیجیے کہ اس ساری دنیا کا وجود آپ کے لیے ہے اپنے آپ کو منوائیے دوسروں سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ مل کر جو کچھ آدم کے پاس تھا اور جو کچھ سیزر کر سکتا تھا وہ آپ کے پاس ہے اور آپ بھی وہ سب کچھ کرسکتے ہیں ذہن کی زنجیریں توڑ دیں۔

اپنے ذہن کو آزاد کریں اس انسان کے طور پر جو آپ بن سکتے ہیں جو آپ کا مقدر ہے انسان کے امکانات بے پناہ ہیں ان کی کوئی حد نہیں ہے پھر آپ نے کیوں خود پر بے بسی طاری کررکھی ہے ۔ اپنے امکانات کو کیوں زنجیروں میں باندھ رکھا ہے یہ بے معنیٰ زنجیریں ہیں آپ جب چاہیں ان کو توڑ سکتے ہیں وہ کہتا ہے امریکی تجربے کا نصب العین مکمل جمہوریت ہے یعنی سماجی ، سیاسی اور معاشی جمہوریت ۔ یہ ایک ایسے مستقبل کی امید ہے جس کی بنیاد ماضی کی غلطیوں پر رکھی گئی ہے غلطیوں سے ڈرنا کیسا کوششیں کرتے جائو غلطیاں کرتے جائو اور ناکام ہوتے رہو ۔ مگر حوصلہ نہ ہارو بار بار کوشش کرو جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹو مایوسی کو قریب نہ پھٹکنے دو اپنی ناکامیوں ، اپنے مصائب اور اپنی حوصلہ شکنیوں کے باوجود اپنا جہاد جاری رکھو آگے ہی آگے بڑھتے جائو حوصلے اور صبر سے کام لو جیت آخر تمہاری ہی ہوگی ۔


البرٹ شو یٹرز 1952 میں امن کا نوبل ایوارڈ لینے اوسلو تشریف لائے تو انھوں نے ساری دنیا کو چیلنج کیا اور کہا کہ حالات کے مقابلے کی جرأت پیدا کرو اور یہی پیغام دنیا کے انسانوں کے استاد ایمرسن کا بھی ہے اور اب یہ ہی جرأت پاکستان کے عوام کو بھی کرنی ہے اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام وہ ساری زنجیریں توڑ ڈالیں جو اشرافیہ نے انھیں پہنا رکھی ہیں۔ اشرافیہ نے عوام کو دو قسم کی زنجیریں پہنا رکھی ہیں ایک وہ جو دکھائی دیتی ہے دوسری وہ جو دکھائی نہیں دیتی پہلی قسم کی زنجیریں احتساب، عدم مساوات، زندان، بے اختیاری، غربت، جہالت اور بیروزگاری کی ہیں۔

دوسری قسم کی زنجیریں مذہب ، قانون اور اخلاقی قدروں کی صورت میں ڈالی گئی ہیں ہمارے عوام نے خود پر جو بے بسی طاری کر رکھی ہے اس کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے اس وقت پاکستان میں دو اتحاد ہیں ایک اتحاد عوام کا ہے اور دوسرا اتحاد اشرافیہ کا۔ جس میں کچھ سیاست دان، بیوروکریسی ،سرمایہ دار ، جاگیردار شامل ہیں ۔ عوام کا اتحاد حقیقی جمہوریت ،اپنے اختیار، اپنے حقوق ، خوشحالی اورملک کا اقتدار حاصل کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہے جب کہ دوسرا اتحاد ملک پر اپنے ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔

آخری فتح ہمیشہ عوام کوہی حاصل ہوئی ہے اوریہ ایک اٹل حقیقت ہے تاریخ سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ تاریخ سے ہر بات ثابت کی جاسکتی ہے ۔ پاکستان کے عوام ماضی کے مزاروں سے نکل آئو مستقبل کے خیابانوں کی طرف دیکھو انسان کی آنکھیں اس کے سر کے اگلے حصے میں ہوتی ہیں پچھلے حصے میں نہیں گویا فطرت یہ چاہتی ہے کہ انسان پیچھے نہ دیکھے آگے کی طرف دیکھے ہمیں پرانے زمانے کی آمرانہ اور رجعت پسندانہ روایات سے آگے بڑھنا ہوگا نئے لوگ ہیں ، نئے افکار ہیں ہمیں اب نئی روایتیں بنانی ہوں گی۔

کارل مارکس ایک خط میں لکھتا ہے '' تم جانتے ہو میں نے اپنا سب کچھ انقلابی جدوجہد پر قربان کردیاہے مجھے اس بات کا افسوس نہیں ہے اگر مجھے دوبارہ زندگی شروع کر نے کا موقع ملے تو بھی یہ ہی کچھ کروں گا۔'' لوئی فشر کہتا ہے '' ایک نئے عالم کی ضرورت ہے نیا عالم کہاں ہے'' وہ باغی اس کی تعمیر کریں گے جن کے پاس ایک واضح لائحہ عمل ہوگا وہ افراد جن کے پاس نئے نئے خیالات ہونگے وہ لوگ جو دلیرانہ ایک کٹھن راستے پر چل کھڑے ہونگے جب کہ دونوں طرف سے ان پر تیروں کی بوچھاڑ پڑ رہی ہوگی۔'' ہمارا نظام بالکل گل سڑچکا ہے اور اس سے شدید بدبو آرہی ہے اس نظام کو بچانے والوں سے بھی شدید بدبو آرہی ہے یہ نظام لوٹ کھوسٹ کانظام ہے۔

چند ہزار امیر گدھ 18 کروڑ عوام کو دن رات نوچ رہے ہیں ان کاگو شت کھا رہے ہیں ان کا خون پی رہے ہیں ان کے ارمانوں اور تمنائوں اورچھوٹی چھوٹی خواہشات کا قتل عام کررہے ہیں اب یہ ہر گز نہیں ہوسکتا کہ صرف چند ہزار لوگ عیش و عشرت کی زندگی گذاریں اور ملک کے اصل مالک ایک ایک روٹی کے لیے ترسیں۔ پاکستان کا نصب العین صرف اور صرف مکمل اور حقیقی جمہوریت ہے یعنی سماجی ،سیاسی اور معاشی جمہوریت اور مکمل مساوات ۔پاکستان کے عوام نے حقیقی جمہوریت کے لیے طویل جدو جہد کی ہے اور انھیں اب تک آدھی کامیابی نصیب ہوئی ہے وہ آج بھی عوام دشمن اتحاد کا دلیری اوربہادری کے ساتھ مقابلہ کررہے ہیں اس یقین کے ساتھ فتح قریب ہے۔
Load Next Story