بیرونی سرمایہ کاری روشن مستقبل کی بنیاد
متحدہ عرب امارات اور پاکستان ہمیشہ سے بھائی چارے اور سماجی اقدار میں ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں
وزیر اعظم شہباز شریف کو سفارتی محاذ پر بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے صدر نے پاکستان میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہائی کرانی ہے۔ متحدہ عرب امارات پاکستان میں توانائی، پورٹ آپریشنز، غذائی تحفظ، مواصلات، معدنیات، بینکنگ اور مالیاتی سروسز کے شعبے میں سرمایہ کاری کے منصوبوں میں شراکت کرے گا۔ پاکستانی اور اماراتی کمپنیوں میں تین سمجھوتے بھی طے پائے ہیں۔
متحدہ عرب امارات اور پاکستان ہمیشہ سے بھائی چارے اور سماجی اقدار میں ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت یہاں کئی شعبوں میں یو اے ای کی طرف سے فلاحی منصوبے کام کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر سالانہ کی تجارت ہو رہی ہے۔
پاکستان اور عرب امارات کے درمیان مشترکہ ورثے اور کثیر الجہتی تعاون پر مبنی بہترین برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کو افغانستان اور وسط ایشیا سے ملانے کے لیے تیار ہے۔ ہمارے عرب امارات کے ساتھ گزشتہ پانچ دہائیوں سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں جو مشترکہ اقدار اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
یو اے ای میں بسنے والے پاکستانی ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا سب سے بڑا شراکت دار اور سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور مضبوط دوستی کے پیچھے مخلص پاکستانیوں کا ہاتھ ہے جو ہر لمحے پاکستان کی ترقی اور سربلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اقتصادی راہداری سی پیک میں پیش رفت اور گوادر بندر گاہ کے آپریشنل ہونے سے پاکستان مشرق وسطیٰ کو افغانستان اور اس کے بعد وسطیٰ ایشیا سے ملانے کے لیے سرگرم ہے۔ جو مختلف خطوں کے لوگوں کے درمیان بہتر رابطہ اور عرب امارات و دیگر ممالک کے لیے کافی منفعت بخش ہوگا۔ برادر ملک نے جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے اس پر بلا تاخیر پیشرفت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم بڑھانے کی ترغیب دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ملکی سیاسی قیادت کی انتھک محنت اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امید کی ایک نمایاں کرن نظر آئی ہے۔ اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب ہو رہی ہیں، پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری زر مبادلہ کے ذخائر کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ جب غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں نئے منصوبے قائم یا سرمایہ کاری کرتی ہیں تو اس سے نہ صرف اقتصادی ترقی میں مدد ملتی ہے بلکہ غیر ملکی کرنسی بھی حاصل ہوتی ہے۔
حکومت نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایس آئی ایف سی کے قیام جیسے اقدامات کیے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملی ہے۔ اس میں ریگولیٹری عمل کو ہموار کرنا، ٹیکس مراعات کی پیشکش اور سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہے۔ پاکستان نے اکثر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے پر انحصار کیا ہے۔
یہ قرضے عام طور پر شرائط کے ساتھ آتے ہیں اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران یا معاشی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اگرچہ قرض لینے سے ذخائر کو ایک قلیل المدتی سہارا مل سکتا ہے، لیکن طویل المدتی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایسے قرضوں کا موثر طریقے سے انتظام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں قرضوں کو غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کر کے مسائل کو سنگین بنانے کی روش رہی ہے۔
یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027تک بڑھا دیا گیا ہے، جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔ ملک میں زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر و اشیاء کی غیر قانونی اسمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ عالمی سطح پر کئی دن تک سرفہرست کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی بن گیا۔
پٹرولیم کی قیمتوں میں 3 فیصد کمی اور آنے والے ہفتوں میں روپے کی قدر میں بہتری اور روسی برآمدات پر پابندی اٹھ جانے سے پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ہے، مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک طویل عرصے کے بعد 2 لاکھ فی تولہ سے کم ہوئی ہے۔
ہم کاروبار دوست ماحول پیدا کرکے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔ کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
سرمائے کی گردش سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ کوئی بھی چیز کلیپٹو کریسی کی طرح عدم استحکام پیدا نہیں کرتی۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل کی پیداوار، خوراک کی پیداوار، اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آرہی ہے۔ فصل کی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے پاکستان 5 ارب ڈالر تک فارن ایکسچینج بچا سکے گا (کپاس، گندم، ٹیکسائل، خوردنی تیل اور چاول کی زیادہ برآمدات اور کم درآمدات) اور تیل کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان کے زر مبادلہ ذخائر خطے کے تمام ممالک سے کم ہیں جس کا اثر تجارت، سرمایہ کاری اور بیرونی ادائیگیوں پر منفی انداز میں مرتب ہو رہا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چار ذرایع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زر مبادلہ کے حصول کا پہلا ذریعہ برآمدات ہوتی ہیں۔ جب پاکستان سے کاروباری افراد غیر ممالک کو سامان اور خدمات فروخت کرتے ہیں تو وہ غیر ملکی کرنسی کماتے ہیں۔ اس کے بعد یہ غیر ملکی کرنسی ملک کے ذخائر میں شامل ہو جاتی ہے، جس سے اس کی بیرونی مالی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافے کی حوصلہ افزائی حکومت اور اقتصادی پالیسی سازوں کی مستقل توجہ کی طالب ہے۔
آخر اس سوال کا جواب کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا کہ بنگلہ دیش نے خام مال نہ ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں ریکارڈ زرمبادلہ کیسے کما لیا؟ اور پاکستان ایسا کیوں نہ کر سکا؟ زر مبادلہ کمانے کا دوسرا بڑا ذریعہ تارکین وطن کی ترسیلات زر ہیں۔ یہ ترسیلات زر معیشت میں غیر ملکی کرنسی کی ایک قابل ذکر اضافہ کرتی ہیں۔
2021 اور 2022 کے درمیان سرکاری ترسیلات زر کی نمو سست ہوئی۔ سالانہ ترسیلات زر میں 2022 میں 3.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس میں 29.8 ارب امریکی ڈالر کی آمد ہوئی۔ 2023 میں 26.3 ارب کی ترسیلات زر میں سالانہ 11.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔
حکومت نے ترسیلات زر کی سہولت اور لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے کئی اقدامات کیے، جیسے مالی مراعات کی پیشکش اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے وطن واپس بھیجنے کے لیے آسان چینلز بنانا۔ کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کرکے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیار کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور پاکستان ہمیشہ سے بھائی چارے اور سماجی اقدار میں ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں۔ صحت اور تعلیم سمیت یہاں کئی شعبوں میں یو اے ای کی طرف سے فلاحی منصوبے کام کررہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان اربوں ڈالر سالانہ کی تجارت ہو رہی ہے۔
پاکستان اور عرب امارات کے درمیان مشترکہ ورثے اور کثیر الجہتی تعاون پر مبنی بہترین برادرانہ تعلقات قائم ہیں۔ پاکستان مشرق وسطیٰ کو افغانستان اور وسط ایشیا سے ملانے کے لیے تیار ہے۔ ہمارے عرب امارات کے ساتھ گزشتہ پانچ دہائیوں سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں جو مشترکہ اقدار اور ثقافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
یو اے ای میں بسنے والے پاکستانی ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو دونوں ممالک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان توانائی، تجارتی اور صنعتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ عرب امارات مشرق وسطیٰ میں پاکستان کا سب سے بڑا شراکت دار اور سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور مضبوط دوستی کے پیچھے مخلص پاکستانیوں کا ہاتھ ہے جو ہر لمحے پاکستان کی ترقی اور سربلندی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اقتصادی راہداری سی پیک میں پیش رفت اور گوادر بندر گاہ کے آپریشنل ہونے سے پاکستان مشرق وسطیٰ کو افغانستان اور اس کے بعد وسطیٰ ایشیا سے ملانے کے لیے سرگرم ہے۔ جو مختلف خطوں کے لوگوں کے درمیان بہتر رابطہ اور عرب امارات و دیگر ممالک کے لیے کافی منفعت بخش ہوگا۔ برادر ملک نے جن شعبوں میں سرمایہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے اس پر بلا تاخیر پیشرفت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک کو بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم بڑھانے کی ترغیب دینا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ملکی سیاسی قیادت کی انتھک محنت اور مخلصانہ کاوشوں کی بدولت پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امید کی ایک نمایاں کرن نظر آئی ہے۔ اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو ملک پاکستان نے روشن مستقبل کی بنیاد رکھ لی ہے، بیرونی سرمایہ کاری کے واضح اثرات سامنے آ رہے ہیں جس کے معاشی ثمرات براہِ راست عوام تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی جانب راغب ہو رہی ہیں، پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری زر مبادلہ کے ذخائر کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ جب غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں نئے منصوبے قائم یا سرمایہ کاری کرتی ہیں تو اس سے نہ صرف اقتصادی ترقی میں مدد ملتی ہے بلکہ غیر ملکی کرنسی بھی حاصل ہوتی ہے۔
حکومت نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے ایس آئی ایف سی کے قیام جیسے اقدامات کیے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب ملی ہے۔ اس میں ریگولیٹری عمل کو ہموار کرنا، ٹیکس مراعات کی پیشکش اور سرمایہ کاروں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل ہے۔ پاکستان نے اکثر اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک جیسے بین الاقوامی اداروں سے قرض لینے پر انحصار کیا ہے۔
یہ قرضے عام طور پر شرائط کے ساتھ آتے ہیں اور ادائیگیوں کے توازن کے بحران یا معاشی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اگرچہ قرض لینے سے ذخائر کو ایک قلیل المدتی سہارا مل سکتا ہے، لیکن طویل المدتی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایسے قرضوں کا موثر طریقے سے انتظام کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں قرضوں کو غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کر کے مسائل کو سنگین بنانے کی روش رہی ہے۔
یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس 2027تک بڑھا دیا گیا ہے، جس کا براہِ راست اثر پاکستانی مصنوعات کی یورپی منڈیوں تک رسائی ہے، یورپین یونین کا یہ قدم ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اہم کھلاڑی ہے۔ ملک میں زرعی و صنعتی پیداوار میں اضافے اور حکومتی و عسکری اداروں کی جانب سے ڈالر و اشیاء کی غیر قانونی اسمگلنگ و تجارت کی روک تھام کی بدولت پاکستانی روپے کی قدر میں گراں قدر اضافہ ہوا ہے، ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ عالمی سطح پر کئی دن تک سرفہرست کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی بن گیا۔
پٹرولیم کی قیمتوں میں 3 فیصد کمی اور آنے والے ہفتوں میں روپے کی قدر میں بہتری اور روسی برآمدات پر پابندی اٹھ جانے سے پٹرولیم کی قیمتوں میں مزید کمی کا امکان ہے، مقامی مارکیٹ میں سونے کی فی تولہ قیمت ایک طویل عرصے کے بعد 2 لاکھ فی تولہ سے کم ہوئی ہے۔
ہم کاروبار دوست ماحول پیدا کرکے براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کو بڑھا سکتے ہیں، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کا سرمایہ محفوظ ہے۔ کم ٹیکس کی شرح یا دیگر ٹیکس مراعات، نجی املاک کے حقوق کا تحفظ، قرضوں اور فنڈنگ تک رسائی، اور بنیادی ڈھانچہ جو سرمایہ کاری کے ثمرات کو مارکیٹ تک پہنچنے کی اجازت دیتا ہے، وہ چند مراعات ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
سرمائے کی گردش سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری طویل مدت میں سب سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔ کوئی بھی چیز کلیپٹو کریسی کی طرح عدم استحکام پیدا نہیں کرتی۔
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں ریکوڈک منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے، اگر ملک ترقی و خوشحالی کے اسی راستے پر گامزن رہا تو اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں متوقع کمی، بہتر فصل کی پیداوار، خوراک کی پیداوار، اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے مہنگائی میں بتدریج کمی ممکن نظر آرہی ہے۔ فصل کی پیداوار میں بہتری کی وجہ سے پاکستان 5 ارب ڈالر تک فارن ایکسچینج بچا سکے گا (کپاس، گندم، ٹیکسائل، خوردنی تیل اور چاول کی زیادہ برآمدات اور کم درآمدات) اور تیل کی قیمتیں برقرار رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان کے زر مبادلہ ذخائر خطے کے تمام ممالک سے کم ہیں جس کا اثر تجارت، سرمایہ کاری اور بیرونی ادائیگیوں پر منفی انداز میں مرتب ہو رہا ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چار ذرایع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زر مبادلہ کے حصول کا پہلا ذریعہ برآمدات ہوتی ہیں۔ جب پاکستان سے کاروباری افراد غیر ممالک کو سامان اور خدمات فروخت کرتے ہیں تو وہ غیر ملکی کرنسی کماتے ہیں۔ اس کے بعد یہ غیر ملکی کرنسی ملک کے ذخائر میں شامل ہو جاتی ہے، جس سے اس کی بیرونی مالی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے برآمدات میں اضافے کی حوصلہ افزائی حکومت اور اقتصادی پالیسی سازوں کی مستقل توجہ کی طالب ہے۔
آخر اس سوال کا جواب کیوں نہیں ڈھونڈا جاتا کہ بنگلہ دیش نے خام مال نہ ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل میں ریکارڈ زرمبادلہ کیسے کما لیا؟ اور پاکستان ایسا کیوں نہ کر سکا؟ زر مبادلہ کمانے کا دوسرا بڑا ذریعہ تارکین وطن کی ترسیلات زر ہیں۔ یہ ترسیلات زر معیشت میں غیر ملکی کرنسی کی ایک قابل ذکر اضافہ کرتی ہیں۔
2021 اور 2022 کے درمیان سرکاری ترسیلات زر کی نمو سست ہوئی۔ سالانہ ترسیلات زر میں 2022 میں 3.9 فیصد کی کمی واقع ہوئی، جس میں 29.8 ارب امریکی ڈالر کی آمد ہوئی۔ 2023 میں 26.3 ارب کی ترسیلات زر میں سالانہ 11.7 فیصد کمی واقع ہوئی۔
حکومت نے ترسیلات زر کی سہولت اور لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے کئی اقدامات کیے، جیسے مالی مراعات کی پیشکش اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے وطن واپس بھیجنے کے لیے آسان چینلز بنانا۔ کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ایسے ممالک کو اسکلز اور ٹیکنالوجی فراہم کرتی ہے، جو مقامی طور پر نہیں جانتے کہ وہ وسائل کو کیسے استعمال کرکے مصنوعات تیار کریں، جو شاید براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کی صورت میں یہ مصنوعات تیار کرنے کے قابل نہ ہوتے۔
مختصراً یہ کہ معیشت کے میدان میں پاکستان کی حالیہ کامیابیاں ایک بہتر مستقبل کی روشن امید ہیں، اگر ملک اسی راستے پر چلتا رہا تو راستے مستقبل میں مزید ہموار ہوں گے اور ہمارا ملک ترقی کی منازل طے کرتا جائے گا، نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ امید کی، کمی صرف خلوصِ نیت اور ملکی مفاد کو ترجیح دینے کی ہے جس کی جھلک حالیہ کاوشوں میں نظر آئی ہے۔