عالمی بینک غربت کی شرح اور پنشن یافتہ افراد
گزشتہ مالی سال میں معیشت 0.21 فی صد سکڑ گئی تھی جو کہ زرعی شعبے میں بہتری کی وجہ سے بحال ہوئی ہے
عالمی بینک کے تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 40 فی صد ہے جب کہ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی شرح سے نیچے جا سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے شرح نمو 1.8 فی صد کا اندازہ لگایا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں معیشت 0.21 فی صد سکڑ گئی تھی جو کہ زرعی شعبے میں بہتری کی وجہ سے بحال ہوئی ہے جب کہ صنعتی شعبہ زوال پذیر ہے۔ مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ بہترین فصلوں کی بدولت 6.3 فی صد نمو ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ صنعتی سیکٹر کی شرح نمو 1.3 فی صد رہی ہے۔ صنعتی شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ اس شعبے کی بحالی سے ٹیکس کی رقوم میں اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں جن کا حل آئی ایم ایف سے قرض لے کر یا اس کے مشورے پر من و عن عمل کر کے یا بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ مہنگی کرکے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
پاکستان میں اس وقت فصلیں بہترین ہوئی ہیں خاص طور پر گندم کی فصل ریکارڈ ہوئی ہے لیکن تمام کسانوں کو شدید نقصانات سے دوچارکر دیا گیا ہے، ان کی جیبیں خالی ہیں۔ وہ مفلوک الحال، پریشان ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے معیشت کی ترقی کا راستہ نہیں سوچا بلکہ بھلا ہو عالمی بینک کا جس نے بتا دیا کہ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی نچلی سطح پر جانے والے ہیں۔ پہلے ہی 40 فی صد لوگ غربت کی سطح سے نیچے ہیں۔
اس بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ 10 سے گیارہ کروڑ افراد تو پہلے ہی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی اکثریت جھونپڑی میں بھی رہتی ہے۔ معمولی محنت مزدوری کر کے ایک آدھ روٹی کھا کر بھی گزارا کر لیتی ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ میلوں پیدل سفر کر لیتے ہیں، لیکن نہ حکومت سے نہ معاشرے سے نہ نظام سے کوئی شکایت کرتے ہیں۔ ان کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں ایک اور اہم طبقہ سرکاری ملازمین کا بھی ہے جس کی تنخواہیں بظاہر زیادہ معلوم دیتی ہیں لیکن اسی حساب سے ان کے اخراجات بھی ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی خاطر ہزاروں روپے مکان کرایہ پر، ہزاروں روپے بچوں کی تعلیم پر اور دیگر پر خرچ کرکے ان کے پلے کچھ باقی نہیں بچتا۔
میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ بھی غربت کی لکیر کے نیچے جانے سے شاید بچ سکتے ہیں، لیکن آخر وہ کون لوگ ہو سکتے ہیں جو اس مرتبہ کثیر تعداد میں غربت کی لکیر کے نیچے جا کر عالمی بینک کی بات کو کسی حد تک درست ثابت کر سکتے ہیں کہ کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔
میری تشویش اس وقت حیرت میں بدل گئی، میں انگشت بدنداں رہ گیا کہ ان لوگوں کی طرف میری نظر کیوں نہ گئی کہ مجھے ایک پنشن یافتہ قاری کا خط موصول ہوا۔ مسٹر زی نے لکھا کہ ''سرکاری ملازمین جنھوں نے 60 سال کی عمر تک ملک کی خدمت کی، آج کل مہنگائی کے باعث تنگ دستی، مفلوک الحالی اور مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ملنے والی پنشن اتنی بھی نہیں ملتی جس سے کرایہ مکان، بجلی بل اور دیگر اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ حکومت سال بعد صرف 10 فی صد اضافہ کرتی ہے جو ناکافی ہوتا ہے۔''اس طبقے کی بدقسمتی یہ ہے کہ پیرانہ سالی، طرح طرح کی بیماریوں میں گھرے ہوئے، چلتے پھرتے ہیں۔
مشکلات کے سبب کوئی نجی ادارہ انھیں ملازم رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ سرمایہ کار نہیں لہٰذا کسی قسم کے کاروبار کرنے سے محروم، ان تمام باتوں کے سبب انھیں پنشن کی آمدن پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے، شدید مہنگائی، جو صرف خوراک پر حملہ آور نہیں ہے بلکہ مکانوں کے کرایوں میں 50 فی صد سے زائد اضافہ، کرایوں میں 18 فی صد سے زائد اضافہ، ادویات کی قیمتوں میں بار بار ہوش ربا اضافہ اور بہت سی باتیں مل کر اب یہ پنشن یافتہ بوڑھے کمزور نحیف ناتواں بیمار افراد بتدریج غربت کی گہری کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔
اس بجٹ کے موقع پر کون سے ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جس سے ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد غربت کی نچلی سطح کی طرف نہ جائیں۔ اول ٹیکس کی رقم میں اضافہ جس کے لیے صرف اتنا کر دیں کہ کوئی ایسا انتظام ہو جائے کہ ٹیکس جمع کرنے والے کرپشن چھوڑ دیں۔ بصورت دیگر حکومت ان کے بنگلوں، ان کے ٹھاٹ باٹ، ان کی قیمتی گاڑیوں کی باز پرس کر ڈالے تو بات واضح ہو جائے گی۔
دیگر اشرافیہ پر تمام فضول، غیر ضروری اور ایسی مراعات جن پر کافی رقم صرف ہوتی ہے وہ سلسلہ کم از کم 50 فی صد کم کر دیں۔ آیندہ سیزن کے لیے کسانوں کو سرکاری نرخ کی کھاد فراہمی، پانی کی بروقت بقدر ضرورت فراہمی اور دیگر مراعات و رعایتیں دی جائیں۔
کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنائی جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے علاوہ پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں کم ازکم 50 فی صد اضافہ کیا جائے کیونکہ یہ طبقہ کرایہ مکان، سفری خرچ، میڈیکل الاؤنس اور دیگر الاؤنسز سے محروم رہتا ہے اور صرف اور صرف پنشن کی رقم پر ہی گزارا کرتا ہے۔ بصورت دیگر یہی افراد بڑی تعداد میں قوت خرید میں کمی کے باعث بتدریج غربت کی کھائی میں گرتے چلے جائیں گے۔
آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے شرح نمو 1.8 فی صد کا اندازہ لگایا ہے۔ گزشتہ مالی سال میں معیشت 0.21 فی صد سکڑ گئی تھی جو کہ زرعی شعبے میں بہتری کی وجہ سے بحال ہوئی ہے جب کہ صنعتی شعبہ زوال پذیر ہے۔ مہنگائی کی شرح بہت زیادہ ہے جس نے لوگوں کی قوت خرید کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ بہترین فصلوں کی بدولت 6.3 فی صد نمو ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ صنعتی سیکٹر کی شرح نمو 1.3 فی صد رہی ہے۔ صنعتی شعبے کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ اس شعبے کی بحالی سے ٹیکس کی رقوم میں اضافہ ہوتا ہے اور روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ یہ وہ اہم مسائل ہیں جن کا حل آئی ایم ایف سے قرض لے کر یا اس کے مشورے پر من و عن عمل کر کے یا بجلی، گیس، پٹرول وغیرہ مہنگی کرکے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
پاکستان میں اس وقت فصلیں بہترین ہوئی ہیں خاص طور پر گندم کی فصل ریکارڈ ہوئی ہے لیکن تمام کسانوں کو شدید نقصانات سے دوچارکر دیا گیا ہے، ان کی جیبیں خالی ہیں۔ وہ مفلوک الحال، پریشان ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے معیشت کی ترقی کا راستہ نہیں سوچا بلکہ بھلا ہو عالمی بینک کا جس نے بتا دیا کہ مزید ایک کروڑ افراد غربت کی نچلی سطح پر جانے والے ہیں۔ پہلے ہی 40 فی صد لوگ غربت کی سطح سے نیچے ہیں۔
اس بات نے مجھے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے کہ 10 سے گیارہ کروڑ افراد تو پہلے ہی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی اکثریت جھونپڑی میں بھی رہتی ہے۔ معمولی محنت مزدوری کر کے ایک آدھ روٹی کھا کر بھی گزارا کر لیتی ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر بھی گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ میلوں پیدل سفر کر لیتے ہیں، لیکن نہ حکومت سے نہ معاشرے سے نہ نظام سے کوئی شکایت کرتے ہیں۔ ان کی قوت خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستان میں ایک اور اہم طبقہ سرکاری ملازمین کا بھی ہے جس کی تنخواہیں بظاہر زیادہ معلوم دیتی ہیں لیکن اسی حساب سے ان کے اخراجات بھی ہیں۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کی خاطر ہزاروں روپے مکان کرایہ پر، ہزاروں روپے بچوں کی تعلیم پر اور دیگر پر خرچ کرکے ان کے پلے کچھ باقی نہیں بچتا۔
میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لوگ بھی غربت کی لکیر کے نیچے جانے سے شاید بچ سکتے ہیں، لیکن آخر وہ کون لوگ ہو سکتے ہیں جو اس مرتبہ کثیر تعداد میں غربت کی لکیر کے نیچے جا کر عالمی بینک کی بات کو کسی حد تک درست ثابت کر سکتے ہیں کہ کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔
میری تشویش اس وقت حیرت میں بدل گئی، میں انگشت بدنداں رہ گیا کہ ان لوگوں کی طرف میری نظر کیوں نہ گئی کہ مجھے ایک پنشن یافتہ قاری کا خط موصول ہوا۔ مسٹر زی نے لکھا کہ ''سرکاری ملازمین جنھوں نے 60 سال کی عمر تک ملک کی خدمت کی، آج کل مہنگائی کے باعث تنگ دستی، مفلوک الحالی اور مفلسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ملنے والی پنشن اتنی بھی نہیں ملتی جس سے کرایہ مکان، بجلی بل اور دیگر اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ حکومت سال بعد صرف 10 فی صد اضافہ کرتی ہے جو ناکافی ہوتا ہے۔''اس طبقے کی بدقسمتی یہ ہے کہ پیرانہ سالی، طرح طرح کی بیماریوں میں گھرے ہوئے، چلتے پھرتے ہیں۔
مشکلات کے سبب کوئی نجی ادارہ انھیں ملازم رکھنے کو تیار نہیں۔ یہ سرمایہ کار نہیں لہٰذا کسی قسم کے کاروبار کرنے سے محروم، ان تمام باتوں کے سبب انھیں پنشن کی آمدن پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے، شدید مہنگائی، جو صرف خوراک پر حملہ آور نہیں ہے بلکہ مکانوں کے کرایوں میں 50 فی صد سے زائد اضافہ، کرایوں میں 18 فی صد سے زائد اضافہ، ادویات کی قیمتوں میں بار بار ہوش ربا اضافہ اور بہت سی باتیں مل کر اب یہ پنشن یافتہ بوڑھے کمزور نحیف ناتواں بیمار افراد بتدریج غربت کی گہری کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔
اس بجٹ کے موقع پر کون سے ایسے اقدامات کیے جانے چاہئیں جس سے ایک کروڑ کے لگ بھگ افراد غربت کی نچلی سطح کی طرف نہ جائیں۔ اول ٹیکس کی رقم میں اضافہ جس کے لیے صرف اتنا کر دیں کہ کوئی ایسا انتظام ہو جائے کہ ٹیکس جمع کرنے والے کرپشن چھوڑ دیں۔ بصورت دیگر حکومت ان کے بنگلوں، ان کے ٹھاٹ باٹ، ان کی قیمتی گاڑیوں کی باز پرس کر ڈالے تو بات واضح ہو جائے گی۔
دیگر اشرافیہ پر تمام فضول، غیر ضروری اور ایسی مراعات جن پر کافی رقم صرف ہوتی ہے وہ سلسلہ کم از کم 50 فی صد کم کر دیں۔ آیندہ سیزن کے لیے کسانوں کو سرکاری نرخ کی کھاد فراہمی، پانی کی بروقت بقدر ضرورت فراہمی اور دیگر مراعات و رعایتیں دی جائیں۔
کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنائی جائے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے علاوہ پنشن یافتہ افراد کی پنشن میں کم ازکم 50 فی صد اضافہ کیا جائے کیونکہ یہ طبقہ کرایہ مکان، سفری خرچ، میڈیکل الاؤنس اور دیگر الاؤنسز سے محروم رہتا ہے اور صرف اور صرف پنشن کی رقم پر ہی گزارا کرتا ہے۔ بصورت دیگر یہی افراد بڑی تعداد میں قوت خرید میں کمی کے باعث بتدریج غربت کی کھائی میں گرتے چلے جائیں گے۔