عدلیہ کو اپنی صفوں میں بہتری کی ضرورت ہے خواجہ آصف
عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ 138 ویں نمبر پر ہے، ججز کے فیصلوں کو بولنا چاہیے، وزیر دفاع کی سینٹر اسٹیج میں گفتگو
وزیر دفاع اور سینئر لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ کو بھی اپنی صفوں میں بہتری کی بہت ضرورت ہے، ججز کو نہیں بلکہ اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کے کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے ، عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ 138 ویں نمبر پر ہے۔ سیاسی نمائندوں کو اپنی صفوں میں بہتری کی ضرورت ہے لیکن عدلیہ میں بھی اپنی صفوں میں بہتری کی بہت ضرورت ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ لوئر اور اعلیٰ عداتیں بتا دیں کہ ہمارا 138 ویں نمبر پر کیوں ہیں ؟ اور عدلیہ کے حوالے سے ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ بین الاقوامی رینکنگ ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے اپنے آپ کو استعمال ہونے کی اجازت دی ،عدلیہ سیاسی انتقام کا آلہ کار بنی یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے معاملے پر جو اب صورتحال ہے وہ غیر معمولی ہے اور اگر عدلیہ کی عالمی سطح پر رینکنگ بہتر ہوتی ہے تو ہم ججز کے ہاتھ چومیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کہا کہ ججز کوئی بادشاہ نہیں، ججز کو آئین کو قانون کے دائرے میں رہ کر آپریٹ کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ چند ماہ سے ٹی وی پر عدلیہ کی پریزنس بہت بڑھ گیا ہے، ٹی وی پر عدلیہ کے ٹکرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کہ عدلیہ کے لیے خود بھی ٹھیک نہیں، منصف کو اتنا ویزیبل نہیں ہونا چاہیے، ججز کو نہیں بولنا چاہیے ان کے فیصلے بولنے چاہیں ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے ہاوس کو ان آرڈر بھی کر رہے ہیں۔
لا پتا افراد کے معاملے پر وفاقی وزیر خواجہ آصف نے بتایا کہ 2013 میں مجھے لاپتا افراد کیس میں عدالت بلایا گیا میں بطور وزیر دفاع عدالت میں پیش ہوا تھا، ڈیفنس سیکریٹری نے عذر پیش کیا اور مسنگ پرسن کے کیس میں ڈیفنس سیکریٹری پیش نہیں ہوئے تھے، مسنگ پرسن کی لسٹ میں تقریبا 3 سے 4 ہزار لوگوں کے نام تھے، ہم نے کہا تھا کہ یہ لسٹ مستند اور ٹھیک نہیں ہے، جس کے بعد فہرست تین ہزار سے ایک ہزار پر آگئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم نے لوکیشنز بتائیں ، اس وقت کوہاٹ ، ایبٹ آباد کے قریب کچھ کیمپس تھے کچھ لوگ وہاں پر تھے، کچھ لوگ ملک سے باہر چلے گئے تھے اور وہ بھی لاپتا افراد میں شمار ہوئے تھے، ان میں کچھ لوگ دبئی ، مسقط یورپ میں بیٹھے تھے۔ ان کے گھر والوں کو حکومت کی طرف سے پیسے ملتے تھے اور وہ وصول کرتے تھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ میں لاپتا افراد کیس میں تعاون کرنے کو تیار ہوں، لاپتا افراد مسئلے کا سیاسی معاملہ بھی ہے لیکن مسنگ پرسن ہونے کے اور بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، بہت سے کیسز ایسے ہیں کہ لوگ خود لاپتا ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ایران کے حدود میں حملے میں مسنگ پرسن مارے گئے تھے، جب دہشت گرد مارے جاتے ہیں اور شناخت ہوتی ہے تو وہ مسنگ پرسن نکلتا ہے، عدلیہ کو بھی اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور اس کا تعین کیا جائے کہ کتنے افراد مسنگ پرسنز ہیں ۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ کا منقطع ہونا یا نہ ہونا ایک بڑا ظلم ہے کیونکہ بات چیت کا عمل منقطع ہونے کے عام آدمی کی زندگی پر گھناؤنے اثرات ہوں گے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: لاپتا افراد کے تمام مقدمات براہ راست نشر کرنے کا حکم
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد میں نے جو پی ٹی آئی کے لیے معافی کی بات کی تھی وہ یہ کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی والے 9 مئی واقعات کی ذمہ داری لیتے ہیں تو معافی کی آفر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اگر سیاسی دھارے کا حصہ بنتی ہے تو معافی کے کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
پروگرام اینکر رحمان اظہر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے کس کی بات مانی جائے؟ کل پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دن میں تین بیانات آئے، بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب اور شاید شبلی فراز کا بیان سامنے آئے۔ ان تینوں رہنماؤں کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف تھے،پی ٹی آئی والے پہلے گھر بیٹھ کر اپنے بیانات تو آپس میں ملا لیں پھر بیانات دیں ، جو بھی بانی پی ٹی آئی سے مل کر آتا ہے وہ میڈیا پر اپنی دکان کھول لیتا ہے ،جن کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوتی وہ اپنی الگ دکان کھول لیتے ہیں۔
سینئرلیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف کو ملنے آئے، ہم اتنی محبت سے شہباز شریف سے بات نہیں کرتے جتنی گنڈا پور صاحب نے کی، اندر اتنی محبت دکھاتے اور باہر بیٹھ کر بڑھکیں مارتے ہیں،ایسی صورتحال میں اب بندہ کس کے ساتھ ڈیل کرے ؟
پی ٹی آئی کے الزامات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انتخابی دھاندلی اور ناجائز کیسز کے معاملے پر سینکڑوں لوگ عدالتوں میں چلے گئے، جہاں جہاں پی ٹی آئی ہاری وہاں کے امیدوار عدالتوں میں چلے گئے، ہمارے لوگ بھی عدالتوں میں گئے ہوئے ہیں ، دھاندلی کی تحقیقات کی بات تو عدالتوں میں چلی گئی، عدالتی نظام موجود ہے، ،عدالتیں انکوائری کر کے ، فارم 47 منگوا کر ریکارڈ منگوا کر فیصلہ کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نو مئی واقعات میں ملوث لوگ ویڈیو میں آئے ہوئے ہیں جو 9 مئی واقعات میں ملوث تھے اُن کی شناخت ہو چکی ہے،کچھ لوگوں نے ٹی وی پر آ کر اعتراف بھی کیا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی، انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے غلط کیا اور انہیں ایسانہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ان سے زبردستی حملہ کروایا گیا تو وہ ٹی وی پر آ کر کہیں کہ ہم سے زبردستی کرا یا ،نو مئی میں ملوث افراد کے لیے یہ آپشن بھی موجود ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے والا معاملہ تجاوزات کا پہلا نوٹس پی ٹی آئی دور میں ہی گیا، پی ٹی آئی کے دفتر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا،اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما جھوٹ بول رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روف حسن معاملے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے،ایسے واقعات ہو جاتے ہیں، الیکشن میں میرے منہ پر موبل آئل پھینکا گیا، احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رؤف حسن کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ان کے ساتھ ہمارے خاندانی تعلقات ہیں، روف حسن نواز شریف کے ایڈوائزر رہے ہوئے ہیں، نواز شریف کی جلا وطنی کے دور میں رؤف حسن ان کے بہت قریب رہے، مجھے دکھ ہے کہ ان کے سا تھ یہ واقعہ ہوا میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں، مجھ پر موبل آئل پھینکنے والا پکڑا گیا تھا، میں نے پولیس کو اس کیخلاف کارروائی سے منع کر دیا ، اس وقت ہمارے خلاف فیض آباد والا پروپیگنڈا کیا گیا۔
پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ معاملات پر بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میں افغانستان کو قصوروار نہیں ٹھہراوں گا، ہماری 70 سے 80 کی دہائیوں کی پالیسی ناقص تھی، وہ پالیسی پاکستان کے مفادات کے مطابق نہیں تھی، یہ افغانستان والوں کا قصور نہیں بلکہ ہمارا قصور تھا، جنگ میں پنگا ہم نے لیا تھا ، اگر ہم جنگ میں شامل نہ ہوتے تو ایسی صورت حال نہ ہوتی، امریکا سے چار پیسے لینے تھے ، ہم نے اپنا ملک کرائے پر چڑھا دیا اور اس کی قیمت ہم آج تک چُکا رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغا نستان کے خطے سے ہمارے خلاف اقدامات نہ ہوں، ہمیں روسی مداخلت کیخلاف امریکا کا بغل بچہ نہیں بننا چاہیے تھا۔یہ ہم نے تاریخ میں غلطی کی،اس پر ہمیں اللہ سے معافی مانگنی چاہیے، ضیاالحق دور میں غلطی کی مشرف دور میں دوبارہ غلطی کی، دو دفعہ ہم نے خود کو بیچا۔
افغان حکام سے مذاکرات متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں افغان حکام سے خود بات چیت کرنے کابل چلا گیا تھا،ان کے دروازے پر جا کر دستک دی اور کہا کہ ہمسائیوں کی طرح رہیں ، لیکن اس کے بعد امن نہیں ہوا، افسوسناک ہے کہ ہمارے محافظ ، ہمارے بچے ، پولیس والے شہید ہو رہے ہیں اور ہمارے رابطوں کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کے معاملے پر ہمارے رابطے چلتے رہتے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا،ا فغان حکام نے ہم سے کہا کہ ہمیں 10 ارب روپے دو،ہم انہیں ری لوکیٹ کر دیتے ہیں ، مغربی افغانستان کے صوبے میں بھیج دیتے ہیں، ہم نے کہا کہ 10 ارب بھی دیں اور اس کے بعد دو تین ماہ میں چل کر پھر ہمارے بارڈر پر آجائیں۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا موقف تھا کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا نہیں ہو گی؟ اس کی کوئی گارنٹی نہیں تھی، صورتحال اب بھی جوں کی توں ہی ہے، ہم تو چاہتے ہیں افغانستان میں امن ہو ہمارے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہوں۔ وہ زبانی گارنٹی دینے کو تیار تھے،انہوں نے کئی دفعہ گارنٹیاں دی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا جیسا انہوں نے کہا اور ہم نے چاہا تھا، ہم دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں، اللہ ہمیں کامیابی دے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کے کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے ، عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ 138 ویں نمبر پر ہے۔ سیاسی نمائندوں کو اپنی صفوں میں بہتری کی ضرورت ہے لیکن عدلیہ میں بھی اپنی صفوں میں بہتری کی بہت ضرورت ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ لوئر اور اعلیٰ عداتیں بتا دیں کہ ہمارا 138 ویں نمبر پر کیوں ہیں ؟ اور عدلیہ کے حوالے سے ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ بین الاقوامی رینکنگ ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے اپنے آپ کو استعمال ہونے کی اجازت دی ،عدلیہ سیاسی انتقام کا آلہ کار بنی یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے معاملے پر جو اب صورتحال ہے وہ غیر معمولی ہے اور اگر عدلیہ کی عالمی سطح پر رینکنگ بہتر ہوتی ہے تو ہم ججز کے ہاتھ چومیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کہا کہ ججز کوئی بادشاہ نہیں، ججز کو آئین کو قانون کے دائرے میں رہ کر آپریٹ کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ چند ماہ سے ٹی وی پر عدلیہ کی پریزنس بہت بڑھ گیا ہے، ٹی وی پر عدلیہ کے ٹکرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کہ عدلیہ کے لیے خود بھی ٹھیک نہیں، منصف کو اتنا ویزیبل نہیں ہونا چاہیے، ججز کو نہیں بولنا چاہیے ان کے فیصلے بولنے چاہیں ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے ہاوس کو ان آرڈر بھی کر رہے ہیں۔
لا پتا افراد کے معاملے پر وفاقی وزیر خواجہ آصف نے بتایا کہ 2013 میں مجھے لاپتا افراد کیس میں عدالت بلایا گیا میں بطور وزیر دفاع عدالت میں پیش ہوا تھا، ڈیفنس سیکریٹری نے عذر پیش کیا اور مسنگ پرسن کے کیس میں ڈیفنس سیکریٹری پیش نہیں ہوئے تھے، مسنگ پرسن کی لسٹ میں تقریبا 3 سے 4 ہزار لوگوں کے نام تھے، ہم نے کہا تھا کہ یہ لسٹ مستند اور ٹھیک نہیں ہے، جس کے بعد فہرست تین ہزار سے ایک ہزار پر آگئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم نے لوکیشنز بتائیں ، اس وقت کوہاٹ ، ایبٹ آباد کے قریب کچھ کیمپس تھے کچھ لوگ وہاں پر تھے، کچھ لوگ ملک سے باہر چلے گئے تھے اور وہ بھی لاپتا افراد میں شمار ہوئے تھے، ان میں کچھ لوگ دبئی ، مسقط یورپ میں بیٹھے تھے۔ ان کے گھر والوں کو حکومت کی طرف سے پیسے ملتے تھے اور وہ وصول کرتے تھے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ میں لاپتا افراد کیس میں تعاون کرنے کو تیار ہوں، لاپتا افراد مسئلے کا سیاسی معاملہ بھی ہے لیکن مسنگ پرسن ہونے کے اور بھی بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں، بہت سے کیسز ایسے ہیں کہ لوگ خود لاپتا ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے ایران کے حدود میں حملے میں مسنگ پرسن مارے گئے تھے، جب دہشت گرد مارے جاتے ہیں اور شناخت ہوتی ہے تو وہ مسنگ پرسن نکلتا ہے، عدلیہ کو بھی اس معاملے کو دیکھنا چاہیے اور اس کا تعین کیا جائے کہ کتنے افراد مسنگ پرسنز ہیں ۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ کا منقطع ہونا یا نہ ہونا ایک بڑا ظلم ہے کیونکہ بات چیت کا عمل منقطع ہونے کے عام آدمی کی زندگی پر گھناؤنے اثرات ہوں گے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: لاپتا افراد کے تمام مقدمات براہ راست نشر کرنے کا حکم
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد میں نے جو پی ٹی آئی کے لیے معافی کی بات کی تھی وہ یہ کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی والے 9 مئی واقعات کی ذمہ داری لیتے ہیں تو معافی کی آفر ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اگر سیاسی دھارے کا حصہ بنتی ہے تو معافی کے کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
پروگرام اینکر رحمان اظہر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے حوالے سے کس کی بات مانی جائے؟ کل پی ٹی آئی کی جانب سے ایک دن میں تین بیانات آئے، بیرسٹر گوہر ، عمر ایوب اور شاید شبلی فراز کا بیان سامنے آئے۔ ان تینوں رہنماؤں کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف تھے،پی ٹی آئی والے پہلے گھر بیٹھ کر اپنے بیانات تو آپس میں ملا لیں پھر بیانات دیں ، جو بھی بانی پی ٹی آئی سے مل کر آتا ہے وہ میڈیا پر اپنی دکان کھول لیتا ہے ،جن کی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات نہیں ہوتی وہ اپنی الگ دکان کھول لیتے ہیں۔
سینئرلیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈا پور وزیر اعظم شہباز شریف کو ملنے آئے، ہم اتنی محبت سے شہباز شریف سے بات نہیں کرتے جتنی گنڈا پور صاحب نے کی، اندر اتنی محبت دکھاتے اور باہر بیٹھ کر بڑھکیں مارتے ہیں،ایسی صورتحال میں اب بندہ کس کے ساتھ ڈیل کرے ؟
پی ٹی آئی کے الزامات سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ انتخابی دھاندلی اور ناجائز کیسز کے معاملے پر سینکڑوں لوگ عدالتوں میں چلے گئے، جہاں جہاں پی ٹی آئی ہاری وہاں کے امیدوار عدالتوں میں چلے گئے، ہمارے لوگ بھی عدالتوں میں گئے ہوئے ہیں ، دھاندلی کی تحقیقات کی بات تو عدالتوں میں چلی گئی، عدالتی نظام موجود ہے، ،عدالتیں انکوائری کر کے ، فارم 47 منگوا کر ریکارڈ منگوا کر فیصلہ کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ نو مئی واقعات میں ملوث لوگ ویڈیو میں آئے ہوئے ہیں جو 9 مئی واقعات میں ملوث تھے اُن کی شناخت ہو چکی ہے،کچھ لوگوں نے ٹی وی پر آ کر اعتراف بھی کیا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی، انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے غلط کیا اور انہیں ایسانہیں کرنا چاہیے تھا۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ان سے زبردستی حملہ کروایا گیا تو وہ ٹی وی پر آ کر کہیں کہ ہم سے زبردستی کرا یا ،نو مئی میں ملوث افراد کے لیے یہ آپشن بھی موجود ہے۔
لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے والا معاملہ تجاوزات کا پہلا نوٹس پی ٹی آئی دور میں ہی گیا، پی ٹی آئی کے دفتر کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا،اس حوالے سے پی ٹی آئی کے رہنما جھوٹ بول رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روف حسن معاملے کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے،ایسے واقعات ہو جاتے ہیں، الیکشن میں میرے منہ پر موبل آئل پھینکا گیا، احسن اقبال پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ رؤف حسن کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، ان کے ساتھ ہمارے خاندانی تعلقات ہیں، روف حسن نواز شریف کے ایڈوائزر رہے ہوئے ہیں، نواز شریف کی جلا وطنی کے دور میں رؤف حسن ان کے بہت قریب رہے، مجھے دکھ ہے کہ ان کے سا تھ یہ واقعہ ہوا میری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں، مجھ پر موبل آئل پھینکنے والا پکڑا گیا تھا، میں نے پولیس کو اس کیخلاف کارروائی سے منع کر دیا ، اس وقت ہمارے خلاف فیض آباد والا پروپیگنڈا کیا گیا۔
پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ معاملات پر بات کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ میں افغانستان کو قصوروار نہیں ٹھہراوں گا، ہماری 70 سے 80 کی دہائیوں کی پالیسی ناقص تھی، وہ پالیسی پاکستان کے مفادات کے مطابق نہیں تھی، یہ افغانستان والوں کا قصور نہیں بلکہ ہمارا قصور تھا، جنگ میں پنگا ہم نے لیا تھا ، اگر ہم جنگ میں شامل نہ ہوتے تو ایسی صورت حال نہ ہوتی، امریکا سے چار پیسے لینے تھے ، ہم نے اپنا ملک کرائے پر چڑھا دیا اور اس کی قیمت ہم آج تک چُکا رہے ہیں۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ افغا نستان کے خطے سے ہمارے خلاف اقدامات نہ ہوں، ہمیں روسی مداخلت کیخلاف امریکا کا بغل بچہ نہیں بننا چاہیے تھا۔یہ ہم نے تاریخ میں غلطی کی،اس پر ہمیں اللہ سے معافی مانگنی چاہیے، ضیاالحق دور میں غلطی کی مشرف دور میں دوبارہ غلطی کی، دو دفعہ ہم نے خود کو بیچا۔
افغان حکام سے مذاکرات متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں افغان حکام سے خود بات چیت کرنے کابل چلا گیا تھا،ان کے دروازے پر جا کر دستک دی اور کہا کہ ہمسائیوں کی طرح رہیں ، لیکن اس کے بعد امن نہیں ہوا، افسوسناک ہے کہ ہمارے محافظ ، ہمارے بچے ، پولیس والے شہید ہو رہے ہیں اور ہمارے رابطوں کے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان کے معاملے پر ہمارے رابطے چلتے رہتے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا،ا فغان حکام نے ہم سے کہا کہ ہمیں 10 ارب روپے دو،ہم انہیں ری لوکیٹ کر دیتے ہیں ، مغربی افغانستان کے صوبے میں بھیج دیتے ہیں، ہم نے کہا کہ 10 ارب بھی دیں اور اس کے بعد دو تین ماہ میں چل کر پھر ہمارے بارڈر پر آجائیں۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا موقف تھا کہ اس کی کیا گارنٹی ہے کہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا نہیں ہو گی؟ اس کی کوئی گارنٹی نہیں تھی، صورتحال اب بھی جوں کی توں ہی ہے، ہم تو چاہتے ہیں افغانستان میں امن ہو ہمارے ساتھ بھی تعلقات اچھے ہوں۔ وہ زبانی گارنٹی دینے کو تیار تھے،انہوں نے کئی دفعہ گارنٹیاں دی ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا جیسا انہوں نے کہا اور ہم نے چاہا تھا، ہم دہشت گردی کا مقابلہ کر رہے ہیں، اللہ ہمیں کامیابی دے گا۔