آ بیل مجھے مار
کسی زمانے میں آمریتیں لوگوں پہ گولیاں چلاتی تھیں، آج کل جمہوریتوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔
ISLAMABAD:
کسی زمانے میں آمریتیں لوگوں پہ گولیاں چلاتی تھیں، آج کل جمہوریتوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ آمریتیں اور جمہوریتیں گڈمڈ سی ہوگئی ہیں کہ جیسے کوئی سراب ہو یا پھر شاید ہماری بینائی میں کوئی خلل ہے۔ پہلے جمہوریت کے رکھوالے سڑکوں پر نکلتے تھے، آج کل آمریتوں کے رکھوالے راستوں پر ہیں۔ کیسا زمانہ آگیا ہے، جو قاتل تھے وہ مقتول ہوئے، جو مقتول تھے وہ قاتل۔ کل تک یہ کام سیکولر قوتیں کرتی تھیں، کوئی بائیں بازو ہوا کرتا تھا، تو کوئی دائیں بازو۔ آج کل یہ فرق بھی ختم ہوا۔
اب گولی چلانے والا بھی دائیں بازو سے تو گولی کھانے والا بھی۔ بائیں بازو کے کچھ لوگ خیر بخش مری کی طرح بندوق اٹھا کے علیحدگی پرست ہوگئے تو کچھ اسفندیار ولی کی طرح۔ زرداری صاحب نہ دائیں رہے نہ بائیں، کچھ اپنی اماں کی بازگشت اس کے بیٹے میں سننے کو ملتی ہے مگر وہ بھی ٹوئیٹر پر، آج کل وہ ڈالی بھی چھوڑ کے کہیں اور بسیرا کر بیٹھے ہیں۔
ادھر نریندر مودی ہیں تو دوسری طرف عبداﷲ عبداﷲ اور تیسری طرف ایران کے اور القاعدہ کے دوستوں نے سنی عرب، عراق پر حکومت کے خیمے گاڑ دیے ہیں،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ طاہر القادری جمہوریت کو ٹھیس پہنچانے والوں میں سے ہیں تو میاں صاحب جمہوریت بچانے والوں میں۔ اور یہ بھی سچ ہے ''جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ'' میاں صاحب ''آبیل مجھے مار'' کے پرانے عادی ہیں۔ وہ گول اپنی ہی ٹیم کے خلاف کرتے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو بھی آ بیل مجھے مار والا کام کیا۔ آج کل مشرف کے معاملہ پر بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
''گلوبٹ'' کو میدان میں لے آئے۔ گلو بٹ ریمبو کی طرح گاڑیوں کے شیشے چور کرتے رہے اور بے رحم کیمرہ یہ محفوظ کرتا گیا۔ طاہر القادری زیرو سے ہیرو بن گئے اور عمران خان کی اس بات میں بھی وزن پڑتا نظر آیا کہ پنجاب پولیس اگر یہ ہے تو پنجاب میں دھاندلی بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے پاس کوئی نہ کوئی گلوبٹ جیسا جناتی کردار بیلٹ باکس میں جوہر دکھانے والا بھی ہوگا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن آتی ہے بھاری مینڈیٹ سے آتی ہے اور جمہوریت کے اس سفر کو نقصان پہنچنا شروع ہوجاتا ہے پھر اک نیا سفر شروع کرنا پڑ جاتا ہے جمہوری قوتوں کو۔
''یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر'' فیض تو بہت پہلے ہی سمجھ گئے تھے یہ وہ سحر نہیں۔ رہے نواب خیر بخش مری تو انھوں نے امید کا دامن چھوڑ دیا۔ باچا خان جلال آباد تدفین ہونے کو چلے گئے، شہید سہروردی بیروت کے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ ان کی بیٹی اپنی یادداشت میں لکھتی ہیں کہ ان کے مرنے سے کچھ دن پہلے جنرل ایوب کے وزیر بھٹو نے ان کو فون کرکے کہا تھا کہ سمجھاؤ اپنے باپ کو ورنہ وہ حشر کریں گے اس کا۔۔۔۔۔!
بڑی دیر سے آیا بڑا بھائی پنجاب (سب سے بڑے بھائی ایسٹ پاکستان کے جانے کے بعد) جمہوریت کے راستے پر ۔ وہ قانون کی حکمرانی (جوکہ دراصل جمہوریت کی بحالی کی تحریک تھی) تحریک چلائی کہ آپ آمر کو رخصت ہونا پڑا لیکن لال مسجد والوں سے بہت قربت رکھتے تھے۔ یوں کہیے کہ وکلا کی چلائی ہوئی قانون کی حکمرانی کی تحریک بھی شب گزیدہ سحر تھی۔
عجیب باتیں ہیں رومی کی، کہتے ہیں جب باغ میں چوہے آجائیں تو بلبلیں چھپ جایا کرتی ہیں۔ آج کل باغ جمہوریت پر گلوبٹ کے ڈیرے ہیں۔
ہم شاید یہ اب تک سمجھ نہیں پائے کہ امریکا و ایران میں نئے سرے سے دوستی کے باب کھل رہے ہیں۔ وہ جو اسٹریٹجک یاریاں سرد جنگ کے پس منظر میں امریکا نے ایوب و ضیا الحق سے کی تھیں، وہ اب القاعدہ اور ان کے اتحادیوں کے قبضے کے بعد، بغداد کے قریب آنے کے بعد روزہ امام حسین کو خطرات کے بعد ایران سے ہونے لگی ہیں اور ایران اس روزے کی حفاظت کے لیے تیار بیٹھا ہوا ہے۔
سعودی عرب امریکا کے ایران سے بڑھتے ہوئے یارانے سے خائف ہے اور اگر خدانخواستہ اس طرح پاکستان بھی انتہاپرستوں کے ہتھے لگ جاتا ہے تو تینوں سرحدوں پر بیٹھے ممالک امریکا کے اور قریب آجائینگے اور امریکا سمندر میں کہیں اپنے بیڑے نہ لے کر آجائے لیکن ہماری فوج کو سلام ہو کہ وہ ہمیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے صف آرا ہے اور آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے مگر انھوں نے اپنے اس آئینی فریضے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہ بھی اس ملک کے لیے اتنا ہی بھیانک ہوگا جتنا یہ انتہا پرست ہیں۔ سب چمچہ گیری کرنے والے لوگ جن کی عوام میں کوئی جڑیں نہیں، اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے وہاں پہنچ جائینگے اور ان پھٹی پرانی بوسیدہ Narrative میں راگ الاپیں گے۔ اس جمود کا فائدہ ہمارے پڑوس میں رہتے دشمنوں کو ہوگا، وہ پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔
کیا ہوگا اگر عزیز ہم وطنوں کا پہلا دن آئے گا۔ سب چوہے خوش ہوں گے، پھر بلبلیں چھپ جائیں گی، کچھ دن تو خیریت سے گزر جائیں گے پھر ایک لیگل آرڈر آئے گا، پھر کچھ پرانی تنخواہ پر نئے حکمرانوں کے ساتھ کام کریں گے، کچھ اپنی جزا کو پہنچیں گے اور کچھ سزا پائیں گے۔ دو چار اہل جنوں عاصمہ جہانگیر کی طرح چلائیں گے، کچھ قید کی صعوبتیں کاٹیں گے، کچھ جلاوطن ہوجائیں گے۔ چلو مان لیا امریکا بھی اٹھتی ہوئی انتہا پرستی کی نئی لہر میں اس خطے میں کل جو کسی اور کے ساتھ کھڑا تھا آج ایران کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا، کچھ یارانے بن جائیں پھر نئے آمر کے ساتھ ان کے۔ لیکن ایک دن اور وہ بھی شاید اس بار ایک سال کی آمریتی دور کے بعد نام نہاد انتخابات کرانے پڑجائیں۔
نظریہ ضرورت کے تحت پھر منظر نامہ سجے گا ،چار سال آمر کو ہٹانے کے لیے تحریک شروع۔ ''گلوبٹ'' والے جمہوریت کے پاسدار بن جائیں گے۔ پھر حضرت قائم علی شاہ بحالی جمہوریت کے سفر پر گامزن ہوجائیں گے۔ آمر اکتا جائے گا اور پھر کچھ لوگ چھپ کے سیاستدانوں کو اکسائیں گے۔ لیکن اس وقت ہمارے بیرونی قرضے سو ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اندرونی قرضوں کی تو کوئی بات نہیں، وہ نوٹ چھاپ کے واپس لیے جاسکتے ہیں) ڈالر ہم چھاپ نہیں سکتے، ملک اور گروی ہوجائے گا۔
اس لیے ان حکمرانوں کو نکالنے کے لیے جو آئینی طریقہ ہے وہی بہتر ہے اور معیشت کی مضبوطی سے بڑا مقصد کوئی اور نہیں۔ یقیناً انتہا پرستی کو ختم کرنے سے ایک یا دو فیصد شرح نمو اور زیادہ بڑھے گی اور اس کا سرا ''گلو بٹ'' کو نہیں جائے گا۔ نہ ضیا الحق نہ ضیا الحق کے پرستاروں کو۔ آج اس ملک اور اس فوج کا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ خود ضیا الحق اور اس کے دیے ہوئے یہ انتہا پرست اور اس کے افکار ہیں۔
بھول جائیے کچھ وقت کے لیے کشمیر بنے گا پاکستان۔ ہمارے نبی نے بھی صلح حدیبیہ کیا تھا اور ہم بھی یہ زہر بھری گولی کچھ وقت کے لیے کھالیں۔ ایک مضبوط پاکستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس خطے کی ترقی و امن کے لیے ضروری ہے۔ ایک ہندوستان گاندھی والا بھی ہے۔ ہمیں وہاں کے عوام پر یقین ہونا چاہیے وہ یقیناً پاکستان دوست ہیں، اگر ان کی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے تو کیا، پاکستان کا مسئلہ پاکستان کی اشرافیہ ہے۔ ٹیکس چوروں، چمچوں و چاپلوسوں والی شرفا۔ ان شرفا میں کوئی برلا، کوئی ٹاٹا نہیں۔ کچھ خیر بخش مری جیسے ایماندار لوگ تھے جو علیحدگی کا راستہ اختیار کر بیٹھے۔ مگر آج بھی یہ شب گزیدہ سحر ہے اور گلو بٹ کی ڈگر ہے تو کوئی بات نہیں۔ یہ ایک سحر ہے اور کئی سحریں بے داغ اجالوں سے بھری صبحیں آنے کی منتظر ہیں، ذرا ان کو آنے کا راستہ دیجیے۔
کسی زمانے میں آمریتیں لوگوں پہ گولیاں چلاتی تھیں، آج کل جمہوریتوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ آمریتیں اور جمہوریتیں گڈمڈ سی ہوگئی ہیں کہ جیسے کوئی سراب ہو یا پھر شاید ہماری بینائی میں کوئی خلل ہے۔ پہلے جمہوریت کے رکھوالے سڑکوں پر نکلتے تھے، آج کل آمریتوں کے رکھوالے راستوں پر ہیں۔ کیسا زمانہ آگیا ہے، جو قاتل تھے وہ مقتول ہوئے، جو مقتول تھے وہ قاتل۔ کل تک یہ کام سیکولر قوتیں کرتی تھیں، کوئی بائیں بازو ہوا کرتا تھا، تو کوئی دائیں بازو۔ آج کل یہ فرق بھی ختم ہوا۔
اب گولی چلانے والا بھی دائیں بازو سے تو گولی کھانے والا بھی۔ بائیں بازو کے کچھ لوگ خیر بخش مری کی طرح بندوق اٹھا کے علیحدگی پرست ہوگئے تو کچھ اسفندیار ولی کی طرح۔ زرداری صاحب نہ دائیں رہے نہ بائیں، کچھ اپنی اماں کی بازگشت اس کے بیٹے میں سننے کو ملتی ہے مگر وہ بھی ٹوئیٹر پر، آج کل وہ ڈالی بھی چھوڑ کے کہیں اور بسیرا کر بیٹھے ہیں۔
ادھر نریندر مودی ہیں تو دوسری طرف عبداﷲ عبداﷲ اور تیسری طرف ایران کے اور القاعدہ کے دوستوں نے سنی عرب، عراق پر حکومت کے خیمے گاڑ دیے ہیں،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ طاہر القادری جمہوریت کو ٹھیس پہنچانے والوں میں سے ہیں تو میاں صاحب جمہوریت بچانے والوں میں۔ اور یہ بھی سچ ہے ''جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ'' میاں صاحب ''آبیل مجھے مار'' کے پرانے عادی ہیں۔ وہ گول اپنی ہی ٹیم کے خلاف کرتے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو بھی آ بیل مجھے مار والا کام کیا۔ آج کل مشرف کے معاملہ پر بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
''گلوبٹ'' کو میدان میں لے آئے۔ گلو بٹ ریمبو کی طرح گاڑیوں کے شیشے چور کرتے رہے اور بے رحم کیمرہ یہ محفوظ کرتا گیا۔ طاہر القادری زیرو سے ہیرو بن گئے اور عمران خان کی اس بات میں بھی وزن پڑتا نظر آیا کہ پنجاب پولیس اگر یہ ہے تو پنجاب میں دھاندلی بھی ہوسکتی ہے۔ ان کے پاس کوئی نہ کوئی گلوبٹ جیسا جناتی کردار بیلٹ باکس میں جوہر دکھانے والا بھی ہوگا۔کیا ستم ظریفی ہے کہ جب بھی مسلم لیگ ن آتی ہے بھاری مینڈیٹ سے آتی ہے اور جمہوریت کے اس سفر کو نقصان پہنچنا شروع ہوجاتا ہے پھر اک نیا سفر شروع کرنا پڑ جاتا ہے جمہوری قوتوں کو۔
''یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر'' فیض تو بہت پہلے ہی سمجھ گئے تھے یہ وہ سحر نہیں۔ رہے نواب خیر بخش مری تو انھوں نے امید کا دامن چھوڑ دیا۔ باچا خان جلال آباد تدفین ہونے کو چلے گئے، شہید سہروردی بیروت کے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے۔ ان کی بیٹی اپنی یادداشت میں لکھتی ہیں کہ ان کے مرنے سے کچھ دن پہلے جنرل ایوب کے وزیر بھٹو نے ان کو فون کرکے کہا تھا کہ سمجھاؤ اپنے باپ کو ورنہ وہ حشر کریں گے اس کا۔۔۔۔۔!
بڑی دیر سے آیا بڑا بھائی پنجاب (سب سے بڑے بھائی ایسٹ پاکستان کے جانے کے بعد) جمہوریت کے راستے پر ۔ وہ قانون کی حکمرانی (جوکہ دراصل جمہوریت کی بحالی کی تحریک تھی) تحریک چلائی کہ آپ آمر کو رخصت ہونا پڑا لیکن لال مسجد والوں سے بہت قربت رکھتے تھے۔ یوں کہیے کہ وکلا کی چلائی ہوئی قانون کی حکمرانی کی تحریک بھی شب گزیدہ سحر تھی۔
عجیب باتیں ہیں رومی کی، کہتے ہیں جب باغ میں چوہے آجائیں تو بلبلیں چھپ جایا کرتی ہیں۔ آج کل باغ جمہوریت پر گلوبٹ کے ڈیرے ہیں۔
ہم شاید یہ اب تک سمجھ نہیں پائے کہ امریکا و ایران میں نئے سرے سے دوستی کے باب کھل رہے ہیں۔ وہ جو اسٹریٹجک یاریاں سرد جنگ کے پس منظر میں امریکا نے ایوب و ضیا الحق سے کی تھیں، وہ اب القاعدہ اور ان کے اتحادیوں کے قبضے کے بعد، بغداد کے قریب آنے کے بعد روزہ امام حسین کو خطرات کے بعد ایران سے ہونے لگی ہیں اور ایران اس روزے کی حفاظت کے لیے تیار بیٹھا ہوا ہے۔
سعودی عرب امریکا کے ایران سے بڑھتے ہوئے یارانے سے خائف ہے اور اگر خدانخواستہ اس طرح پاکستان بھی انتہاپرستوں کے ہتھے لگ جاتا ہے تو تینوں سرحدوں پر بیٹھے ممالک امریکا کے اور قریب آجائینگے اور امریکا سمندر میں کہیں اپنے بیڑے نہ لے کر آجائے لیکن ہماری فوج کو سلام ہو کہ وہ ہمیں اس دلدل سے نکالنے کے لیے صف آرا ہے اور آج پوری قوم ان کے ساتھ ہے مگر انھوں نے اپنے اس آئینی فریضے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہ بھی اس ملک کے لیے اتنا ہی بھیانک ہوگا جتنا یہ انتہا پرست ہیں۔ سب چمچہ گیری کرنے والے لوگ جن کی عوام میں کوئی جڑیں نہیں، اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے وہاں پہنچ جائینگے اور ان پھٹی پرانی بوسیدہ Narrative میں راگ الاپیں گے۔ اس جمود کا فائدہ ہمارے پڑوس میں رہتے دشمنوں کو ہوگا، وہ پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتے۔
کیا ہوگا اگر عزیز ہم وطنوں کا پہلا دن آئے گا۔ سب چوہے خوش ہوں گے، پھر بلبلیں چھپ جائیں گی، کچھ دن تو خیریت سے گزر جائیں گے پھر ایک لیگل آرڈر آئے گا، پھر کچھ پرانی تنخواہ پر نئے حکمرانوں کے ساتھ کام کریں گے، کچھ اپنی جزا کو پہنچیں گے اور کچھ سزا پائیں گے۔ دو چار اہل جنوں عاصمہ جہانگیر کی طرح چلائیں گے، کچھ قید کی صعوبتیں کاٹیں گے، کچھ جلاوطن ہوجائیں گے۔ چلو مان لیا امریکا بھی اٹھتی ہوئی انتہا پرستی کی نئی لہر میں اس خطے میں کل جو کسی اور کے ساتھ کھڑا تھا آج ایران کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا، کچھ یارانے بن جائیں پھر نئے آمر کے ساتھ ان کے۔ لیکن ایک دن اور وہ بھی شاید اس بار ایک سال کی آمریتی دور کے بعد نام نہاد انتخابات کرانے پڑجائیں۔
نظریہ ضرورت کے تحت پھر منظر نامہ سجے گا ،چار سال آمر کو ہٹانے کے لیے تحریک شروع۔ ''گلوبٹ'' والے جمہوریت کے پاسدار بن جائیں گے۔ پھر حضرت قائم علی شاہ بحالی جمہوریت کے سفر پر گامزن ہوجائیں گے۔ آمر اکتا جائے گا اور پھر کچھ لوگ چھپ کے سیاستدانوں کو اکسائیں گے۔ لیکن اس وقت ہمارے بیرونی قرضے سو ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اندرونی قرضوں کی تو کوئی بات نہیں، وہ نوٹ چھاپ کے واپس لیے جاسکتے ہیں) ڈالر ہم چھاپ نہیں سکتے، ملک اور گروی ہوجائے گا۔
اس لیے ان حکمرانوں کو نکالنے کے لیے جو آئینی طریقہ ہے وہی بہتر ہے اور معیشت کی مضبوطی سے بڑا مقصد کوئی اور نہیں۔ یقیناً انتہا پرستی کو ختم کرنے سے ایک یا دو فیصد شرح نمو اور زیادہ بڑھے گی اور اس کا سرا ''گلو بٹ'' کو نہیں جائے گا۔ نہ ضیا الحق نہ ضیا الحق کے پرستاروں کو۔ آج اس ملک اور اس فوج کا دشمن کوئی اور نہیں بلکہ خود ضیا الحق اور اس کے دیے ہوئے یہ انتہا پرست اور اس کے افکار ہیں۔
بھول جائیے کچھ وقت کے لیے کشمیر بنے گا پاکستان۔ ہمارے نبی نے بھی صلح حدیبیہ کیا تھا اور ہم بھی یہ زہر بھری گولی کچھ وقت کے لیے کھالیں۔ ایک مضبوط پاکستان نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس خطے کی ترقی و امن کے لیے ضروری ہے۔ ایک ہندوستان گاندھی والا بھی ہے۔ ہمیں وہاں کے عوام پر یقین ہونا چاہیے وہ یقیناً پاکستان دوست ہیں، اگر ان کی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے تو کیا، پاکستان کا مسئلہ پاکستان کی اشرافیہ ہے۔ ٹیکس چوروں، چمچوں و چاپلوسوں والی شرفا۔ ان شرفا میں کوئی برلا، کوئی ٹاٹا نہیں۔ کچھ خیر بخش مری جیسے ایماندار لوگ تھے جو علیحدگی کا راستہ اختیار کر بیٹھے۔ مگر آج بھی یہ شب گزیدہ سحر ہے اور گلو بٹ کی ڈگر ہے تو کوئی بات نہیں۔ یہ ایک سحر ہے اور کئی سحریں بے داغ اجالوں سے بھری صبحیں آنے کی منتظر ہیں، ذرا ان کو آنے کا راستہ دیجیے۔