کچھ حال رمضان کے مقدس مہینے کا

قابل غور بات یہ ہے کہ ہم رمضان کی محبت میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ انگریزی تاریخوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں ۔


قمر عباس نقوی June 21, 2014

اسلامی سال 1435ہجری کا 9نواں مہینہ رمضان کی آمد آمد ہے ۔ کاروبار زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر فرد اس ماہ مقدس کے اعتبار سے اپنی مصروفیات کے شیڈول میں ردو بدل میں ہمہ تن مصروف ہے۔ روزمرہ ہونے والی گفتگو میں کثرت سے استعمال ہونے والا لفظ ''رمضان '' کا استعمال قمری سال کے باقی 11مہینوں پر افضلیت اور اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے ۔عام طور پر آپ نے لوگوں سے گفتگو کے دوران یہ کہتے ہوئے سُنا ہو گا کہ فلاں کام یا یہ پروگرام رمضان کے بعد ہوگا یا ہم رمضان کے بعد ملیں گے۔ وغیرہ وغیرہ ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ہم رمضان کی محبت میں اتنے کھو جاتے ہیں کہ انگریزی تاریخوں کو بھی فراموش کر دیتے ہیں ۔ اسلام کے پانچ ارکانِ دین میں سب سے اہم رکن یہی رمضان کے روزے ہیں جو سن 2ہجری میں مسلمانوں پر فرض ہوئے ۔ روزہ کیا ہے ؟ روزہ آپ کے نفس کا امتحان (تزکیہ نفس ) ہے۔ ہر بالغ و باشعور مسلمان مرد وعورت کا طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک شدید بھو ک پیاس کی حالت میں نہایت صبر واستقلال کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں مصروف رہنا ، ہر اُس بُرے کام سے پرہیزکرنا جس کا اللہ تعالیٰ کی پاک ذات نے منع فرمایا ہے۔

اپنی ذات ِ کاملہ کو اُس کے احکامات کے مطابق ڈھالنے کی ایک مکمل روحانی مشق ہے۔ مخصوص اشیاء خوردنی مثلاً کھجور، بیسن سے تیار کردہ مزیدار سموسے ، پکوڑے اور دیگر مشروبات جو افطار کی زینت بنتی ہیں اور جو یقینا روزہ دار کے لیے باعث تسکین اور راحت کی رسائی کا سب بڑا ذریعہ ہیں ۔اپنی سال بھر کی کمائی ہو ئی آمدنی میں سے کچھ حصہ خمس اور زکوٰۃ کے لیے مختص کرتے ہوئے اس رقم کو غُرباء اور مساکین میں مساویانہ تقسیم کرنا اِسی با برکت مہینے میں معمول بنا ۔بعد نماز عشاء تراویح کی ادائیگی بھی شروع ہوئی۔

مساجد اور شہر کے وسیع میدانوں میں تراویح کی ادائیگی کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔اس ماہ کے آخری عشرے میں تقریباً ہر مسجد میں روزے دار کے اعتکاف کا بھی انتظام کیا جاتا ہے ۔پختہ نیند میں بیداری بلاشبہ ایک بہت مشکل کام ہے ۔ اور یہ نیند بھی ایسے وقت میں ہو جب انسان خواب ِ خرگوش میں ہو۔ یعنی دنیا سے بالکل بے خبر ۔روزہ کشائی بھی اِسی بابرکت مہینے کی ایک اہم رسم ہے ۔

اوقات کار کی تبدیلی کی وجہ سے سرکاری دفاتر اور معمول کی کاروباری سرگرمیوں میں لا محالہ کمی آ جاتی ہے۔ ضروری اور بنیادی اشیاء خوردنی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں ۔ہر شخص زیادہ سے زیادہ ناجائز منافعے کے حصول کی دوڑ میں مصروف نظر آئے گا۔ حکومت کا ان اشیاء کی قیمتوں کے کنٹرول پر کسی قسم کا اثر نظر نہیں آتا ۔قیمتوں کو کنٹرول اور زائد قیمتوں کی وصولی کی روک تھام کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹوں کی نگرانی میں چھاپہ مار ٹیمیں مارکیٹوں میں چھاپے بھی مارتی ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے دیگر نجی چینلز کی چھاپہ مار ٹیمیں بھی اپنے ویڈیو کیمروں کے ساتھ چھاپے مارتی نظر آئیں گی۔ مگر قیمتوں کے کنٹرول میں کوئی موثر نتائج عوام تک نہیں پہنچ پاتے ۔

اس کے برعکس مغربی ترقی یافتہ اقوام کا اصول ہے کہ ایسے مذہبی مواقعے پر عوام کو واضح رعایتی پیکیج دیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقی معنوں میں وہ فلاحی ریاستیں ہیں جن کے تحت حقوق العباد کی ادائیگی کے معاملات کا طریقہ انھوں نے اسی دین حنیف اسلام سے سیکھا ہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پورے سال میں کیا یہی عبادت و ریاضت کے اس مقدس مہینے میں ہی منافع خوری آخر کیوں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اس مہینے کے مقاصد کو سمجھنے میں کہیں غلطی کر رہے ہوں اور ہم اس مہینے کو ایک فیسٹیول کی شکل میں منانے کی کوشش کر رہے ہوں ۔

ہم نے یہاں تک محسوس کیا ہے کہ کچھ ادارے اپنے کم اُجرت پانے والے ملازمین کو بونس کی شکل میں کچھ رقم کی ادائیگی ایسے مقدس مہینے میں کیا کرتے تھے ۔ جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کر دی گئی ہے۔ کیا یہی ہے'' انڈسٹرلائزیشن یا اسلامائزیشن '' اس وقت ملک میں NGOکے حوالے سے بے شمار فلاحی تنظیمیں کام کررہی ہیں مگر اب تک اُن کے ثمرات غریب عوام تک نہیں پہنچ سکے ۔ افغانستان کی جنگ میں سوویت یونین کے خلاف اپنے ہی لوگوں کو جہاد کے نام پر جہادی بنایا گیا ۔

ہیروئن،کلا شنکوف کلچر اور فرقہ واریت معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر گئی۔ موجودہ دور فیسٹولائزیشن کا دور ہے ہر شے کا پرچار بذریعہ فیسٹیول کیا جاتا ہے ۔آپ نے رمضان فیسٹیول کا بھی نام سُنا ہو گا۔ لوگوں کو ایک دوسرے سے دستِ گریبان ہونے کے واقعات بھی زیادہ تر اِسی مہینے میں ہی ملاحظہ کیے ہو نگے۔ افطارسے ایک گھنٹے قبل شہر میں افراتفری کا ماحول بھی آپ نے محسوس کیا ہوگا۔ ٹریفک کا بے ہنگم شور، افطار کی دکانوں پر خریداروں کا بے پناہ رش دیکھنے کو ملے گا ۔

صاحب ثروت لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں کی فٹ پاتھ پر معقول افطاری کا انتظام کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے روزے دار کا گھر تک جلد بازی میں گھر پہنچنے کی کوشش کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے۔ پتنگ بازی بھی ایک دلچسپ کھیل ہے جس کی ابتداء چین سے ہوئی نماز عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت کچھ لوگ پتنگ بازی میں اپنا وقت گزار لیتے ہیں ۔ رمضان کے تیسرے عشرے میں بازاروں میں رونق کا آغاز ہو جاتا ہے۔ دکانوں کے باہر کچھ شوقین مزاج نوجوان لڑکے بچیوں کی آرائشی زیوارت کے اسٹال لگا کر عید کا بونس بنا لیتے ہیں ۔یہ سلسلہ چاند رات تک جاری رہتا ہے ۔

عید کی آمد کی خوشی میں کچھ لوگ اپنے گھروں کی آرائش و تزائین پرکچھ رقم پس انداز کرتے ہیں ٹی وی چینلز بھی رمضان کے توسط سے دینی، مذہبی ، روحانی پروگرامز نشر کرتے ہیں یہ بات باعث حیرت اور دلچسپ ہے کہ بجلی کی فراہمی میںہمارے بجلی کے ادارے بھی اس مقدس مہینے میں مومن بننے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں ۔اور لوڈ شیڈنگ کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ نماز عید کی ادائیگی کے بعد مرحوم بزرگوں ، عزیز واقارب کی قبروں پر حاضری دینے کا رواج صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔ جو ہمارا سماجی اور روحانی ورثہ ہے مگر صد افسوس مغربی یلغار نے جہاں ہمارے معاشرے کو متاثر کیا ہے وہاں ہماری ثقافتی اور دینی روایات کو بھی بہت متاثر کیا ہے ۔جس نے ہمارے معاشرے کی انسانی اقدار کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

کچھ بوڑھے والدین ہمارے معاشرے میں بھی اولاد کی لا پرواہی کا شکار ہیں ۔اولاد کی محبت اور توجہ سے قطعاً محروم ہیں۔ اس کی وجہ شاید مادیت پرستی یا ہمارا معاشی نظام ہو سکتاہے۔ ہمیں ایسے ہی مواقعوں پر ایسے محروم طبقے کو ضرور یاد رکھنا چاہیے اور کچھ لمحات اُن کے ساتھ شئیر کرنے چاہیے ۔یہ سوچ کر کے کل آپ کو بھی بوڑھا ہونا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کا یہی ایک بہترین طریقہ ہے ۔ کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں