جو سارے چہرے گلاب ہوتے
رحم دل اور اچھے لیڈر ناپید ہوتے جا رہے ہیں اب قوم کو اٹھنا ہوگا کہ وہ اشیاء خورونوش کا بائیکاٹ کریں
روزانہ کی بنیاد پر حکومتی اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں، ان کا نتیجہ کیا نکلتا ہے،یہ کہانی پھر سہی ،ہاں اجلاسوں میں پھولوں کے گل دستے، منرل واٹر کی بوتلیں قطار در قطار ضرور نظر آتی ہیں اور ہم ہیں کہ ان کے مسکراتے چہروں سے خوش ہوتے رہتے ہیں، آخر قوم کی بھی کچھ اخلاقی ذمے داری ہے۔
گزشتہ دنوں یہ خبر منظر عام پر تھی کہ آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کر دیے گئے ہیں، ویسے تو یہ خبر ہم بچپن سے سن رہے ہیں یہ بات دوسری ہے کہ اب ہم پچپن کے ہوگئے ہیں اور نہ جانے کب تک سنتے رہیں گے کہ سننے کی یہ قوم اب عادی ہوگئی ہے ہماری سیاسی شخصیات نے کبھی سنجیدگی سے یہ نہیں سوچا کہ ہم مراعات کا سلسلہ ختم کریں جب گھوڑے سوار کو گھوڑے کا فرق معلوم نہیں تو دوڑ مشکل سے جیتی جائے گی، رہا معاملہ قوم کا تو وہ مریل گھوڑے کی شکل اختیار کر چکی اور صبح و شام مسائل کی بگھی کو اپنے ناتواں کندھوں سے کھینچ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر ایک نوجوان کی خوبصورت تصویر کے ساتھ ایک خبر نظر سے گزری کہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے نوجوان الیاس ہزارہ نے آسٹریلیا سے باکسنگ ٹورنامنٹ میں اپنے حریف انڈین باکسر کو شکست دے کر گولڈ میڈل جیت لیا مگر افسوس کہ کسی بھی بڑی سیاسی شخصیت نے الیاس ہزارہ کے لیے کوئی خوشی کا پیغام نہیں دیا، ویسے پاکستان کے گیت یہ سیاسی شخصیات خوب گاتے ہیں اس ہونہار اور پروقار نوجوان نے جو کام کیا ہے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تھی مگر وہ اتنا بڑا اعزاز لینے کے باوجود وہ گمنام ہے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ یہ اعزاز اس نے انڈیا میں جیتا ،بس اب صبر کی چکی میں اپنے آپ کو روندھتے رہیں یہی ہمارا اعزاز ہے کوئی پرسان حال نہیں۔
ویلفیئر تنظیمیں الخدمت، ایدھی، چھیپا، سیلانی یہ غریبوں کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں ،حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہر بات حیرت زدہ ہے، لاقانونیت کا یہ عالم کہ گلشن حدید میں الخدمت کی گاڑی سے ایک لاکھ روپے اور گارڈ کا اسلحہ لوٹ لیا گیا ۔بھلا بتائیے کوئی جان و مال کے حوالے سے محفوظ نظر آتا ہے ان ویلفیئر جماعتوں کو سیکیورٹی دی جائے کہ جو کام اداروں کو کرنے چاہئیں وہ کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔
قارئین، کہاں تک سناؤں اور آپ کہاں تک سنیں گے، لہٰذا اب کانوں نے سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ میدے کی قیمتیں خرید کے حوالے سے بہت کم ہوگئی ہیں اور اس بات کو بھی 15 دن ہو چکے مگر مجال ہے کہ کسی نے بیکریوں کا سروے کیا ہو، چھوٹی میٹھی ڈبل روٹی 90 روپے کی فروخت ہو رہی ہے جب میدے کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں تو پھر بیکریوں کا سروے کریں انڈے 270 روپے درجن ہر قسم کی سبزی 200 روپے کلو سے کم نہیں ہے جبکہ سبزی منڈی میں وہی سبزی انتہائی سستی فروخت ہو رہی ہے اور یہ حال صرف صوبہ سندھ کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں مہنگائی عروج پر ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان مسائل پر کون توجہ دے گا توجہ دینے والے ادارے کیا کر رہے ہیں، قوم خاموش ہے اور یہ خاموش ہی مہنگائی کا سبب بن رہی ہے۔
رحم دل اور اچھے لیڈر ناپید ہوتے جا رہے ہیں اب قوم کو اٹھنا ہوگا کہ وہ اشیاء خورونوش کا بائیکاٹ کریں تاکہ مہنگائی زمین بوس ہو۔ سابق وفاقی وزیر کہہ رہے تھے کہ سیاست دانوں کے کمزور ہونے کے ذمے دار خود سیاست دان ہیں۔ محترم بہت اچھا بیان دیا ہے کہ دل باغ باغ ہو گیا کہ اس باغ میں مایوسی کے پھول پیدا ہو گئے ہیں۔ آپ کی بات کی جواب دے رہا ہوں جو گستاخی کے زمرے میں تو ہوگا قوم تو ہزاروں مسائل کو برداشت کر رہی ہے اور آپ بھی قوم میں شامل ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو کیخلاف قومی اتحاد بنا اس میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شامل تھیں، پھر ضیا الحق آگئے بطور صدر اور اس کے بعد ان کی عمر نے وفا نہیں کی اس کے بعد بے نظیر وزیر اعظم بن گئیں وہ ایک قابل وزیر اعظم تھیں اور اس معصوم عورت کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا اس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے اور وہ بھی گھر چلے گئے پھر پرویز مشرف آگئے اور ان کا ساتھ مسلم لیگ (ق) نے دیا، الیکشن ہوئے اور پی پی پی برسر اقتدار آگئی ان کے بعد پھر نواز شریف آگئے، اس کے بعد عمران خان وزیر اعظم بنے اور انھیں عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا، نگراں حکومت آئی اس کے بعد پی ڈی ایم بنی سب سیاست دان ایک پلیٹ فارم پر آگئے وزارتیں بھی آپس میں خوب بانٹیں۔
نگراں حکومت نے الیکشن کروا دیے جس میں کئی سوالات اٹھے اور مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آگئی اب جو پی ڈی ایم میں ایک جان دو قالب تھے اور جو الیکشن نہ جیت سکے وہ اب الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں اورنئی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں ، سابق وفاقی وزیر جو باتیں آپ نے الیکشن سے قبل کی تھیں ان پر عمل تو نہیں ہوا اب وہ وعدے خاک ہوتے جا رہے ہیں۔
قوم اب اس مشکل وقت میں بھی سمجھداری کا ثبوت دے رہی ہے تو پھر آپ کے اس سوال پر کہ سیاست دانوں کے کمزور ہونے کے ذمے دار خود سیاستدان ہیں تو پھر ماضی کی باتیں تو یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ حضرات خود تہی دامنی کا شکار ہیں قوم تو وعدوں پر ووٹ ڈالتی ہے یہ بات دوسری ہے کہ آپ حضرات کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور قوم اس چونچلے بازی میں قومی اسمبلی میں پرانے مہمانوں کو لے کر آ جاتی ہے پھر سیاسی کاروبار دوبارہ جوں کا توں اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑتا ہے ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک بڑا اہم بیان دیا ہے کہ صوبے میں 300 یونٹ بجلی مفت دینے کے اقدامات کر رہے ہیں بہت ہی مثبت بیان ہے مگر مراد علی شاہ سے درخواست ضرور کریں گے کہ ہر خاص و عام کو 300 یونٹ بجلی مفت دیں، وائٹ کالر جس کی تنخواہ 75000 ہزار بھی ہے وہ گھر کا کرایہ دیتا ہے کم ازکم 30000 ہزار بھی دے رہا ہے یہ کچی آبادی کا کرایہ ہے تو باقی بچے 45000 گاڑی تو وہ اس تنخواہ میں وہ استعمال نہیں کر سکتا ،البتہ موٹر سائیکل استعمال کر سکتا ہے بچوں کی فیس، کے الیکٹرک کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل دینے کے بعد اس کے پاس کیا بچتا ہے؟ جس میں دکھ، بیماری، انتقال اپنی جگہ موجود ہیں ادارے اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں پٹرول کی قیمتیں کم ہو جائیں یہ حکومت کی دور اندیشی تھی کہ اس نے اس پر توجہ دی ۔
راقم دو ہفتے قبل اسلام آباد اور لاہور گیا مگر افسوس کرایوں میں کہیں کمی نظر نہیں آئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک نجی ایئرلائنز سے گیا تھا مگر اس نجی ایئرلائنز کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ مسافروں کو ایک پیالی چائے یا ایک بوتل پانی دے دیتی، یتیموں کی طرح جہاز میں گئے ۔ 15 سال میں خودسری کی ایک عجیب لہر لوگوں کو مسلتی ہوئی نظر آتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایئرلائن میں مسافروں کو کچھ نہ دیا جائے ہر ادارہ خودسری کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اداروں کو اپنے رویے درست کرنے چاہئیں آخر کب تک خود سری کرتے رہیں گے جب پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو پھر ریلوے، ایئرلائن، لمبے روٹ پر چلنے والی بسوں کا کرایہ کیوں کم نہیں کیا گیا اگر پٹرول 10 روپے لیٹر بڑھ جائے تو کرایہ کے حوالے سے کراچی سے لے کر خیبر تک قوم بے بسی کی ڈفلی بجا رہی ہوتی ہے رب رحم کرے اس ملک پر اور اس قوم پر ۔
گزشتہ دنوں یہ خبر منظر عام پر تھی کہ آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کے لیے مذاکرات شروع کر دیے گئے ہیں، ویسے تو یہ خبر ہم بچپن سے سن رہے ہیں یہ بات دوسری ہے کہ اب ہم پچپن کے ہوگئے ہیں اور نہ جانے کب تک سنتے رہیں گے کہ سننے کی یہ قوم اب عادی ہوگئی ہے ہماری سیاسی شخصیات نے کبھی سنجیدگی سے یہ نہیں سوچا کہ ہم مراعات کا سلسلہ ختم کریں جب گھوڑے سوار کو گھوڑے کا فرق معلوم نہیں تو دوڑ مشکل سے جیتی جائے گی، رہا معاملہ قوم کا تو وہ مریل گھوڑے کی شکل اختیار کر چکی اور صبح و شام مسائل کی بگھی کو اپنے ناتواں کندھوں سے کھینچ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں انٹرنیٹ پر ایک نوجوان کی خوبصورت تصویر کے ساتھ ایک خبر نظر سے گزری کہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے نوجوان الیاس ہزارہ نے آسٹریلیا سے باکسنگ ٹورنامنٹ میں اپنے حریف انڈین باکسر کو شکست دے کر گولڈ میڈل جیت لیا مگر افسوس کہ کسی بھی بڑی سیاسی شخصیت نے الیاس ہزارہ کے لیے کوئی خوشی کا پیغام نہیں دیا، ویسے پاکستان کے گیت یہ سیاسی شخصیات خوب گاتے ہیں اس ہونہار اور پروقار نوجوان نے جو کام کیا ہے اس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے تھی مگر وہ اتنا بڑا اعزاز لینے کے باوجود وہ گمنام ہے اور پھر مزے کی بات دیکھیں کہ یہ اعزاز اس نے انڈیا میں جیتا ،بس اب صبر کی چکی میں اپنے آپ کو روندھتے رہیں یہی ہمارا اعزاز ہے کوئی پرسان حال نہیں۔
ویلفیئر تنظیمیں الخدمت، ایدھی، چھیپا، سیلانی یہ غریبوں کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں ،حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہر بات حیرت زدہ ہے، لاقانونیت کا یہ عالم کہ گلشن حدید میں الخدمت کی گاڑی سے ایک لاکھ روپے اور گارڈ کا اسلحہ لوٹ لیا گیا ۔بھلا بتائیے کوئی جان و مال کے حوالے سے محفوظ نظر آتا ہے ان ویلفیئر جماعتوں کو سیکیورٹی دی جائے کہ جو کام اداروں کو کرنے چاہئیں وہ کام یہ لوگ کر رہے ہیں۔
قارئین، کہاں تک سناؤں اور آپ کہاں تک سنیں گے، لہٰذا اب کانوں نے سننا ہی چھوڑ دیا ہے۔ میدے کی قیمتیں خرید کے حوالے سے بہت کم ہوگئی ہیں اور اس بات کو بھی 15 دن ہو چکے مگر مجال ہے کہ کسی نے بیکریوں کا سروے کیا ہو، چھوٹی میٹھی ڈبل روٹی 90 روپے کی فروخت ہو رہی ہے جب میدے کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں تو پھر بیکریوں کا سروے کریں انڈے 270 روپے درجن ہر قسم کی سبزی 200 روپے کلو سے کم نہیں ہے جبکہ سبزی منڈی میں وہی سبزی انتہائی سستی فروخت ہو رہی ہے اور یہ حال صرف صوبہ سندھ کا نہیں بلکہ چاروں صوبوں میں مہنگائی عروج پر ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان مسائل پر کون توجہ دے گا توجہ دینے والے ادارے کیا کر رہے ہیں، قوم خاموش ہے اور یہ خاموش ہی مہنگائی کا سبب بن رہی ہے۔
رحم دل اور اچھے لیڈر ناپید ہوتے جا رہے ہیں اب قوم کو اٹھنا ہوگا کہ وہ اشیاء خورونوش کا بائیکاٹ کریں تاکہ مہنگائی زمین بوس ہو۔ سابق وفاقی وزیر کہہ رہے تھے کہ سیاست دانوں کے کمزور ہونے کے ذمے دار خود سیاست دان ہیں۔ محترم بہت اچھا بیان دیا ہے کہ دل باغ باغ ہو گیا کہ اس باغ میں مایوسی کے پھول پیدا ہو گئے ہیں۔ آپ کی بات کی جواب دے رہا ہوں جو گستاخی کے زمرے میں تو ہوگا قوم تو ہزاروں مسائل کو برداشت کر رہی ہے اور آپ بھی قوم میں شامل ہیں۔
ذوالفقارعلی بھٹو کیخلاف قومی اتحاد بنا اس میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں شامل تھیں، پھر ضیا الحق آگئے بطور صدر اور اس کے بعد ان کی عمر نے وفا نہیں کی اس کے بعد بے نظیر وزیر اعظم بن گئیں وہ ایک قابل وزیر اعظم تھیں اور اس معصوم عورت کو بھی راستے سے ہٹا دیا گیا اس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے اور وہ بھی گھر چلے گئے پھر پرویز مشرف آگئے اور ان کا ساتھ مسلم لیگ (ق) نے دیا، الیکشن ہوئے اور پی پی پی برسر اقتدار آگئی ان کے بعد پھر نواز شریف آگئے، اس کے بعد عمران خان وزیر اعظم بنے اور انھیں عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیج دیا گیا، نگراں حکومت آئی اس کے بعد پی ڈی ایم بنی سب سیاست دان ایک پلیٹ فارم پر آگئے وزارتیں بھی آپس میں خوب بانٹیں۔
نگراں حکومت نے الیکشن کروا دیے جس میں کئی سوالات اٹھے اور مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آگئی اب جو پی ڈی ایم میں ایک جان دو قالب تھے اور جو الیکشن نہ جیت سکے وہ اب الیکشن میں دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں اورنئی حکومت کے لیے مسائل کھڑے کر رہے ہیں ، سابق وفاقی وزیر جو باتیں آپ نے الیکشن سے قبل کی تھیں ان پر عمل تو نہیں ہوا اب وہ وعدے خاک ہوتے جا رہے ہیں۔
قوم اب اس مشکل وقت میں بھی سمجھداری کا ثبوت دے رہی ہے تو پھر آپ کے اس سوال پر کہ سیاست دانوں کے کمزور ہونے کے ذمے دار خود سیاستدان ہیں تو پھر ماضی کی باتیں تو یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ حضرات خود تہی دامنی کا شکار ہیں قوم تو وعدوں پر ووٹ ڈالتی ہے یہ بات دوسری ہے کہ آپ حضرات کے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور قوم اس چونچلے بازی میں قومی اسمبلی میں پرانے مہمانوں کو لے کر آ جاتی ہے پھر سیاسی کاروبار دوبارہ جوں کا توں اپنی پرانی ڈگر پر چل پڑتا ہے ۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے ایک بڑا اہم بیان دیا ہے کہ صوبے میں 300 یونٹ بجلی مفت دینے کے اقدامات کر رہے ہیں بہت ہی مثبت بیان ہے مگر مراد علی شاہ سے درخواست ضرور کریں گے کہ ہر خاص و عام کو 300 یونٹ بجلی مفت دیں، وائٹ کالر جس کی تنخواہ 75000 ہزار بھی ہے وہ گھر کا کرایہ دیتا ہے کم ازکم 30000 ہزار بھی دے رہا ہے یہ کچی آبادی کا کرایہ ہے تو باقی بچے 45000 گاڑی تو وہ اس تنخواہ میں وہ استعمال نہیں کر سکتا ،البتہ موٹر سائیکل استعمال کر سکتا ہے بچوں کی فیس، کے الیکٹرک کا بل، گیس کا بل، پانی کا بل دینے کے بعد اس کے پاس کیا بچتا ہے؟ جس میں دکھ، بیماری، انتقال اپنی جگہ موجود ہیں ادارے اپنی ذمے داریوں کو محسوس کریں پٹرول کی قیمتیں کم ہو جائیں یہ حکومت کی دور اندیشی تھی کہ اس نے اس پر توجہ دی ۔
راقم دو ہفتے قبل اسلام آباد اور لاہور گیا مگر افسوس کرایوں میں کہیں کمی نظر نہیں آئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ایک نجی ایئرلائنز سے گیا تھا مگر اس نجی ایئرلائنز کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ مسافروں کو ایک پیالی چائے یا ایک بوتل پانی دے دیتی، یتیموں کی طرح جہاز میں گئے ۔ 15 سال میں خودسری کی ایک عجیب لہر لوگوں کو مسلتی ہوئی نظر آتی ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایئرلائن میں مسافروں کو کچھ نہ دیا جائے ہر ادارہ خودسری کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اداروں کو اپنے رویے درست کرنے چاہئیں آخر کب تک خود سری کرتے رہیں گے جب پٹرول کی قیمتیں کم ہوئی ہیں تو پھر ریلوے، ایئرلائن، لمبے روٹ پر چلنے والی بسوں کا کرایہ کیوں کم نہیں کیا گیا اگر پٹرول 10 روپے لیٹر بڑھ جائے تو کرایہ کے حوالے سے کراچی سے لے کر خیبر تک قوم بے بسی کی ڈفلی بجا رہی ہوتی ہے رب رحم کرے اس ملک پر اور اس قوم پر ۔