چین ترقی کی حیرت انگیز مثال پہلا حصہ
چین نے خود کو مشکل وقتوں میں پاکستان کا ایک قابل اعتماد دوست ثابت کیا ہے
چین اور پاکستان کے درمیان سرد جنگ کے دور سے بہترین تعلقات قائم ہیں۔ چین نے خود کو مشکل وقتوں میں پاکستان کا ایک قابل اعتماد دوست ثابت کیا ہے۔
پاکستان نے بھی مختلف عالمی فورم پر علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے چین کے موقف کی ہمیشہ آگے بڑھ کر حمایت کی ہے۔ اکیسویں صدی میں دنیا ایک بالکل نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، جس میں ماضی کی ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں۔ ماضی میں فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے کو زیادہ ترجیح حاصل تھی، اب باہمی تعلقات میں معاشی مفادات کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں چین نے پاکستان کے دفاعی شعبے کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب اس کی خواہش اور ترجیح یہ ہے کہ معیشت اور تجارت کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ زیادہ تعاون اور شراکت داری کی جائے۔ اس حوالے سے سی پیک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بیرونی اور اندرونی سطح پر ایسی طاقتیں اور عناصر موجود ہیں جو چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اور علاقائی کردارکو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ سی پیک کو ناکام بنانے کی جوکوششیں کی جاتی رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں پاک چین تعلقات میں کچھ عرصے سے ایک دبائو محسوس کیا جا رہا تھا جسے ختم کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں کئی پیش قدمیاں کی گئی ہیں۔ خبریں ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم ایک بڑے وفد کے ساتھ چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔
چین اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ ہمارے لیے یہ امر خوش آیند ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت کے نہ صرف ہم پڑوسی ہیں بلکہ اس سے ہمارے بہترین تعلقات بھی قائم ہیں۔ چین کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لیے اس عظیم ملک کے تاریخی، تہذیبی اور معاشی تناظر پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔
چین کی وہ تاریخ جو آثار قدیمہ اور دوسرے شواہد کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، چار ہزار برس سے زیادہ کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، شنگھائی کے ہسٹاریکل میوزیم میں 2100 برس قبل مسیح کے تانبے کے برتن، ہتھیار اور زیورات دیکھے جوکھدائی میں برآمد ہوئے ہیں اور چینی دست کاروں اور صناعوں کی بے پناہ مہارت پرگواہی ہیں۔
چینیوں نے گزشتہ چند دہائیوں میں آثار قدیمہ کو ڈھونڈ نکالنے اور پھر اسے محفوظ کرنے کا کام جس لگن اور جانفشانی سے کیا ہے، اس کے مظاہر ان کے عجائب گھروں سے کہیں بڑھ کر زیان میں نظر آئے جس کا تذکرہ بعد میں کروں گی اور ایک ہم ہیں کہ صرف موئنجو دڑو، ہڑپہ اورگندھارا کے آثارکی حفاظت نہ کرسکے بلکہ ہمیں تو اپنے عجائب گھروں میں رکھی ہوئی نادر اشیاء کو بھی غیروں کے ہاتھوں فروخت کردینے میں حیا نہ آئی، تب ہی یہ عالم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے عجائب گھروں سے مہاتما بدھ کے مجسموں، موہنجودڑو اور ہڑپہ سے نکلنے والی ہزارہا برس پرانی چیزوں کے غائب ہوجانے کی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔
چینیوں کے بارے میں یہ خبر تو سب ہی رکھتے ہیں کہ کاغذ، چھپائی، قطب نما اور باردو چینیوں کی ایجاد ہیں۔ کاغذ اور چھپائی نے انسان کوگوٹن برگ کے متحرک چھاپہ خانے سے آج کے جدید ترین چھاپہ خانوں اورکروڑوں ، اربوں کتابوں کا وارث بنادیا۔ قطب نما کی انگلی تھام کر ان گنت مہم جو سفر پر نکلے اور دنیا کے دشوار ترین گوشوں تک پہنچے۔
ادھر بارود ہے کہ جس کی ایجاد نے جنگ کے دائرے کو اتنا بڑھایا اور پھیلایا کہ آج ہم اپنی دنیا کو ہزاروں مرتبہ خاکستر کرنے والے ہتھیاروں کے انبار لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی چین تھا جس نے لاوتزے اور کنفیوشش ایسے بڑے فلسفی اور دانشور پیدا کیے جن کے نام اورکام کی گونج آج بھی چاروں کھونٹ سنائی دیتی ہے اسی طرح ریاضی، جغرافیہ، طب اور علم الہیت میں بھی چینی گزرے زمانوں سے استاد الاساتذہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔
پرانا چین ایک عظیم الشان جدوجہد اور خونیں شب و روز سے گزرکر یکم اکتوبر 1949 کو عوامی جمہوریہ چین کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ سب سے پہلے اسے جس ملک نے تسلیم کیا اس وقت کا سوویت یونین تھا جس نے 3 اکتوبر 1949کو اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ پاکستان نے چین کے وجود میں آنے کے خاصے دنوں بعد یعنی21 مئی1951کو اسے تسلیم کیا جب کہ سوشلسٹ بلاک کے ملکوں کو چھوڑکر ایشیا میں ہندوستان، انڈونیشیا اور مغرب میں سوئیڈن، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ پاکستان سے پہلے چین سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے تھے۔
تعلقات کی استواری کے بعد پاکستان اور چین کی دوستی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔1962میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں نے پاکستان اور چین کی دوستی کوکچھ زیادہ ہی مستحکم کردیا اور یہ دوستی اس انتہا کو پہنچی کہ پاکستان نے چین اور امریکا کے درمیان برف کو پگھلانے اور سفارتی تعلقات بحال کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1971میں یہ اسلام آباد کا ہوائی اڈا تھا جہاں سے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسینجر نے بیجنگ کے لیے ایک خفیہ پرواز میں سفرکیا اور اس سفارت کاری کا آغاز ہوا جو آج بھی '' پنگ پانگ ڈپلومیسی'' کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
کل کے سیاسی حقائق یہ تھے کہ چین اور امریکا ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے جب کہ آج ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں اور ان کے درمیان تجارت اور صنعتی اشتراک اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ معروضی حقائق کل یہ تھے کہ چین پاکستان کو اپنے بہترین دوستوں کی صف اوّل میں رکھتا تھا آج پاکستان تو وہیں کھڑا ہے جہاں وہ روز اوّل سے تھا لیکن تمام تر دوستی کے باوجود چین کی ترجیحات پہلے سے بہت بدل چکی ہیں۔
ہماری اور چینیوں کی سرکاری دوستی تو بس چار پانچ دہائیوں کا قصہ ہے لیکن جہاں تک برصغیر اور چین کے درمیان تاریخی، تہذیبی اور علمی و ادبی رابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہزاروں برس پر پھیلا ہوا ہے دورکیوں جائیں، یہی دیکھ لیں کہ ہمارے داستانی ادب میں چین و ماچین کے خطا وختن کی شہزادیوں کے کیسے کیسے قصے ہیں، عورتیں ہیں تو چینی ریشم پر ریشہ خطمی ہیں، مرد ہیں تو مانی کے نادرہ کار اور پر بہار تصویروں کے مجموعے ''ارژنگ'' کا ذکر کرتے نہیں تھکتے اور لیجیے الہ دین کا قصہ تو رہا جاتا ہے، ہمارے آپ کے بچپن کی آنکھوں کا تارا، غربت کا مارا الہ دین جس نے جادوئی چراغ ڈھونڈ نکالا تھا۔
زمین پرگھستا تو چراغ کا جن دست بستہ حاضر ہوجاتا ۔ الہ دین چینی تھا تو اس کا جن روسی یا امریکی ہونے سے تو رہا، یقینا اس کا ڈومیسائل بھی چین کا ہوگا تب ہی الہ دین کا بندہ ٔ بے دام تھا اور اگر قصہ حاتم طائی نظر سے گزرا ہو، تو اس کے دوست منیر شامی کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔
منیر شامی کی کاہلی کا یہ عالم کہ عشق میں گرفتار ہوا اور محبوبہ دل نواز سے شادی کی ہامی اس شرط پر بھری کہ میاں ذری کی ذری چند سوالوں کے جواب تو لیتے آئیو۔ تو اللہ کے اس بندے نے سوالوں کا پرچہ حاتم طائی کے ہاتھ میں تھمایا اور خود اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہا کہ اس زمانے میں یہی وتیرہ عشاق کا تھا اور رہ گیا حاتم طائی تو وہ ایک سوال کے جواب کے لیے شہر '' پیکن '' تک ہو آیا جو بعد میں پیکنگ کہلایا۔ اب بیجنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے ان چند دارالحکومتوں میں سے ہے جن کی خوشنودی دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملکوں کو عزیز ہے۔ ( جاری ہے )
پاکستان نے بھی مختلف عالمی فورم پر علاقائی اور بین الاقوامی سیاست کے حوالے سے چین کے موقف کی ہمیشہ آگے بڑھ کر حمایت کی ہے۔ اکیسویں صدی میں دنیا ایک بالکل نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، جس میں ماضی کی ترجیحات تبدیل ہورہی ہیں۔ ماضی میں فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے کو زیادہ ترجیح حاصل تھی، اب باہمی تعلقات میں معاشی مفادات کو زیادہ ترجیح دی جانے لگی ہے۔
گزشتہ دہائیوں میں چین نے پاکستان کے دفاعی شعبے کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب اس کی خواہش اور ترجیح یہ ہے کہ معیشت اور تجارت کے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ زیادہ تعاون اور شراکت داری کی جائے۔ اس حوالے سے سی پیک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بیرونی اور اندرونی سطح پر ایسی طاقتیں اور عناصر موجود ہیں جو چین کے بڑھتے ہوئے عالمی اور علاقائی کردارکو اپنے لیے ایک بڑا خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ سی پیک کو ناکام بنانے کی جوکوششیں کی جاتی رہی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ اس تناظر میں پاک چین تعلقات میں کچھ عرصے سے ایک دبائو محسوس کیا جا رہا تھا جسے ختم کرنے کے لیے حالیہ دنوں میں کئی پیش قدمیاں کی گئی ہیں۔ خبریں ہیں کہ پاکستان کے وزیراعظم ایک بڑے وفد کے ساتھ چین کا دورہ کرنے والے ہیں۔
چین اس وقت امریکا کے بعد دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ ہمارے لیے یہ امر خوش آیند ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی طاقت کے نہ صرف ہم پڑوسی ہیں بلکہ اس سے ہمارے بہترین تعلقات بھی قائم ہیں۔ چین کی اہمیت اور افادیت کو سمجھنے کے لیے اس عظیم ملک کے تاریخی، تہذیبی اور معاشی تناظر پر نظر ڈالنی ضروری ہے۔
چین کی وہ تاریخ جو آثار قدیمہ اور دوسرے شواہد کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، چار ہزار برس سے زیادہ کے عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، شنگھائی کے ہسٹاریکل میوزیم میں 2100 برس قبل مسیح کے تانبے کے برتن، ہتھیار اور زیورات دیکھے جوکھدائی میں برآمد ہوئے ہیں اور چینی دست کاروں اور صناعوں کی بے پناہ مہارت پرگواہی ہیں۔
چینیوں نے گزشتہ چند دہائیوں میں آثار قدیمہ کو ڈھونڈ نکالنے اور پھر اسے محفوظ کرنے کا کام جس لگن اور جانفشانی سے کیا ہے، اس کے مظاہر ان کے عجائب گھروں سے کہیں بڑھ کر زیان میں نظر آئے جس کا تذکرہ بعد میں کروں گی اور ایک ہم ہیں کہ صرف موئنجو دڑو، ہڑپہ اورگندھارا کے آثارکی حفاظت نہ کرسکے بلکہ ہمیں تو اپنے عجائب گھروں میں رکھی ہوئی نادر اشیاء کو بھی غیروں کے ہاتھوں فروخت کردینے میں حیا نہ آئی، تب ہی یہ عالم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے عجائب گھروں سے مہاتما بدھ کے مجسموں، موہنجودڑو اور ہڑپہ سے نکلنے والی ہزارہا برس پرانی چیزوں کے غائب ہوجانے کی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔
چینیوں کے بارے میں یہ خبر تو سب ہی رکھتے ہیں کہ کاغذ، چھپائی، قطب نما اور باردو چینیوں کی ایجاد ہیں۔ کاغذ اور چھپائی نے انسان کوگوٹن برگ کے متحرک چھاپہ خانے سے آج کے جدید ترین چھاپہ خانوں اورکروڑوں ، اربوں کتابوں کا وارث بنادیا۔ قطب نما کی انگلی تھام کر ان گنت مہم جو سفر پر نکلے اور دنیا کے دشوار ترین گوشوں تک پہنچے۔
ادھر بارود ہے کہ جس کی ایجاد نے جنگ کے دائرے کو اتنا بڑھایا اور پھیلایا کہ آج ہم اپنی دنیا کو ہزاروں مرتبہ خاکستر کرنے والے ہتھیاروں کے انبار لگائے بیٹھے ہیں۔ یہ بھی چین تھا جس نے لاوتزے اور کنفیوشش ایسے بڑے فلسفی اور دانشور پیدا کیے جن کے نام اورکام کی گونج آج بھی چاروں کھونٹ سنائی دیتی ہے اسی طرح ریاضی، جغرافیہ، طب اور علم الہیت میں بھی چینی گزرے زمانوں سے استاد الاساتذہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔
پرانا چین ایک عظیم الشان جدوجہد اور خونیں شب و روز سے گزرکر یکم اکتوبر 1949 کو عوامی جمہوریہ چین کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ سب سے پہلے اسے جس ملک نے تسلیم کیا اس وقت کا سوویت یونین تھا جس نے 3 اکتوبر 1949کو اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ پاکستان نے چین کے وجود میں آنے کے خاصے دنوں بعد یعنی21 مئی1951کو اسے تسلیم کیا جب کہ سوشلسٹ بلاک کے ملکوں کو چھوڑکر ایشیا میں ہندوستان، انڈونیشیا اور مغرب میں سوئیڈن، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ اور فن لینڈ پاکستان سے پہلے چین سے سفارتی تعلقات قائم کرچکے تھے۔
تعلقات کی استواری کے بعد پاکستان اور چین کی دوستی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔1962میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں نے پاکستان اور چین کی دوستی کوکچھ زیادہ ہی مستحکم کردیا اور یہ دوستی اس انتہا کو پہنچی کہ پاکستان نے چین اور امریکا کے درمیان برف کو پگھلانے اور سفارتی تعلقات بحال کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1971میں یہ اسلام آباد کا ہوائی اڈا تھا جہاں سے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسینجر نے بیجنگ کے لیے ایک خفیہ پرواز میں سفرکیا اور اس سفارت کاری کا آغاز ہوا جو آج بھی '' پنگ پانگ ڈپلومیسی'' کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
کل کے سیاسی حقائق یہ تھے کہ چین اور امریکا ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے جب کہ آج ایک دوسرے کے بہترین دوست ہیں اور ان کے درمیان تجارت اور صنعتی اشتراک اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ معروضی حقائق کل یہ تھے کہ چین پاکستان کو اپنے بہترین دوستوں کی صف اوّل میں رکھتا تھا آج پاکستان تو وہیں کھڑا ہے جہاں وہ روز اوّل سے تھا لیکن تمام تر دوستی کے باوجود چین کی ترجیحات پہلے سے بہت بدل چکی ہیں۔
ہماری اور چینیوں کی سرکاری دوستی تو بس چار پانچ دہائیوں کا قصہ ہے لیکن جہاں تک برصغیر اور چین کے درمیان تاریخی، تہذیبی اور علمی و ادبی رابطوں کا معاملہ ہے تو وہ ہزاروں برس پر پھیلا ہوا ہے دورکیوں جائیں، یہی دیکھ لیں کہ ہمارے داستانی ادب میں چین و ماچین کے خطا وختن کی شہزادیوں کے کیسے کیسے قصے ہیں، عورتیں ہیں تو چینی ریشم پر ریشہ خطمی ہیں، مرد ہیں تو مانی کے نادرہ کار اور پر بہار تصویروں کے مجموعے ''ارژنگ'' کا ذکر کرتے نہیں تھکتے اور لیجیے الہ دین کا قصہ تو رہا جاتا ہے، ہمارے آپ کے بچپن کی آنکھوں کا تارا، غربت کا مارا الہ دین جس نے جادوئی چراغ ڈھونڈ نکالا تھا۔
زمین پرگھستا تو چراغ کا جن دست بستہ حاضر ہوجاتا ۔ الہ دین چینی تھا تو اس کا جن روسی یا امریکی ہونے سے تو رہا، یقینا اس کا ڈومیسائل بھی چین کا ہوگا تب ہی الہ دین کا بندہ ٔ بے دام تھا اور اگر قصہ حاتم طائی نظر سے گزرا ہو، تو اس کے دوست منیر شامی کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔
منیر شامی کی کاہلی کا یہ عالم کہ عشق میں گرفتار ہوا اور محبوبہ دل نواز سے شادی کی ہامی اس شرط پر بھری کہ میاں ذری کی ذری چند سوالوں کے جواب تو لیتے آئیو۔ تو اللہ کے اس بندے نے سوالوں کا پرچہ حاتم طائی کے ہاتھ میں تھمایا اور خود اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑ رہا کہ اس زمانے میں یہی وتیرہ عشاق کا تھا اور رہ گیا حاتم طائی تو وہ ایک سوال کے جواب کے لیے شہر '' پیکن '' تک ہو آیا جو بعد میں پیکنگ کہلایا۔ اب بیجنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے ان چند دارالحکومتوں میں سے ہے جن کی خوشنودی دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملکوں کو عزیز ہے۔ ( جاری ہے )