حکومت لڑکھڑا رہی ہے
ممکن ہے غیر ملکیوں کو تجارت میں پرچون فروشی کی اجازت دینے سے عوام کو لالچی دکانداروں کی لوٹ مار سے کچھ تحفظ مل سکے
KHURRAM AGENCY:
مجھے احساس ہے کہ میں وہ شخص نہیں ہوں جس کی بات کانگریس سنے گی۔
بہر حال اگر وہ سننے پر آمادہ ہو تو میں پارٹی کو مشورہ دوں گا کہ وہ کوئی کمزوری نہ دکھائے۔
موجودہ وقت میں اگر اس کی حکومت بچ بھی گئی تو وہ صرف کرسی سے چمٹی رہے گی حکمرانی کی طرف اس کا دھیان نہیں ہو گا۔ جس بحران سے پارٹی دوچار ہے وہ کوئی نیا نہیں۔
اقتدار چھن جانے کے خوف نے پارٹی کو کوئی مختلف لائحۂ عمل اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ حتی کہ وزیراعظم منموہن سنگھ کی توقیر بھی باقی نہیں رہی اور وہ ایک قابل رحم شخص محسوس ہونے لگے ہیں۔
ترینمول کانگریس کے 19 ارکان کی حکمران جماعت سے علیحدگی کے بعد لوک سبھا کے 536 رکنی ایوان میں اس کے صرف 254 ارکان رہ گئے ہیں۔
اب کوشش کی جا رہی ہے کہ یا تو سماج وادی پارٹی کے ملائم سنگھ یادو کو اس کے 22 ارکان سمیت حکومت میں شامل کر لیا جائے یا پھر بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایاوتی کو ان کے 21 اراکین سمیت لے کر بھی لوک سبھا میں اکثریت حاصل کی جا سکتی ہے۔
لیکن کانگریس یہ بھی جانتی ہے کہ متذکرہ ایک یا دونوں جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ حکومت کے زیر کنٹرول سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو اپنے اسلحہ خانے کے سارے ہی ہتھیار استعمال کرنا ہونگے۔ دونوں لیڈر کرپشن کے ان گنت معاملات میں ملوث ہیں اور انھوں نے ناجائز ذرائع سے بے تحاشہ دولت اکٹھی کی ہوئی ہے۔
اگرچہ مایاوتی مقابلتاً خاموش ہے مگر ملائم سنگھ کا کہنا ہے کہ کانگریس کا مطلب ہی کرپشن ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ وہ کس منہ سے یہ کہہ رہے ہیں۔ ڈریوڈ منترا کرہام (ڈی ایم اے) اپنے 18 اراکین کے ساتھ کانگریس پرنکتہ چینی کر رہی ہے شاید محض اس وجہ سے کہ اس کی تنقید بھی ریکارڈ پر آ جائے۔ مگر بصورت دیگر یہ پارٹی کانگریس کی وفادار ہے۔ اصل مسئلہ لیڈروں کا ہے۔
یوپی کے ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کا۔ چاہے کانگریس ان میں سے کسی ایک کو قائل کرے یا دونوں کو لیکن ایسا کرنے کے بعد اس کی ساکھ کیا باقی رہے گی جو کہ پہلے ہی خاصی خراب ہو چکی ہے اگر کانگریس کی شہرت تھوڑی سی بھی مزید خراب ہوتی ہے تو وہ امریکا کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے گی جس کے لیے ملائم سنگھ کو ''بلینک چیک'' دے کر ساتھ ملایا گیا تھا۔
جس سوال کا حکومت کو سامنا ہے وہ ڈیزل کی قیمت میں اضافہ ہے۔ اس کے لیے حکومت کو سبسڈی دینا پڑے گی۔ دوسرا نکتہ جو اور زیادہ اہم ہے وہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو ملٹی برانڈ ریٹیل کی اجازت دینے کا ہے۔
ممکن ہے غیر ملکیوں کو تجارت میں پرچون فروشی کی اجازت دینے سے عوام کو لالچی دکانداروں کی لوٹ مار سے کچھ تحفظ مل سکے۔ بالخصوص اجناس خوردنی کی تجارت کرنے والوں سے، جو طلب بڑھنے پر فوراً ہی قیمتوں میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ 500 ملین (50کروڑ) پرچون فروشوں میں سب کے سب ایسے نہیں ہیں لیکن اگر ان سب کو ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تصور کیا گیا تو وزیراعظم نے جو اقدامات کیے ہیں ان کے نتائج حسب منشا نہیں نکلیں گے۔ مگر مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ان اقدامات کے لیے اصلاحات کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا ہے جب کہ بوقت ضرورت انھیں واپس بھی لے لیا جاتا ہے؟
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں وہ سب کے سب اصلاحات کے خلاف ہیں؟ ایک ایسے ملک میں جہاں یکسر متضاد نظریات، سوچ اور عقاید والے لوگ بستے ہوں بہتر یہ ہے کہ ایسی اصلاحات کے استعمال سے گریز کیا جائے جس سے تقسیم در تقسیم اور کشیدگی میں اور زیادہ اضافہ ہو۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منموہن سنگھ حکومت نے اصلاحات کے لیے ستمبر2012ء کو ہی مناسب وقت کیوں خیال کیا اور 2004ء یا 2008ء کو جب وہ پہلی اور دوسری مرتبہ برسر اقتدار آئے تھے تو اس وقت کو اصلاحات کیوں نہ کیں اور اب کیوں ایسا سمجھا جب ان کی دوسری مدت اختتام پر پہنچ رہی ہے؟
پارلیمانی انتخابات 2014ء کے اوائل میں ہوں گے جن کے لیے اب ڈیڑھ سال سے بھی کم وقت باقی ہے جو کہ حکومت کی تمام تر غلطیوں کے مداوے اور خامیوں کی اصلاح کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ تو نہیں کہ حکومت عوام کی توجہ اپنے پے در پے اسیکنڈلوں اور بدعنوانیوں کی طرف سے ہٹانا چاہتی ہے، جن میں آخری کوئلے کے بلاکس کی الاٹمنٹ کا معاملہ ہے۔
میں چاہوں گا کہ حکومت انقلابی نوعیت کی اصلاحات کے بلند و بانگ دعوئوں کی بجائے اپنی گورننس میں شفافیت پیدا کرے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکمران کانگریس اگر لوک سبھا کی مجموعی 536 نشستوں میں سے 273 حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو اکثریت حاصل کرنے کے امتحان میں کامیاب ہو جائے گی۔
کئی چھوٹی موٹی پارٹیاں ایسی ہیں وہ جب حکمران اتحاد کو اکثریت حاصل کرتے دیکھیں گی تو خود بھی حکومتی اتحاد میں شامل ہو جائیں گی۔ تاہم اگر احتساب کا عمل شروع نہ کیا گیا تو اراکین اسمبلی کی اکثریتی تعداد بے معنی ہو گی۔ میں نے کسی کو کیفرکردار تک پہنچتے نہیں دیکھا حالانکہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ بہت سے وزراء نوکرشاہی کی ساز باز سے خاصی دولت کماتے رہے ہیں۔
لیکن سب کے منہ پر تالا لگا ہوا ہے۔ بہت سے سکینڈل تو ابھی منظر عام پر آنے ہیں۔ اس حوالے سے میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے بہت سے چھپے چہروں کو بے نقاب کیا ہے۔ جب کبھی بھی کسی سکینڈل کا ذکر ہوتا ہے حکومت ایک ہی رٹ لگاتی ہے کہ ''اس سے سرکاری خزانے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔'' لیکن پھر یہ بھید کھلتا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2 جی سپیکٹرم کے سکینڈل میں چشم پوشی سے کام لیا تھا۔
جوکہ ہیرا پھیری کی واضح مثال ہے۔ اس کے بعد بعض فوری نوعیت کے اقدامات کرتے ہوئے معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ منموہن سنگھ حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے، بلکہ یہ مسئلہ جواہر لعل نہرو کی حکومت کے ساتھ بھی تھا' کہ فیصلہ کن طورپر کوئی کام نہیں کیا جاتا۔ اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ بھارت نرم خوئی کا قائل ہے۔ لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ پالیسی سازی کا عمل مفلوج ہو چکا ہے۔
مشہور توپچی میرڈل نے (Gunner Myrdal) جس نے جنوبی ایشیاء میں تحقیق کر کے ایشین ڈرامہ نامی ایک کتاب لکھی تھی' کہا تھا کہ بھارت ایک ''نرم ریاست'' ہے کیونکہ یہ کوئی حکم سختی سے نافذ نہیں کر سکتی بلکہ اسے ہر معاملے میں سیاسی مصالحت کرنا پڑتی ہے۔ اس کی یہ بات آج بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی کہ 1955ء کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے دوران تھی۔
منموہن سنگھ کی اصلاحات سے جو 1990ء میں شروع ہوئیں' یہ ظاہر ہوا مخلوط معیشت یا سوشلسٹ نمونہ کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ ملک بھر میں بے لچک روایات' مذہبی تنگ نظری اور مساویانہ معاشرے کی تشکیل کی کوششوں میں خاصے اختلافات تھے۔ میری خواہش تھی کہ منموہن سنگھ اپنے نعرے inclusive deveopment (بشمول ترقی) کو درست ثابت کر سکتے لیکن ایک طرف کرپشن اور دوسری طرف فیصلہ سازی کی کمزوری نے کھلی معیشت کا آپشن یا اختیار مشکل بنا دیا ہے۔ ہمیں غیر ممالک سے ملنے والی اقتصادی پیش بندیاں بیشک پسند نہ ہوں مگر فی الوقت وہی کارآمد ثابت ہوں گی۔
(ترجمہ:مظہر منہاس )