اسلام کی عالم گیر ترویج میں سفرائے نبی ﷺ کا کردار
جن ملوک ورؤوسا کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سفرا ء کو بھیجا، ان میں سے چار اپنے اپنے دین پر قائم رہے۔
حضور اکرم ﷺ نے اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا بھر تک پہنچانے کے لیے مختلف قوموں اور مختلف مذاہب کے سرکردگان کی طرف مراسلات و مکتوبات روانہ فرمائے۔
اِن مراسلات و مکتوبات کے اندر ہر ایک کو واضح انداز میں اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے لکھا کہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرنے کا وبال نہ صرف اس لیے پڑے گا کہ تم نے اپنی ذات کے لیے انکار کردیا بلکہ تمہارے انکار کی وجہ سے تمہاری قوم بھی ہدایت سے دور رہے گی۔ جس کی ضلالت و گمراہی کا وبال بھی تم پر ہی پڑے گا۔
اپنے عقیدہ و نظریہ کے فروغ کے لیے مراسلات ومکتوبات بھیجنے کی نظیر دنیا کے کسی سابقہ مذہب کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔
صلح حدیبیہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے کفار کی طرف سے ہونے والے ممکنہ حملوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو جب حکمت عملی کے تحت ایک معاہدہ کے ذریعے روک دیا تو آپ ﷺ نے فروغِ اسلام کے لیے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف دعوتِ حق دے کر اپنے سفیروں کو روانہ فرمایا۔ اس سلسلہ میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں، اقوام کے رسم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ اس امر کا لحاظ اس لیے رکھا گیا تاکہ وہ اسلام کے پیغام کو بخوبی ان اقوام اور ممالک تک پہنچاسکیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب دنیا کے مختلف بادشاہوں اور امراء ا و رؤوسا کے نام خطوط لکھے تو ان پر مہر ثبت کرنے کے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس پر تین الفاظ درج تھے۔
سب سے اوپر والی سطر میں لفظ اللہ لکھا تھا، دوسری سطر میں لفظ رسول لکھا تھا اور تیسری سطر میں لفظ محمد لکھا گیا تھا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے تمام سفراء وہ عظیم المرتبت ہستیاں تھیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جانوں پر دین اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کو مقدم رکھا اور تبلیغ اسلام کے لیے اپنا حق ادا کیا۔ ان صحابہ کرام کی فضیلت وعظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مراسلات ومکتوبات نبوی لے کر پہاڑوں اور صحرؤاں کو طے کرتے ہوئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین اسلام کی ترویج کے لیے متعلقہ لوگوں تک یہ مکتوباتِ نبوی بے خوف و خطر لے کر گئے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرا ء کے اسمائے گرامی
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہؓ کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:اللہ تعالٰی نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے، تم میری طرف سے اسے دوسروں تک پہنچا۔ اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔
بعد ازآں حضور نبی اکرم ﷺ نے مختلف صحابہ کرامؓ کو دیگر اقوام وممالک کی طرف دین اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے خطوط دے کر بھیجا۔ ان سفراء صحابہؓ کے نام اور جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ان کا اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
1: تاریخ اسلام کے سب سے پہلے سفیر حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب تھے جنہیں 5 ہجری میں حبشہ کی طرف سفیر بناکر بھیجا گیا۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اول کو حضور نبی اکرم ﷺ کا خط دیا۔ نجاشی اول نے آپ ﷺ کا مکتوب پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔
2: حضرت عمرو بن امیہ کنانی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی ثانی کو 6 ہجری کے اواخر میں نبی اکرم ﷺ کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اپنی آنکھوں پر رکھا، اپنے تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور حضرت جعفر ؓبن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اسلام کو قبول کیا۔
3: حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم ہرقل کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ ہرقل نے آپ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی صفات کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے واضح انداز میں آپ ﷺ کی صفات و خصائل ذکر فرمائے۔ ہرقل نے نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی اور اسلام لانے کا ارادہ کیا مگر اس کے حواریوں نے اس کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔ ہرقل نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو کہا: اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔ (صحیح بخاری)
اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خط میں لکھا کہ بے شک میں مسلمان ہوں لیکن میں اپنے لوگوں کی وجہ سے مغلوب ہوں اور واضح طور پر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اس نے آپ ﷺ کے لیے تحائف بھی بھیجے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اس کا خط لے کر آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اور آپ ﷺ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوا بلکہ اپنی نصرانیت پر قائم ہے۔ (سہیلی، الروض الانف، ج4، ص: 300)
4:حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو مصر کے بادشاہ مقوقس کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں روانہ کیا گیا۔
5:حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کو حارث بن شمر الغسانی (جو شام میں غسانہ کا بادشاہ تھا) کی طرف روانہ کیا گیا لیکن اس نے اسلام قبول نہ کیا۔
6: حضرت سلیط بن عمرو العامری رضی اللہ عنہ کو 6 ہجری کے اواخر میں یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا۔
7: حضرت عمرو بن العاصی القرشی رضی اللہ عنہ کو عمان کے بادشاہ جلندی کے دوبیٹوں جیفر اور عبد کی طرف 8 ہجری کے اواخر میں مکتوب دے کر بھیجا گیا۔ یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
8: حضرت علا بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی العبدی کی طرف6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ یہ بھی مشرف بہ اسلام ہوا۔
9: حضرت الحارث بن عمیر الازدی رضی اللہ عنہ کو8 ہجری میں شام میں بصری کے بادشاہ کی طرف بھیجا گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس سفیر کو بصری کے بادشاہ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی شرحبیل بن عمر غسانی نے موتہ کے مقام پر شہید کردیا۔ ان کے قتل کی وجہ سے ہی اس مقام پر غزوہ موتہ ہوا۔
9:10 ہجری میں حضرت مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو یمن کے بادشاہ حارث بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا۔
11:حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کو یمن کے رؤوسا ذو الکلاع اور ذو عمرو کی طرف 11 ہجری کو روانہ کیا گیا۔ یہ دونوں بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔
9:12 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل الانصاری رضی اللہ عنہ کو حارث، شرحبیل، نعیم بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا اور یہ تینوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
13:حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو الحارث بن عبد کلال کے بھائیوں کی طرف 9 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
14:حضرت عمرو بن حزم الانصاری رضی اللہ عنہ کو نجران کے ابن کعب اور الحارث کے بیٹوں کے طرف 10 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
15:حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ابرویز بن ہرمز فارس کے بادشاہ کی طرف7 ہجری کے اوائل میں دعوت نامہ لے کر گئے۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے خط مبارک کو پھاڑ دیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے ان پندرہ سفراء میں سے ایک کو راستے میں شہید کردیا گیا۔ بادشاہوں میں سے ایک نے حضور نبی اکرم ﷺ کا مکتوب پھاڑ دیا۔ فارس کے بادشاہ ابرویز بن ہرمز اور شام میں غسانہ کا بادشاہ الحارث بن شمر الغسانی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور سختی اور دھمکی کے ساتھ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔
جن ملوک ورؤوسا کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سفرا ء کو بھیجا، ان میں سے چار اپنے اپنے دین پر قائم رہے۔ اس کے علاوہ باقی سب نے اور ان کے پیروکاروں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی تھی۔
سفرائے مصطفی ﷺ کے خصائل
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا ارادہ فرمایا اور مختلف اقوام وممالک کے بادشاہوں، امرا، رؤوسا کی جانب خطوط بھیجے تو آپ ﷺ نے اس امر کے لیے نہ صرف حَسین افراد کا انتخاب فرمایا بلکہ ایسے اصحاب کو بھی ترجیح دی جو فصیح اللسان تھے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے وہ سفیر تھے جو سب صحابہ کرام ؓسے حسین تھے اور جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر آپ رضی اللہ عنہ کی شکل میں آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔
(ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص: 385)
حضور نبی اکرم ﷺ کے سفیروں کو چونکہ یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ ان کے قلوب واذہان علوم نبویہ سے معطر ومطہر تھے، اسی وجہ سے ان میں علم، تحمل اور وبردباری کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت اور قادر الکلامی بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ مخالف کو دلائل مسکتہ سے قائل کرنے میں کمال رکھتے تھے۔
علامہ سہیلی اپنی کتاب الروض الانف میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر روم کے پاس نبی اکرم ﷺ کا پیغام لے کر گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا:
اے قیصر! مجھے اس ذات نے بھیجا ہے جو تم سے بہتر ہے، جسے اس ذات نے پوری کائنات کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے جو تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔ سو تم میری بات عاجزی سے سنو، پھر اس کا جواب مخلصانہ مشورے سے دو، کیوںکہ اگر تم عاجزی نہیں کرو گے، سمجھو گے نہیں اور اگر تم نے مخلصانہ مشورہ نہ لیا تو تم انصاف نہیں کرپاؤ گے۔
قیصر نے کہا: لاؤ کیا ہے ؟ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟
اس نے کہا: ہاں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس ذات کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کے لیے مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے، اور میں تمہیں اس ذات کی طرف بلاتا ہوں جس نے اس وقت بھی آسمانوں اور زمین کے نظام کی تدبیر فرمائی جب مسیح علیہ السلام ابھی اپنی ماں کے شکم میں تھے اور میں تمہیں اس نبی آخر الزماں کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی آمد کی بشارت موسی علیہ السلام نے اور ان کے بعد عیسی علیہ السلام نے دی اور تمہارے پاس اس کے متعلق جو علم موجود ہے وہ اس سلسلے میں کافی ہے اور اس خبر پر یقین کے لیے اطمینان بخش ہے۔ اگر تم نے اس دعوت کو قبول کرلیا تو تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں سرفرازی ہے ورنہ آخرت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور دنیا کا حصہ تم پالو گے۔ اور جان لو کہ تمہارا ایک مالک وپروردگار ہے جو ظالموں، جابروں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور عظیم نعمتوں کو بدل دیتا ہے۔
قیصر نے مکتوبِ گرامی کو لے کر اپنی آنکھوں اور سر پر رکھا اس کے بعد اسے چوما اور پھر کہا:
بخدا! میں ہر خط کو پڑھتا ہوں اور ہر عالم سے سوال کرتا ہوں، میں نے اس مکتوب میں خیر ہی خیر دیکھی ہے۔ آپ مجھے مہلت دو تاکہ میں غور کروں کہ مسیح علیہ السلام کس کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں آج تمہیں ایسا جواب دوں کہ کل اس سے بہتر جواب دے سکوں اور میں اپنے سابقہ جواب کی وجہ سے نقصان پاؤں اور فائدہ نہ پاؤں۔ تم ٹھہرو یہاں تک کہ میں کسی فیصلہ پر پہنچ سکوں۔
وہ اسی حال میں رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
(سہیلی، الروض الانف، 4: 388)
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ7 ہجری کے اوائل میں فارس کے بادشاہ ابرویز کی طرف نبی اکرم ﷺ کا دعوت نامہ لے کر گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کے ساتھ روم کی طرف روانہ کیا۔ ان کے 80 آدمیوں کو رومیوں نے قید کر لیا۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رومیوں نے دینِ اسلام چھوڑنے اور کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ان کے کئی حربے استعمال کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ روم کے بادشاہ نے کہا:
اے عبد اللہ بن حذافہ! اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کر دوں گا۔
آپ نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ یہ اللہ کا دشمن ہے مگر حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ میں مسلمان قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے اس کے سر کا بوسہ لے لیتا ہوں۔ چناںچہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور مسلمان قیدیوں کو رہائی دلواکر واپس مدینے پہنچے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو رہا کروا کر سیدنا عمر بن خطاب کی بارگاہ میں پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
آج ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کا بوسہ لے اور اس کی ابتدا میں کرتا ہوں۔ (عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج5، ص: 162)
قارئین کرام! حضور نبی اکرم ﷺ کی پُرامن اور مبنی بر حکمت اس دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک مختصر مدت میں اسلام خطہ عرب و عجم میں پھیل گیا۔ اسلام کی اس تبلیغ واشاعت میں آپ ﷺ کے ان جاںنثار سفراء صحابہ کرام ؓکا خاص کردار ہے جنہیں اسلام کی ترویج واشاعت کی سعادت نصیب ہوئی۔آج ہم تک دین ان ہی سفراء کرام کی محنتوں سے پہنچا ہے۔ اللہ پاک ان سفراء کرام کی برکت سے ہمیں دین اسلام کا مبلغ و داعی بنائے اور ان کے نقش قدم پہ چلائے (آمین)
اِن مراسلات و مکتوبات کے اندر ہر ایک کو واضح انداز میں اسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے لکھا کہ اسلام قبول کرنے سے انکار کرنے کا وبال نہ صرف اس لیے پڑے گا کہ تم نے اپنی ذات کے لیے انکار کردیا بلکہ تمہارے انکار کی وجہ سے تمہاری قوم بھی ہدایت سے دور رہے گی۔ جس کی ضلالت و گمراہی کا وبال بھی تم پر ہی پڑے گا۔
اپنے عقیدہ و نظریہ کے فروغ کے لیے مراسلات ومکتوبات بھیجنے کی نظیر دنیا کے کسی سابقہ مذہب کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔
صلح حدیبیہ کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے کفار کی طرف سے ہونے والے ممکنہ حملوں، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو جب حکمت عملی کے تحت ایک معاہدہ کے ذریعے روک دیا تو آپ ﷺ نے فروغِ اسلام کے لیے مختلف ممالک کے بادشاہوں اور مختلف قبائل کے سرداروں کی طرف دعوتِ حق دے کر اپنے سفیروں کو روانہ فرمایا۔ اس سلسلہ میں ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور سفیر منتخب کیا گیا جو متعلقہ علاقوں، اقوام کے رسم و رواج، زبان اور کلچر سے بخوبی واقف تھے۔ اس امر کا لحاظ اس لیے رکھا گیا تاکہ وہ اسلام کے پیغام کو بخوبی ان اقوام اور ممالک تک پہنچاسکیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب دنیا کے مختلف بادشاہوں اور امراء ا و رؤوسا کے نام خطوط لکھے تو ان پر مہر ثبت کرنے کے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کی گئی جس پر تین الفاظ درج تھے۔
سب سے اوپر والی سطر میں لفظ اللہ لکھا تھا، دوسری سطر میں لفظ رسول لکھا تھا اور تیسری سطر میں لفظ محمد لکھا گیا تھا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے تمام سفراء وہ عظیم المرتبت ہستیاں تھیں جنہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی جانوں پر دین اسلام اور اعلائے کلمۃ الحق کو مقدم رکھا اور تبلیغ اسلام کے لیے اپنا حق ادا کیا۔ ان صحابہ کرام کی فضیلت وعظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ مراسلات ومکتوبات نبوی لے کر پہاڑوں اور صحرؤاں کو طے کرتے ہوئے اور اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دین اسلام کی ترویج کے لیے متعلقہ لوگوں تک یہ مکتوباتِ نبوی بے خوف و خطر لے کر گئے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرا ء کے اسمائے گرامی
سیرت ابن ہشام میں ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم ﷺ اپنے صحابہؓ کے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:اللہ تعالٰی نے مجھے رحمت بنا کر بھیجا ہے، تم میری طرف سے اسے دوسروں تک پہنچا۔ اللہ تعالی تم پر رحم فرمائے۔
بعد ازآں حضور نبی اکرم ﷺ نے مختلف صحابہ کرامؓ کو دیگر اقوام وممالک کی طرف دین اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے خطوط دے کر بھیجا۔ ان سفراء صحابہؓ کے نام اور جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ان کا اجمالی جائزہ ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
1: تاریخ اسلام کے سب سے پہلے سفیر حضرت جعفر ؓ بن ابی طالب تھے جنہیں 5 ہجری میں حبشہ کی طرف سفیر بناکر بھیجا گیا۔ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اول کو حضور نبی اکرم ﷺ کا خط دیا۔ نجاشی اول نے آپ ﷺ کا مکتوب پڑھ کر اسلام قبول کرلیا۔
2: حضرت عمرو بن امیہ کنانی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی ثانی کو 6 ہجری کے اواخر میں نبی اکرم ﷺ کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اپنی آنکھوں پر رکھا، اپنے تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور حضرت جعفر ؓبن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اسلام کو قبول کیا۔
3: حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم ہرقل کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ ہرقل نے آپ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی صفات کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے واضح انداز میں آپ ﷺ کی صفات و خصائل ذکر فرمائے۔ ہرقل نے نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی تصدیق کی اور اسلام لانے کا ارادہ کیا مگر اس کے حواریوں نے اس کی رائے سے اتفاق نہ کیا۔ ہرقل نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو کہا: اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔ (صحیح بخاری)
اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خط میں لکھا کہ بے شک میں مسلمان ہوں لیکن میں اپنے لوگوں کی وجہ سے مغلوب ہوں اور واضح طور پر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتا۔ اس نے آپ ﷺ کے لیے تحائف بھی بھیجے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اس کا خط لے کر آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اور آپ ﷺ نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوا بلکہ اپنی نصرانیت پر قائم ہے۔ (سہیلی، الروض الانف، ج4، ص: 300)
4:حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کو مصر کے بادشاہ مقوقس کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں روانہ کیا گیا۔
5:حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کو حارث بن شمر الغسانی (جو شام میں غسانہ کا بادشاہ تھا) کی طرف روانہ کیا گیا لیکن اس نے اسلام قبول نہ کیا۔
6: حضرت سلیط بن عمرو العامری رضی اللہ عنہ کو 6 ہجری کے اواخر میں یمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا۔
7: حضرت عمرو بن العاصی القرشی رضی اللہ عنہ کو عمان کے بادشاہ جلندی کے دوبیٹوں جیفر اور عبد کی طرف 8 ہجری کے اواخر میں مکتوب دے کر بھیجا گیا۔ یہ دونوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
8: حضرت علا بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی العبدی کی طرف6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ یہ بھی مشرف بہ اسلام ہوا۔
9: حضرت الحارث بن عمیر الازدی رضی اللہ عنہ کو8 ہجری میں شام میں بصری کے بادشاہ کی طرف بھیجا گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس سفیر کو بصری کے بادشاہ کے پاس پہنچنے سے پہلے ہی شرحبیل بن عمر غسانی نے موتہ کے مقام پر شہید کردیا۔ ان کے قتل کی وجہ سے ہی اس مقام پر غزوہ موتہ ہوا۔
9:10 ہجری میں حضرت مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو یمن کے بادشاہ حارث بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کرلیا۔
11:حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کو یمن کے رؤوسا ذو الکلاع اور ذو عمرو کی طرف 11 ہجری کو روانہ کیا گیا۔ یہ دونوں بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔
9:12 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل الانصاری رضی اللہ عنہ کو حارث، شرحبیل، نعیم بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا اور یہ تینوں مشرف بہ اسلام ہوئے۔
13:حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کو الحارث بن عبد کلال کے بھائیوں کی طرف 9 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
14:حضرت عمرو بن حزم الانصاری رضی اللہ عنہ کو نجران کے ابن کعب اور الحارث کے بیٹوں کے طرف 10 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بہ اسلام ہوئے۔
15:حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ابرویز بن ہرمز فارس کے بادشاہ کی طرف7 ہجری کے اوائل میں دعوت نامہ لے کر گئے۔ اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کے خط مبارک کو پھاڑ دیا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے ان پندرہ سفراء میں سے ایک کو راستے میں شہید کردیا گیا۔ بادشاہوں میں سے ایک نے حضور نبی اکرم ﷺ کا مکتوب پھاڑ دیا۔ فارس کے بادشاہ ابرویز بن ہرمز اور شام میں غسانہ کا بادشاہ الحارث بن شمر الغسانی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور سختی اور دھمکی کے ساتھ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔
جن ملوک ورؤوسا کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی سفرا ء کو بھیجا، ان میں سے چار اپنے اپنے دین پر قائم رہے۔ اس کے علاوہ باقی سب نے اور ان کے پیروکاروں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی تھی۔
سفرائے مصطفی ﷺ کے خصائل
حضور نبی اکرم ﷺ نے جب تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا ارادہ فرمایا اور مختلف اقوام وممالک کے بادشاہوں، امرا، رؤوسا کی جانب خطوط بھیجے تو آپ ﷺ نے اس امر کے لیے نہ صرف حَسین افراد کا انتخاب فرمایا بلکہ ایسے اصحاب کو بھی ترجیح دی جو فصیح اللسان تھے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے وہ سفیر تھے جو سب صحابہ کرام ؓسے حسین تھے اور جبریل امین علیہ السلام وحی لے کر آپ رضی اللہ عنہ کی شکل میں آقا ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے۔
(ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ج2، ص: 385)
حضور نبی اکرم ﷺ کے سفیروں کو چونکہ یہ خصوصیت بھی حاصل تھی کہ ان کے قلوب واذہان علوم نبویہ سے معطر ومطہر تھے، اسی وجہ سے ان میں علم، تحمل اور وبردباری کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت اور قادر الکلامی بدرجہ اتم موجود تھی اور وہ مخالف کو دلائل مسکتہ سے قائل کرنے میں کمال رکھتے تھے۔
علامہ سہیلی اپنی کتاب الروض الانف میں لکھتے ہیں کہ جب حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر روم کے پاس نبی اکرم ﷺ کا پیغام لے کر گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اسے فرمایا:
اے قیصر! مجھے اس ذات نے بھیجا ہے جو تم سے بہتر ہے، جسے اس ذات نے پوری کائنات کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے جو تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔ سو تم میری بات عاجزی سے سنو، پھر اس کا جواب مخلصانہ مشورے سے دو، کیوںکہ اگر تم عاجزی نہیں کرو گے، سمجھو گے نہیں اور اگر تم نے مخلصانہ مشورہ نہ لیا تو تم انصاف نہیں کرپاؤ گے۔
قیصر نے کہا: لاؤ کیا ہے ؟ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟
اس نے کہا: ہاں۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس ذات کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کے لیے مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے، اور میں تمہیں اس ذات کی طرف بلاتا ہوں جس نے اس وقت بھی آسمانوں اور زمین کے نظام کی تدبیر فرمائی جب مسیح علیہ السلام ابھی اپنی ماں کے شکم میں تھے اور میں تمہیں اس نبی آخر الزماں کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی آمد کی بشارت موسی علیہ السلام نے اور ان کے بعد عیسی علیہ السلام نے دی اور تمہارے پاس اس کے متعلق جو علم موجود ہے وہ اس سلسلے میں کافی ہے اور اس خبر پر یقین کے لیے اطمینان بخش ہے۔ اگر تم نے اس دعوت کو قبول کرلیا تو تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں سرفرازی ہے ورنہ آخرت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور دنیا کا حصہ تم پالو گے۔ اور جان لو کہ تمہارا ایک مالک وپروردگار ہے جو ظالموں، جابروں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور عظیم نعمتوں کو بدل دیتا ہے۔
قیصر نے مکتوبِ گرامی کو لے کر اپنی آنکھوں اور سر پر رکھا اس کے بعد اسے چوما اور پھر کہا:
بخدا! میں ہر خط کو پڑھتا ہوں اور ہر عالم سے سوال کرتا ہوں، میں نے اس مکتوب میں خیر ہی خیر دیکھی ہے۔ آپ مجھے مہلت دو تاکہ میں غور کروں کہ مسیح علیہ السلام کس کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں آج تمہیں ایسا جواب دوں کہ کل اس سے بہتر جواب دے سکوں اور میں اپنے سابقہ جواب کی وجہ سے نقصان پاؤں اور فائدہ نہ پاؤں۔ تم ٹھہرو یہاں تک کہ میں کسی فیصلہ پر پہنچ سکوں۔
وہ اسی حال میں رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔
(سہیلی، الروض الانف، 4: 388)
حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ7 ہجری کے اوائل میں فارس کے بادشاہ ابرویز کی طرف نبی اکرم ﷺ کا دعوت نامہ لے کر گئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کے ساتھ روم کی طرف روانہ کیا۔ ان کے 80 آدمیوں کو رومیوں نے قید کر لیا۔ حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو رومیوں نے دینِ اسلام چھوڑنے اور کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ان کے کئی حربے استعمال کرنے کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ روم کے بادشاہ نے کہا:
اے عبد اللہ بن حذافہ! اگر تم میرے سر کا بوسہ لے لو تو میں تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو رہا کر دوں گا۔
آپ نے اپنے دل میں کہا کہ اگرچہ یہ اللہ کا دشمن ہے مگر حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ میں مسلمان قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے اس کے سر کا بوسہ لے لیتا ہوں۔ چناںچہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا اور مسلمان قیدیوں کو رہائی دلواکر واپس مدینے پہنچے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کو رہا کروا کر سیدنا عمر بن خطاب کی بارگاہ میں پہنچے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
آج ہر مسلمان کا حق ہے کہ وہ عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کے سر کا بوسہ لے اور اس کی ابتدا میں کرتا ہوں۔ (عسقلانی، تہذیب التہذیب، ج5، ص: 162)
قارئین کرام! حضور نبی اکرم ﷺ کی پُرامن اور مبنی بر حکمت اس دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں ایک مختصر مدت میں اسلام خطہ عرب و عجم میں پھیل گیا۔ اسلام کی اس تبلیغ واشاعت میں آپ ﷺ کے ان جاںنثار سفراء صحابہ کرام ؓکا خاص کردار ہے جنہیں اسلام کی ترویج واشاعت کی سعادت نصیب ہوئی۔آج ہم تک دین ان ہی سفراء کرام کی محنتوں سے پہنچا ہے۔ اللہ پاک ان سفراء کرام کی برکت سے ہمیں دین اسلام کا مبلغ و داعی بنائے اور ان کے نقش قدم پہ چلائے (آمین)