چائلڈ میرج اب نہیں روک تھام کا بل اسمبلی میں پیش

کم عمری کی شادیوں سے بچوں کے نفسیاتی اور جسمانی مسائل میں اضافہ، زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے، شرکاء


فوٹو : محمود قریشی

کم عمری کی شادی ایک بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس سے بچوں کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے حکومت پنجاب کی جانب سے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے۔

اس ضمن میں اسمبلی میں متعدد بلز پیش کیے گئے ہیں ۔ اس معاملے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ''کم عمری کی شادی کی روک تھام اور حکومتی اقدامات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شفیق رتیال

(آفیسر انچارج ہیڈ کوارٹر، چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو پنجاب)

حکومت چائلڈ میرج روک تھام ایکٹ میں ترمیم پر کام کر رہی ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں تین بلز پیش کیے گئے ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ہماری چیئرپرسن و رکن پنجاب اسمبلی سارہ احمد نے بھی اسمبلی میں بل پیش کیا جس پر سپیشل کمیٹی نمبر 1 غور کر رہی ہے۔ اس بل کے مطابق چائلڈ میرج، بچے کے تحفظ کا معاملہ ہے لہٰذا اسے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کے دائرہ کار میں ہونا چاہیے۔

ہمارے پاس شکایت کا آسان اور موثر میکنزم موجود ہے، ہماری ہیلپ لائن بھی ہے جس پر شہری شکایت کر سکیں گے اور پھر قانون حرکت میں آئے گااور فوری کارروائی کی جائے گی۔ اس ایکٹ میں شادی کیلئے لڑکے، لڑکی کی عمر میں امتیاز ختم کرنے کی بات بھی کی گئی ہے جس کے بعد عمر کی کم ازکم حد 18برس کی جائے گی اور شادی کیلئے شناختی کارڈ کی شرط بھی لازمی ہوگی۔ تمام اضلاع میں ہماری چائلڈ پروٹیکشن کورٹس موجود ہیں، اگر یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں آگیا تو بچوں کو فوری تحفظ اور انصاف ملے گا۔

چائلڈ میرج کا معاملہ لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے دائرہ کار میں ہے لہٰذا انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو سمری بھجوائی ہے جس میں عدالتی حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف لڑکے، لڑکی کی شادی کی عمر کی کم از کم یکساں کرکے 18 برس کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ہم نے چائلڈ میرج کے حوالے سے جو بل پیش کیا ہے اس میں اور معاملات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ہم نے یہ بل محکمہ داخلہ کو بھی بھجوایا اور اسمبلی میں بھی پیش کیا گیا۔ چائلڈ میرج ایک اہم ایشو ہے اور حکومت اس بارے میں سنجیدہ ہے، یہ مفاد عامہ کا معاملہ ہے لہٰذا اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، عجلت میں اقدامات نہیں اٹھائے جاسکتے، سوچ سمجھ کر آگے بڑھا جا رہا ہے تاکہ بعدازاں عملدرآمد کے مسائل پیدا نہ ہوں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن پالیسی بھی اسمبلی میں بہت پہلے پیش کی جا چکی ہے، اگر اس کی منظوری ہوگئی تو تمام متعلقہ ادارے آپس میں لنک ہوجائیں گے جس سے چائلڈ میرج کی روک تھام میں بھی بہتری آئے گی۔

ہمارا مقصد لوگوں کو سزا دینا نہیں، ہم چائلڈ میرج کی روک تھام چاہتے ہیں جس کے لیے لوگوں کو آگاہی دی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں آگاہی مہم، سیمینارز، ٹی وی اشتہارات و دیگر اقدامات کیے جا رہے ہیں، سب کو اپنا اپنا کردار موثر انداز میں ادا کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر مریم گُل

(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اپلائڈ سائیکالوجی لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی)

ہر بچے کو اپنی پسند، شمولیت اور رائے کی آزادی ہے۔ ا سے وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر انسانوں کو میسر ہیں لیکن اگر یہ حقوق صلب کیے جائیں گے توبچے میں ذہنی اور جسمانی مسائل جنم لیں گے جس سے ہمارے سماجی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ بچے اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں کہ عمر کے ساتھ بچے کی آواز بھاری ہوگئی، چھوٹے بچے کہتے ہیں کہ بڑوں میں کھیلو اور بڑے اسے بچہ کہتے ہیں، وہ ایسے معاملات پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجا تا ہے۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے تو وہ سنگین نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارے 2 کروڑ بچوں کی درست ذہنی نشونما نہیں ہوئی، اگر انہیں نفسیاتی اور سماجی تعاون نہ ملا تو یہ کارآمد شہری کیسے بنیں گے؟ اگر ان کی کم عمر میں ہی شادی کر دی گئی تو یہ گھر کیسے چلائیں گے؟ ان کے پاس تو 'پیرنٹنگ سکلز' ہی نہیں ہیں، ا ن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔کم عمری کی شادی سے لڑکیوں میں ہارمونز کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، ماں، بچے کی دوران زچگی اموات کی شرح بھی زیادہ ہے، بچوں خصوصاََ لڑکیوں میں ڈپریشن میں اضافہ ہو رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ اس کے معاشرے پر بھی برے اثرات پڑیں گے۔

ہمارے ہاں والدین فیصلہ سازی کا اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح مائیں بڑے بچوں کو بھی خود کھانا کھلا رہی ہوتی ہیں، انہیں اپنا خیال خود رکھنے کے قابل نہیں بناتی۔ اگر ایسے کمزور بچوں کی شادی کر دی جائے تو وہ کس طرح حالات کا سامنا کریں گے۔ میرے نزدیک احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ہمیں کم عمری کی شادی کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دینی ہے۔ انہیں یہ بتانا ہے کہ اس کے نہ صرف بچوں کی زندگی پر برے اثرات پڑیں گے بلکہ معاشرہ بھی متاثر ہوگا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر 18 برس کے بعد بچہ گاری چلانے کا لائسنس حاصل کرتا ہے تو اس پر کم عمری میں گھر چلانے کی ذمہ داری کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ دیہات میں کم عمری کی شادی کی شرح زیادہ ہے جس کی مختلف وجوہات ہیں۔ وہاں تعلیم کی کمی اور غربت زیادہ ہے لہٰذا لوگ اولاد کو پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں بچوں کے محفوظ مستقبل کیلئے کم عمری کی شادی جیسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہونگی۔

بشریٰ خالق

(نمائندہ سول سوسائٹی)

بچے سے مراد جنس کے اعتبار سے مرد، عورت اور خواجہ سرا، تینوں ہیں۔ بچے معصوم اور کمزور ہوتے ہیں، وہ خود اپنی آواز نہیں اٹھا سکتے لہٰذا ایسی عمر کا تعین ضروری تھا کہ جس میں بچے میں اپنے لیے بات کرنے کا حوصلہ ہو اور وہ اپنے معاملات پر گفتگو بھی کر سکے۔ اس حوالے سے دنیا کی ریاستوں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ بچہ ایک مکمل فرد ہے اور اسے تمام انسانی حقوق حاصل ہیں، اس کی عمر کی حد بھی 18 برس رکھی گئی۔

اس حولے سے اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال موجود ہے جو متفقہ طور پر تیار کیا گیا، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی اس پر دستخط کیے اور اس کی توثیق بھی کی مگر افسوس ہے کہ اس کی روشنی میں ہمارے ہاں خاطر خواہ اقدامات نہیں ہوسکے۔ آج بھی مختلف قوانین اور طبقات میں بچے کی عمر الگ، الگ ہے۔ بچے کے حوالے سے سب کے رویے اپنے اپنے ہیں، کوئی بلوغت کی عمر تک بچہ سمجھتا ہے تو کسی کا پیمانہ اور ہے۔

ہمارے رویوں کی وجہ سے بچوں کیلئے مسائل پیدا ہورہے ہیں لہٰذا اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں بچے کی عمر کا تعین کیا جائے، اس کے بعد تو کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے، اس چارٹر پر تو سب راضی ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی ذہنی، جسمانی اور جنسی صحت کو یقینی بنانے کیلئے اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر کی روشنی میں قانون و پالیسی سازی کرے اور اس پرعملدرآمد کا موثر میکنزم بھی بنایا جائے۔ 18 برس سے کم عمر کو بچہ تسلیم کیا جائے۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ بچوں کی شادیاں کیونکہ ان کی رضامندی سے نہیں ہوتی، ان پر والدین یا خاندان کی مرضی مسلط کی جاتی ہے لہٰذا یہ چائلڈ میرج کے ساتھ ساتھ جبری شادیاں بھی ہیں جو سنگین جرم ہے۔

بچے خود اپنا تحفظ نہیں کرسکتے لہٰذا ہمیں ان کیلئے نہ صرف آواز اٹھانی ہے بلکہ ارباب اختیار پر زور دینا ہے کہ وہ ان کے تحفظ کیلئے اقدامات کریں جو بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب، امیر، غیرب، تعلیم یافتہ، ان پڑھ و دیگر تفریق کے ہوں،ا س حوالے اقوام متحدہ کا چارٹر رہنما ہے۔ پنجاب میں شادی کا معاملہ قانونی اعتبار سے صنفی برابری پر بڑا سوال ہے۔ 18 برس سے کم عمر بچے، بچیاں کم عمری کی شادی کا شکار ہو رہی ہیں۔ قانون میں لڑکے کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس اور لڑکی کی 16 برس ہے جو بڑا امتیاز ہے جبکہ آئین کے مطابق تمام شہری برابر ہیں، کسی امتیاز کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ہمارے ہاں والدین بچوں پر اپنا حق سمجھتے ہیں، وہ انہیں فیصلہ سازی میں شریک نہیں کرتے بلکہ خود فیصلہ لیتے ہیں اور بچے اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

یہ صورتحال بچوں کی شادی کے حوالے سے بھی ہے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 27 فیصد شادیاں کم عمری کی ہیں۔ دیہات میں یہ شرح 47 فیصد جبکہ شہروں میں 25 فیصد ہے، اس میں ذہنی پسماندگی، غربت، رسم و رواج، مذہبی وجوہات و دیگر شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار ہوشربا ہیں، ایسے میں ہم کس طرح اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کر سکیں گے؟کم عمری کی شادی کی وجہ سے بچیوں کی صحت اور زندگی متاثر ہو رہی ہے، دوران زچگی ماں اور بچے کی شرح اموات بڑھ گئی ہے، آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جبکہ دنیا میں مختلف اہداف کے حوالے سے ہماری ریٹنگ شرمناک ہوچکی ہے۔ ہمارے پاس کوئی جامع پالیسی نہیں کہ کس طرح بچوں کو تحفظ دنیا ہے اور ان کی بحالی کرنی ہے۔

افسوس ہے کہ اس صدی میں بھی ہمارے بچوں کی زندگی خطرے میں ہے، ان کی صحت، بچپن، زندگی، آگے بڑھنے کے مواقع سمیت بیشتر معاملات ایسے ہیں جن سے بچے محروم ہو رہے ہیں۔ سماجی و معاشی منظر نامے میں 27 فیصد لڑکیوں کی تعلیم اور صحت متاثر ہو رہی ہے۔ لڑکیوں پر گھریلو تشدد بھی ہو رہا ہے، کم عمری کی شادی کی صورت میں یہ زیادہ ہو جاتاہے۔ خواتین کے حقوق کے حوالے سے سیڈا اور اقوام متحدہ کے چارٹر موجود ہیں۔

میرے نزدیک ہمیں بچوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر برائے حقوق اطفال پر اس کی اصل روح کے مطابق کام ہونا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پنجاب میں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر بھی 8 1برس اور شادی کیلئے شناختی کارڈ کی شرط لازمی رکھی جائے۔ چائلڈ میرج کی روک تھام کے ایکٹ میں ترمیم کیلئے حکومت کو چاہیے کہ سول سوسائٹی اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے، ایسی قانون سازی کی جائے جس سے بچوں کے مسائل حل ہوسکیں۔

مقداد سید

(چائلڈ رائٹس ایکٹیوسٹ وماہر قانون)

صوبہ سندھ میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کا قانون بہترین ہے۔ اس میں لڑکے اور لڑکی کی کم از کم عمر 18 برس رکھی گئی ہے، چائلڈ میرج پر کریمنل کارروائی ہوتی ہے، صلح نامہ نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ضمانت ہوتی ہے۔ اس میں شکایت کا میکنزم بھی اچھا ہے، فون کال پر پولیس کو اطلاع دی جاسکتی ہے جس کے بعد قانون حرکت میں آتا ہے اور جرم کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ پنجاب کے قانون میں شادی کیلئے لڑکے کی کم از کم عمر 18برس جبکہ لڑکی کی 16 برس ہے۔

یہ ایک بڑا امتیاز ہے جس کے خاتمے کیلئے عرصہ دراز سے مطالبہ کیا جا رہا ہے، ہر مرتبہ اس میں کوئی رکاوٹ آجاتی ہے اور قانون میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ اس قانون میں شکایت کا موثر میکنزم بھی موجود نہیں ہے ، یونین کونسل کے سیکرٹری کو شکایت کی جاسکتی ہے۔ قانون کی کمزوری کا فائدہ لوگ اٹھاتے ہیں، صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں آج تک چائلڈ میرج پر کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت اس قانون میں لڑکے اور لڑکی کی عمر میں تفریق کو ختم کرنے پر کام کر رہی ہے، ہماری تجاویز ہیں کہ سندھ کے ایکٹ کی طرح اس میں سزا اور رپورٹنگ کو شامل کیا جائے، بچوں کی بحالی کے حوالے سے بھی لائحہ عمل بنایا جائے۔

کم عمری کی شادی ایک منحوس چکر ہے جس کے اثرات نسل در نسل چلتے ہیں اور ملک و قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ کم عمری کی شادی سے معاشرے کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہوتا ہے۔ ایک مسئلہ زندگی کا ہے، دوران زچگی ماں، بچے کی شرح اموات زیادہ ہے۔ اسی طرح کم عمر ی کی شادی میں بچوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے، بچوں سے جبری مشقت بھی لی جاتی ہے، رسم و رواج بھی کچھ ایسے ہیں جن سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بچوں کی ڈویلپمنٹ کا مسئلہ بھی ہے، ان کی تعلیم، کھیل و دیگر سرگرمیوں میں شمولیت ختم ہوجاتی ہے جس سے ان کی ڈویلپمنٹ رک جاتی ہے۔

کم عمری کی شادی سے بچوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں جو افسوسناک ہے۔کم عمری کی شادی کے اثرات کے نتیجے میں ہمارا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی متاثر ہوگا۔ ہم نے اقوام متحدہ کے چارٹر برائے حقوق اطفال کی توثیق کر رکھی ہے، سیڈا و دیگر کنونشنز موجود ہیں، ہمیں اپنی عالمی ساکھ بہتر بنانے کیلئے چائلڈ میرج کی روک تھام سمیت وہ تمام اقدامات کرنا ہونگے جن کی ہم نے کمٹمنٹ کر رکھی ہے۔ ہمارے ہاں لڑکی کی شادی کی کم از کم عمر 18 برس کرنے پر اعتراضات اٹھائے جا تے ہیں۔ سعودی عرب اور مصر جیسے اسلامی ممالک میں بھی شادی کی کم از کم عمر 18 برس مقرر کر دی گئی ہے، یہ معاملہ بچوں کے تحفظ ، زندگی اور مستقبل کا ہے لہٰذا ہمیں ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔