وہ پہلی نظر۔۔۔۔۔۔ تشنگی اور میں
’’سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا لیا، کرم ہو گیا، کوئی کام نہیں بس حاضری۔‘‘
بہت دنیادار سا ہے، بہت دنیا دار۔ پاؤں میں چکر ہے اس کے، کہیں ٹک کے نہیں بیٹھتا۔۔۔۔اور ہر کام میں پورا۔ آپ اسے دھوکانہیں دے سکتے بالکل بھی ... اُڑتی چڑیا کے پر گن لینے والا، بلا کا حاضردماغ اور خوش گفتار۔ کتنی بار اس سے میں لڑا ہوں، وہ ہنستا رہتا ہے۔ عمر میں مجھ سے بڑا، زیرک، دانا اور دنیا دار۔ عربی، فارسی، اردو، سندھی کے اشعار کا خزانہ اور اسے برمحل بروئے کار لانے والا۔ ابھی پچھلے دنوں اچانک وہ دفتر پہنچ گیا۔ میں نے کہا: ''تم!'' ''ہاں میں بہ ذات خود، تمہیں خوش خبری سنانے آیا ہوں۔''
''رہنے دو تم اپنی خوش خبری، پھر کوئی دبئی کا ٹور، کوئی نیا کاروبار۔ سب بکواس، میں نہیں سننا چاہتا، جاؤ یہاں سے۔''
''نہیں، بالکل بھی نہیں۔ کوئی نیا دھندا نہیں۔ بس توفیق مل گئی ہے، جا رہا ہوں۔''
''کیا مطلب توفیق مل گئی جا رہا ہوں! کہاں جا رہے ہو؟''
''سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا لیا، کرم ہو گیا، کوئی کام نہیں بس حاضری۔''
میں نے اسے گلے لگایا تو وہ آب دیدہ تھا۔
''کب جا رہے ہو؟''
''پرسوں شام کو۔ دعا کرنا، کرو گے ناں؟''
ابھی کچھ دن پہلے میں بیٹھا ایک بچے سے گفت گو کر رہا تھا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت ہو رہی تھی۔ بس وہی تو ہیں ہمارے چارہ گر، ہر دکھ کا مداوا، ہر زخم کا مرہم۔ بالکل صحیح کہا ہے، بجا فرمایا ہے جناب مہر علی شاہؒ نے، میرے ننھیال کے مرشد، بات ہی ختم کر دی ہے ناں:
کتھے مہر علی' کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ''جی''، ''میں بول رہا ہوں، پہنچ گیا میں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں! میں پہنچ گیا درِ سرکارؐ پر، ہاں دیکھو میں پہنچ گیا۔ بس سامنے کھڑا ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کہوں سرکارؐ سے، بس کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تو تمہیں فون کر دیا۔ مجھے بتاؤ، کیا کہوں، آپ کی طرف سے کیا کہوں، بتاؤ جلدی بتاؤ۔''
''وہاں بولنا نہیں، بس چپ چاپ کھڑے رہنا، خبردار رہنا، ہوشیار رہنا، خاموش۔۔۔۔ وہاں زبان نہیں آنسو بولتے ہیں۔'' بس میں یہی کہہ سکا۔
میں نے اپنا حال سنانا چاہا تھا
مجھ سے پہلے میرا آنسو بول دیا
وہ ایک دوسرا ہے، بالکل اجڈ، گنوار۔ جو اسکول کالج کا سندیافتہ نہ ہو ہم اسے یہی سمجھتے ہیں۔ بلوچ اور اپنے قبیلے کا بڑا، لیکن ایسا سردار نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بہت خیال رکھنے والا، سب کے سر پر ہاتھ رکھنے والا، ان کی دیکھ بھال کرنے والا۔ دیکھنے میں وہی فوں فاں، پگڑیاں، بڑی بڑی بل دار مونچھوں والے اسلحہ بردار جاں نثاروں کے ساتھ گھومنے پھرنے والا، اچھے کھانوں کا شوقین اور شکار کے لیے نت نئی بندوقیں جمع کرنے والا۔ بہت سال پہلے وہ بھی حج کرنے گیا تو مجھ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے بھی یہی جملہ کہا تھا: ''آخر آ ہی گیا بلاوا، بس توفیق مل گئی، میں جا رہا ہوں، دعا کرنا۔''
پھر وہ چلا بھی گیا اور آ بھی گیا۔ میں جانتا ہوں وہ نماز میں بس ایک ہی سورت تلاوت کرتا ہے، سورہ کوثر۔ اور تو اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ کوئی تربیت نہیں لی، بس چلا گیا، اور جب واپس آیا تو مجھے اپنی روداد سنائی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے اسے چیخیں مار کر روتے دیکھا، اس نے اپنی واردات سنانے کے لیے جگہ بھی ایسی منتخب کی تھی۔ خاصی رات ہوگئی تب وہ مجھے اپنی بڑی سی جیپ میں بٹھا کر بہت دور لے گیا۔ اندھیرا گھپ، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اور پھر وہ بولنے لگا، فجر تک بولتا رہا۔۔۔۔ بولتا کیا رہا، بس روتا رہا۔ بہت مشکل سے سنبھلا، اور اب وہ کبھی نہیں سنبھلے گا۔
''میں حج کرنے گیا تو بس میں بیٹھا ہوا تھا اور ہم اللہ سائیں کے گھر جا رہے تھے سب مسافر۔ کیا مرد کیا عورتیں۔ کچھ نے کتابیں لی ہوئی تھیں اور پڑھ رہے تھے اور باقی آنکھیں بند کیے کچھ زبانی پڑھ رہے تھے۔ میں اکیلا ہی اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میرے برابر والے آدمی نے مجھے کہا: تم بھی کچھ پڑھو۔ یہ لو کتاب۔ تو میں نے کہا: میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے کہا: معلم کو بتا دینا وہ تمہیں سب کچھ بتا دے گا۔ دیکھو جب رب کے گھر پر پہلی نظر پڑے تو یہ پڑھنا۔ میں نے کہا: اچھا۔ اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، اور پھر اللہ سائیں کا گھر آگیا۔''
''اچھا تو پھر کیا ہوا، بولو جلدی بولو، رونا بند کرو اب، بولو!''
''ہم جنگلی لوگ ہمیں آتا ہی کیا ہے! جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا: واہ مالک، یہ ہے تیرا کمرہ، اتنا سا، چلو ٹھیک ہے، کمرہ چھوٹا سا ہے، صحن تو بہت بڑا ہے، اور پھر تجھے ضرورت بھی کیا ہے، ضرورت تو ہم جیسوں کو ہے، تُو تو بے نیاز بادشاہ ہے، بس دیتا رہتا ہے اور لیتا کچھ نہیں، دیکھ ابھی میں تیرے در پر آگیا ہوں، دیکھ رہا ہے ناں مجھے تُو! مجھے دوسرے حاجیوں نے بہت سمجھایا یہ دعا پڑھو وہ پڑھو، لیکن میں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ میں تو بات کرنے آیا ہوں۔ بہت سی باتیں، دل کی باتیں، تُو سن رہا ہے ناں! دیکھ تیرے پیارے حبیبؐ نے بتایا ہے کہ کوئی بھی در پر آجائے تو اسے خالی ہاتھ نہ بھیجو، اور میں تیرا چھوٹا سا بندہ اس پر عمل کرتا رہا ہوں۔ میرے باپ دادا بھی یہی کرتے تھے۔ جو در پر آگیا خالی ہاتھ نہیں گیا۔ اب میں تیرے در پر آگیا ہوں۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کیا چاہیے۔ پتا ہی نہیں ہے مجھے کچھ، سب کچھ تو تُو نے مجھے دیا ہے، اب اور کیا ضروری ہے مجھے نہیں پتا، بس میں تو آگیا ہوں، آگے تیری مرضی، اور تیری مرضی میں ہے میری خوشی۔''
''پھر کیا ہوا، باقی دن کیا کرتا رہا؟''
''بس وہی جو سب کرتے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر کرتا رہا، لیکن باتیں بہت کیں اللہ سائیں سے۔ اور پھر جیسے دوسرے آئے میں بھی آگیا۔''
''پھر۔۔۔۔؟ پھر کیا، واپس گاؤں آیا، مبارک سلامت ملیں اور حاجی صاحب بن گیا۔ لیکن میں پھنس گیا یار ایک چکر میں۔''
''کیسا چکر؟ تمہارا کوئی کام سیدھا ہوا کب ہے، جو اب پھنس گیا؟''
''نہیں نہیں، بہت بری طرح پھنس گیا، میں جب واپس آیا تو لوگ مبارکی دینے آئے، ہمارے گاؤں کی عورتیں بھی، پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی: سائیں جی آپ تو معصوم ہوگئے، اللہ سائیں کا گھر دیکھ کر پاک ہوگئے سائیں آپ تو، اللہ سائیں اب آپ کی سنے گا۔ میری بیٹی بہت بیمار ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، آپ سائیں اس کو دم کر دو، وہ ٹھیک ہو جائے گی، اللہ سائیں خوش رہے گا آپ سے، میرا تو کوئی ہے بھی نہیں اور پیسے بھی نہیں ہیں میرے پاس۔''
''پھر کیا ہوا، آگے بتاؤ؟''
جب وہ رو رو کر نڈھال ہوگیا، تب اس کی آواز آئی:
''سائیں پھنس گیا میں، اس سے اچھا تھا حج کرنے نہ جاتا۔ میں نے اس عورت کو انتظار کرنے کا کہا، اور اپنی بیوی سے کہا مجھے کہیں جانا ہے میرے کپڑے نکالو اور ملازم کو دو کہ وہ جیپ میں رکھے، اور خود ایک کمرے میں بند ہو کر بہت رویا، اللہ سائیں دیکھ میری بے عزتی ہو جائے گی، وہ عورت بہت دکھی ہے اور مجھے وہ حاجی سمجھ بیٹھی ہے۔ اس کی بیٹی بیمار ہے، مجھے جانا ہی ہوگا۔ لیکن میرے جانے سے کیا ہوتا ہے۔ اسے صحت مند کرنا تو تیرے اختیار میں ہے، تُو اسے ٹھیک کر دے۔ میری بہت بے عزتی ہو جائے گی، اگر تُو نے اسے ٹھیک نہیں کیا تو میں گاؤں والوں کو کیا شکل دکھاؤں گا۔ اور سن لے، اگر وہ آج ٹھیک نہیں ہوئی تو میں گاؤں چھوڑ دوں گا۔ اور جاؤں گا کہاں! یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ پھر میں اس عورت کے ساتھ گیا، اس کی بیٹی بے سدھ پڑی ہوئی تھی، بالکل بے سدھ۔ میں نے اسے بہت آوازیں دیں، لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ پھر میں نے جھوٹ موٹ پھونکیں ماریں اور پانی منگا کر اس پر چھینٹیں بھی، بس دل میں یہی کہے جا رہا تھا: میں تو کچھ بھی نہیں کرسکتا، تیرا کیا جائے گا! ٹھیک کر دے اسے۔ اور پھر میں واپس آگیا۔ میں سب کے سامنے رو بھی نہیں سکتا، سردار ہوں ناں میں تو۔
بس پھر میں انتظار کرنے لگا، ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ وہ عورت دور سے آتی ہوئی دکھائی دی، تو میں نے جیپ کی چابی سنبھال لی کہ اگر کوئی بری خبر ہوئی تو گاؤں چھوڑ دوں گا۔ جیسے جیسے وہ قریب آ رہی تھی، ویسے ویسے میرا دم نکل رہا تھا کہ وہ قریب پہنچ گئی، اس کے پاس ایک تھیلا تھا، اس نے تھیلا کھولا اور گڑ نکال کر مجھے دیا اور پھر کہا: حاجی صاحب! یہ گڑ لائی ہوں، میری بیٹی نے آنکھیں کھول دیں اور تھوڑا سا کھانا بھی کھایا، آپ دو چار پھونکیں اور ماریں گے تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔''
میں جانتا ہوں وہ پھونکیں ہی مارتا رہا اور اللہ جی کرم کرتا رہا۔ مقدار نہیں اخلاص شرط ہے، خالص ہونا شرط ہے، تعلق شرط ہے، بس اور کچھ نہیں۔
مجھے جو کہنا تھا آپ سے کہہ دیا، میرا رب آپ کو سلامت رکھے۔ حج مبارک اور پھر عید مبارک۔ خاک بسر، بے آسرا مخلوق خدا کو مت بھولیے گا۔ خوب کھائیے، میرا مالک آپ کا رزق کشادہ کر دے۔ کسی کا بھی محتاج نہ کرے۔ دیکھیے جناب علیؓ یاد آگئے:
''انسان دنیا میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس کپڑے سے اس کا کفن بننا ہے، وہ بازار میں آ چکا ہے۔''
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اللہ کا۔
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا
ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی راہ گزر' رائیگانی کا ڈر
مضمحل بال و پَر' بے بسی اور میں
''رہنے دو تم اپنی خوش خبری، پھر کوئی دبئی کا ٹور، کوئی نیا کاروبار۔ سب بکواس، میں نہیں سننا چاہتا، جاؤ یہاں سے۔''
''نہیں، بالکل بھی نہیں۔ کوئی نیا دھندا نہیں۔ بس توفیق مل گئی ہے، جا رہا ہوں۔''
''کیا مطلب توفیق مل گئی جا رہا ہوں! کہاں جا رہے ہو؟''
''سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلا لیا، کرم ہو گیا، کوئی کام نہیں بس حاضری۔''
میں نے اسے گلے لگایا تو وہ آب دیدہ تھا۔
''کب جا رہے ہو؟''
''پرسوں شام کو۔ دعا کرنا، کرو گے ناں؟''
ابھی کچھ دن پہلے میں بیٹھا ایک بچے سے گفت گو کر رہا تھا۔ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدحت ہو رہی تھی۔ بس وہی تو ہیں ہمارے چارہ گر، ہر دکھ کا مداوا، ہر زخم کا مرہم۔ بالکل صحیح کہا ہے، بجا فرمایا ہے جناب مہر علی شاہؒ نے، میرے ننھیال کے مرشد، بات ہی ختم کر دی ہے ناں:
کتھے مہر علی' کتھے تیری ثناء
گستاخ اکھیں کتھے جا اڑیاں
ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ''جی''، ''میں بول رہا ہوں، پہنچ گیا میں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں! میں پہنچ گیا درِ سرکارؐ پر، ہاں دیکھو میں پہنچ گیا۔ بس سامنے کھڑا ہوں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کہوں سرکارؐ سے، بس کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تو تمہیں فون کر دیا۔ مجھے بتاؤ، کیا کہوں، آپ کی طرف سے کیا کہوں، بتاؤ جلدی بتاؤ۔''
''وہاں بولنا نہیں، بس چپ چاپ کھڑے رہنا، خبردار رہنا، ہوشیار رہنا، خاموش۔۔۔۔ وہاں زبان نہیں آنسو بولتے ہیں۔'' بس میں یہی کہہ سکا۔
میں نے اپنا حال سنانا چاہا تھا
مجھ سے پہلے میرا آنسو بول دیا
وہ ایک دوسرا ہے، بالکل اجڈ، گنوار۔ جو اسکول کالج کا سندیافتہ نہ ہو ہم اسے یہی سمجھتے ہیں۔ بلوچ اور اپنے قبیلے کا بڑا، لیکن ایسا سردار نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ بہت خیال رکھنے والا، سب کے سر پر ہاتھ رکھنے والا، ان کی دیکھ بھال کرنے والا۔ دیکھنے میں وہی فوں فاں، پگڑیاں، بڑی بڑی بل دار مونچھوں والے اسلحہ بردار جاں نثاروں کے ساتھ گھومنے پھرنے والا، اچھے کھانوں کا شوقین اور شکار کے لیے نت نئی بندوقیں جمع کرنے والا۔ بہت سال پہلے وہ بھی حج کرنے گیا تو مجھ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے بھی یہی جملہ کہا تھا: ''آخر آ ہی گیا بلاوا، بس توفیق مل گئی، میں جا رہا ہوں، دعا کرنا۔''
پھر وہ چلا بھی گیا اور آ بھی گیا۔ میں جانتا ہوں وہ نماز میں بس ایک ہی سورت تلاوت کرتا ہے، سورہ کوثر۔ اور تو اسے کچھ بھی نہیں آتا۔ کوئی تربیت نہیں لی، بس چلا گیا، اور جب واپس آیا تو مجھے اپنی روداد سنائی۔ زندگی میں پہلی مرتبہ میں نے اسے چیخیں مار کر روتے دیکھا، اس نے اپنی واردات سنانے کے لیے جگہ بھی ایسی منتخب کی تھی۔ خاصی رات ہوگئی تب وہ مجھے اپنی بڑی سی جیپ میں بٹھا کر بہت دور لے گیا۔ اندھیرا گھپ، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا تھا۔ اور پھر وہ بولنے لگا، فجر تک بولتا رہا۔۔۔۔ بولتا کیا رہا، بس روتا رہا۔ بہت مشکل سے سنبھلا، اور اب وہ کبھی نہیں سنبھلے گا۔
''میں حج کرنے گیا تو بس میں بیٹھا ہوا تھا اور ہم اللہ سائیں کے گھر جا رہے تھے سب مسافر۔ کیا مرد کیا عورتیں۔ کچھ نے کتابیں لی ہوئی تھیں اور پڑھ رہے تھے اور باقی آنکھیں بند کیے کچھ زبانی پڑھ رہے تھے۔ میں اکیلا ہی اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ میرے برابر والے آدمی نے مجھے کہا: تم بھی کچھ پڑھو۔ یہ لو کتاب۔ تو میں نے کہا: میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر اس نے مجھے کہا: معلم کو بتا دینا وہ تمہیں سب کچھ بتا دے گا۔ دیکھو جب رب کے گھر پر پہلی نظر پڑے تو یہ پڑھنا۔ میں نے کہا: اچھا۔ اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، اور پھر اللہ سائیں کا گھر آگیا۔''
''اچھا تو پھر کیا ہوا، بولو جلدی بولو، رونا بند کرو اب، بولو!''
''ہم جنگلی لوگ ہمیں آتا ہی کیا ہے! جو منہ میں آیا بولتا چلا گیا: واہ مالک، یہ ہے تیرا کمرہ، اتنا سا، چلو ٹھیک ہے، کمرہ چھوٹا سا ہے، صحن تو بہت بڑا ہے، اور پھر تجھے ضرورت بھی کیا ہے، ضرورت تو ہم جیسوں کو ہے، تُو تو بے نیاز بادشاہ ہے، بس دیتا رہتا ہے اور لیتا کچھ نہیں، دیکھ ابھی میں تیرے در پر آگیا ہوں، دیکھ رہا ہے ناں مجھے تُو! مجھے دوسرے حاجیوں نے بہت سمجھایا یہ دعا پڑھو وہ پڑھو، لیکن میں پڑھ ہی نہیں سکتا۔ میں تو بات کرنے آیا ہوں۔ بہت سی باتیں، دل کی باتیں، تُو سن رہا ہے ناں! دیکھ تیرے پیارے حبیبؐ نے بتایا ہے کہ کوئی بھی در پر آجائے تو اسے خالی ہاتھ نہ بھیجو، اور میں تیرا چھوٹا سا بندہ اس پر عمل کرتا رہا ہوں۔ میرے باپ دادا بھی یہی کرتے تھے۔ جو در پر آگیا خالی ہاتھ نہیں گیا۔ اب میں تیرے در پر آگیا ہوں۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ مجھے کیا چاہیے۔ پتا ہی نہیں ہے مجھے کچھ، سب کچھ تو تُو نے مجھے دیا ہے، اب اور کیا ضروری ہے مجھے نہیں پتا، بس میں تو آگیا ہوں، آگے تیری مرضی، اور تیری مرضی میں ہے میری خوشی۔''
''پھر کیا ہوا، باقی دن کیا کرتا رہا؟''
''بس وہی جو سب کرتے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ دیکھ کر کرتا رہا، لیکن باتیں بہت کیں اللہ سائیں سے۔ اور پھر جیسے دوسرے آئے میں بھی آگیا۔''
''پھر۔۔۔۔؟ پھر کیا، واپس گاؤں آیا، مبارک سلامت ملیں اور حاجی صاحب بن گیا۔ لیکن میں پھنس گیا یار ایک چکر میں۔''
''کیسا چکر؟ تمہارا کوئی کام سیدھا ہوا کب ہے، جو اب پھنس گیا؟''
''نہیں نہیں، بہت بری طرح پھنس گیا، میں جب واپس آیا تو لوگ مبارکی دینے آئے، ہمارے گاؤں کی عورتیں بھی، پھر ایک عورت آئی اور کہنے لگی: سائیں جی آپ تو معصوم ہوگئے، اللہ سائیں کا گھر دیکھ کر پاک ہوگئے سائیں آپ تو، اللہ سائیں اب آپ کی سنے گا۔ میری بیٹی بہت بیمار ہے، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے، آپ سائیں اس کو دم کر دو، وہ ٹھیک ہو جائے گی، اللہ سائیں خوش رہے گا آپ سے، میرا تو کوئی ہے بھی نہیں اور پیسے بھی نہیں ہیں میرے پاس۔''
''پھر کیا ہوا، آگے بتاؤ؟''
جب وہ رو رو کر نڈھال ہوگیا، تب اس کی آواز آئی:
''سائیں پھنس گیا میں، اس سے اچھا تھا حج کرنے نہ جاتا۔ میں نے اس عورت کو انتظار کرنے کا کہا، اور اپنی بیوی سے کہا مجھے کہیں جانا ہے میرے کپڑے نکالو اور ملازم کو دو کہ وہ جیپ میں رکھے، اور خود ایک کمرے میں بند ہو کر بہت رویا، اللہ سائیں دیکھ میری بے عزتی ہو جائے گی، وہ عورت بہت دکھی ہے اور مجھے وہ حاجی سمجھ بیٹھی ہے۔ اس کی بیٹی بیمار ہے، مجھے جانا ہی ہوگا۔ لیکن میرے جانے سے کیا ہوتا ہے۔ اسے صحت مند کرنا تو تیرے اختیار میں ہے، تُو اسے ٹھیک کر دے۔ میری بہت بے عزتی ہو جائے گی، اگر تُو نے اسے ٹھیک نہیں کیا تو میں گاؤں والوں کو کیا شکل دکھاؤں گا۔ اور سن لے، اگر وہ آج ٹھیک نہیں ہوئی تو میں گاؤں چھوڑ دوں گا۔ اور جاؤں گا کہاں! یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ پھر میں اس عورت کے ساتھ گیا، اس کی بیٹی بے سدھ پڑی ہوئی تھی، بالکل بے سدھ۔ میں نے اسے بہت آوازیں دیں، لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں۔ پھر میں نے جھوٹ موٹ پھونکیں ماریں اور پانی منگا کر اس پر چھینٹیں بھی، بس دل میں یہی کہے جا رہا تھا: میں تو کچھ بھی نہیں کرسکتا، تیرا کیا جائے گا! ٹھیک کر دے اسے۔ اور پھر میں واپس آگیا۔ میں سب کے سامنے رو بھی نہیں سکتا، سردار ہوں ناں میں تو۔
بس پھر میں انتظار کرنے لگا، ابھی دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ وہ عورت دور سے آتی ہوئی دکھائی دی، تو میں نے جیپ کی چابی سنبھال لی کہ اگر کوئی بری خبر ہوئی تو گاؤں چھوڑ دوں گا۔ جیسے جیسے وہ قریب آ رہی تھی، ویسے ویسے میرا دم نکل رہا تھا کہ وہ قریب پہنچ گئی، اس کے پاس ایک تھیلا تھا، اس نے تھیلا کھولا اور گڑ نکال کر مجھے دیا اور پھر کہا: حاجی صاحب! یہ گڑ لائی ہوں، میری بیٹی نے آنکھیں کھول دیں اور تھوڑا سا کھانا بھی کھایا، آپ دو چار پھونکیں اور ماریں گے تو وہ ٹھیک ہو جائے گی۔''
میں جانتا ہوں وہ پھونکیں ہی مارتا رہا اور اللہ جی کرم کرتا رہا۔ مقدار نہیں اخلاص شرط ہے، خالص ہونا شرط ہے، تعلق شرط ہے، بس اور کچھ نہیں۔
مجھے جو کہنا تھا آپ سے کہہ دیا، میرا رب آپ کو سلامت رکھے۔ حج مبارک اور پھر عید مبارک۔ خاک بسر، بے آسرا مخلوق خدا کو مت بھولیے گا۔ خوب کھائیے، میرا مالک آپ کا رزق کشادہ کر دے۔ کسی کا بھی محتاج نہ کرے۔ دیکھیے جناب علیؓ یاد آگئے:
''انسان دنیا میں اس قدر مگن ہو چکا ہے کہ اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ جس کپڑے سے اس کا کفن بننا ہے، وہ بازار میں آ چکا ہے۔''
کچھ بھی تو نہیں رہے گا، بس نام رہے گا اللہ کا۔
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا
ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی راہ گزر' رائیگانی کا ڈر
مضمحل بال و پَر' بے بسی اور میں