بزمِ شعروسخن کراچی کا ساتواں سالانہ مشاعرہ

درد کی خانقاہ سے یہ سلسلہ برصغیر کے نوابین کے ہاں پہنچا اور لال قلعہ دہلی کے مغل دربار میں اسے عروج حاصل ہوا۔


فوٹو : فائل

کسی بھی زبان کی ترویج اور ترقی کے لیے جہاں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں، وہیں یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ کثرت سے بولی اور سمجھی جائے۔ اسی وجہ سے اردو کی ترقی میں مشاعروں کا ایک اہم کردار رہا ہے۔

یوں تو انگریزی زبان میں بھی شعری محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے مگر جو عوامی پذیرائی اردو اور فارسی کے مشاعروں کو حاصل ہوئی اس کی نظیر کسی اور زبان میں نہیں ملتی۔ مشاعرے کا رواج ہمارے ہاں نیا نہیں، اس کے ڈانڈے خواجہ میر درد کی خانقاہ میں ماہانہ بنیاد پر آموختہ کے عنوان سے منعقد ہونے والی شعری محافل سے ملتے ہیں۔

درد کی خانقاہ سے یہ سلسلہ برصغیر کے نوابین کے ہاں پہنچا اور لال قلعہ دہلی کے مغل دربار میں اسے عروج حاصل ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد ریڈیو پاکستان کے مشاعروں، روزنامہ ڈان، ساکنان شہر قائد، انجمن سادات امروہہ، اور شہر کی مختلف ادبی تنظیموں نے اردو تہذیب کی اس روایت اور ایک اہم ادارے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔

'بزمِ شعرو سخن' بھی ایسی ہی ادب دوست ساتھیوں کی ایک تنظیم ہے، جو ہر قسم کی ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر ہو کر تواتر کے ساتھ چھوٹی بڑی شعری نشستیں اور سال میں ایک بار مرکزی سطح کا ایک بڑا فیملی مشاعرہ منعقد کرتی ہے۔ سوشل میڈیا اور اولیول کے اس دور میں ہماری آنے والی نسل کو اردو زبان اور تہذیب کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اس طرح کے محافل کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

اسی سلسلے کا ساتواں سالانہ فیملی مشاعرہ ہفتہ 4 مئی 2024ء کو کشمیر کمپلیکس پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے تعاون سے منعقد ہوا، جس میں سامعین کی ایک بڑی تعداد شعرا کرام کے کلام سے لطف اندوز ہوئی۔ اس موقع پر دو ہزار سے زائد افراد کی گنجائش رکھنے والی مشاعرہ گاہ اپنی تنگ دامانی کا شکوہ کر رہی تھی اور بہت سے سامعین نے کھڑے ہو کر مشاعرہ سنا، جو کہ رات کے ڈھائی بجے تک جاری رہا۔

مشاعرے کی صدارت پروفیسر سحر انصاری نے کی، جب کہ مہمان اعزازی کراچی کے بزرگ شاعر انور شعور تھے، جن دیگر شعرا کرام نے اپنا خوب صورت کلام پیش کیا ان میں طارق سبز واری، ریحانہ روحی، جاوید صبا، سلمان صدیقی، وضاحت نسیم، اجمل سراج، ڈاکٹر فیاض وید، فرخ اظہار، ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر، عبدالحکیم ناصف، ڈاکٹر سلمان ثروت، صفدر علی خان انشا، یاسر سعید، محترمہ صوفیہ زاہد، محترمہ عفّت مسعود اور عدیل احمد عدیل شامل تھے، فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورتِ حال کے پسِ منظر میں بھی شعرا کرام نے نظمیں اور قطعات پیش کیے۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمٰن نے اس مشاعرے میں خصوصی طور پر شرکت کی اور بزمِ شعر و سخن کی ترویجِ اردو کے ضمن میں کی جانے والی کوششوں اور خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ نظامت کے فرائض شہر کے معروف نظامت کار شکیل خاں اور ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر نے ادا کیے۔ مقامی اسکول کے دو بچوں نے مرحوم حمایت علی شاعر اور مرحوم راحت اندوری کے مخصوص انداز اور انھی کے روپ میں ان کا کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی۔ مشاعرے کے آغاز میں منتظمِ مشاعرہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مہمانوں اور شعرا کو خوش آمدید کہا، بزم کے متعمدِ عمومی عبید ہاشمی نے بزم کے اغراض و مقاصد اور سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پیش کی، جب کہ بزم کے صدر شیخ طاہر سلطان پرفیوم والا نے اختتامی کلمات ادا کیے۔ شعرا کرام کو گل دستے پیش کیے گئے۔ اس مشاعرے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی جب کہ مشاعرے کے اختتام پر شرکا کے لیے عشائیے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔