سیاست کی شطرنج
سیاست اقتدار کا کھیل ہے
خود کو پاکستان پیپلز پارٹی کے ازلی اور ثقہ بند جیالوں سے بھی کہیں بڑھ کر 2005ء سے آصف علی زرداری کے چہیتے اور جاں نثار کہلوانے والے منگل کے روز سے بڑے پریشان ہیں۔
بڑے دُکھ کے ساتھ اس شبے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بالآخر''ایک زرداری سب پر بھاری'' کو فاروق نائیک کی پھرتیوں کے ذریعے گھیر لیا گیا ہے۔
ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے روبرو ''وہ چٹھی'' لکھنے کا وعدہ کرنے کے بعد حکومت ''بچ نہ پائے گی۔'' یہ بات درست ہے کہ آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر سوئس بینکوں میں جمع 60 ملین ڈالر کا کھوج لگانے کے نام پر لکھا جانے والا خط تقریباََ انھی الفاظ پر مشتمل ہو گا جن کا انتخاب فاروق نائیک کریں گے۔
ظاہر سی بات مگر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے لیے اس کو من و عن منظورکرنا مشکل ہو گا۔ البتہ ''مناسب و معقول متن'' کی تلاش میں راجہ پرویز اشرف کو چند مزید ہفتے وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنے کو مل جائیں گے۔ انجام مگر وہی ہو گا جس سے آصف علی زرداری گزشتہ چار برسوں سے بڑی ہوشیاری سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آصف علی زرداری کے متفکر اور پریشان چہیتوں اور جاں نثاروں کو ''پُرسہ'' دیتے ہوئے میں فاروق نائیک کا دفاع بھی کرتا رہا۔ میں ان کو محض سرسری طور پر جانتا ہوں۔ میرا شمار ان جید صحافیوں میں ہرگز نہیں ہوتا جنھیں وہ اکیلے میں بلا کر اگست کے پہلے ہفتے سے ''درمیانی راستہ'' نکل آنے کی نوید پوری تفصیلات سمیت سناتے رہے ہیں۔
محض ایک سیاسی رپورٹر ہوتے ہوئے میری اصل ترجیح تو آصف علی زرداری کے چہیتوں اور جاں نثاروں کو تسلی دینا تھی۔ اسی مقصد کی خاطر انھیں سمجھانا پڑا کہ ''سہاگن'' وہی ہوتی ہے جسے پیا چاہے۔ سیاست اقتدار کا کھیل ہے۔ اس کی بساط پر مہروں کو آگے بڑھایا اور پھر کسی مرحلے پر مروانے کے بعد بادشاہ کو بچا لیا جاتا ہے۔
ہمارا ''بادشاہ'' جب سوئٹزر لینڈ کے حکام کو خط لکھنا ''شہیدوں کی قبر'' کی توہین کرنے کے مترادف ٹھہرا رہا تھا تو ڈاکٹر بابر اعوان کی ضرورت تھی۔ وہ اپنا حصہ ادا کر چکے تو مشعل یوسف رضا گیلانی نے تھام لی۔ وہ ایک خاص مقام تک پہنچے تو ضرورت ایک اور قانون دان کی آن پڑی۔ چوہدری اعتزاز احسن اس وقت تک راندۂ درگاہ سمجھے جا رہے تھے۔
گیلانی صاحب نے ان سے رجوع کیا۔ آصف علی زرداری اس سے پہلے ہی اعتزاز احسن سے لاڑکانہ میں ایک جیالی تقریر بھی کروا چکے تھے۔ اعتزاز احسن کی ''گھر واپسی'' ہوئی۔ وہ سینیٹر بھی بن گئے۔ مگر اس کے عوض اپنی برسوں کی بنائی ہوئی پیشہ وارانہ ساکھ بھی لٹا بیٹھے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ''اقدار'' بھی بدل جاتی ہیں۔ سیاست کاری تو ویسے بھی لچکدار لوگوں کو زیادہ کامیاب بنایا کرتی ہے۔
سپریم کورٹ سے بڑا عرصہ''اڑی'' کرنے کے بعد اب کچھ لچک دکھانے کی ضرورت تھی۔ فاروق نائیک اس کے اظہار کے لیے زیادہ مناسب نظر آئے۔ ان پر ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کو گھیر لینے کا الزام لگانا زیادتی ہو گا۔
آصف علی زرداری کے چہیتے اور جانثار لیکن میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔ ان میں سے چند تو منگل کی دوپہر سے ہی پیپلز پارٹی کے ان رہ نمائوں کی تلاش میں چل نکلے ہیں جو ان کی دانست میں فاروق نائیک کے ''شریک ملزمان'' ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے جب خورشید شاہ اور قمرزمان کائرہ کے نام لیے تو میں حیران نہ ہوا۔
ہاں اس وقت ضرور بہت حیرت ہوئی جب ایک چہیتے اور جاں نثار نے میاں منظور وٹو کو ''درمیانی راستے'' پر ڈالنے کا ''اصل ذمے دار'' بنا کر پیش کیا۔ ایک اور صاحب نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب کو بھی ''امریکی ہدایات کی روشنی'' میں آصف علی زرداری کو لچک دکھانے کی طرف راغب کرنے کا ''ملزم'' بنا دیا۔ مگر اس وقت تو واقعتاََ میرے محاورے والے طوطے اڑ گئے جب ایک اور چیہتے اور جاں نثار نے وزیر خارجہ حناربانی کھر کو بھی لچک پر مائل گروہ میں شامل کر دیا۔ میں بضد رہا کہ حناربانی کھرصاحبہ زرداری صاحب کے دربار میں کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتیں۔ ''اس خط'' کے معاملے میں شاید وہ خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتی رہی ہوں گی۔
میں نے جب یہ بات آصف علی زرداری کے ایک اور چہیتے اور جاں نثار کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ بڑی حقارت سے انھوں نے میرے جیسے دو ٹکے کے صحافی کو سمجھانا چاہا کہ اہمیت کسی فرد کی نہیں اس ادارے کی ہوا کرتی ہے جس کی وہ شخصیت نمائندگی کرتی ہے۔
مجھے بتایا گیا کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی زیر سرپرستی ہماری وزارتِ خارجہ کے افسران آج کل امریکی دبائو کا سامنا کرنے کے لیے ایک طویل المدت حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ چین اس حکمت عملی کے تحت ہمیشہ کی طرح اپنا سمندروں سے گہرا اور ہمالیہ سے بھی بلند تر دوست تو رہے گا۔
مگر اب ضرورت بھارت سے تعلقات کو ذرا بہتر بنانے کی بھی ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہء پاکستان بغیر کسی وجہ کے ''کامیاب۔ کامیاب'' سا نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ اب پوری کوشش ہے کہ اسی سال کے ختم ہونے تک۔ ترجیحاََ نومبر کے تیسرے ہفتے میں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، چاہے ننکانہ صاحب جانے کے بہانے ہی سہی، پاکستان کے دورے پر آنے کو تیار ہو جائیں۔
ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی سرپرستی میں بنائی گئی حکمت عملی میں ''ترپ کا پتا'' روسی صدر پیوٹن کا اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ ہے۔ اسی دورے کو یقینی بنانے کے لیے صدر زرداری روس جانے والے تھے کہ یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیے گئے۔ زرداری صاحب کو آخری لمحوں میں اپنا وہ دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ اب بڑا عجیب لگتا اگر اس مرتبہ پیوٹن یہاں اُترتے تو ایک اور وزیر اعظم یا تو عدالت میں توہینِ عدالت کی پیشی بھگت رہا ہوتا، یا فارغ کر دیا گیا ہوتا۔
مختصراََ مجھے بتایا گیا ہے کہ ''اس چٹھی'' کے معاملے پر لچک دکھانے کا فیصلہ دراصل صرف اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم اور روسی صدر کے پاکستان آنے کو ممکن بنایا جائے اور اس بات کا اہتمام بھی کہ اپنے دوروں کے دوران یہ دونوں ر نما ہماری حکومت کو سنجیدہ لے کر طویل المدتی سمجھوتوں کے بارے میں مذاکرات کر سکیں۔
فاروق نائیک تو ایک ''بڑی گیم'' کا محض ایک مہرہ ہیں۔ حنا ربانی کھر نے بھی اپنا ادارتی عندیہ(Institutional Input) دیا ہو گا۔ کچھ تو یقیناً دکھایا گیا ہو گا جس نے آصف علی زرداری کو نظر بظاہر اتنا بڑا یو ٹرن لینے پر مجبور کیا جو کام نہ آیا تو آیندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو آنے والے کئی برسوں تک اقتدار کے کھیل کا ایک محروم و بے بس تماشائی بنا کر رکھ دے گا۔
بڑے دُکھ کے ساتھ اس شبے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بالآخر''ایک زرداری سب پر بھاری'' کو فاروق نائیک کی پھرتیوں کے ذریعے گھیر لیا گیا ہے۔
ان کے خیال میں سپریم کورٹ کے روبرو ''وہ چٹھی'' لکھنے کا وعدہ کرنے کے بعد حکومت ''بچ نہ پائے گی۔'' یہ بات درست ہے کہ آصف علی زرداری کے مبینہ طور پر سوئس بینکوں میں جمع 60 ملین ڈالر کا کھوج لگانے کے نام پر لکھا جانے والا خط تقریباََ انھی الفاظ پر مشتمل ہو گا جن کا انتخاب فاروق نائیک کریں گے۔
ظاہر سی بات مگر یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے لیے اس کو من و عن منظورکرنا مشکل ہو گا۔ البتہ ''مناسب و معقول متن'' کی تلاش میں راجہ پرویز اشرف کو چند مزید ہفتے وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان رہنے کو مل جائیں گے۔ انجام مگر وہی ہو گا جس سے آصف علی زرداری گزشتہ چار برسوں سے بڑی ہوشیاری سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
آصف علی زرداری کے متفکر اور پریشان چہیتوں اور جاں نثاروں کو ''پُرسہ'' دیتے ہوئے میں فاروق نائیک کا دفاع بھی کرتا رہا۔ میں ان کو محض سرسری طور پر جانتا ہوں۔ میرا شمار ان جید صحافیوں میں ہرگز نہیں ہوتا جنھیں وہ اکیلے میں بلا کر اگست کے پہلے ہفتے سے ''درمیانی راستہ'' نکل آنے کی نوید پوری تفصیلات سمیت سناتے رہے ہیں۔
محض ایک سیاسی رپورٹر ہوتے ہوئے میری اصل ترجیح تو آصف علی زرداری کے چہیتوں اور جاں نثاروں کو تسلی دینا تھی۔ اسی مقصد کی خاطر انھیں سمجھانا پڑا کہ ''سہاگن'' وہی ہوتی ہے جسے پیا چاہے۔ سیاست اقتدار کا کھیل ہے۔ اس کی بساط پر مہروں کو آگے بڑھایا اور پھر کسی مرحلے پر مروانے کے بعد بادشاہ کو بچا لیا جاتا ہے۔
ہمارا ''بادشاہ'' جب سوئٹزر لینڈ کے حکام کو خط لکھنا ''شہیدوں کی قبر'' کی توہین کرنے کے مترادف ٹھہرا رہا تھا تو ڈاکٹر بابر اعوان کی ضرورت تھی۔ وہ اپنا حصہ ادا کر چکے تو مشعل یوسف رضا گیلانی نے تھام لی۔ وہ ایک خاص مقام تک پہنچے تو ضرورت ایک اور قانون دان کی آن پڑی۔ چوہدری اعتزاز احسن اس وقت تک راندۂ درگاہ سمجھے جا رہے تھے۔
گیلانی صاحب نے ان سے رجوع کیا۔ آصف علی زرداری اس سے پہلے ہی اعتزاز احسن سے لاڑکانہ میں ایک جیالی تقریر بھی کروا چکے تھے۔ اعتزاز احسن کی ''گھر واپسی'' ہوئی۔ وہ سینیٹر بھی بن گئے۔ مگر اس کے عوض اپنی برسوں کی بنائی ہوئی پیشہ وارانہ ساکھ بھی لٹا بیٹھے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ''اقدار'' بھی بدل جاتی ہیں۔ سیاست کاری تو ویسے بھی لچکدار لوگوں کو زیادہ کامیاب بنایا کرتی ہے۔
سپریم کورٹ سے بڑا عرصہ''اڑی'' کرنے کے بعد اب کچھ لچک دکھانے کی ضرورت تھی۔ فاروق نائیک اس کے اظہار کے لیے زیادہ مناسب نظر آئے۔ ان پر ''ایک زرداری سب پر بھاری'' کو گھیر لینے کا الزام لگانا زیادتی ہو گا۔
آصف علی زرداری کے چہیتے اور جانثار لیکن میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہو رہے۔ ان میں سے چند تو منگل کی دوپہر سے ہی پیپلز پارٹی کے ان رہ نمائوں کی تلاش میں چل نکلے ہیں جو ان کی دانست میں فاروق نائیک کے ''شریک ملزمان'' ٹھہرائے جا سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے جب خورشید شاہ اور قمرزمان کائرہ کے نام لیے تو میں حیران نہ ہوا۔
ہاں اس وقت ضرور بہت حیرت ہوئی جب ایک چہیتے اور جاں نثار نے میاں منظور وٹو کو ''درمیانی راستے'' پر ڈالنے کا ''اصل ذمے دار'' بنا کر پیش کیا۔ ایک اور صاحب نے وزیر خزانہ حفیظ شیخ صاحب کو بھی ''امریکی ہدایات کی روشنی'' میں آصف علی زرداری کو لچک دکھانے کی طرف راغب کرنے کا ''ملزم'' بنا دیا۔ مگر اس وقت تو واقعتاََ میرے محاورے والے طوطے اڑ گئے جب ایک اور چیہتے اور جاں نثار نے وزیر خارجہ حناربانی کھر کو بھی لچک پر مائل گروہ میں شامل کر دیا۔ میں بضد رہا کہ حناربانی کھرصاحبہ زرداری صاحب کے دربار میں کچھ زیادہ اثر نہیں رکھتیں۔ ''اس خط'' کے معاملے میں شاید وہ خاموش رہنا ہی بہتر سمجھتی رہی ہوں گی۔
میں نے جب یہ بات آصف علی زرداری کے ایک اور چہیتے اور جاں نثار کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ آگ بگولہ ہوگئے۔ بڑی حقارت سے انھوں نے میرے جیسے دو ٹکے کے صحافی کو سمجھانا چاہا کہ اہمیت کسی فرد کی نہیں اس ادارے کی ہوا کرتی ہے جس کی وہ شخصیت نمائندگی کرتی ہے۔
مجھے بتایا گیا کہ ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی زیر سرپرستی ہماری وزارتِ خارجہ کے افسران آج کل امریکی دبائو کا سامنا کرنے کے لیے ایک طویل المدت حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ چین اس حکمت عملی کے تحت ہمیشہ کی طرح اپنا سمندروں سے گہرا اور ہمالیہ سے بھی بلند تر دوست تو رہے گا۔
مگر اب ضرورت بھارت سے تعلقات کو ذرا بہتر بنانے کی بھی ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود بھارتی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہء پاکستان بغیر کسی وجہ کے ''کامیاب۔ کامیاب'' سا نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ اب پوری کوشش ہے کہ اسی سال کے ختم ہونے تک۔ ترجیحاََ نومبر کے تیسرے ہفتے میں۔ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ، چاہے ننکانہ صاحب جانے کے بہانے ہی سہی، پاکستان کے دورے پر آنے کو تیار ہو جائیں۔
ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کی سرپرستی میں بنائی گئی حکمت عملی میں ''ترپ کا پتا'' روسی صدر پیوٹن کا اگلے مہینے کے پہلے ہفتے میں پاکستان کا دورہ ہے۔ اسی دورے کو یقینی بنانے کے لیے صدر زرداری روس جانے والے تھے کہ یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیے گئے۔ زرداری صاحب کو آخری لمحوں میں اپنا وہ دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ اب بڑا عجیب لگتا اگر اس مرتبہ پیوٹن یہاں اُترتے تو ایک اور وزیر اعظم یا تو عدالت میں توہینِ عدالت کی پیشی بھگت رہا ہوتا، یا فارغ کر دیا گیا ہوتا۔
مختصراََ مجھے بتایا گیا ہے کہ ''اس چٹھی'' کے معاملے پر لچک دکھانے کا فیصلہ دراصل صرف اس مقصد کے تحت کیا گیا کہ بھارتی وزیر اعظم اور روسی صدر کے پاکستان آنے کو ممکن بنایا جائے اور اس بات کا اہتمام بھی کہ اپنے دوروں کے دوران یہ دونوں ر نما ہماری حکومت کو سنجیدہ لے کر طویل المدتی سمجھوتوں کے بارے میں مذاکرات کر سکیں۔
فاروق نائیک تو ایک ''بڑی گیم'' کا محض ایک مہرہ ہیں۔ حنا ربانی کھر نے بھی اپنا ادارتی عندیہ(Institutional Input) دیا ہو گا۔ کچھ تو یقیناً دکھایا گیا ہو گا جس نے آصف علی زرداری کو نظر بظاہر اتنا بڑا یو ٹرن لینے پر مجبور کیا جو کام نہ آیا تو آیندہ انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو آنے والے کئی برسوں تک اقتدار کے کھیل کا ایک محروم و بے بس تماشائی بنا کر رکھ دے گا۔